کیا آپ کو اپنا فیصلہ بدلنا چاہیے؟
تصور کریں کہ کچھ نوجوان یہوواہ کے گواہوں نے سنیما جا کر فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اُن کے بہت سے ہمجماعتوں نے اِس فلم کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ مگر سنیما جا کر وہ دیکھتے ہیں کہ اِس فلم کے پوسٹر پر بہت سے ہتھیار بنے ہوئے ہیں اور عورتوں نے بےہودہ لباس پہنا ہوا ہے۔ اب یہ نوجوان کیا فیصلہ کریں گے؟ کیا وہ یہ فلم دیکھیں گے؟
اِس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اکثر ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جن سے یہوواہ خدا کے ساتھ ہمارا رشتہ یا تو مضبوط ہو سکتا ہے یا پھر کمزور پڑ سکتا ہے۔ کبھی کبھار ہم ایک فیصلہ کرتے ہیں مگر پھر کچھ سوچ بچار کے بعد ہم اِسے بدل لیتے ہیں۔ لیکن کیا اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہتے؟ یا کیا کبھی کبھار صورتحال کے مطابق اپنا فیصلہ بدل لینا اچھی بات ہے؟
فیصلہ بدلنا کب ٹھیک نہیں؟
یہوواہ خدا سے محبت کی بِنا پر ہم نے اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کی تھی اور بپتسمہ لیا تھا۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہیں۔ لیکن ہمارے دُشمن شیطان نے ہمیں راستی کی راہ سے ہٹانے کا پکا عزم کِیا ہوا ہے۔ (مکا 12:17) ذرا سوچیں کہ اگر ہم یہوواہ خدا کی خدمت کرنے اور اُس کے حکموں پر عمل کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہتے تو یہ کتنے دُکھ کی بات ہوگی۔ اِس سے ہماری جان بھی جا سکتی ہے۔
تقریباً 2600 سال پہلے شہر بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے سونے کی ایک بہت بڑی مورت بنوائی۔ اُنہوں نے حکم دیا کہ سب لوگ اِسے سجدہ کریں اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اُسے آگ کی بھٹی میں ڈال دیا جائے۔ خدا کے تین بندوں سدرک، میسک اور عبدنجو نے بادشاہ کا یہ حکم نہیں مانا۔ چونکہ اُنہوں نے مورت کو سجدہ نہیں کِیا اِس لیے اُنہیں آگ کی بھٹی میں ڈال دیا گیا۔ اگرچہ یہوواہ خدا نے اُنہیں بچا لیا لیکن اِن نوجوانوں نے ثابت کِیا کہ وہ یہوواہ خدا کی خاطر اپنی جان تک دینے کو تیار ہیں۔ وہ اپنے اِس فیصلے پر قائم رہے کہ وہ صرف یہوواہ خدا کی ہی عبادت کریں گے۔—دان 3:1-27۔
ذرا دانیایل نبی کی مثال پر بھی غور کریں۔ وہ جانتے تھے کہ اگر لوگ دان 6:1-27۔
اُنہیں خدا سے دُعا کرتے ہوئے دیکھیں گے تو اُنہیں شیروں کی ماند میں ڈال دیا جائے گا۔ لیکن وہ پھر بھی اپنے معمول کے مطابق دن میں تین بار یہوواہ خدا سے دُعا کرتے رہے۔ دانیایل نے سچے خدا کی عبادت کرتے رہنے کا فیصلہ نہیں بدلا۔ اِس لیے یہوواہ خدا نے اُنہیں ”شیروں کے پنجوں سے چھڑایا۔“—آج بھی خدا کے بندے اپنے اِس فیصلے پر قائم رہتے ہیں کہ وہ صرف یہوواہ خدا کی عبادت کریں گے۔ مثال کے طور پر افریقہ کے ایک سکول میں کچھ نوجوان یہوواہ کے گواہوں نے اُس تقریب میں حصہ لینے سے اِنکار کر دیا جس میں اُنہیں ایک قومی نشان کو سلوٹ کرنا تھا۔ اُنہیں دھمکی دی گئی کہ اگر اُنہوں نے اِس تقریب میں حصہ نہ لیا تو اُن کا نام سکول سے کاٹ دیا جائے گا۔ اِس کے کچھ دیر بعد جب وزیرِتعلیم نے اِس علاقے کا دورہ کِیا تو اُس نے اِن گواہوں سے بات کی۔ اِن بچوں نے وزیر کو بڑے ادب سے لیکن نڈر ہو کر بتایا کہ وہ اِس تقریب میں حصہ کیوں نہیں لیں گے۔ اِس کے بعد سے اُنہیں کبھی اِس طرح کی تقریب میں حصہ لینے کے لیے مجبور نہیں کِیا گیا۔ اب اُنہیں کسی ایسے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس کی وجہ سے اُنہیں یہوواہ خدا کا حکم توڑنا پڑے۔
