مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا ہمیں اپنے نزدیک کیسے لاتا ہے؟‏

یہوواہ خدا ہمیں اپنے نزدیک کیسے لاتا ہے؟‏

‏”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔‏“‏—‏یعقو 4:‏8‏۔‏

1.‏ ہماری ایک فطری ضرورت کیا ہے؟‏ اور یہ ضرورت کیسے پوری ہوتی ہے؟‏

ہماری فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ ہم دوسروں کی قربت میں رہنا چاہتے ہیں۔‏ ایک لغت میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏قریبی دوست وہ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔‏“‏ ہمیں اپنے گھر والوں اور دوستوں کی قربت میں رہنا اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتے ہیں،‏ ہماری قدر کرتے ہیں اور ہمیں اچھی طرح سمجھتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں جس ہستی کے سب سے زیادہ قریب ہونا چاہیے،‏ وہ ہمارا خالق ہے۔‏—‏واعظ 12:‏1‏۔‏

2.‏ خدا نے کیا وعدہ کِیا ہے؟‏ لیکن بعض لوگ اِس پر یقین کیوں نہیں کرتے؟‏

2 یہوواہ خدا اپنے کلام میں ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ ہم اُس کے ’‏نزدیک جائیں۔‏‘‏ اور اگر ہم ایسا کریں گے تو اُس کا وعدہ ہے کہ ’‏وہ ہمارے نزدیک آئے گا۔‏‘‏ (‏یعقو 4:‏8‏)‏ یہ بات ہمارے لیے واقعی بڑی خوشی اور اِطمینان کا باعث ہے۔‏ لیکن بعض لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ خدا اُن کے نزدیک آنا چاہتا ہے۔‏ اِن میں سے بعض کا خیال ہے کہ وہ خدا کے نزدیک جانے کے لائق نہیں جبکہ کچھ یہ سوچتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جانا ممکن نہیں کیونکہ وہ بہت دُور ہے۔‏ کیا خدا کی قربت حاصل کرنا واقعی ممکن ہے؟‏

3.‏ ہمیں یہوواہ خدا کے بارے میں کس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے؟‏

3 حقیقت تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا ”‏ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔‏“‏ جو شخص اُسے ڈھونڈتا ہے،‏ وہ اُسے پا لیتا ہے۔‏ ‏(‏اعمال 17:‏26،‏ 27؛‏ زبور 145:‏18 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا ہمیں اپنا دوست  بنانے کو تیار ہے حالانکہ ہم خطاکار اِنسان ہیں۔‏ (‏یسع 41:‏8؛‏ 55:‏6‏)‏ ایک زبورنویس جس نے خود خدا کی قربت حاصل کی،‏ اُس نے یہوواہ کے بارے میں لکھا:‏ ”‏اَے دُعا کے سننے والے!‏ سب بشر تیرے پاس آئیں گے۔‏ مبارک ہے وہ آدمی جسے تُو برگزیدہ کرتا اور اپنے پاس آنے دیتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 65:‏2،‏ 4‏)‏ زبورنویس کو پورا اِعتماد تھا کہ اگر کوئی شخص یہوواہ خدا کے نزدیک جاتا ہے تو یہوواہ بھی اُس کے قریب آتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ بادشاہ آسا کی مثال پر غور کریں۔‏

