کیا آپ ’کتابِمُقدس کو سمجھتے‘ ہیں؟
”اُس نے اُن کا ذہن کھولا تاکہ کتابِمُقدس کو سمجھیں۔“—لو 24:45۔
1، 2. یسوع مسیح نے زندہ ہونے کے بعد اپنے شاگردوں کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟
یہ اُس دن کی بات ہے جب یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہو گئے تھے۔ اُن کے دو شاگرد ایک گاؤں جا رہے تھے جو یروشلیم سے تقریباً 11 کلومیٹر (تقریباً 7 میل) دُور تھا۔ وہ یسوع مسیح کی موت سے بہت دُکھی تھے اور نہیں جانتے تھے کہ یسوع مسیح زندہ ہو گئے ہیں۔ پھر اچانک ایک آدمی اُن کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ یہ یسوع مسیح تھے۔ اُنہوں نے اِن شاگردوں کا حوصلہ بڑھایا۔ اُنہوں نے یہ کیسے کِیا؟ یسوع مسیح نے ’موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کرکے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اُن کے حق میں لکھی ہوئی تھیں، شاگردوں کو سمجھا دیں۔‘ (لو 24:13-15، 27) اِس پر اِن شاگردوں کے دل جوش سے بھر گئے کیونکہ یسوع مسیح نے اُن پر ’نوشتوں کا بھید کھولا تھا‘ یعنی اُنہیں صحیفوں میں لکھی باتیں سمجھائی تھیں۔—لو 24:32۔
2 اُسی شام یہ دونوں شاگرد یروشلیم واپس گئے۔ وہاں اُنہوں نے رسولوں کو ساری بات بتائی۔ جب وہ بات کر رہے تھے تو یسوع مسیح اُن سب کو نظر آئے۔ یہ دیکھ کر رسول بہت ڈر گئے اور اُن کے دل میں شک پیدا ہوا کہ آیا یہ واقعی یسوع مسیح ہیں۔ یسوع مسیح نے اُن کا ایمان کیسے مضبوط کِیا؟ بائبل میں لکھا ہے: ”اُس نے اُن کا ذہن کھولا تاکہ کتابِمُقدس کو سمجھیں۔“—لو 24:45۔
3. ہمیں کن مشکلوں کا سامنا ہو سکتا ہے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ مُنادی کے کام میں ہماری خوشی برقرار رہے؟
3 یسوع مسیح کے شاگردوں کی طرح شاید ہم بھی کبھی کبھار بےحوصلہ ہو جائیں۔ شاید ہم بڑی محنت سے مُنادی کا کام کرتے ہیں لیکن جب اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔ (1-کر 15:58) یا شاید جن لوگوں کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ اِتنی ترقی نہیں کر رہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے کچھ نے یہوواہ خدا سے مُنہ موڑ لیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ مُنادی کے کام میں ہماری خوشی برقرار رہے؟ ہم یسوع مسیح کی تمثیلوں کا مطلب اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ آئیں، یسوع مسیح کی تین تمثیلوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اِن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
بیج بو کر سو جانے والے آدمی کی تمثیل
4. بیج بو کر سو جانے والے آدمی کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟
4 مرقس 4:26-29 کو پڑھیں۔ بیج بو کر سو جانے والے آدمی کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ اِس تمثیل میں بیج بونے والا آدمی بادشاہت کی مُنادی کرنے والے ہر مبشر کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ بیج بادشاہت کے پیغام کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو خلوص دل لوگوں کو سنایا جاتا ہے۔ عام آدمی کے معمول کی طرح بیج بونے والا آدمی بھی ”ہر رات سوتا ہے اور ہر دن اُٹھتا ہے۔“ بیج بونے سے لے کر فصل کی کٹائی تک ایک عرصہ لگتا ہے۔ اِس عرصے کے دوران ’بیج اُگتا اور بڑھتا ہے۔‘ یہ نشوونما ”آپ سے آپ“ یعنی خودبخود، آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار ہوتی ہے۔ اِسی طرح ایک شخص بھی روحانی طور پر آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار ترقی کرتا ہے۔ جب اُس کے دل میں خدا کے لیے محبت اِس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اُس کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کرتا اور بپتسمہ لیتا ہے۔ یوں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پھل لایا ہے۔
5. یسوع مسیح نے بیج بو کر سو جانے والے آدمی کی تمثیل کیوں دی؟
5 یسوع مسیح نے یہ تمثیل کیوں دی؟ اِس تمثیل کے ذریعے یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ یہوواہ خدا ہی اُن لوگوں کے دل میں سچائی کا بیج بڑھاتا ہے جو ”ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر چلنے کی طرف مائل“ ہیں۔ (اعما 13:48، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن؛ 1-کر 3:7) ہم بیج بوتے اور پانی دیتے ہیں لیکن بڑھانا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہم نہ تو اِسے زبردستی بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی بڑھنے کے عمل کو تیز کر سکتے ہیں۔ اِس تمثیل میں بیج بونے والے کی طرح ہم بھی نہیں جانتے کہ بیج کیسے بڑھتا ہے۔ روزمرہ معمول کی وجہ سے اکثر ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ایک شخص کے دل میں سچائی کا بیج بڑھ رہا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہو سکتا ہے کہ یہ بیج پھل لے آئے اور یسوع مسیح کا ایک نیا شاگرد ہمارے ساتھ مل کر کٹائی کے کام میں حصہ لے۔—یوح 4:36-38۔
