یہوواہ کے بندے ”ناراستی سے باز“ رہتے ہیں
”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔“—2-تیم 2:19۔
1. کس بات کو ہماری عبادت میں بہت خاص مقام حاصل ہے؟
کیا آپ نے کبھی کسی عمارت پر یا عجائبگھر میں کسی چیز پر یہوواہ کا نام لکھا ہوا دیکھا ہے؟ یقیناً آپ اِسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ اِس نام کو ہماری عبادت میں بہت خاص مقام حاصل ہے کیونکہ ہم یہوواہ کے گواہ کہلاتے ہیں۔ پوری دُنیا میں کوئی اَور ایسا گروہ نہیں جس کا اِس نام سے اِتنا گہرا تعلق ہو۔ اِس نام سے کہلانا بہت بڑا اعزاز ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اِس کے ساتھ بہت بڑی ذمےداری بھی آتی ہے۔
2. جو خدا کے نام سے کہلاتے ہیں، اُن پر کونسی ذمےداری آتی ہے؟
2 صرف خدا کا نام لینے سے ہی ہمیں اُس کی خوشنودی حاصل نہیں ہوتی۔ ہمیں اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی بھی گزارنی چاہیے۔ اِس لیے بائبل میں نصیحت کی گئی ہے کہ یہوواہ کے بندوں کو ”بدی کو چھوڑ“ دینا چاہیے۔ (زبور 34:14) پولُس رسول نے بھی ہمیں ایسی نصیحت کی۔ اُنہوں نے لکھا: ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔“ (2-تیمتھیس 2:19 کو پڑھیں۔) واقعی ہم اُس کے گواہوں کے طور پر اِس بات کے لیے جانے جاتے ہیں کہ ہم یہوواہ کا نام لیتے ہیں۔ لیکن ہم ناراستی سے کیسے باز رہ سکتے ہیں؟
ناراستی سے ’دُور ہٹ جائیں‘
3، 4. بائبل کے عالم کس آیت کی وجہ سے اُلجھے ہوئے ہیں؟ اور کیوں؟
3 آئیں، ہم 2-تیمتھیس 2:19 پر دوبارہ غور کریں۔ اِس آیت میں پولُس رسول نے ”خدا کی مضبوط بنیاد“ کا ذکر کِیا۔ پھر اُنہوں نے دو پیغامات کا ذکر کِیا جو اِس پر لکھے ہیں۔ پہلا پیغام یہ ہے کہ ”[یہوواہ] اپنوں کو پہچانتا ہے۔“ یہ الفاظ گنتی 16:5 سے لیے گئے ہیں۔ (پچھلے مضمون کو دیکھیں۔) دوسرا پیغام یہ ہے کہ ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔“ بائبل کے عالم اِس بات پر اُلجھے ہوئے ہیں کہ یہ پیغام کہاں سے لیا گیا ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟
4 پولُس رسول کے الفاظ سے لگتا ہے کہ وہ کسی اَور آیت کا حوالہ دے رہے تھے۔ لیکن عبرانی صحیفوں میں کوئی ایسی آیت نہیں جو پولُس کے الفاظ سے ملتی ہو۔ لہٰذا یہ حوالہ کہ ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے،“ کہاں سے لیا گیا ہے؟ یہ بات کہنے سے پہلے ہی پولُس رسول نے گنتی 16 باب کا حوالہ دیا۔ اِس باب میں قورح کی بغاوت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دوسرا پیغام بھی اِسی واقعے سے تعلق رکھتا ہو؟
5-7. دوسرا تیمتھیس 2:19 میں درج پولُس رسول کے الفاظ کا تعلق موسیٰ کے زمانے کے کس واقعے سے ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
5 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اِلیاب کے بیٹوں داتن اور ابیرام نے بغاوت میں قورح کا ساتھ دیا اور موسیٰ اور ہارون کی مخالفت کرنے میں پیشپیش تھے۔ (گن 16:1-5) داتن اور ابیرام نے سب کے سامنے موسیٰ سے بدتمیزی کی اور اُس اِختیار کو ماننے سے اِنکار کر دیا جو یہوواہ خدا نے موسیٰ کو دیا تھا۔ یہ باغی دوسرے اِسرائیلیوں کے درمیان رہ رہے تھے اِس لیے خدا کے وفادار بندے اِن سے متاثر ہو سکتے تھے۔ جس دن یہوواہ خدا یہ ظاہر کرنے والا تھا کہ کون اُس کے وفادار بند ے ہیں اور کون نہیں، اُس نے بنیاِسرائیل کو ایک واضح ہدایت دی۔
