مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ اپنی روحانی میراث کی قدر کرتے ہیں؟‏

کیا آپ اپنی روحانی میراث کی قدر کرتے ہیں؟‏

‏”‏ہم نے .‏ .‏ .‏ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ اُن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔‏“‏—‏1-‏کر 2:‏12‏۔‏

1.‏ لوگ اکثر کیا کہتے ہیں؟‏

لوگ اکثر کہتے ہیں:‏ ”‏ایک شخص کو کسی چیز کی قدر اُسی وقت ہوتی ہے جب وہ اُس کے پاس نہیں رہتی۔‏“‏ کیا آپ کو بھی کبھی ایسا محسوس ہوا ہے؟‏ اگر ایک شخص کے پاس بچپن سے کوئی چیز ہے یا اگر وہ ایک امیر گھرانے میں پلا بڑھا ہے تو شاید وہ اُن چیزوں کی اِتنی قدر نہ کرے جو اُس کے پاس ہیں۔‏ یہ رُجحان عموماً نوجوانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔‏ چونکہ اُنہیں زندگی کا زیادہ تجربہ نہیں ہوتا اِس وجہ سے وہ پوری طرح سے نہیں سمجھ پاتے کہ زندگی میں کون سی چیز واقعی اہم ہے۔‏

2،‏ 3.‏ ‏(‏الف)‏ مسیحی نوجوانوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم اپنے دل میں اُن چیزوں کے لیے قدر کیسے بڑھا سکتے ہیں جو یہوواہ خدا نے ہمیں دی ہیں؟‏

2 اگر آپ نوجوان ہیں تو آپ کی نظر میں کیا چیز اہم ہے؟‏ دُنیا کے بہت سے نوجوانوں کی نظر میں بس اچھی تنخواہ،‏ اچھا گھر یا نئے سے نئے موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ ہی سب کچھ ہیں۔‏ لیکن اگر آپ بھی اِنہی چیزوں کو حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں تو آپ ایک اہم چیز کو نظرانداز کر رہے ہوں گے۔‏ یہ یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کا رشتہ ہے۔‏ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاکھوں لوگ اِس بارے میں سوچتے تک نہیں۔‏ اگر آپ کی پرورش یہوواہ کے گواہوں کے گھرانے میں ہوئی ہے تو آپ کو اپنے والدین سے ایک بیش‌قیمت روحانی میراث ملی ہے۔‏ (‏متی 5:‏3‏)‏ اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے دل میں اِس میراث کے لیے قدر کم نہ ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو آپ کو زندگی بھر اِس کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔‏

3 لیکن آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو؟‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ بائبل میں درج چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔‏ اِن سے ہم سمجھ جائیں گے کہ اپنی روحانی میراث کو بیش‌قیمت خیال کرنا سمجھ‌داری کی بات کیوں ہے۔‏ اِن مثالوں پر غور کرنے سے صرف نوجوانوں کے ہی نہیں بلکہ ہم سب کے دل میں اُن چیزوں کے لیے قدر بڑھے گی جو یہوواہ خدا نے ہمیں دی ہیں۔‏

اُنہوں نے روحانی میراث کی قدر نہ کی

4.‏ پہلا سموئیل 8:‏1-‏5 سے سموئیل کے بیٹوں کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

4 بائبل میں کچھ ایسے لوگوں کی مثالیں درج ہیں جنہیں  اپنے والدین سے روحانی میراث ملی لیکن اُنہوں نے اِس کی قدر نہیں کی۔‏ ایسی ہی ایک مثال سموئیل نبی کے بیٹوں کی تھی۔‏ سموئیل نے بچپن سے یہوواہ خدا کی خدمت کی اور آخر تک اُس کے وفادار رہے۔‏ (‏1-‏سمو 12:‏1-‏5‏)‏ اُنہوں نے اپنے بیٹوں یوئیل اور ابیاہ کے لیے بڑی اچھی مثال قائم کی۔‏ لیکن یوئیل اور ابیاہ نے اپنے باپ کے نقشِ‌قدم پر چلنے کی بجائے بہت بُرے کام کیے۔‏ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے باپ کے برعکس وہ ”‏اِنصاف کا خون کر دیتے تھے۔‏“‏‏—‏1-‏سموئیل 8:‏1-‏5 کو پڑھیں۔‏

