والدین—خود کو اچھے چرواہے ثابت کریں
”اپنے ریوڑوں کا حال دریافت کرنے میں دل لگا۔“—امثا 27:23۔
1، 2. (الف) قدیم اِسرائیل میں ایک چرواہے کی بعض ذمےداریاں کیا تھیں؟ (ب) والدین کس لحاظ سے چرواہوں کی طرح ہیں؟
قدیم اِسرائیل میں چرواہوں کی زندگی بڑی کٹھن تھی۔ اُنہیں نہ صرف سخت گرمی اور سخت سردی برداشت کرنی پڑتی تھی بلکہ اپنے گلّے کو چوروں اور شکاری جانوروں سے بھی محفوظ رکھنا پڑتا تھا۔ وہ باقاعدگی سے اپنی ہر ایک بھیڑ کا معائنہ کرتے تھے اور اگر کوئی بھیڑ بیمار یا زخمی ہوتی تھی تو اُس کا علاج کرتے تھے۔ وہ خاص طور پر میمنوں پر توجہ دیتے تھے کیونکہ وہ بڑی بھیڑوں کی نسبت نازک ہوتے تھے۔—پید 33:13۔
2 بعض لحاظ سے والدین کو چرواہوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اُنہیں ایسی خوبیاں ظاہر کرنی چاہئیں جیسی چرواہوں میں ہوتی ہیں۔ اُنہیں یہ ذمےداری دی گئی ہے کہ وہ ”[یہوواہ] کی طرف سے تربیت اور نصیحت دےدے کر [اپنے بچوں] کی پرورش“ کریں۔ (افس 6:4) کیا یہ ذمےداری نبھانا آسان ہے؟ جینہیں۔ شیطان کے پھیلائے ہوئے نظریات بڑی آسانی سے بچوں کی سوچ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بچے اپنی خواہشوں کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ سکتے ہیں۔ (2-تیم 2:22؛ 1-یوح 2:16) اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ اپنے بچوں کی نگہبانی کرنے کے لیے آئیں، تین باتوں پر غور کریں۔ اُن کے احساسات کو سمجھیں، اُن کی روحانی ضروریات پوری کریں اور اُن کی رہنمائی کریں۔
بچوں کے احساسات کو سمجھیں
3. والدین اپنے بچوں کا ”حال دریافت“ کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
3 ایک اچھا چرواہا بڑے دھیان سے اپنی ہر ایک بھیڑ کا معائنہ کرتا ہے تاکہ وہ جان جائے کہ آیا اُس کی بھیڑیں صحتمند ہیں یا نہیں۔ والدین اِس مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے: ”اپنے ریوڑوں کا حال دریافت کرنے میں دل لگا۔“ (امثا 27:23) والدین کو اپنے بچوں کا ”حال دریافت“ کرنے کے لیے نہ صرف اُن کے کاموں کو دیکھنا چاہیے بلکہ اُن کی سوچ اور احساسات کو بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اِس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں سے باقاعدگی سے بات کریں۔
4، 5. (الف) آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے بچے کُھل کر آپ سے بات کریں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) آپ نے کونسے طریقے اِختیار کیے ہیں تاکہ آپ کے بچے آپ کے ساتھ اپنے دل کی بات آسانی سے کر سکیں؟
4 بعض والدین نے دیکھا ہے کہ جب اُن کے بچے جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو اُن سے بات کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر نوجوان اپنی سوچ اور احساسات کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتے۔ اگر آپ کا بچہ بھی ایسا ہی ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اُس کے ساتھ کسی سنجیدہ ماحول میں لمبی چوڑی باتچیت کرنے کی بجائے کسی خوشگوار ماحول میں بات کریں۔ (است 6:6، 7) اُس کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔ شاید آپ اُس کے ساتھ پیدل یا گاڑی میں کہیں گھومنے جا سکتے ہیں، اُس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں یا پھر مل کر گھر کا کوئی کام کر سکتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ شاید آپ کے ساتھ اپنے دل کی بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔
5 اگر اِس کے باوجود آپ کا بچہ دل کھول کر آپ سے بات نہیں کرتا تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ شاید کوئی فرق طریقہ اِختیار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنی بیٹی سے یہ کہنے کی بجائے کہ اُس کا دن کیسا رہا، آپ اُسے یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ کا دن کیسا رہا۔ یوں شاید وہ بھی آپ کو اپنے دن کے بارے میں کچھ بتائے۔ یا پھر اگر آپ کسی موضوع کے بارے میں اُس کی رائے جاننا چاہتے ہیں تو براہِراست اُس کی رائے پوچھنے کی بجائے یہ پوچھیں کہ اُس کی سہیلیوں کا اِس موضوع کے بارے میں کیا خیال ہے۔ پھر آپ اُس سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ اِس سلسلے میں اپنی سہیلیوں کو کیا مشورہ دے گی۔
6. آپ اپنے بچوں کو یہ احساس کیسے دِلا سکتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کسی بھی وقت اور کسی بھی موضوع پر بات کر سکتے ہیں؟
6 آپ کے بچے تبھی کُھل کر بات کریں گے جب اُنہیں یہ یقین ہوگا کہ وہ آپ کے ساتھ کسی بھی وقت اور کسی بھی موضوع پر بات کر سکتے ہیں۔ جب والدین ہر وقت مصروف دِکھائی دیتے ہیں تو نوجوان بچے اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو یہ یقین کیسے دِلا سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی موضوع پر آپ کے ساتھ بات کر سکتے ہیں؟ بچوں سے صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ”آپ جب چاہیں، مجھ سے بات کر سکتے ہیں۔“ اپنے نوجوان بچوں کو احساس دِلائیں کہ آپ اُن کے مسائل کو معمولی خیال نہیں کرتے اور اگر وہ اِن کے بارے میں بات کریں گے تو آپ اُنہیں ڈانٹیں گے نہیں۔ بہت سے والدین نے اِس سلسلے میں ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ 19 سالہ بہن کایلا کہتی ہیں: ”مَیں اپنے ابو سے ہر موضوع پر بات کر لیتی ہوں۔ جب مَیں بات کر رہی ہوتی ہوں تو وہ نہ تو مجھے بیچ میں ٹوکتے ہیں اور نہ ہی مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ دھیان سے میری بات سنتے ہیں اور پھر مجھے اچھے اچھے مشورے دیتے ہیں۔“
7. (الف) ایک بہن کی مثال دے کر بتائیں کہ والدین بچوں کے ساتھ کسی نازک صورتحال پر بات کرتے ہوئے سمجھداری سے کام کیسے لے سکتے ہیں۔ (ب) والدین انجانے میں اپنے بچوں کو دق کیسے کر سکتے ہیں؟
7 بعض اوقات والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کسی نازک صورتحال پر بات کرنی پڑتی ہے۔ اگر آپ کو ایسا کرنا پڑے تو بچوں کو نہ صرف اِس صورتحال کے نقصانات کے بارے میں بتائیں بلکہ اُنہیں یہ بھی بتائیں کہ وہ اِس صورت میں کن اصولوں پر عمل کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ فرض کریں کہ آپ کسی ہوٹل میں جاتے ہیں اور وہاں کی مینیو میں بس یہی بتایا گیا ہے کہ فلاں کھانے سے یہ نقصان ہوگا اور فلاں سے یہ نقصان ہوگا۔ ایسی صورت میں آپ شاید وہاں سے نکل کر کسی اَور ہوٹل میں چلیں جائیں۔ اِسی طرح اگر آپ کی بیٹی یا بیٹا آپ کے پاس آتا ہے اور کسی معاملے میں آپ سے مشورہ مانگتا ہے اور آپ اُسے بس نقصانات کے بارے میں ہی بتاتے رہتے ہیں تو شاید وہ دوبارہ آپ سے مشورہ لینے نہ آئے۔ (کلسیوں 3:21 کو پڑھیں۔) نقصانات پر زور دینے کی بجائے اُس کی توجہ ایسے اصولوں پر بھی دِلائیں جو اُس کے کام آئیں گے۔ ایک نوجوان بہن امیلی بتاتی ہیں کہ جب وہ شادی کے اِرادے سے کسی کو جاننے کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ مانگتی ہیں تو وہ اُنہیں اچھی صلاح دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”میرے والدین مجھے صرف اِس کے نقصانات کے بارے میں ہی نہیں بتاتے بلکہ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک اچھا جیونساتھی پانے کے لیے کسی کو جاننا بہت اہم ہے۔ اِسی وجہ سے مَیں بِلا جھجھک اُن کے ساتھ اِس موضوع پر بات کر لیتی ہوں۔ اگر کبھی مستقبل میں میری کسی لڑکے کے ساتھ شادی کے اِرادے سے بات چلی تو مَیں اپنے ماںباپ سے مشورہ ضرور کروں گی۔“