ماضی کی ایک عمدہ مثال

4.‏ بادشاہ آسا نے اپنی قوم کے لیے کیا مثال قائم کی؟‏

4 بادشاہ آسا نے یہوواہ خدا کی عبادت کو فروغ دیا۔‏  اُنہوں نے ہیکل سے جسم‌فروش مردوں اور عورتوں کو نکال دیا۔‏ اُنہوں نے ملک بھر سے بُت‌پرستی کا خاتمہ کِیا جو بڑے عرصے سے چلی آ رہی تھی۔‏ (‏1-‏سلا 15:‏9-‏13‏)‏ چونکہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لیے خود قدم اُٹھایا تھا اِس لیے وہ اپنے لوگوں کو بھی یہ نصیحت کر سکتے تھے کہ وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے باپ‌دادا کے خدا کے طالب ہوں اور شریعت اور فرمان پر عمل کریں۔‏“‏ اِس کے نتیجے میں اُن کی حکمرانی کے پہلے دس سالوں میں بڑا امن رہا۔‏ آسا جانتے تھے کہ یہ امن‌وسلامتی یہوواہ خدا ہی کی برکت ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا:‏ ”‏یہ ملک ابھی ہمارے قابو میں ہے کیونکہ ہم [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے طالب ہوئے ہیں۔‏ ہم اُس کے طالب ہوئے اور اُس نے ہم کو چاروں طرف امان بخشی ہے۔‏“‏ (‏2-‏توا 14:‏1-‏7‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِس کے بعد کیا ہوا؟‏

5.‏ ‏(‏الف)‏ آسا نے کس کٹھن صورتحال میں ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے آسا کی فریاد کا کیا جواب دیا؟‏

5 ملک کوش یعنی ایتھوپیا کے بادشاہ زارح نے ملک  یہوداہ پر حملہ کر دیا۔‏ اُس کے ساتھ 300 رتھ اور 10 لاکھ فوجی تھے۔‏ (‏2-‏توا 14:‏8-‏10‏)‏ اگر آپ آسا کی جگہ ہوتے تو آپ اِتنی بڑی فوج کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کیا کرتے؟‏ آپ کی فوج میں صرف 5 لاکھ 80 ہزار سپاہی ہیں۔‏ آپ کے دُشمن کی فوج آپ سے تقریباً دو گُنا بڑی ہے۔‏ کیا آپ یہ سوچتے کہ خدا اِس حملے کو کیوں نہیں روک رہا؟‏ کیا آپ اپنی عقل اور سمجھ سے اِس خطرناک صورتحال سے نپٹنے کی کوشش کرتے؟‏ آسا بادشاہ نے جو کچھ کِیا،‏ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہوواہ کے بہت نزدیک تھے اور اُس پر بھروسا رکھتے تھے۔‏ اُنہوں نے دل سے خدا کو پکار کر کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارے خدا تُو ہماری مدد کر کیونکہ ہم تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں اور تیرے نام سے اِس انبوہ کا سامنا کرنے آئے ہیں۔‏“‏ یہوواہ خدا نے آسا کی فریاد کا کیا جواب دیا؟‏ اُس نے ”‏کوشیوں کو مارا اور کوشی بھاگے۔‏“‏ زارح کا ایک بھی فوجی بچ نہ پایا۔‏—‏2-‏توا 14:‏11-‏13‏۔‏

6.‏ ہم آسا بادشاہ سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

6 آسا بادشاہ خدا کی رہنمائی اور حفاظت پر بھروسا کرنے کے قابل کیوں ہوئے؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏آؔسا نے .‏ .‏ .‏ وہ کام کِیا جو [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں ٹھیک تھا۔‏“‏ اُن کا ”‏دل .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ کے ساتھ کامل رہا۔‏“‏ (‏1-‏سلا 15:‏11،‏ 14‏)‏ ہمیں بھی پورے دل سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنی چاہیے۔‏ تبھی ہم ہمیشہ اُس کی قربت میں رہیں گے۔‏ ہم یہوواہ خدا کے شکر گزار ہیں کہ اُس نے ہمیں اپنی طرف کھینچنے میں پہل کی ہے۔‏ وہ ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اُس کے دوست بنیں اور اُس کے ساتھ دوستی کو قائم رکھیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ وہ کن دو ذریعوں سے ایسا کرتا ہے۔‏

فدیے کا بندوبست

7.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا کی کن مہربانیوں کی بِنا پر ہمیں اُس کے قریب جانے کی ترغیب ملتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے ہمیں اپنے قریب لانے کے لیے سب سے بڑا کام کیا کِیا ہے؟‏

