مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بہت سی مصیبتوں کے باوجود خدا کی خدمت کرتے رہیں

بہت سی مصیبتوں کے باوجود خدا کی خدمت کرتے رہیں

‏”‏ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں۔‏“‏—‏اعما 14:‏22‏۔‏

1.‏ خدا کے بندوں کو اِس بات سے حیرت کیوں نہیں ہوتی کہ اُنہیں مصیبتیں سہنی پڑ سکتی ہیں؟‏

کیا ہمارے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمیشہ کی زندگی پانے سے پہلے ہمیں ”‏بہت مصیبتیں“‏ سہنی پڑ سکتی ہیں؟‏ شاید ہمیں ایسا نہ لگے۔‏ چاہے ہم کافی عرصے سے یہوواہ کے گواہ ہیں یا پھر حال ہی میں سچائی میں آئے ہیں،‏ ہم نے سیکھ لیا ہے کہ شیطان کی اِس دُنیا میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔‏—‏مکا 12:‏12‏۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ اُن مشکلات کے علاوہ جو سب اِنسانوں پر آتی ہیں،‏ مسیحیوں کو کون‌سی مصیبت سہنی پڑتی ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ ہماری مصیبتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟‏ اور ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏

2 گُناہ کو ورثے میں پانے کی وجہ سے سب لوگ ایسی مشکلات سے گزرتے ہیں ”‏جو اِنسان کے لیے عام ہوتی ہیں۔‏“‏ لیکن مسیحیوں کو اِن مشکلوں کے علاوہ ایک اَور طرح کی مصیبت سہنی پڑتی ہے۔‏ (‏1-‏کر 10:‏13‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ وہ خدا کے وفادار رہنے کی وجہ سے اذیت کا نشانہ بنتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا:‏ ”‏نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔‏ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائیں گے۔‏“‏ (‏یوح 15:‏20‏)‏ اِس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟‏ بھلا شیطان کے علاوہ اَور کون ہو سکتا ہے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”‏گرجنے والے شیرببر“‏ کی طرح ہے جو ”‏ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ [‏خدا کے بندوں]‏ کو پھاڑ کھائے۔‏“‏ (‏1-‏پطر 5:‏8‏)‏ شیطان،‏ خدا کے لیے ہماری وفاداری کو توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اُس نے پولُس رسول کے ساتھ کیا کِیا۔‏

 لِسترہ میں پولُس پر جان‌لیوا مصیبت

3-‏5.‏ ‏(‏الف)‏ شہر لِسترہ میں پولُس رسول پر کون‌سی مصیبت آئی؟‏ (‏ب)‏ مصیبتیں سہنے کے بارے میں پولُس رسول کی بات کس لحاظ سے شاگردوں کے لیے حوصلہ‌افزائی کا باعث تھی؟‏

3 پولُس رسول کو اپنے ایمان کی وجہ سے کئی مرتبہ اذیت اُٹھانی پڑی۔‏ (‏2-‏کر 11:‏23-‏27‏)‏ ایسا ہی ایک واقعہ شہر لِسترہ میں پیش آیا۔‏ وہاں پولُس نے ایک ایسے شخص کو شفا دی جو پیدائشی لنگڑا تھا۔‏ یہ دیکھ کر وہاں کے لوگ پولُس اور برنباس کو دیوتا سمجھ بیٹھے اور اُن کے لیے قربانی کرنا چاہتے تھے۔‏ مگر اُن دونوں نے لوگوں کے ہجوم سے کہا کہ وہ ایسا نہ کریں۔‏ تھوڑی دیر بعد کچھ یہودی آ پہنچے جو پولُس اور برنباس کے خلاف تھے۔‏ وہ اِس ہجوم کے کان بھرنے لگے۔‏ دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر پلٹ گیا۔‏ لوگ پولُس پر پتھر برسانے لگے اور اُنہیں مُردہ سمجھ کر شہر کے باہر لے گئے۔‏—‏اعما 14:‏8-‏19‏۔‏