8، 9. (الف) اگر والدین صبر سے اپنے بچوں کی بات سنتے ہیں تو کیا فائدہ ہوگا؟ (ب) صبر سے اپنے بچوں کی بات سننے سے آپ کو کیا فائدہ ہوا ہے؟
8 اگر آپ صبر سے اپنے بچوں کی بات سنیں گے تو اُنہیں یہ احساس ہوگا کہ وہ کسی بھی موضوع پر آپ سے بات کر سکتے ہیں۔ (یعقوب 1:19 کو پڑھیں۔) کاتیا نامی بہن جو اکیلی اپنی بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں، وہ کہتی ہیں: ”پہلے مَیں اپنی بیٹی کے ساتھ ذرا بھی تحمل سے پیش نہیں آتی تھی۔ مَیں تو اُسے اپنی بات پوری کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی۔ جب بھی وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی، مَیں یا تو بہت تھکی ہوتی تھی یا پھر مَیں ویسے ہی اُس کی بات سننا نہیں چاہتی تھی۔ اب چونکہ مَیں نے اپنا رویہ بدلا ہے اِس لیے میری بیٹی کا رویہ بھی بدل گیا ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ میری بات ماننے لگی ہے۔“
9 رونلڈ جن کی ایک نوجوان بیٹی ہے، اُن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ کہتے ہیں: ”جب میری بیٹی نے مجھے بتایا کہ اُسے سکول میں ایک لڑکے سے محبت ہو گئی ہے تو مجھے بہت غصہ آیا۔ لیکن پھر مَیں نے اِس بات پر غور کِیا کہ خدا اپنے بندوں سے صبر اور نرمی سے پیش آتا ہے۔ اِس لیے مَیں نے سوچا کہ مَیں کوئی بھی مشورہ دینے سے پہلے اُسے اپنے احساسات کا اِظہار کرنے کا موقع دوں گا۔ مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے ایسا کِیا۔ مَیں پہلی بار اپنی بیٹی کے احساسات کو سمجھ پایا۔ اِسی لیے مَیں بڑے پیار سے اُس کے ساتھ بات کر سکا۔ مجھے خوشی ہے کہ اُس نے بھی میرے مشورے کو قبول کِیا۔ اُس نے کہا کہ وہ اپنی روِش میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے گی۔“ اگر آپ باقاعدگی سے اپنے بچوں سے باتچیت کرتے ہیں تو آپ اُن کے احساسات اور خیالات کو بہتر طور پر سمجھ پائیں گے۔ اور یوں آپ زندگی کے اہم فیصلے کرنے میں اُن کی اَور بھی اچھی طرح مدد کر پائیں گے۔ *
بچوں کی روحانی ضروریات پوری کریں
10، 11. آپ اپنے بچوں کو بھٹکنے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
10 ایک اچھا چرواہا جانتا ہے کہ اُس کی بھیڑیں بھٹک سکتی ہیں۔ شاید وہ کچھ فاصلے پر ہری ہری گھاس کی طرف چلی جائیں اور پھر تھوڑا اَور دُور چلی جائیں۔ یوں کرتےکرتے وہ گلّے سے الگ ہو جائیں۔ اِسی طرح بچے بھی آہستہآہستہ سچائی سے دُور جا سکتے ہیں۔ اِس کی وجہ بُری صحبت اور بُری تفریح ہو سکتی ہے۔ (امثا 13:20) آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہو؟
11 اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت اگر آپ کو کچھ ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن میں اُنہیں بہتری لانے کی ضرورت ہے تو فوراً قدم اُٹھائیں۔ اُن کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی خوبیوں کو نکھار سکیں۔ (2-پطر 1:5-8) ایسا کرنے کا اچھا وقت خاندانی عبادت ہے۔ خاندانی عبادت کے بارے میں بادشاہتی خدمتگزاری اکتوبر 2008ء میں یہ کہا گیا تھا: ”خاندان کے سربراہوں کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ خاندانی بائبل مطالعہ کرانے سے یہوواہ خدا کی طرف سے دی گئی اپنی ذمہداری کو پورا کریں۔“ کیا آپ اپنے بچوں کی نگہبانی کرنے کے لیے اِس اِنتظام سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں؟ اپنے بچوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آپ جو محنت کرتے ہیں، آپ کے بچے اِس کی بڑی قدر کرتے ہیں۔
12. (الف) خاندانی عبادت کے اِنتظام سے بعض نوجوانوں کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ (بکس ”خاندانی عبادت کے لیے قدر کے اِظہارات“ کو بھی دیکھیں۔) (ب) آپ کو خاندانی عبادت سے کیا فائدہ ہوا ہے؟