7 یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو خوب‌صورت زمین پر بسایا اور یوں اُن کے لیے محبت ظاہر کی۔‏ اِنسانوں کے لیے اُس کی محبت آج بھی قائم ہے۔‏ وہ ہمیں ہر روز ایسی چیزیں دیتا ہے جن سے ہماری زندگی برقرار رہتی ہے۔‏ (‏اعما 17:‏28؛‏ مکا 4:‏11‏)‏ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ وہ ہماری روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔‏ (‏لو 12:‏42‏)‏ وہ ہمیں یقین دِلاتا ہے کہ جب ہم اُس سے دُعا کرتے ہیں تو وہ ہماری  دُعا کو خود سنتا ہے۔‏ (‏1-‏یوح 5:‏14‏)‏ لیکن اُس نے ہمیں اپنے قریب لانے کے لیے سب سے بڑا کام کیا کِیا ہے؟‏ اُس نے اپنے بیٹے کو فدیے کے طور پر دیا ہے۔‏ یہ اُس کی محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔‏ اِسی لیے ہم اُس کی طرف کھنچے چلے آئے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏یوحنا 4:‏9،‏ 10،‏ 19 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے ’‏اِکلوتے بیٹے‘‏ کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ ہمیں گُناہ اور موت کے پھندے سے چھڑائے۔‏—‏یوح 3:‏16‏۔‏

8،‏ 9.‏ یہوواہ کی قربت حاصل کرنے کے سلسلے میں یسوع مسیح کیا کردار ادا کرتے ہیں؟‏

8 یسوع مسیح کی قربانی سے اُن لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا جو یسوع کے زمین پر آنے سے پہلے مر گئے تھے۔‏ یہوواہ خدا کی نظر میں فدیہ تبھی ادا ہو گیا تھا جب اُس نے یہ پیش‌گوئی کی تھی کہ اِنسانوں کو نجات دینے کے لیے کوئی آئے گا۔‏ وہ جانتا تھا کہ اُس کا قول ضرور پورا ہوگا۔‏ (‏پید 3:‏15‏)‏ اِس پیش‌گوئی کے صدیوں بعد پولُس رسول نے خدا کا شکر ادا کِیا کہ اُس نے مسیح کی قربانی کے ذریعے نجات کا بندوبست کِیا ہے۔‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ خدا نے اپنے رحم کی بدولت اُن گُناہوں کو معاف کر دیا جو ”‏پیشتر ہو چکے تھے۔‏“‏ (‏روم 3:‏21-‏26‏)‏ واقعی یسوع مسیح کے فدیے پر ایمان لائے بغیر ہم خدا کے قریب نہیں جا سکتے۔‏

9 صرف یسوع مسیح کے ذریعے خاکسار لوگ یہوواہ خدا کو جان سکتے ہیں اور اُس کی قربت میں آ سکتے ہیں۔‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گُناہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔‏“‏ (‏روم 5:‏6-‏8‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کو ہماری خاطر اِس لیے قربان نہیں کِیا کیونکہ ہم اِس فضل کے لائق ہیں بلکہ اِس لیے کہ اُسے ہم سے بےپناہ محبت ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔‏“‏ (‏یوح 6:‏44؛‏ 14:‏6‏)‏ یسوع مسیح کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے یہوواہ خدا اپنی پاک روح کو اِستعمال کرتا ہے۔‏ پھر اِسی کے ذریعے خدا لوگوں کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ اُس کی ’‏محبت میں قائم رہیں‘‏ اور ہمیشہ کی زندگی پائیں۔‏ ‏(‏یہوداہ 20،‏ 21 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ اب ہم ایک اَور ذریعے پر غور کریں جو یہوواہ خدا ہمیں اپنے قریب لانے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔‏

پاک کلام

10.‏ ہم بائبل سے کون‌سی باتیں سیکھتے ہیں جن سے ہمیں خدا کے قریب جانے کی ترغیب ملتی ہے؟‏