4 پولُس اور برنباس شہر دربے سے ہو کر ”‏لسترِؔہ اور اِکنیمؔ اور اؔنطاکیہ کو واپس آئے۔‏ اور شاگردوں کے دلوں کو مضبوط کرتے اور یہ نصیحت دیتے تھے کہ ایمان پر قائم رہو اور کہتے تھے ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں۔‏“‏ (‏اعما 14:‏21،‏ 22‏)‏ یہ بات شاید ہمیں عجیب معلوم ہو۔‏ مصیبتیں سہنے کا خیال بھلا کس کو اچھا لگ سکتا ہے۔‏ یہ تو پریشانی یا مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔‏ تو پھر پولُس اور برنباس نے ”‏شاگردوں کے دلوں کو مضبوط“‏ کیسے کِیا حالانکہ وہ شاگردوں کو بتا چکے تھے کہ اُنہیں مصیبتیں سہنی پڑیں گی؟‏

5 پولُس کی بات کا جائزہ لینے سے ہمیں اِس سوال کا جواب مل سکتا ہے۔‏ اُنہوں نے صرف یہ نہیں کہا تھا کہ ’‏ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہیں‘‏ بلکہ اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ ”‏ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں۔‏“‏ پولُس نے اُس شان‌دار اِنعام پر زور دیا جو مصیبتیں سہنے سے ملے گا۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے شاگردوں کے ایمان کو مضبوط کِیا۔‏ یہ اِنعام فرضی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔‏“‏—‏متی 10:‏22‏۔‏

6.‏ جو مسیحی مصیبتیں برداشت کرتے ہیں،‏ اُنہیں کیا اِنعام ملے گا؟‏

6 اگر ہم بھی مصیبتوں میں یہوواہ خدا کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیں بھی اِنعام دے گا۔‏ ممسوح مسیحی آسمان میں غیرفانی زندگی حاصل کریں گے اور یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔‏ یسوع مسیح کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گی جہاں ”‏راست‌بازی بسی رہے گی۔‏“‏ (‏یوح 10:‏16؛‏ 2-‏پطر 3:‏13‏)‏ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا،‏ ہمیں بہت سی مصیبتیں سہنی پڑیں گی۔‏ آئیں،‏ دو طرح کی مصیبتوں پر غور کریں جن کا ہمیں سامنا ہو سکتا ہے۔‏

اذیت—‏شیطان کا براہِ‌راست حملہ

7.‏ شیطان کچھ مسیحیوں پر براہِ‌راست حملہ کیسے کر سکتا ہے؟‏

7 یسوع مسیح نے پیش‌گوئی کی تھی  کہ  ”‏لوگ  تُم  کو  عدالتوں کے حوالہ کریں گے اور تُم عبادت‌خانوں میں پیٹے جاؤ گے اور حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کئے جاؤ گے۔‏“‏ (‏مر 13:‏9‏)‏ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان بعض مسیحیوں پر براہِ‌راست حملہ کرے گا۔‏ اِس کی ایک قسم جسمانی اذیت ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ مسیحیوں پر اذیت ڈھانے کے لیے مذہبی یا سیاسی رہنماؤں کو اِستعمال کرے۔‏ (‏اعما 5:‏27،‏ 28‏)‏ اِس سلسلے میں بھی پولُس رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ کیا وہ یہ سوچ کر ڈر گئے تھے کہ اُن پر سخت اذیت ڈھائی جائے گی؟‏ ہرگز نہیں۔‏‏—‏اعمال 20:‏22،‏ 23 کو پڑھیں۔‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ مصیبتیں سہنے کو تیار ہیں؟‏ (‏ب)‏ آجکل بعض بہن‌بھائیوں نے پولُس جیسا جذبہ کیسے ظاہر کِیا ہے؟‏