12 ایک نوجوان بہن کاریسا اور اُن کے گھر والوں کو خاندانی عبادت سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ وہ بتاتی ہیں: ”مجھے یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ خاندانی عبادت کے دوران ہم سب مل بیٹھ کر آپس میں باتچیت کرتے ہیں۔ یوں ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا رشتہ بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے اور ہم خوشگوار یادیں بُن رہے ہیں۔ میرے ابو باقاعدگی سے خاندانی عبادت کراتے ہیں۔ اِس لیے ایک باپ اور سربراہ کے طور پر اُن کی عزت میری نظروں میں اَور بھی بڑھ گئی ہے۔ چونکہ وہ اِسے بہت اہم خیال کرتے ہیں اِس لیے مَیں بھی اِسے بہت اہم سمجھتی ہوں۔“ ایک اَور نوجوان بہن برٹنی نے کہا: ”خاندانی عبادت کی وجہ سے مَیں اپنے امیابو کے بہت قریب آ گئی ہوں۔ اِس بندوبست کی بدولت مَیں سمجھ گئی ہوں کہ وہ میرے مسائل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور اُنہیں میری فکر ہے۔ خاندانی عبادت کی وجہ سے ہمارا گھرانہ متحد اور مضبوط ہے۔“ اپنے بچوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنا اِس بات کی ایک نشانی ہے کہ آپ اچھے چرواہے ہیں۔ اور روحانی ضروریات پوری کرنے کا ایک بہترین طریقہ خاندانی عبادت ہے۔ *
بچوں کی رہنمائی کریں
13. آپ اپنے بچوں کے دل میں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی خواہش کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
13 ایک اچھا چرواہا اپنی لاٹھی سے اپنی بھیڑوں کی رہنمائی اور حفاظت کرتا ہے۔ اُس کا ایک خاص مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بھیڑوں کو ’اچھی چراگاہوں‘ کی طرف لے جائے۔ (حز 34:13، 14) یقیناً آپ بھی اپنے بچوں کی اچھی طرح رہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اُنہیں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی ویسا ہی محسوس کریں جیسا زبور نویس نے محسوس کِیا تھا۔ اُس نے لکھا: ”اَے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔“ (زبور 40:8) جو نوجوان یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتے ہیں، وہ اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کرتے ہیں اور بپتسمہ لیتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ وہ یہ قدم تب اُٹھائیں گے جب وہ سمجھدار ہو گئے ہیں اور سچے دل سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
14، 15. (الف) مسیحی والدین کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ (ب) ایک نوجوان بچے کے دل میں سچائی کے بارے میں شک کیوں پیدا ہو سکتا ہے؟
14 شاید آپ کو لگے کہ آپ کے بچے یہوواہ خدا کے ساتھ گہری دوستی پیدا نہیں کر رہے، یہاں تک کہ وہ ہماری تعلیمات پر شک کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے بچوں کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت کو اَور بڑھانے کی کوشش کریں اور یہ سمجھنے میں اُن کی مدد کریں کہ اُس نے ہمارے لیے کیاکیا کِیا ہے۔ (مکا 4:11) پھر جب اُن کا دل اُن کو ترغیب دے گا تو وہ خدا کی عبادت کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
15 اگر آپ کے بچے سچائی کے بارے میں شک کرتے ہیں تو صبر سے کام لیں اور اُن کی رہنمائی کرنے کی کوشش کریں۔ اُنہیں یہ سمجھائیں کہ یہوواہ خدا کی خدمت سے بہتر اور فائدہمند کچھ اَور نہیں۔ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ اُن کے شک کی اصل وجہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر کیا آپ کا بیٹا واقعی بائبل کی تعلیمات سے متفق نہیں یا پھر کیا اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے سامنے اپنے ایمان کے بارے میں بتانے سے ڈرتا ہے؟ کیا آپ کی بیٹی کو یہ شک ہے کہ خدا کے معیاروں پر عمل کرنے کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں یا پھر اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اُس کا دوست نہیں بنتا اور وہ خود کو تنہا محسوس کرتی ہے؟
