مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

یسوع مسیح نے صدوقیوں سے کہا تھا کہ جو لوگ مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے،‏ ”‏اُن میں بیاہ‌شادی نہ ہوگی۔‏“‏ (‏لو 20:‏34-‏36‏)‏ کیا وہ اُن لوگوں کی بات کر رہے تھے جنہیں زمین پر زندہ کِیا جائے گا؟‏

یہ سوال بہت اہم ہے،‏ خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جن کا جیون‌ساتھی موت کی وجہ سے اُن سے بچھڑ گیا ہے۔‏ ایسے لوگوں کی شاید یہ خواہش ہو کہ نئی دُنیا میں اُن کے جیون‌ساتھی کے ساتھ اُن کا بندھن بحال ہو جائے۔‏ ایک بھائی نے کہا:‏ ”‏میری اور میری بیوی کی خواہش تھی کہ ہمارا ساتھ کبھی نہ چُھوٹے۔‏ ہم چاہتے تھے کہ ہم دونوں اِکٹھے ہمیشہ تک یہوواہ خدا کی عبادت کرتے رہیں۔‏ میری یہ خواہش آج بھی زندہ ہے۔‏“‏ کیا اِس بات پر یقین رکھنے کی کوئی بنیاد ہے کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے لوگ بیاہ‌شادی کریں گے؟‏ ہم اِس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‏

ہم کئی سالوں سے اپنی کتابوں اور رسالوں میں یہی کہتے آئے ہیں کہ لوقا 20:‏35 میں یسوع مسیح نے جو کچھ کہا،‏ وہ غالباً اُن لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جنہیں زمین پر مُردوں میں سے زندہ کِیا جائے گا اور یہ لوگ بیاہ‌شادی نہیں کریں گے۔‏ (‏متی 22:‏29،‏ 30؛‏ مر 12:‏24،‏ 25؛‏ لو 20:‏34-‏36‏)‏ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ یسوع مسیح کا اِشارہ اُن لوگوں کی طرف تھا جنہیں آسمان پر زندہ کِیا جائے گا؟‏ ہم اِس کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے۔‏ لیکن آئیں،‏ ہم یسوع مسیح کے بیان کا جائزہ لیں۔‏

ذرا اِس کے سیاق‌وسباق پر غور کریں۔‏ ‏(‏لوقا 20:‏27-‏33 کو پڑھیں۔‏)‏ صدوقی یہ ایمان نہیں رکھتے تھے کہ مُردے جی اُٹھیں گے۔‏ اُنہوں نے یسوع مسیح کو پھنسانے کے لیے ایک سوال پوچھا جو مُردوں کے جی اُٹھنے اور بھائی کی بیوہ سے شادی کرنے کے بارے میں تھا۔‏ * یسوع مسیح نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏اِس جہان کے فرزندوں میں تو بیاہ‌شادی ہوتی ہے۔‏ لیکن جو لوگ اِس لائق ٹھہریں گے کہ اُس جہان کو حاصل کریں اور مُردوں میں سے جی اُٹھیں اُن میں بیاہ‌شادی نہ ہوگی۔‏ کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں اِس لئے کے فرشتوں کے برابر ہوں گے اور قیامت کے فرزند ہو کر خدا کے بھی فرزند ہوں گے۔‏“‏—‏لو 20:‏34-‏36‏۔‏

ہماری کتابوں اور رسالوں میں یہ کیوں کہا گیا تھا کہ صدوقیوں  کو جواب دیتے ہوئے یسوع مسیح غالباً اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جو زمین پر زندہ کئے جائیں گے؟‏ اِس کی دو وجوہات ہیں۔‏ پہلی یہ کہ جب صدوقیوں نے سوال پوچھا تو لگتا ہے کہ وہ زمین پر مُردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔‏ اور یسوع مسیح نے اُنہیں اِسی کے مطابق جواب دیا ہوگا۔‏ دوسری وجہ یہ ہے کہ یسوع مسیح نے اپنے جواب کے آخر میں یہوواہ خدا کے وفادار بندوں ابراہام،‏ اِضحاق اور یعقوب کا ذکر کِیا جنہیں زمین پر زندہ کِیا جائے گا۔‏—‏لو 20:‏37،‏ 38‏۔‏