8 پولُس رسول نے شیطان کے براہِ‌راست حملوں کا بڑی دلیری سے سامنا کِیا اور کہا:‏ ”‏مَیں اپنی جان کو عزیز نہیں سمجھتا کہ اُس کی کچھ قدر کروں بمقابلہ اِس کے کہ اپنا دَور اور وہ خدمت جو خداوند یسوؔع سے پائی ہے پوری کروں یعنی خدا کے فضل کی خوش‌خبری کی گواہی دوں۔‏“‏ (‏اعما 20:‏24‏)‏ واقعی پولُس رسول اِس بات سے ذرا بھی خوف‌زدہ نہیں تھے کہ اُنہیں اذیت پہنچائی جائے گی۔‏ اِس کی بجائے وہ ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کو تیار تھے۔‏ وہ  مصیبتوں کے باوجود پورے دل‌وجان سے ”‏خوش‌خبری کی گواہی“‏ دینا چاہتے تھے۔‏

9 آجکل ہمارے بہت سے  بہن‌بھائی  بھی  پولُس  رسول  جیسا جذبہ رکھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک ملک میں بعض یہوواہ کے گواہوں کو صرف اِس لیے تقریباً 20 سال تک جیل میں رکھا گیا کیونکہ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کر دیا تھا۔‏ اُن کا مُقدمہ بھی عدالت میں پیش نہیں کِیا گیا تھا کیونکہ اُس ملک میں ایسے لوگ اپنے حق میں کوئی آواز نہیں اُٹھا سکتے تھے۔‏ کسی کو بھی اُن سے ملنے کی اِجازت نہیں تھی،‏ یہاں تک کہ اُن کے رشتےداروں کو بھی نہیں۔‏ اُن میں سے بعض کو مارا پیٹا گیا اور بعض پر اَور طرح کے ظلم ڈھائے گئے۔‏

10.‏ ہمیں اُن مصیبتوں سے گھبرانا کیوں نہیں چاہیے جو ہم پر اچانک  آن پڑتی ہیں؟‏

10 ہمارے بہن‌بھائی ایسی مصیبتیں بھی برداشت کرتے ہیں جو اُن پر اچانک آن پڑتی ہیں۔‏ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو گھبرائیں مت۔‏ یوسف کی مثال کو ذہن میں رکھیں۔‏ اُن کے بھائیوں نے اُنہیں بیچ دیا اور اُنہیں دوسروں کی غلامی کرنی پڑی۔‏ مگر یہوواہ خدا نے ”‏اُس کی سب مصیبتوں سے .‏ .‏ .‏ اُس کو چھڑایا۔‏“‏ (‏اعما 7:‏9،‏ 10‏)‏ یہوواہ خدا آپ کے لیے بھی ایسا کر سکتا ہے۔‏ یاد رکھیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ دین‌داروں کو آزمایش سے نکال لینا .‏ .‏ .‏ جانتا ہے۔‏“‏ (‏2-‏پطر 2:‏9‏)‏ لہٰذا اُس پر بھروسا رکھیں اور دلیری سے اذیت کا سامنا کریں۔‏ یہ یقین رکھیں کہ یہوواہ خدا آپ کو شیطان کی دُنیا سے بچائے گا اور نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی دے گا۔‏—‏1-‏پطر 5:‏8،‏ 9‏۔‏

مایوسی—‏شیطان کا خفیہ حملہ

11.‏ شیطان کے خفیہ حملوں اور براہِ‌راست حملوں میں کیا فرق ہے؟‏

11 بعض اوقات شیطان ہم پر مصیبت لانے کے لیے  خفیہ حملے کرتا ہے۔‏ اُس کے براہِ‌راست حملوں اور خفیہ حملوں میں کیا فرق ہے؟‏ براہِ‌راست حملے ایک طوفانی آندھی کی طرح ہوتے ہیں جو بڑی تیزی سے آتی ہے اور آپ کے گھر کو تہس‌نہس کرکے چلی جاتی ہے۔‏ لیکن خفیہ حملے دیمک کی طرح ہوتے ہیں جو چپکے سے آپ کے گھر میں گھستے ہیں اور آہستہ‌آہستہ اِس کی لکڑی کو چاٹ جاتے ہیں اور آخرکار آپ کا گھر گِر جاتا ہے۔‏ جب ایسے خفیہ حملے کا پتہ چلتا ہے تو شاید بہت دیر ہو چکی ہو۔‏