5،‏ 6.‏ یوسیاہ کے بیٹوں اور پوتے نے کیا کِیا؟‏

5 بادشاہ یوسیاہ کے بیٹوں نے بھی اپنے باپ کی مثال پر  عمل نہیں کِیا۔‏ یوسیاہ یہوواہ خدا سے بہت پیار کرتے تھے اور اُنہوں نے وفاداری سے اُس کی خدمت کی۔‏ جب یہوواہ کے گھر سے  توریت کی کتاب ملی اور اِسے بادشاہ یوسیاہ کے سامنے پڑھ کر سنایا گیا تو اُنہوں نے یہوواہ خدا کی ہدایات پر پوری طرح سے عمل کِیا۔‏ اُنہوں نے ملک سے بُت‌پرستی اور جادوگری کو ختم کروایا اور لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ خدا کے حکموں پر عمل کریں۔‏ (‏2-‏سلا 22:‏8؛‏ 23:‏2،‏ 3،‏ 12-‏15،‏ 24،‏ 25‏)‏ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے لیے واقعی ایک شان‌دار روحانی میراث چھوڑی۔‏ اُن کے بعد اُن کے تین بیٹے اور ایک پوتا بادشاہ بنے۔‏ لیکن اِن میں سے کسی نے بھی اُس روحانی میراث کے لیے قدر نہ دِکھائی جو یوسیاہ نے اُن کے لیے چھوڑی تھی۔‏

6 یوسیاہ کے بعد اُن کا بیٹا یہوآخز اُن کی جگہ بادشاہ بنا۔‏ یہوآخز نے اپنے باپ کی اچھی مثال پر عمل کرنے کی بجائے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نظر میں بدی کی۔‏“‏ اُس نے صرف تین مہینے تک حکومت کی تھی کہ فرعون اُسے قید کرکے لے گیا۔‏ یہوآخز قید میں ہی مر گیا۔‏ (‏2-‏سلا 23:‏31-‏34‏)‏ اُس کے بعد اُس کے بھائی یہویقیم نے 11 سال تک حکومت کی۔‏ اُس نے بھی اپنے باپ سے ملنے والی روحانی میراث کے لیے کوئی قدر نہیں دِکھائی۔‏ یہویقیم کے بُرے کاموں کی وجہ سے یرمیاہ نبی نے اُس کے بارے میں پیش‌گوئی کی کہ ”‏اُس کا دفن گدھے کا سا ہوگا۔‏“‏ (‏یرم 22:‏17-‏19‏)‏ یوسیاہ کا ایک اَور بیٹا صدقیاہ اور پوتا یہویاکین بھی بادشاہ بنے لیکن اِن دونوں نے بھی یوسیاہ کی مثال پر عمل نہیں کِیا۔‏—‏2-‏سلا 24:‏8،‏ 9،‏ 18،‏ 19‏۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ سلیمان کے دل سے اپنی روحانی میراث کے لیے قدر کم کیوں ہو گئی؟‏ (‏ب)‏ جن لوگوں کو اپنے والدین سے روحانی میراث ملی،‏ اُن کے پاس کیا موقع تھا اور ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 بادشاہ سلیمان کو بھی اپنے باپ داؤد سے روحانی میراث  ملی تھی۔‏ شروع شروع میں تو اُنہوں نے اپنے باپ کی سکھائی باتوں پر عمل کِیا لیکن بعد میں اُن کے دل میں اپنی روحانی میراث کے لیے قدر کم ہو گئی۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏جب سلیماؔن بڈھا ہو گیا تو اُس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا اُس کے باپ داؔؤد کا دل تھا۔‏“‏ (‏1-‏سلا 11:‏4‏)‏ اِس وجہ سے سلیمان نے یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو دی۔‏

8 اپنے والدین سے ملنے والی روحانی میراث  کی  وجہ  سے  اِن لوگوں کے پاس یہوواہ خدا کو خوش کرنے اور اچھے کام کرنے کا موقع تھا۔‏ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اِنہوں نے اِس موقعے کو ضائع کر دیا۔‏ بِلاشُبہ قدیم زمانے میں سب نوجوان اِن لوگوں کی طرح نہیں تھے اور نہ ہی آج ہر نوجوان ایسا ہے۔‏ آئیں،‏ اب ایسے نوجوانوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے آج کے نوجوان کے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔‏

روحانی میراث کی قدر کرنے کے سلسلے میں اچھی مثالیں

9.‏ نوح کے بیٹوں نے کون سی شان‌دار مثال قائم کی؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

9 نوح کے بیٹوں نے ہمارے لیے بہت شان‌دار مثال قائم کی۔‏ خدا نے نوح کو کشتی بنانے اور اپنے گھرانے کو اِس میں لے جانے کا حکم دیا۔‏ نوح کے بیٹے یقیناً یہوواہ خدا کا حکم ماننے کی اہمیت سمجھتے تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اپنے باپ کا ساتھ دیا اور کشتی بنانے میں اُس کی مدد کی۔‏ بعد میں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کشتی میں چلے گئے اور بہت سے جانوروں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔‏ (‏پید 7:‏1،‏ 7‏)‏ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ اِس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اِنسانوں کی جان بچ گئی اور ’‏زمین پر جانوروں کی نسل بھی باقی رہی۔‏‘‏ (‏پید 7:‏3‏)‏ چونکہ نوح کے بیٹوں نے اپنے باپ سے ملی روحانی میراث کی قدر کی اِس لیے اُنہیں اِنسانی نسل کو بچانے اور زمین پر نئے سرے سے یہوواہ خدا کی عبادت شروع کرنے کا اعزاز ملا۔‏—‏پید 8:‏20؛‏ 9:‏18،‏ 19‏۔‏

10.‏ چار عبرانی نوجوانوں نے اپنی روحانی میراث کے لیے قدر کیسے دِکھائی؟‏

10 اِس کے صدیوں بعد چار عبرانی نوجوانوں نے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے سیکھا ہے کہ زندگی میں کون سی باتیں سب سے اہم ہیں۔‏ یہ حننیاہ،‏ میساایل،‏ عزریاہ اور دانی‌ایل تھے جنہیں 617 قبل‌ازمسیح میں اسیر کرکے بابل لے جایا گیا۔‏ وہ بہت خوب‌صورت اور ذہین نوجوان تھے اور اگر وہ چاہتے تو بڑی آسانی سے بابلیوں کے رنگ میں رنگ سکتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔‏ اُن کے کاموں سے ظاہر ہوا کہ وہ اپنی روحانی میراث یعنی اپنے ماں باپ کی سکھائی باتوں کو کبھی نہیں بھولے۔‏ اِن نوجوانوں نے بچپن میں یہوواہ خدا کے بارے میں جو باتیں سیکھی تھیں،‏ اُن پر عمل کرنے سے اِن کو بہت برکتیں ملیں۔‏‏—‏دانی‌ایل 1:‏8،‏ 11-‏15،‏ 20 کو پڑھیں۔‏

11.‏ یسوع مسیح نے لوگوں کو اپنی روحانی میراث سے کیسے فائدہ پہنچایا؟‏

11 اپنی روحانی میراث کی قدر کرنے کے  سلسلے  میں  خدا  کے بیٹے یسوع مسیح نے سب سے عمدہ مثال قائم کی۔‏ اُنہوں  نے اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھا اور دل سے اِس کی قدر کی۔‏ اِس کا اندازہ اُن کے اِن الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے:‏ ”‏جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اُسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔‏“‏ (‏یوح 8:‏28‏)‏ یسوع مسیح کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنی روحانی میراث سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔‏ اُنہوں نے لوگوں کو بتایا:‏ ”‏مجھے اَور شہروں میں بھی خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنانا ضرور ہے کیونکہ مَیں اِسی لئے  بھیجا گیا ہوں۔‏“‏ (‏لو 4:‏18،‏ 43‏)‏ چونکہ یہ دُنیا روحانی باتوں کے  لیے  کوئی قدر نہیں دِکھاتی اِس لیے یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں  کو  سکھایا کہ اُنہیں ’‏دُنیا کے نہیں ہونا‘‏ چاہیے۔‏—‏یوح 15:‏19‏۔‏