لیکن ہو سکتا ہے کہ صدوقیوں کو جواب دیتے وقت یسوع مسیح کے ذہن میں وہ لوگ تھے جنہیں آسمان پر زندہ کِیا جائے گا۔‏ ہم کس بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ یسوع مسیح کے بیان میں سے دو باتوں پر غور کریں۔‏

‏”‏جو لوگ اِس لائق ٹھہریں گے کہ .‏ .‏ .‏ مُردوں میں سے جی اُٹھیں۔‏“‏ وفادار ممسوح مسیحیوں کو ’‏خدا کی بادشاہی کے لائق ٹھہرایا گیا ہے۔‏‘‏ (‏2-‏تھس 1:‏5،‏ 11‏)‏ اُنہیں یسوع مسیح کی قربانی کی بدولت راست‌باز قرار دیا گیا ہے۔‏ لہٰذا جب وہ مرتے ہیں تو یہوواہ خدا کی نظر میں وہ گُناہ سے بَری ہوتے ہیں۔‏ (‏روم 5:‏1،‏ 18؛‏ 8:‏1‏)‏ اِنہیں ”‏مبارک اور مُقدس“‏ لوگ کہا گیا ہے اور آسمان پر زندگی پانے کے لائق ٹھہرایا گیا ہے۔‏ (‏مکا 20:‏5،‏ 6‏)‏ اِس کے برعکس جن لوگوں کو زمین پر زندہ کِیا جائے گا،‏ اُن میں ’‏ناراست‘‏ لوگ بھی شامل ہوں گے۔‏ (‏اعما 24:‏15‏)‏ کیا ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اِنہیں مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے ’‏لائق ٹھہرایا گیا ہے‘‏؟‏

 ‏”‏وہ پھر مرنے کے بھی نہیں۔‏“‏ بائبل کے کچھ دوسرے ترجموں میں اِس بات کو یوں کہا گیا ہے:‏ ”‏پھر وہ موت کے تابع نہیں رہیں گے“‏ اور ”‏اُن پر موت کا کچھ اِختیار نہیں ہوگا۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ مریں گے نہیں بلکہ اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ غیرفانی ہوں گے یعنی وہ کبھی مر ہی نہیں سکتے۔‏ جو ممسوح مسیحی مرتے دم تک یہوواہ خدا کے وفادار رہتے ہیں،‏ اُنہیں آسمان پر غیرفانی زندگی ملے گی۔‏ (‏1-‏کر 15:‏53،‏ 54‏)‏ جنہیں آسمان پر زندہ کِیا جائے گا،‏ اُن پر موت کا کچھ اِختیار نہیں ہوگا۔‏ *

اِس ساری بات‌چیت سے ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟‏ جب  یسوع مسیح نے لوقا 20:‏35 میں شادی اور مُردوں کے زندہ ہونے کا ذکر کِیا تو ممکن ہے کہ اُن کا اِشارہ آسمان پر زندہ ہونے والے لوگوں کی طرف تھا۔‏ اگر یہ بات سچ ہے تو اِس سے ہمیں آسمان پر زندہ ہونے والوں کے بارے میں کچھ دلچسپ باتوں کا پتہ چلتا ہے جیسے کہ وہ شادی نہیں کریں گے،‏ وہ مر نہیں سکتے اور وہ بعض لحاظ سے فرشتوں کی طرح ہوں گے۔‏ اگر یسوع مسیح کا اِشارہ آسمان پر زندہ ہونے والوں کی طرف تھا تو اِس سے کچھ سوال کھڑے ہوتے ہیں۔‏

اگر صدوقیوں نے زمین پر مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں سوال پوچھا تھا تو یسوع مسیح نے اُنہیں آسمان میں زندہ ہونے والوں کے متعلق جواب کیوں دیا؟‏ یسوع مسیح اپنے مخالفوں کو اکثر اُن کی سوچ کے مطابق جواب نہیں دیتے تھے۔‏ مثال کے طور پر جب یہودیوں نے اُن سے کہا کہ وہ اُنہیں آسمان سے کوئی نشان دِکھائیں تو یسوع مسیح نے جواب میں کہا:‏ ”‏اِس مقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا۔‏“‏ یسوع مسیح کو معلوم تھا کہ یہودی ہیکل کے بارے میں بات کر رہے ہیں ’‏مگر یسوع اپنے بدن کے مقدِس‘‏ کی بات کر رہے تھے۔‏ (‏یوح 2:‏18-‏21‏)‏ شاید یسوع مسیح نے سوچا کہ اِن ریاکار صدوقیوں کو اُن کی سوچ کے مطابق جواب دینے کی ضرورت نہیں جو نہ تو مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی فرشتوں کے وجود پر۔‏ (‏امثا 23:‏9؛‏ متی 7:‏6؛‏ اعما 23:‏8‏)‏ اِس کی بجائے شاید اُنہوں نے آسمان پر زندگی پانے والوں کے بارے میں بتانا ضروری سمجھا تاکہ اِس سے اُن کے شاگردوں کو فائدہ ہو جو بالآخر آسمان پر جائیں گے۔‏