12.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان کا ایک خفیہ حملہ کیا ہے؟‏ اور یہ اکثر کامیاب کیوں ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ مایوسی نے پولُس رسول کو کس حد تک متاثر کِیا؟‏

12 شیطان،‏ یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کو توڑنا چاہتا ہے۔‏ اِس کے لیے وہ یا تو براہِ‌راست حملہ کرتا ہے جیسے کہ جسمانی اذیت یا پھر وہ خفیہ حملے کے ذریعے آپ کے ایمان کو کھوکھلا کرتا ہے۔‏ شیطان کے خفیہ حملوں میں سے ایک مایوسی ہے۔‏ اُس کا یہ حملہ اکثر کامیاب ثابت ہوتا ہے۔‏ پولُس رسول بھی بعض اوقات اِس حملے کا شکار ہوئے۔‏ ‏(‏رومیوں 7:‏21-‏24 کو پڑھیں۔‏)‏ وہ روحانی طور پر بہت مضبوط تھے اور غالباً وہ پہلی صدی کی گورننگ باڈی کے رُکن بھی تھے۔‏ تو پھر بھلا اُنہوں نے اپنے آپ کو ”‏کم‌بخت آدمی“‏ کیوں کہا؟‏ پولُس اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کبھی‌کبھار بےحوصلہ ہو جاتے تھے۔‏ وہ تو صحیح کام کرنا چاہتے تھے مگر اُن کے اندر سے کوئی چیز اُنہیں غلط کام کرنے پر اُکساتی تھی۔‏ اگر آپ بھی کبھی‌کبھی ایسا محسوس کرتے ہیں تو آپ پولُس رسول کی مثال پر غور کرنے سے تسلی اور اِطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔‏

13،‏ 14.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے بعض خادم مایوس اور پریشان کیوں ہو جاتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کون یہ چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان تباہ ہو جائے؟‏ اور وہ ایسا کیوں چاہتا ہے؟‏

13 بعض اوقات بہت سے بہن‌بھائی اِس قدر مایوس اور  پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ کسی کام کے نہیں۔‏ اِس سلسلے میں ڈیبرا نامی بہن کی مثال پر غور کریں جو ایک پُرجوش پہلکار ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے میری غلطی باربار یاد آتی ہے اور جب بھی ایسا ہوتا ہے،‏ مَیں نہایت مایوس ہو جاتی ہوں۔‏ اپنی غلطی کے بارے میں سوچ کر مجھے لگتا ہے کہ کوئی بھی مجھ سے پیار نہیں کر سکتا،‏ یہاں تک کہ یہوواہ خدا بھی نہیں۔‏“‏