اپنی روحانی میراث کی قدر کریں

12.‏ ‏(‏الف)‏ آج‌کل بہت سے نوجوانوں پر 2-‏تیمُتھیُس 3:‏14-‏17 میں درج بات کیسے لاگو ہوتی ہے؟‏ (‏ب)‏ نوجوانوں کو کن سوالوں پر غور کرنا چاہیے؟‏

12 کیا آپ کی پرورش بھی ایسے والدین نے کی ہے  جو یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو جو باتیں تیمُتھیُس کے بارے میں بائبل میں لکھی ہیں،‏ شاید وہ آپ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‏ ‏(‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏14-‏17 کو پڑھیں۔‏)‏ آپ نے اپنے والدین سے ’‏سیکھا ہے‘‏ کہ سچا خدا کون ہے اور اُسے کیسے خوش کِیا جا سکتا ہے۔‏ شاید آپ کے والدین نے آپ کو بچپن سے یہ باتیں سکھائی ہیں۔‏ اِس وجہ سے آپ کو ”‏مسیح یسوؔع پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی“‏ اور خدا کی خدمت کے لیے ”‏بالکل تیار“‏ ہونے میں مدد ملی ہے۔‏ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنی روحانی میراث کے لیے قدر ظاہر کریں گے؟‏ یہ جاننے کے لیے شاید آپ کو اپنا جائزہ لینا پڑے۔‏ اِس کے لیے آپ خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں اِس بات پر غور کرتا ہوں کہ میرا شمار خدا کے وفادار بندوں کی فہرست میں ہے تو مجھے کیسا لگتا ہے؟‏ مجھے یہ سوچ کر کیسا محسوس ہوتا ہے کہ مَیں اُن چند لوگوں میں شامل ہوں جنہیں خدا اپنا دوست خیال کرتا ہے؟‏ کیا مَیں اِس بات کو سمجھتا ہوں کہ سچائی کو جاننا کتنا بڑا شرف ہے؟‏“‏

جب آپ غور کرتے ہیں کہ آپ کا شمار خدا کے وفادار بندوں کی فہرست میں ہے تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟‏ (‏پیراگراف 9،‏ 10 اور 12 کو دیکھیں۔‏)‏

13،‏ 14.‏ ‏(‏الف)‏ بعض نوجوان کیا کرنا چاہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ایسا کرنا دانش‌مندی کی بات کیوں نہیں ہے؟‏ مثال دیں۔‏

13 شاید کچھ ایسے نوجوان جن کی پرورش سچائی میں ہوئی  ہے،‏ یہ نہ سمجھ پائیں کہ شیطان کی تاریک دُنیا اور ہمارے روحانی فردوس میں کتنا بڑا فرق ہے۔‏ کچھ نوجوان تو یہ تجربہ تک کرنا چاہتے ہیں کہ دُنیا میں زندگی گزارنا کیسا ہوتا ہے۔‏ لیکن ذرا سوچیں:‏ کیا آپ جان بُوجھ کر ایک چلتی گاڑی کے آگے آئیں گے تاکہ آپ جان سکیں کہ اِس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اِسی طرح ہمیں اِس وجہ سے دُنیا کی ”‏سخت بدچلنی“‏ میں نہیں پڑنا چاہیے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ اِس سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔‏—‏1-‏پطر 4:‏4‏۔‏

14 جنر نامی بھائی ایشیا میں رہتے ہیں اور اُن کی پرورش  یہوواہ کے گواہوں کے گھرانے میں ہوئی۔‏ اُنہوں نے 12 سال کی عمر میں بپتسمہ لیا۔‏ نوجوانی میں اُن کو دُنیا کے رنگ ڈھنگ بہت پُرکشش لگتے تھے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں اُس آزادی کا تجربہ کرنا چاہتا تھا جس کے خواب یہ دُنیا دِکھاتی ہے۔‏“‏ جنر نے  دوہری زندگی گزارنا شروع کر دی۔‏ 15 سال کی عمر میں اُنہوں نے اپنے بُرے دوستوں جیسے طورطریقے اپنا لیے۔‏ وہ اُن کی طرح شراب پینے اور گالی گلوچ کرنے لگے۔‏ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بلیرڈ اور پُرتشدد ویڈیو گیمز کھیلنے کے بعد اکثر رات کو دیر سے گھر آنے لگے۔‏ لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں احساس ہوا کہ دُنیا کی چکاچوند سے اُنہیں سچی خوشی نہیں مل رہی اور اُن کی زندگی بالکل خالی ہے۔‏ اب جنر کلیسیا میں واپس لوٹ آئے ہیں۔‏ لیکن ابھی بھی اُنہیں کبھی کبھار دُنیا کی بہت سی چیزوں کی طرف کشش محسوس ہوتی ہے۔‏ لیکن اُن کی نظر میں یہوواہ خدا کے ساتھ دوستی برقرار رکھنا سب سے اہم ہے۔‏