10 اِس مضمون میں اب تک بائبل کی 14 کتابوں سے حوالے دیے گئے ہیں۔‏ ہمیں اپنے قریب لانے کے لیے یہوواہ خدا نے اپنا کلام دیا ہے جو اُس کی پاک روح کے اِلہام سے لکھا گیا ہے۔‏ اگر ہمارے پاس بائبل نہ ہوتی تو ہم یہ نہیں جان سکتے تھے کہ خدا کے نزدیک جانا ممکن ہے۔‏ ہم فدیے کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے تھے اور نہ ہی ہم یہ جان سکتے تھے کہ ہم یسوع مسیح کے ذریعے خدا کے قریب جا سکتے ہیں۔‏ صرف بائبل ہی سے ہم یہوواہ خدا کی صفات اور اِنسانوں کے لیے اُس کے مقصد کے متعلق جان سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر خروج 34:‏6،‏ 7 میں بتایا گیا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ خدایِ‌رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔‏ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔‏ گُناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا“‏ ہے۔‏ بھلا کون ایسے خدا کی قربت حاصل کرنا نہیں چاہے گا؟‏ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہم بائبل سے جتنا زیادہ اُس کے بارے میں سیکھیں گے اُتنا ہی وہ ہمارے لیے حقیقی بنتا جائے گا۔‏ اور جتنا وہ ہمارے لیے حقیقی بنے گا اُتنا ہی ہم اُس کے قریب ہو جائیں گے۔‏

11.‏ ہمیں یہوواہ خدا کی صفات کے بارے میں سیکھنے کی کوشش کیوں کرنی چاہیے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

11 خدا کے ساتھ قریبی دوستی کرنے کے سلسلے میں ہماری کتاب ڈرا کلوز ٹو جیہوواہ کے پیش‌لفظ میں یوں کہا گیا ہے:‏ ”‏کسی کے ساتھ مضبوط دوستی تب قائم ہوتی ہے جب ہم اُسے اچھی طرح جانتے ہیں اور اُس کی خوبیوں کی قدر کرتے ہیں۔‏ اِس لیے خدا کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بائبل سے اُس کی صفات کے بارے میں سیکھیں۔‏“‏ ہم یہوواہ خدا کے  شکرگزار ہیں کہ اُس نے اپنا کلام ایسے لکھوایا ہے کہ اِنسان اِسے سمجھ سکتے ہیں۔‏

12.‏ بائبل کو لکھوانے کے لیے یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو کیوں اِستعمال کِیا؟‏

12 اگر یہوواہ خدا چاہتا تو وہ فرشتوں سے بھی اپنا کلام لکھوا سکتا تھا۔‏ آخر فرشتے بھی تو اِنسانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‏ (‏1-‏پطر 1:‏12‏)‏ لیکن وہ جو کچھ بھی لکھتے،‏ کیا وہ اُسے اِنسانوں کے نقطۂ‌نظر سے  سمجھ سکتے تھے؟‏ کیا وہ اِنسانوں کی ضرورتوں،‏ کمزوریوں اور احساسات کو سمجھ سکتے تھے؟‏ جی‌نہیں۔‏ یہوواہ خدا بھی جانتا تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔‏ اِسی لیے اُس نے اِنسانوں سے اپنا کلام لکھوایا۔‏ ہم بائبل کو لکھنے والے آدمیوں کی سوچ اور جذبات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔‏ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جب وہ مایوسی،‏ خوف اور شکوک کا شکار ہوتے ہوں گے تو اُنہیں کیسا لگتا ہوگا؛‏ جب اُن سے غلطیاں ہوتی ہوں گی تو اُنہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا اور جب وہ کسی کام میں کامیاب ہوتے ہوں گے تو اُنہیں کتنی خوشی ہوتی ہوگی۔‏ جن آدمیوں نے بائبل کو لکھا،‏ وہ سب ’‏ہمارے ہم‌طبیعت اِنسان تھے‘‏ جیسے کہ ایلیاہ نبی تھے۔‏—‏یعقو 5:‏17‏۔‏

یہوواہ خدا جس طرح یُوناہ اور پطرس کے ساتھ پیش آیا،‏ اُس سے ہمیں خدا کے نزدیک جانے کی ترغیب کیوں ملتی ہے؟‏ (‏پیراگراف 13 اور 15 کو دیکھیں۔‏)‏