14 اِس بہن کی طرح یہوواہ خدا کے کچھ اَور سرگرم بندے مایوس کیوں ہو گئے ہیں؟‏ اِس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔‏ بعض کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اور اپنے حالات کے بارے میں ہمیشہ بُرا ہی سوچتے ہیں۔‏ (‏امثا 15:‏15‏)‏ بعض شاید کسی ایسی بیماری میں مبتلا  ہوتے ہیں جس کا اُن کے ذہن اور جذبات پر بُرا اثر پڑتا ہے۔‏ وجہ چاہے کوئی بھی ہو،‏ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اِس صورتحال سے کون فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔‏ کون ہمیں اِس حد تک مایوس کرنا چاہتا ہے کہ ہم خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں؟‏ کون یہ چاہتا ہے کہ آپ کا بھی وہی حشر ہو جو اُس کا ہونے والا ہے؟‏ (‏مکا 20:‏10‏)‏ ایسا صرف شیطان ہی چاہتا ہے۔‏ وہ چاہے ہم پر براہِ‌راست حملہ کرے یا چھپ کر وار کرے،‏ اُس کا مقصد ایک ہی ہے۔‏ وہ ہمیں پریشانی اور مایوسی میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں۔‏ لہٰذا یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ ہم ایک روحانی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے اپنی وفاداری پر کوئی آنچ نہ آنے دیں۔‏

15.‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم مایوسی کو اپنے اُوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے؟‏

15 یہ عزم کریں کہ آپ اِس لڑائی میں پیچھے نہیں ہٹیں  گے۔‏ اپنی نظریں اِنعام پر جمائے رکھیں۔‏ پولُس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا تھا:‏ ”‏ہم ہمت نہیں ہارتے بلکہ گو ہماری ظاہری اِنسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی اِنسانیت روزبروز نئی ہوتی جاتی ہے۔‏ کیونکہ ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصیبت ہمارے لئے ازحد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے۔‏“‏—‏2-‏کر 4:‏16،‏ 17‏۔‏

پہلے سے تیاری کریں

جوان اور بوڑھے،‏ تمام مسیحی اپنے ایمان کا دِفاع کرنے کی تیاری کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 16 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم مصیبتوں کا سامنا کرنے کے لیے ابھی سے تیاری کریں؟‏

16 شیطان کے پاس طرح‌طرح کے حربے اور ہتھیار ہیں جنہیں وہ ہمارے خلاف اِستعمال کر سکتا ہے۔‏ (‏افس 6:‏11‏)‏ اِس لیے ہمیں 1-‏پطرس 5:‏9 میں درج نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏تُم ایمان میں مضبوط ہو کر .‏ .‏ .‏ [‏شیطان]‏ کا مقابلہ کرو۔‏“‏ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لیے تیار کریں اور کسی بھی مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے اپنی تربیت کریں۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ ایک  فوج  جنگ سے کافی عرصہ پہلے لڑائی کی مشقیں کرتی ہے۔‏ ہم  بھی شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے تیاری کرتے ہیں۔‏ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمیں مستقبل میں کس طرح کی روحانی جنگ لڑنی پڑے گی۔‏ اِس لیے ہمیں ابھی سے کڑی مشق کرنی چاہیے۔‏ پولُس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏تُم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔‏ اپنے آپ کو جانچو۔‏“‏—‏2-‏کر 13:‏5‏۔‏

17-‏19.‏ ‏(‏الف)‏ ہم اپنا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمارے نوجوان سکول میں اپنے ایمان کے بارے میں دلیری سے بات کرنے کے لیے تیار کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

17 پولُس رسول کی نصیحت کے مطابق ہمیں اپنا جائزہ  لینا  چاہیے۔‏ ہم خود سے کچھ اِس طرح کے سوال پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا مَیں بِلاناغہ دُعا کرتا ہوں؟‏ جب میرے دوست مجھے کوئی غلط کام کرنے پر اُکساتے ہیں تو کیا مَیں اُن کی بات مانتا ہوں یا خدا کی؟‏ کیا مَیں باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جاتا ہوں؟‏ کیا مَیں دلیری سے دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتاتا ہوں؟‏ جس طرح مسیحی بہن‌بھائی میری غلطیاں معاف کرتے ہیں،‏ کیا مَیں بھی اُن کی غلطیاں معاف کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں اپنی کلیسیا کے بزرگوں اور یہوواہ خدا کی تنظیم میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں کے تابع رہتا ہوں؟‏“‏