ذرا جوزف کی مثال پر غور کریں جن کی بیوی کینسر کی وجہ سے اچانک فوت ہو گئی۔ جب جنازے کی بات آئی تو جوزف کے گھر والوں نے جنازے کی رسموں کے حوالے سے اُن کے فیصلوں کا احترام کِیا۔ لیکن چونکہ اُن کے سُسرال والے سچائی میں نہیں تھے اِس لیے وہ کچھ ایسی رسمیں کرنا چاہتے تھے جو خدا کو پسند نہیں۔ جوزف کہتے ہیں: ”جب مَیں اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا تو اُنہوں نے میرے بچوں کو اپنی باتوں میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن بچے بھی اُن کی باتوں میں نہ آئے۔ رشتےداروں نے روایت کے مطابق میرے گھر پر میری بیوی کے لیے دُعا نماز کا بندوبست کرنے کی بھی کوشش کی۔ مگر مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر وہ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو وہ اِسے کہیں اَور کرائیں، میرے گھر پر نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ایسی دُعا نماز نہ تو میرے اور نہ ہی میری بیوی کے عقیدوں کے مطابق ہے پھر بھی اُنہوں نے مجھ سے بہت لمبی بحث کی۔ لیکن آخرکار اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ اِسے کسی اَور جگہ کرائیں گے۔
دُکھ کی اِس گھڑی میں مَیں نے یہوواہ خدا سے مدد کے لیے اِلتجائیں کیں تاکہ مَیں اور میرے بچے اُس کے حکم نہ توڑیں۔ اُس نے ہماری دُعائیں سنیں جس کی وجہ سے ہم رشتےداروں کے دباؤ کے باوجود ثابتقدم رہے۔“ جوزف اور اُن کے بچے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ وہ یہوواہ خدا کے حکموں کو توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
فیصلہ بدلنا کب ٹھیک ہے؟
سن 32ء میں ایک غیراِسرائیلی عورت صیدا کے علاقے میں یسوع مسیح کے پاس آئی۔ اُس نے باربار یسوع مسیح سے اِلتجا کی کہ وہ اُس کی بیٹی سے بدروح کو نکال دیں۔ پہلے تو یسوع مسیح نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”مَیں اِؔسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اَور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔“ جب عورت اِس کے بعد بھی یسوع مسیح سے مدد مانگتی رہی تو یسوع مسیح نے اُس سے کہا: ”لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں۔“ لیکن اِس عورت کا ایمان بہت مضبوط تھا۔ اُس نے کہا: ”ہاں خداوند کیونکہ کتّے بھی اُن ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گِرتے ہیں۔“ اِس عورت کا ایمان دیکھ کر یسوع مسیح نے اُس کی بیٹی کو ٹھیک کر دیا۔—متی 15:21-28۔
ایسا کرنے سے یسوع مسیح نے یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کِیا جو صورتحال کے مطابق اپنا فیصلہ بدلنے کو تیار رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جب اِسرائیلیوں نے سونے کا بچھڑا بنا کر اُس کی پوجا کی تو خدا نے اُنہیں مار ڈالنے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن موسیٰ کی درخواست پر اُس نے اپنے فیصلے کو بدلنے کے بارے میں سوچا۔—خر 32:7-14۔
پولُس رسول نے بھی یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کِیا۔ ایک وقت تھا جب پولُس، یوحنا مرقس کو اپنے ساتھ کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے لیے نہیں لے جانا چاہتے تھے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ پچھلی بار مرقس اُنہیں اور برنباس کو دورے کے بیچ میں اچانک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ لیکن بعد میں پولُس نے دیکھا کہ اب مرقس اپنی ذمےداریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اُن کے بہت کام آ سکتے ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے تیمُتھیُس سے کہا: ”مرؔقس کو ساتھ لے کر آ جا کیونکہ خدمت کے لئے وہ میرے کام کا ہے۔“—2-تیم 4:11۔
ہمیں بھی اپنے رحمدل، صابر اور شفیق آسمانی باپ کی طرح صورتحال کے مطابق اپنے فیصلوں کو بدلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کبھی کبھار