6 بائبل میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] نے موسیٰؔ سے کہا۔ تُو جماعت سے کہہ کہ تُم قوؔرح اور داتنؔ اور اؔبیرام کے خیموں کے آسپاس سے دُور ہٹ جاؤ۔ اور موسیٰؔ اُٹھ کر داتنؔ اور اؔبیرام کی طرف گیا اور بنیاِسرائیل کے بزرگ اُس کے پیچھے پیچھے گئے۔ اور اُس نے جماعت سے کہا اِن شریر آدمیوں کے خیموں سے نکل جاؤ اور اُن کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاؤ تا نہ ہو کہ تُم بھی اُن کے سب گُناہوں کے سبب سے نیست ہو جاؤ۔ سو وہ لوگ قوؔرح اور داتنؔ اور اؔبیرام کے خیموں کے آسپاس سے دُور ہٹ گئے۔“ (گن 16:23-27) پھر یہوواہ خدا نے سب باغیوں کو ہلاک کر دیا۔ لیکن اُس نے اپنے وفادار بندوں کو زندہ رکھا کیونکہ اُنہوں نے شریروں کے خیموں سے دُور ہٹنے سے یہ ظاہر کِیا کہ وہ ناراستی سے باز رہتے ہیں۔
7 یہوواہ خدا دلوں کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ کون اُس کا وفادار ہے۔ لیکن پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ اُس کے وفادار بندے ٹھوس قدم اُٹھا کر اپنے آپ کو ناراست لوگوں سے الگ کریں۔ لہٰذا جب پولُس رسول نے لکھا کہ ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے“ تو ممکن ہے کہ وہ گنتی 16:5، 23-27 میں درج واقعے کا حوالہ دے رہے ہوں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہ الفاظ لکھنے سے پہلے پولُس نے کہا: ”[یہوواہ] اپنوں کو پہچانتا ہے۔“ اُن کے یہ الفاظ گنتی 16:5 سے لیے گئے ہیں۔ اِس سے بھی ہمیں یہ اِشارہ ملتا ہے کہ اُن کے اگلے الفاظ کا تعلق گنتی 16 باب میں درج واقعے سے ہے۔—2-تیم 2:19۔
’بےوقوفی اور نادانی کی حجتوں سے کنارہ کریں‘
8. صرف خدا کا نام لینا یا مسیحی کلیسیا کا حصہ ہونا کافی کیوں نہیں ہے؟
8 موسیٰ کے زمانے کے اِس واقعے کا حوالہ دینے سے پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو یاد دِلایا کہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی قائم رکھنے کے لیے اُنہیں ٹھوس قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح موسیٰ کے دنوں میں صرف خدا کا نام لینا کافی نہیں تھا اُسی طرح آج صرف مسیحی کلیسیا کا حصہ ہونا کافی نہیں ہے۔ ’ناراستی سے باز رہنے‘ کے لیے خدا کے وفادار بندوں کو ٹھوس قدم اُٹھانے چاہئیں۔ اِس سلسلے میں تیمُتھیُس کو کونسے ٹھوس قدم اُٹھانے کی ضرورت تھی؟ اور آجکل ہم پولُس رسول کی اِس نصیحت سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9. پہلی صدی کی کلیسیا پر ”بےوقوفی اور نادانی کی حجتوں“ کا کیا اثر ہوا؟
9 خدا کے کلام میں کچھ ایسے ناراست کاموں کا ذکر ہوا ہے جن سے مسیحیوں کو باز رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر 2-تیمتھیس 2:19 کے سیاقوسباق پر غور کریں۔ اِس باب کی دوسری آیتوں میں پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو ہدایت دی کہ ”لفظی تکرار نہ کریں“ اور ”بےہودہ بکواس سے پرہیز“ کریں۔ (2-تیمتھیس 2:14، 16، 23 کو پڑھیں۔) کلیسیا کے کچھ رُکن جھوٹی تعلیمات کو فروغ دے رہے تھے جبکہ بعض ایسے نظریات پھیلا رہے تھے جن سے کلیسیا میں نااِتفاقیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ حالانکہ اِن نظریات سے براہِراست تو پاک کلام کی خلافورزی نہیں ہو رہی تھی لیکن اُن کے نتیجے میں جھگڑے اور بحثوتکرار ہو رہی تھی اور کلیسیا کا ماحول خراب ہو رہا تھا۔ اِس لیے پولُس رسول نے اِس بات پر زور دیا کہ مسیحیوں کو ”بےوقوفی اور نادانی کی حجتوں سے کنارہ“ کرنے کی ضرورت ہے۔