دوسرا سوال یہ ہے کہ یسوع مسیح نے اپنے جواب کے آخر  میں ابراہام،‏ اِضحاق اور یعقوب کا ذکر کیوں کِیا جنہیں زمین پر زندہ کِیا جائے گا؟‏ ‏(‏متی 22:‏31،‏ 32 کو پڑھیں۔‏)‏ غور کریں کہ یسوع مسیح نے اِن وفادار  بندوں کا ذکر کرنے سے پہلے کہا کہ ’‏مُردوں کے جی اُٹھنے کی بابت خدا نے فرمایا تھا۔‏‘‏ اِس سے لگتا ہے کہ یسوع مسیح نے اپنی بات کا رُخ موڑا۔‏ پہلے وہ آسمان پر زندہ ہونے والوں کی بات کر رہے تھے اور پھر زمین پر زندہ ہونے والوں کے متعلق بات کرنے لگے۔‏ اِس کے بعد اُنہوں  نے  موسیٰ نبی کی کتابوں میں سے ایک بات کا حوالہ دیا کیونکہ صدوقی لوگ اِن کتابوں کو مانتے تھے۔‏ یسوع مسیح نے اُن الفاظ کا حوالہ دیا جو یہوواہ خدا نے موسیٰ سے جلتی ہوئی جھاڑی میں سے کہے تھے۔‏ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا زمین پر مُردوں کو ضرور زندہ کرے گا۔‏—‏خر 3:‏1-‏6‏۔‏

تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر یسوع مسیح لوقا 20:‏35 میں آسمان پر زندہ ہونے والوں کا ذکر کر رہے تھے تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ زمین پر زندہ ہوں گے،‏ وہ شادی‌بیاہ کریں گے؟‏ پاک کلام میں اِس کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا۔‏ اگر یسوع مسیح واقعی آسمان پر زندہ ہونے والوں کی بات کر رہے تھے تو اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ زمین پر زندہ ہونے والے لوگ نئی دُنیا میں شادی‌بیاہ کریں گے۔‏

بہرحال ہم پاک کلام سے اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ موت ازدواجی بندھن کو ختم کر دیتی ہے۔‏ اِس لیے اگر کوئی شخص اپنے جیون‌ساتھی کی موت کے بعد دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے خود کو بےوفا خیال نہیں کرنا چاہیے۔‏ یہ اُس کا ذاتی فیصلہ ہے۔‏ اگر وہ کسی کو اپنا ساتھی بنانا چاہتا ہے تو دوسروں کو اُس پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔‏—‏روم 7:‏2،‏ 3؛‏ 1-‏کر 7:‏39‏۔‏

ظاہری سی بات ہے کہ نئی دُنیا میں زندگی کے متعلق ہمارے  بہت  سے سوال ہیں۔‏ اِن سوالوں کے جوابوں کے بارے میں اندازے لگانے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ ہم نئی دُنیا کے منتظر رہیں جب ہم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔‏ لیکن یہ بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے وفادار لوگ اُس وقت خوش‌وخرم رہیں گے کیونکہ یہوواہ خدا اُن کی تمام ضرورتوں اور خواہشوں کو پورا کرے گا۔‏—‏زبور 145:‏16‏۔‏

^ پیراگراف 5 پُرانے زمانے میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی آدمی بےاولاد مر جاتا تو اُس کا بھائی اُس کی بیوہ سے شادی کرتا تھا۔‏ یوں وہ دیور کا حق ادا کرتا تھا اور اپنے بھائی کے لیے اولاد پیدا کرتا تھا تاکہ اُس کے بھائی کی نسل قائم رہے۔‏—‏پید 38:‏8؛‏ است 25:‏5،‏ 6‏۔‏

^ پیراگراف 9 جن لوگوں کو زمین پر زندہ کِیا جائے گا،‏ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی،‏ غیرفانی زندگی نہیں۔‏