شاید ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا پڑے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ ہمیں کسی شخص کے بارے میں اپنی سوچ بدلنی پڑے۔ ذرا سوچیں کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح بےعیب ہیں لیکن پھر بھی وہ صورتحال کے مطابق اپنے فیصلوں کو بدلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی دوسروں کی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُن کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔خدا کی خدمت کے حوالے سے اپنی سوچ کو بدلنا اچھا ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگ جو ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں اور اِجلاسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں، شاید وہ بپتسمہ لینے کی بات کو ٹالتے رہیں۔ یا کچھ بہن بھائیوں کے حالات اُنہیں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کی اِجازت تو دیتے ہیں لیکن شاید وہ پھر بھی ایسا کرنے سے ہچکچائیں۔ یا شاید کچھ بھائی کلیسیا میں ذمےداریاں اُٹھانا نہ چاہیں۔ (1-تیم 3:1) کیا آپ کا شمار بھی اِن میں سے کسی میں ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپ یہ اعزاز حاصل کریں۔ اِس لیے کیوں نہ اپنی سوچ کو بدلیں اور یہوواہ خدا اور دوسروں کی خدمت کرنے سے خوشی حاصل کریں؟
ایلا افریقہ میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ کے دفتر میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”جب مَیں بیتایل میں آئی تھی تو شروع شروع میں مَیں نے سوچا کہ مَیں زیادہ دیر یہاں نہیں رہوں گی۔ میری خواہش تھی کہ مَیں پورے دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کروں لیکن اپنے گھر والوں کے بغیر رہنا بھی مجھے بہت مشکل لگتا تھا کیونکہ مَیں اُن کے بہت قریب تھی۔ شروع شروع میں مجھے اُن کی بہت یاد آتی تھی۔ لیکن جو بہن میرے ساتھ کمرے میں رہتی تھی، اُس نے میری بڑی حوصلہافزائی کی۔ اِس لیے مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں بیتایل میں خدمت کرتی رہوں گی۔ اب مجھے بیتایل میں خدمت کرتے دس سال ہو گئے ہیں اور مَیں چاہتی ہوں کہ جب تک ممکن ہے، مَیں بیتایل میں رہ کر اپنے بہن بھائیوں کی خدمت کرتی رہوں۔“
فیصلہ بدلنا کب ضروری ہے؟
کیا آپ کو یاد ہے کہ جب قائن اپنے بھائی سے حسد کرنے لگا اور شدید غصے میں آ گیا تو کیا ہوا؟ خدا نے اِس غصیلے اِنسان سے کہا کہ اگر وہ اچھے کام کرے گا تو اُسے بھی خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ خدا نے قائن کو نصیحت کی کہ وہ گُناہ پر غالب آئے جو کہ ”دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے۔“ قائن چاہتا تو اپنا رویہ اور اپنی سوچ بدل سکتا تھا لیکن اُس نے خدا کی بات پر کان نہیں لگایا۔ اِس کے نتیجے میں اُس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا اور اِنسانی تاریخ میں پہلا قاتل بن گیا۔—پید 4:2-8۔
ذرا بادشاہ عُزیاہ کی مثال پر بھی غور کریں۔ شروع شروع میں اُنہوں نے وہی کام کیے جو خدا کی نظر میں اچھے تھے اور خدا کے طالب رہے۔ لیکن پھر اُن میں غرور آ گیا۔ اُنہوں نے ہیکل میں جا کر خدا کے حضور بخور جلایا جو کہ صرف ایک کاہن کر سکتا تھا۔ جب کاہنوں نے اُنہیں ایسا کرنے سے منع کِیا تو کیا اُنہوں نے اپنی سوچ بدلی؟ نہیں۔ وہ بہت غصے میں آ گئے اور کاہنوں کی بات نہیں سنی۔ اِس کے نتیجے میں یہوواہ خدا نے اُنہیں کوڑھ کی بیماری لگا دی۔—2-توا 26:3-5، 16-20۔
بِلاشُبہ بعض صورتحال میں ہمیں اپنی سوچ کو ضرور بدلنا چاہیے۔ اِس سلسلے میں یواخیم کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے 1955ء میں بپتسمہ لیا لیکن 1978ء میں اُنہیں کلیسیا سے خارج کر دیا گیا۔ مگر 20 سال بعد اُنہوں نے توبہ کی اور اُنہیں کلیسیا میں بحال کر دیا گیا۔ حال ہی میں ایک بزرگ نے اُن سے پوچھا کہ اُنہوں نے کلیسیا میں واپس آنے میں اِتنی دیر کیوں لگائی۔ یواخیم نے کہا: ”اِس لیے کہ مَیں بہت مغرور تھا اور بہت غصے میں تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ مَیں نے واپس آنے میں اِتنی دیر لگا دی۔ لیکن جب مَیں خارج تھا تو تب بھی مَیں مانتا تھا کہ یہوواہ کے گواہ ہی سچی تعلیم دیتے ہیں۔“ یواخیم کو اپنی سوچ بدلنے اور توبہ کرنے کی ضرورت تھی۔
شاید ہمیں بھی کسی ایسی صورتحال کا سامنا ہو جس میں ہمیں اپنے فیصلوں اور سوچ کو بدلنا پڑے۔ آئیں، ہم یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنے کو تیار رہیں۔—زبور 34:8۔