13.‏ یُوناہ کی دُعا کا آپ کے دل پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏

13 ذرا یُوناہ کی کہانی پر غور کریں۔‏ خدا نے  اُنہیں  شہر  نینوہ  کو بھیجا مگر وہ کسی اَور علاقے کی طرف بھاگ گئے۔‏ یہوواہ خدا نے یُوناہ سے ہی اُن کی کہانی لکھوائی۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر یہ کہانی کسی فرشتے نے لکھی ہوتی تو کیا وہ یُوناہ کے جذبات کو پوری طرح بیان کر پاتا؟‏ خاص طور پر کیا وہ اُس دُعا کو بیان کر پاتا جو یُوناہ نے سمندر کی تہہ سے کی تھی؟‏ یُوناہ نے بڑی دل‌سوزی سے فریاد کی:‏ ”‏مَیں پہاڑوں کی تہ تک غرق ہو گیا۔‏ زمین کے اڑبنگے ہمیشہ کے لئے مجھ پر بند ہو گئے۔‏ تو بھی اَے [‏یہوواہ]‏ میرے خدا تُو نے میری جان پاتال سے بچائی۔‏ جب میرا دل بےتاب ہوا تو مَیں نے [‏یہوواہ]‏ کو یاد کیا۔‏“‏—‏یوناہ 1:‏3،‏ 10؛‏ 2:‏1-‏9‏۔‏

14.‏ ہم یسعیاہ نبی کے احساسات کو اچھی طرح کیوں سمجھ سکتے ہیں؟‏

14 غور کریں کہ جب یسعیاہ نبی نے ایک رویا میں یہوواہ خدا کا جلال دیکھا تو اُن پر کیا بیتی۔‏ اِس رویا میں یہوواہ کی پاکیزگی کو دیکھ  کر اُنہیں احساس ہو گیا کہ وہ خود کتنے گُناہگار  ہیں۔‏  وہ  بول اُٹھے:‏ ”‏مجھ پر افسوس!‏ مَیں تو برباد ہوا!‏ کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور نجس لب لوگوں میں بستا ہوں کیونکہ میری آنکھوں نے بادشاہ ربُ‌الافواج [‏یہوواہ]‏ کو دیکھا۔‏“‏ (‏یسع 6:‏5‏)‏ کوئی فرشتہ یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا مگر یسعیاہ یہ بات کہہ سکتے تھے۔‏ اور ہم گُناہگار اِنسان ہونے کے ناتے یسعیاہ نبی کے احساسات کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ ہم دوسرے اِنسانوں کے احساسات کو اچھی طرح کیوں سمجھ پاتے ہیں؟‏ مثالیں دیں۔‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا کے قریب جانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

15 یعقوب نے ایک دفعہ کہا کہ ’‏مَیں ہیچ ہوں۔‏‘‏ پطرس  رسول نے کہا:‏ ”‏مَیں گُناہگار آدمی ہوں۔‏“‏ (‏پید 32:‏10؛‏ لو 5:‏8‏)‏ ذرا سوچیں کہ کیا فرشتے اپنے بارے میں ایسا کہتے؟‏ کیا وہ یسوع مسیح کے شاگردوں کی طرح ڈر محسوس کرتے؟‏ اور جس طرح پولُس اور اُن کے ساتھیوں کو مخالفت کا سامنا کرنے کے لیے دلیری کی ضرورت تھی،‏ کیا فرشتوں کو دلیری جٹانے کی ضرورت ہوتی؟‏ (‏یوح 6:‏19؛‏ 1-‏تھس 2:‏2‏)‏ جی‌نہیں کیونکہ فرشتے تو نہایت طاقت‌ور آسمانی مخلوق ہیں اور ہر لحاظ سے بےعیب ہیں۔‏ جب کوئی شخص کمزوری یا بزدلی جیسے احساسات ظاہر کرتا ہے تو ہم اُس کے احساسات کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہم بھی اُس کی طرح عیب‌دار اور کمزور اِنسان ہیں۔‏ ہم پاک کلام لکھنے والے آدمیوں کے جذبات اور احساسات کو پڑھنے سے اُن کی خوشی اور غم کو محسوس کر سکتے ہیں۔‏—‏روم 12:‏15‏۔‏