10. جب ہمیں خدا سے برگشتہ لوگوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
10 آجکل یہوواہ کے بندوں کو عموماً کلیسیا میں خدا سے برگشتہ لوگوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پھر بھی ہو سکتا ہے کہ اُن لوگوں کی جھوٹی تعلیمات کسی نہ کسی طریقے سے ہم تک پہنچ جائیں۔ ایسی صورت میں ہمیں اُن کی تعلیمات کو سختی سے رد کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بحثوتکرار میں پڑنا عقلمندی کی بات نہیں ہوگی، چاہے ہم براہِراست اُن سے بات کریں، اُن کے بلاگ پر تبصرہ کریں یا کسی اَور ذریعے سے اُن سے رابطہ کریں۔ شاید کوئی اِس لیے خدا سے برگشتہ لوگوں سے رابطہ کرنا چاہے کیونکہ وہ اُن کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اُن سے رابطہ کرنا پاک کلام کی اُس ہدایت کے خلاف ہوگا جس پر ہم نے ابھی غور کِیا ہے۔ یہوواہ خدا کے بندوں کے طور پر ہم خدا سے برگشتہ لوگوں سے ’دُور ہٹ جاتے ہیں‘ یعنی مکمل طور پر اُن سے کنارہ کرتے ہیں۔
11. (الف) کلیسیا میں ’بےوقوفی اور نادانی کی حجتیں‘ کیسے پیدا ہو سکتی ہیں؟ (ب) کلیسیا کے بزرگ اِس سلسلے میں اچھی مثال کیسے قائم کر سکتے ہیں؟
11 برگشتگی کے علاوہ کچھ اَور باتیں ہیں جو کلیسیا کے امن کو تباہ کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کبھیکبھار ’بےوقوفی اور نادانی کی حجتیں‘ اِس لیے پیدا ہوتی ہیں کیونکہ کلیسیا کے رُکن تفریح کے اِنتخاب کے معاملے میں فرقفرق رائے رکھتے ہیں۔ سچ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی تفریح کو فروغ دیتا ہے جو خدا کے معیاروں کے خلاف ہے تو بزرگوں کو یہ سوچ کر اُس کے رویے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔ (زبور 11:5؛ افس 5:3-5) لیکن بزرگوں کو اِس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں پر اپنی ذاتی رائے نہ تھونپیں۔ وہ بائبل کی اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں جو کلیسیا کے نگہبانوں کو دی گئی ہے: ”خدا کے اُس گلّہ کی گلّہبانی کرو جو تُم میں ہے۔ . . . جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلّہ کے لئے نمونہ بنو۔“—1-پطر 5:2، 3؛ 2-کرنتھیوں 1:24 کو پڑھیں۔
12، 13. (الف) خدا کی تنظیم کسی فلم، ویڈیو گیم، گانے یا کتاب کو نامناسب قرار کیوں نہیں دیتی؟ اور اِس کے پیچھے بائبل کے کونسے اصول ہیں؟ (ب) پیراگراف 12 میں بتائے گئے اصول دوسرے ذاتی معاملوں پر کیسے لاگو ہوتے ہیں؟
12 خدا کی تنظیم کسی فلم، ویڈیو گیم، گانے یا کتاب کو مناسب یا نامناسب قرار نہیں دیتی۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ بائبل میں ہر ایک مسیحی کی حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ وہ اپنے حواس کو ”نیکوبد میں اِمتیاز کرنے کے لئے تیز“ کرے۔ (عبر 5:14) پاک کلام میں ایسے اصول بتائے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے ایک مسیحی خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کونسی فلمیں دیکھ سکتا ہے، کونسے گانے سُن سکتا ہے وغیرہ۔ زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں ’معلوم کرتے رہنا چاہیے کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔‘ (افس 5:10) بائبل میں بتایا گیا ہے کہ گھر کا سربراہ اپنے گھر والوں پر کسی حد تک اِختیار رکھتا ہے اِس لیے وہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اُس کے گھر میں کونسی فلمیں دیکھی جائیں گی، کونسے گانے سنے جائیں گے وغیرہ۔—1-کر 11:3؛ افس 6:1-4۔