16اگر آپ کے بچے کے دل میں سچائی کے بارے میں شک پیدا ہو گیا ہے تو اِسے دُور کرنے میں آپ اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کے خیالات کو جاننے کے لیے اُن سے کچھ سوال پوچھے جیسے کہ ”آپ کے خیال میں ایک مسیحی کے طور پر زندگی گزارنا آسان ہے یا مشکل؟ ایسی زندگی گزرانے کے کیا فائدے ہیں؟ خدا کی خدمت کرنے کے لیے ہمیں کونسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ جو قربانیاں ہم دیتے ہیں، وہ اُن برکتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ہمیں ابھی ملتی ہیں اور آئندہ بھی ملیں گی؟“ آپ کو ایسے سوال نرمی سے اور اپنے الفاظ میں پوچھنے چاہئیں۔ بچوں کو ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ آپ اُن سے پوچھگچھ کر رہے ہیں۔ اُن سے باتچیت کے دوران آپ مرقس 10:29، 30 پر غور کر سکتے ہیں۔ بعض نوجوان شاید اپنے خیالات کا اِظہار لکھ کر کرنا چاہیں اور وہ اِس کے لیے دو فہرستیں بنائیں۔ ایک فہرست میں وہ اُن فائدوں کو لکھیں جو خدا کی خدمت کرنے سے حاصل ہوتے ہیں اور دوسری میں اُن قربانیوں کا ذکر کریں جو خدا کی خدمت میں دینی پڑتی ہیں۔ ایسا کرنے سے شاید آپ اور آپ کے بچے اُن مسائل کو پہچان سکیں جن کا اُنہیں سامنا ہے اور پھر آپ مل کر اُن کا حل تلاش کر سکیں۔ جب لوگ ہمارے پیغام میں دلچسپی لیتے ہیں تو ہم اُنہیں کتاب پاک صحائف کی تعلیم اور خدا کی محبت سے بائبل کا مطالعہ کراتے ہیں۔ لہٰذا کیا ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ اِن کتابوں کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیے؟
16، 17. والدین کن طریقوں سے اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ خدا کے ساتھ اپنا ایک رشتہ قائم کر سکیں؟
17 جب آپ کے بچے بڑے ہوتے ہیں تو اُنہیں خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت کریں گے یا نہیں۔ یہ توقع نہ کریں کہ چونکہ آپ یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں اِس لیے آپ کے بچے بھی ایسا کریں گے۔ بچوں کو یہوواہ خدا کے ساتھ اپنا ایک رشتہ قائم کرنا چاہیے۔ (امثا 3:1، 2) لیکن اگر بچے کو خدا کے ساتھ دوستی کرنا مشکل لگتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اُس کی حوصلہافزائی کریں کہ وہ اپنے ایمان کا جائزہ لینے کے لیے ایسے سوالوں پر غور کرے: ”مَیں یہ یقین کیوں رکھتا ہوں کہ خدا موجود ہے؟ مَیں کیوں مانتا ہوں کہ خدا کے معیار واقعی میرے فائدے کے لیے ہیں؟ مجھے یہ یقین کیوں ہے کہ خدا واقعی میری قدر کرتا ہے؟“ صبر سے اپنے بچوں کی رہنمائی کریں اور یوں ثابت کریں کہ آپ ایک اچھے چرواہے ہیں۔ یہ سمجھنے میں اُن کی مدد کریں کہ یہوواہ خدا کی عبادت کرنا ہی زندگی کی بہترین راہ ہے۔—روم 12:2۔
18. والدین عظیم چرواہے یہوواہ خدا کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
18 ہم عظیم چرواہے یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ (افس 5:1؛ 1-پطر 2:25) خاص طور پر والدین کو اپنے گلّے یعنی اپنے بچوں کا ”حال دریافت کرنے“ کی ضرورت ہے۔ اُنہیں بچوں کی رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ بچے اُن برکات کو حاصل کر سکیں جن کا خدا نے وعدہ کِیا ہے۔ لہٰذا سچائی کی راہ پر چلنے میں اپنے بچوں کی مدد کرتے رہیں اور یوں ثابت کریں کہ آپ واقعی اچھے چرواہے ہیں۔
^ پیراگراف 9 اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی 1 ستمبر 2008ء، صفحہ 30-32 کو دیکھیں۔