16 جس طرح یہوواہ خدا ماضی میں اپنے وفادار بندوں  سے پیش آیا،‏ اُس پر غور کرنے سے ہم اُس کی ذات کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ ہم سیکھتے ہیں کہ وہ بڑے صبر اور محبت سے اُن عیب‌دار اِنسانوں کو اپنے قریب لایا۔‏ جیسے جیسے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھتے ہیں اور اُس کے لیے ہماری محبت بڑھتی ہے،‏ اُس کے ساتھ ہماری دوستی بھی گہری ہو جاتی ہے۔‏‏—‏زبور 25:‏14 کو پڑھیں۔‏

خدا سے کبھی دُور نہ جائیں

17.‏ ‏(‏الف)‏ عزریاہ نبی نے آسا بادشاہ کو کیا پیغام دیا؟‏ (‏ب)‏ آسا نے اِس پیغام کو کیسے نظرانداز کر دیا؟‏ اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

17 جب بادشاہ آسا نے کوشی فوج پر شان‌دار فتح حاصل کر لی تو یہوواہ خدا نے اپنے نبی عزریاہ کو آسا کے پاس بھیجا۔‏ عزریاہ کے پاس آسا اور اُن کی قوم کے لیے بہت اہم پیغام تھا۔‏ عزریاہ نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تمہارے ساتھ ہے جب تک تُم اُس کے ساتھ ہو اور اگر تُم اُس کے طالب ہو تو وہ تُم کو ملے گا پر اگر تُم اُسے ترک کرو تو وہ تُم کو ترک کرے گا۔‏“‏ (‏2-‏توا 15:‏1،‏ 2‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ آسا اِس پیغام کو بھلا بیٹھے۔‏ کافی سال بعد جب دس قبیلوں پر مشتمل اِسرائیل کی سلطنت نے آسا کے ملک پر چڑھائی کی تو آسا نے ملک ارام کے بادشاہ سے مدد مانگی۔‏ آسا نے دوبارہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کی بجائے ایک بُت‌پرست قوم پر بھروسا کِیا۔‏ اِسی لیے یہوواہ نے اُن سے کہا:‏ ”‏اِس بات میں تُو نے بےوقوفی کی کیونکہ اب سے تیرے لئے جنگ ہی جنگ ہے۔‏“‏ (‏2-‏توا 16:‏1-‏9‏)‏ ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہماری وجہ سے یہوواہ خدا اور ہمارے درمیان کچھ دُوری آ گئی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم خدا کی نزدیکی حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

18 ہمیں کبھی بھی یہوواہ خدا سے دُور نہیں ہونا چاہیے۔‏ اگر ہماری وجہ سے یہوواہ خدا اور ہمارے درمیان کچھ دُوری آ گئی ہے تو ہمیں ہوسیع 12:‏6 میں درج نصیحت پر فوراً عمل کرنا چاہیے۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏تُو اپنے خدا کی طرف رُجوع لا۔‏ نیکی اور راستی پر قائم اور ہمیشہ اپنے خدا کا اُمیدوار رہ۔‏“‏ جب ہم فدیے کے بندوبست پر غور کرتے ہیں اور پاک کلام کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کے قریب سے قریب‌تر ہو جاتے ہیں۔‏‏—‏استثنا 13:‏4 کو پڑھیں۔‏

19 زبورنویس نے کہا:‏ ”‏میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا  کی نزدیکی حاصل کروں۔‏“‏ (‏زبور 73:‏28‏)‏ آئیں،‏ ہم یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھتے رہیں۔‏ یوں اُس کے لیے ہماری محبت بڑھتی جائے گی۔‏ ہم اُس کے نزدیک ہوتے جائیں گے اور وہ ہمارے نزدیک آتا جائے گا۔‏