15.‏ ایسے نوجوان جن کی پرورش سچائی میں نہیں ہوئی،‏ اُنہیں بھی کس بات پر غور کرنا چاہیے؟‏

15 بِلاشُبہ کلیسیا میں ایسے نوجوان بھی ہیں جن کی پرورش سچائی میں نہیں ہوئی۔‏ اگر آپ بھی اِن میں سے ایک ہیں تو ذرا سوچیں کہ آپ کو کتنا بڑا شرف ملا ہے کہ آپ خالق کو جانیں اور اُس کی خدمت کریں۔‏ دُنیا میں اربوں لوگ ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے اِن میں سے آپ کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور آپ پر بائبل کی سچائیاں آشکارا کی ہیں۔‏ (‏یوح 6:‏44،‏ 45‏)‏ آج دُنیا میں 1000 لوگوں میں سے صرف 1 شخص یہوواہ خدا کے بارے میں سچائی جانتا ہے۔‏ اور آپ اُن میں سے ایک ہیں۔‏ کیا یہ بات سوچ کر آپ کا دل خوشی سے نہیں بھر جاتا،‏ پھر چاہے آپ نے سچائی کیسے بھی سیکھی ہو؟‏ ‏(‏1-‏کرنتھیوں 2:‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ جنر کہتے ہیں:‏ ”‏یہ سوچ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کائنات کے خالق نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا ہے حالانکہ مَیں اُس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔‏“‏ (‏زبور 8:‏4‏)‏ جنر کے علاقے میں رہنے والی ایک بہن کہتی ہے:‏ ‏”‏طالبِ‌علموں کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ فلاں ٹیچر اُنہیں جانتا ہے۔‏ ہمارے لیے تو یہ اِس سے بھی بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہمارا عظیم مُعلم یہوواہ ہمیں جانتا ہے۔‏“‏

آپ کیا کریں گے؟‏

16.‏ مسیحی نوجوانوں کو کون سا فیصلہ کرنا چاہیے؟‏

16 ذرا سوچیں کہ آپ کو کتنی شان‌دار روحانی میراث ملی ہے۔‏ لہٰذا کیوں نہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا عزم کِیا ہوا ہے؟‏ اِس طرح آپ کا شمار بھی خدا کے وفادار بندوں کی فہرست میں ہو سکتا ہے۔‏ ایسے نوجوانوں کی طرح نہ بنیں جو بِلاسوچے سمجھے ایک ایسی دُنیا کے ساتھ چل رہے ہیں جو تباہی کے راستے کی طرف بڑھ رہی ہے۔‏—‏2-‏کر 4:‏3،‏ 4‏۔‏

17-‏19.‏ دُنیا سے الگ رہنا سمجھ‌داری کی بات کیوں ہے؟‏

17 بِلاشُبہ دُنیا سے الگ رہنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہی سمجھ‌داری کی بات ہے۔‏ اِس سلسلے میں ذرا ایک ایسے کھلاڑی کی مثال پر غور کریں جسے اولمپکس میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔‏ اِس مقام تک پہنچنے کے لیے اُسے بِلاشُبہ اپنے دوستوں سے الگ رہنا پڑا ہوگا۔‏ یقیناً اُس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بہت سے ایسے کام کرنا چھوڑ دیے ہوں گے جن سے اُس کا وقت ضائع ہو سکتا تھا اور اُس کی توجہ کھیل کی مشق کرنے سے ہٹ سکتی تھی۔‏ لیکن چونکہ وہ اپنے دوستوں سے الگ رہنے کو تیار تھا اِس لیے اُسے مشق کرنے کا زیادہ وقت ملا اور پھر اولمپکس میں کھیلنے کا موقع ملا۔‏