18 غور کریں کہ اُوپر دی گئی فہرست میں دو سوال دلیری  سے اپنے ایمان کے متعلق بات کرنے اور دوستوں کے دباؤ کا سامنا کرنے کے بارے میں ہیں۔‏ ہمارے بہت سے نوجوان سکول میں اپنے ایمان کے متعلق دلیری سے بات کرتے ہیں۔‏ وہ ایسا کرنے سے نہ تو شرماتے ہیں اور نہ ہی گھبراتے ہیں۔‏ وہ ہمارے رسالوں میں شائع ہونے والی تجاویز پر عمل کرنے سے ایسا کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر 15 مئی 2013ء کے مینارِنگہبانی میں صفحہ 6 پر بتایا گیا تھا کہ بچے اپنے ہم‌جماعتوں کو مؤثر طریقے سے گواہی کیسے دے سکتے ہیں۔‏ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کسی بھی طرح سے اپنے ہم‌جماعتوں کے دباؤ میں نہ آئیں تو پہلے سے اُن کے ساتھ مشق کریں کہ وہ اِس قسم کی صورتحال سے کیسے نپٹ سکتے ہیں۔‏

19 لیکن اپنے ایمان کا دِفاع کرنا یا خدا کی مرضی پر چلنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ جب ہم اپنے کام سے تھکے ہارے آتے ہیں تو اِجلاسوں میں جانا ہمیں بڑا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم صبح کے وقت آرام‌دہ بستر کو چھوڑ کر مُنادی کے کام میں جانا نہ چاہیں۔‏ یاد رکھیں کہ اگر آپ ابھی ایسی چھوٹی چھوٹی مشکلات پر قابو پانا سیکھیں گے تو آپ آئندہ بڑی مشکلات کا بھی سامنا کر سکیں گے۔‏

20،‏ 21.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح کی قربانی پر غور کرنے سے ہم مایوسی پر غالب کیسے آ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمارا عزم کیا ہونا چاہیے؟‏

20 ہم شیطان کے خفیہ حملوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ مثال کے طور پر ہم مایوسی پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟‏ اِس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اِس بات پر غور کریں کہ یسوع مسیح نے اپنی جان کیوں اور کس کے لیے قربان کی تھی۔‏ پولُس رسول نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔‏ وہ کبھی‌کبھار بہت مایوس ہو جاتے تھے۔‏ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے  کہ یسوع مسیح نے اپنی جان بےگُناہوں کے لیے نہیں بلکہ گُناہگاروں کے لیے دی تھی۔‏ اور پولُس بھی ایک گُناہگار شخص تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں لکھا:‏ ”‏مَیں جو .‏ .‏ .‏ زندگی گذارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔‏“‏ (‏گل 2:‏20‏)‏ پولُس رسول،‏ مسیح کی قربانی پر ایمان لائے تھے۔‏ اُنہوں نے اِس بات کو قبول کِیا تھا کہ یسوع مسیح نے اُن کے لیے جان دی ہے۔‏

21 اگر ہم بھی اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یسوع مسیح  نے ہماری خاطر جان دی تو ہمیں مایوسی پر غالب آنے میں مدد ملے گی۔‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری مایوسی فوراً ختم ہو جائے گی۔‏ ہم میں سے بعض کو شاید اِس سے اُس وقت تک نپٹنا پڑے جب تک نئی دُنیا نہیں آ جاتی۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ اِنعام اُنہی کو ملے گا جو مصیبتوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔‏ اب وہ دن دُور نہیں جب خدا کی بادشاہت زمین پر امن‌وسلامتی لائے گی اور تمام وفادار اِنسانوں کو گُناہ سے پاک کر دے گی۔‏ لہٰذا خدا کی ”‏بادشاہی میں داخل“‏ ہونے کا عزم کریں،‏ چاہے اِس کے لیے ”‏بہت مصیبتیں“‏ ہی کیوں نہ سہنی پڑیں۔‏