13 بائبل کے یہ اصول صرف تفریح کے معاملے پر ہی لاگو نہیں ہوتے۔ لباس، بناؤسنگھار، علاج، خوراک اور اِن جیسے ذاتی معاملات کی وجہ سے بھی کلیسیا میں نااِتفاقیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا اگر بائبل کے کسی اصول کی خلافورزی نہیں ہوتی تو مسیحیوں کو ایسے معاملوں پر بحثوتکرار نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے۔“—2-تیم 2:24۔
ناراست لوگوں سے دوستی نہ کریں
14. پولُس رسول نے کس مثال سے ظاہر کِیا کہ مسیحیوں کو ناراست لوگوں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے؟
14 ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیتا ہے،“ اُسے ناراستی سے باز رہنے کے لیے اَور کیا کرنا چاہیے؟ اُسے ایسے لوگوں کے ساتھ گہری دوستی نہیں کرنی چاہیے جو ناراست کام کرتے ہیں۔ دلچسپی کی بات ہے کہ ”خدا کی مضبوط بنیاد“ کی مثال اِستعمال کرنے کے بعد پولُس رسول نے ایک ”بڑے گھر“ کی مثال اِستعمال کی جس میں ”نہ صرف سونے چاندی ہی کے برتن ہوتے ہیں بلکہ لکڑی اور مٹی کے بھی۔ بعض عزت اور بعض ذِلت کے لئے۔“ (2-تیم 2:20، 21) پھر اُنہوں نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ اُن برتنوں سے الگ رہیں جو ”ذِلت کے لئے“ ہیں۔
15، 16. ہم ”بڑے گھر“ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
15 اِس مثال کا کیا مطلب ہے؟ پولُس رسول نے کلیسیا کو ”بڑے گھر“ سے تشبیہ دی اور کلیسیا کے رُکنوں کو ’برتنوں‘ سے۔ ایک گھر میں شاید کچھ برتن ایسے ہوں جن میں زہریلی یا گندی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ گھر والے ایسے برتنوں کو اُن صاف برتنوں سے الگ رکھتے ہیں جو کھانا پکانے کے لیے اِستعمال ہوتے ہیں۔
16 یہوواہ کے وفادار بندے پاک صاف زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس لیے اُنہیں کلیسیا کے ایسے افراد سے گہری دوستی نہیں کرنی چاہیے جو خدا کے اصولوں کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ (1-کرنتھیوں 15:33 کو پڑھیں۔) اگر ہمیں کلیسیا کے اندر ایسے لوگوں سے گہری دوستی نہیں کرنی چاہیے تو اُن لوگوں کی دوستی سے ”کنارہ کرنا“ اَور بھی اہم ہے جو کلیسیا سے باہر ہیں۔ اُن میں سے زیادہتر تو ’زردوست، ماںباپ کے نافرمان، ناپاک، تہمت لگانے والے، تُندمزاج، نیکی کے دُشمن، دغاباز اور خدا کی نسبت عیشوعشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے‘ ہیں۔—2-تیم 3:1-5۔
ناراستی سے باز رہنے کے لیے ٹھوس قدم اُٹھائیں
17. وفادار اِسرائیلیوں نے خدا کے حکم پر کس طرح سے عمل کِیا؟