18 دُنیا میں بہت سے لوگ بس وقتی  خوشی  حاصل  کرنا  چاہتے ہیں۔‏ اِس لیے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اُن کے کاموں سے کون سے بُرے نتائج نکل سکتے ہیں۔‏ لیکن خدا کے بندوں کے طور پر ہم ایسا نہیں کرتے۔‏ ہم دُور کی سوچتے ہیں۔‏ ہم ”‏حقیقی زندگی پر قبضہ“‏ کرنا چاہتے ہیں اِس لیے ہم دُنیا سے الگ رہتے ہیں،‏ بدکاری میں نہیں پڑتے اور ایسے کام نہیں کرتے جو ہمیں یہوواہ خدا سے دُور لے جا سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏تیم 6:‏19‏)‏ جس بہن کا پہلے ذکر ہوا ہے،‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏اگر آپ اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں تو دن کے آخر پر آپ کو بہت اِطمینان اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔‏ اِس سے آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ آپ میں شیطان کی دُنیا کے خلاف جانے کی ہمت ہے۔‏ سب سے بڑھ کر آپ کو یوں لگتا ہے جیسے یہوواہ خدا آپ کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور اُسے آپ پر ناز ہے۔‏ اُس وقت آپ کو دُنیا سے فرق ہونے کی ایک الگ ہی خوشی محسوس ہوتی ہے۔‏“‏

19 اُس شخص کی زندگی بالکل بےکار ہے جو صرف اِس بات پر اپنی توجہ رکھتا ہے کہ وہ ابھی اِس دُنیا میں کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے۔‏ (‏واعظ 9:‏2،‏ 10‏)‏ اگر آپ نوجوان ہیں اور ایک بامقصد زندگی گزارنا اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کیا یہ سمجھ‌داری کی بات نہیں ہوگی کہ آپ ’‏غیرقوموں کے بےہودہ خیالات کے مطابق نہ چلیں‘‏؟‏—‏افس 4:‏17؛‏ ملا 3:‏18‏۔‏

20،‏ 21.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم اچھے فیصلے کریں گے تو ہم کن لوگوں میں شامل ہو سکیں گے؟‏ (‏ب)‏ خدا کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

20 اگر ہم اچھے فیصلے کریں گے تو ہم نہ صرف ابھی  مطمئن زندگی گزار سکیں گے بلکہ ہم ایسے لوگوں میں بھی شامل ہو سکیں گے جو ”‏زمین کے وارث ہوں گے“‏ اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏ مستقبل میں خدا ہمیں اِتنی زیادہ برکتیں دے گا کہ ہم اُن کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏ (‏متی 5:‏5؛‏ 19:‏29؛‏ 25:‏34‏)‏ بےشک ہمیں بیٹھے بٹھائے خدا کی طرف سے یہ برکتیں نہیں مل جائیں گی۔‏ اِن کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا۔‏ ‏(‏1-‏یوحنا 5:‏3،‏ 4 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم ابھی وفاداری سے خدا کی خدمت کریں گے تو ہمیں اِس کا فائدہ ضرور ہوگا۔‏

21 یہوواہ خدا نے ابھی بھی ہمیں بہت سی برکتیں  دی  ہیں۔‏ ہمیں اُس کے کلام کا درست علم حاصل ہے اور ہم خدا اور اُس کے مقصد کے بارے میں سچائی جانتے ہیں۔‏ ہمیں اُس کے نام سے کہلانے اور اُس کے گواہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔‏ اِس کے علاوہ خدا نے ہم سے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ہماری طرف ہے۔‏ (‏زبور 118:‏7‏)‏ چاہے ہم جوان ہیں یا بوڑھے،‏ آئیں،‏ ہم سب ظاہر کریں کہ ہم اپنی روحانی میراث کی قدر کرتے ہیں اور ”‏[‏یہوواہ]‏ کی تمجید ابد تک“‏ کرنا چاہتے ہیں۔‏—‏روم 11:‏33-‏36؛‏ زبور 33:‏12‏۔‏