17 جب بنیاِسرائیل سے کہا گیا کہ وہ ’قورح اور داتن اور ابیرام کے خیموں کے آسپاس سے دُور ہٹ جائیں‘ تو اُنہوں نے فوراً اِس حکم پر عمل کِیا۔ (گن 16:24، 27) اُنہوں نے ایسا کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ گنتی کی کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ ”وہ . . . خیموں کے آسپاس سے دُور ہٹ گئے۔“ وہ اُن خیموں کے نزدیک رہ کر خود کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے مکمل طور پر اور پورے دل سے خدا کے حکم پر عمل کِیا۔ یہوواہ کے وفادار رہنے اور ناراستی سے باز رہنے کے لیے اُنہوں نے ٹھوس قدم اُٹھایا۔ ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
18. جب پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو ’جوانی کی خواہشوں سے بھاگنے‘ کی نصیحت کی تو اُن کا مطلب کیا تھا؟
18 یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو قائم رکھنے کے لیے کبھیکبھار ضروری ہوتا ہے کہ ہم بھی دیر لگائے بغیر کوئی ٹھوس قدم اُٹھائیں۔ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو ایسا ہی کرنے کی نصیحت کی۔ اُنہوں نے کہا: ”جوانی کی خواہشوں سے بھاگ۔“ (2-تیم 2:22) لگتا ہے کہ اُس وقت تیمُتھیُس جوانی کی عمر سے گزر چکے تھے۔ لیکن ’جوانی کی خواہشیں‘ کسی بھی عمر میں حاوی ہو سکتی ہیں۔ تیمُتھیُس کو اِن خواہشوں سے بھاگنا تھا یعنی اُنہیں ’ناراستی سے باز رہنا‘ تھا۔ یسوع مسیح نے بھی ایسی ہی بات کہی۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر تیری آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے۔“ (متی 18:9) آجکل بھی مسیحی ایسی باتوں کے خلاف ٹھوس قدم اُٹھاتے ہیں جو خدا کے ساتھ اُن کی دوستی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ وہ ایسا کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔
19. بعض مسیحیوں نے خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو قائم رکھنے کے لیے کونسے ٹھوس قدم اُٹھائے ہیں؟
19 کچھ ایسے بہنبھائی جنہیں یہوواہ کے گواہ بننے سے پہلے حد سے زیادہ شراب پینے کی عادت تھی، اُنہوں نے شراب سے بالکل ہی پرہیز کرنے کا فیصلہ کِیا۔ دوسرے مسیحی ایسی تفریح سے کنارہ کرتے ہیں جو بذاتِخود غلط نہیں لیکن جس کی وجہ سے اُن کی کوئی پُرانی کمزوری سر اُٹھا سکتی ہے۔ (زبور 101:3) مثال کے طور پر ایک بھائی سچائی میں آنے سے پہلے ایسے ڈانس کلب میں جایا کرتا تھا جہاں بدکاری بہت عام تھی۔ لیکن اب وہ کسی قسم کا ڈانس نہیں کرتا، یہاں تک کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کی دعوتوں پر بھی ڈانس کرنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اُس میں کوئی غلط خواہش جاگ جائے۔ سچ ہے کہ مسیحیوں سے یہ تقاضا نہیں کِیا جاتا کہ وہ بالکل ہی شراب نہ پئیں، ڈانس نہ کریں وغیرہ۔ لیکن ہم سب سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اگر خدا کے ساتھ ہماری دوستی کسی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتی ہے تو ہم فوراً ہی ٹھوس قدم اُٹھائیں۔
20. حالانکہ ”ناراستی سے باز“ رہنا آسان نہیں لیکن ہمیں کس بات سے حوصلہ ملتا ہے؟
20 خدا کے نام سے کہلانے کے اعزاز کے ساتھ بہت بڑی ذمےداری بھی آتی ہے۔ ہمیں ”ناراستی سے باز“ رہنا اور ”بدی کو چھوڑ“ دینا چاہیے۔ (زبور 34:14) ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ہمیں یہ جان کر حوصلہ ملتا ہے کہ یہوواہ خدا ”اپنوں کو پہچانتا ہے“ اور اپنے اُن بندوں سے محبت رکھتا ہے جو اُس کے معیاروں پر قائم رہتے ہیں۔—2-تیم 2:19؛ 2-تواریخ 16:9 کے پہلے حصے کو پڑھیں۔