6. ایک شخص کے روحانی طور پر بڑھنے کے سلسلے میں ہمیں کیا بات یاد رکھنی چاہیے؟
6 ہم اِس تمثیل سے کیا سیکھتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ کہ جس شخص کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں، اُس کا روحانی طور پر بڑھنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جب ہم اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہوواہ خدا ہی ایک شخص کے دل میں سچائی کا بیج بڑھاتا ہے تو ہم اُس شخص پر بپتسمہ لینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ جہاں تک ہمارے لیے ممکن ہے ہم اُس شخص کی مدد کر سکتے ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اُس کا فیصلہ ہے کہ وہ یہوواہ خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کرے گا یا نہیں۔ ایک شخص کو یہوواہ خدا سے محبت کی بِنا پر ہی یہ قدم اُٹھانا چاہیے ورنہ یہوواہ خدا اِس سے خوش نہیں ہوگا۔—زبور 51:12؛ 54:6؛ 110:3۔
7، 8. (الف) بیج بو کر سو جانے والے آدمی کی تمثیل سے ہم اَور کیا سیکھ سکتے ہیں؟ مثال دیں۔ (ب) اِس تمثیل سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
7 دوسری بات جو ہم اِس تمثیل سے سیکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر ہمیں مُنادی کے کام سے فوراً کوئی اچھا نتیجہ نہیں ملتا تو ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔ (یعقو 5:7، 8) جس شخص کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں، اگر ہماری پوری کوشش کے باوجود بھی وہ پھل نہیں لاتا تو ہمیں بےحوصلہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے اچھی طرح سے اپنی ذمےداری نہیں نبھائی۔ یہوواہ خدا صرف اُن لوگوں کے دل میں سچائی کا بیج بڑھاتا ہے جو خود کو بدلنے کو تیار ہیں۔ (متی 13:23) لہٰذا ہمیں مُنادی کے کام میں اپنی کامیابی کا اندازہ اِس بات سے نہیں لگانا چاہیے کہ ہمیں اِس سے کیا نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ یہوواہ خدا کی نظر میں ہماری کامیابی کا اِنحصار اِس بات پر نہیں کہ لوگ ہمارے پیغام کے لیے کتنا اچھا ردِعمل دِکھا رہے ہیں۔ وہ تو اِس بات کی قدر کرتا ہے کہ ہم کتنی محنت سے بیج بونے کا کام کر رہے ہیں۔—لوقا 10:17-20؛ 1-کرنتھیوں 3:8 کو پڑھیں۔
8 ہم اِس تمثیل سے تیسری بات یہ سیکھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ ایک شخص کے دل میں کیا تبدیلی ہو رہی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک میاں بیوی کی مثال پر غور کریں جو ایک مشنری سے بائبل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک دن اُنہوں نے اِس مشنری سے کہا کہ وہ غیربپتسمہیافتہ مبشر بننا چاہتے ہیں۔ اِس مشنری نے اُنہیں یاد دِلایا کہ اِس کے لیے اُن کو سگریٹ چھوڑنی ہوگی۔ لیکن جب اِس میاں بیوی نے مشنری کو بتایا کہ اُنہوں نے کئی مہینے پہلے ہی سگریٹ پینا چھوڑ دی تھی تو وہ بہت حیران ہوا۔ لیکن اِس میاں بیوی نے سگریٹ پینا کیوں چھوڑی؟ کیونکہ اُنہیں احساس ہو گیا تھا کہ اگر وہ چھپ کر سگریٹ پئیں گے تو یہوواہ خدا تب بھی اُنہیں دیکھ سکتا ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی سیکھا تھا کہ یہوواہ خدا کو ریاکار لوگوں سے نفرت ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ یا تو مشنری کے سامنے بھی سگریٹ پیا کریں گے یا پھر اِسے بالکل چھوڑ دیں گے۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا سے محبت کی بِنا پر سگریٹ چھوڑنے کا فیصلہ کِیا۔ اِس مشنری کو اِس بات کا اندازہ تک نہیں ہوا کہ اِس میاں بیوی کے دل میں سچائی کا بیج بڑھ چُکا ہے۔
بڑے جال کی تمثیل
9. بڑے جال کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟
9 متی 13:47-50 کو پڑھیں۔ بڑے جال کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ یسوع مسیح نے اِس تمثیل کے ذریعے بتایا کہ سب لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سنانے کا کام ایسے ہی ہے جیسے دریا میں ایک بڑا جال ڈالنا۔ جس طرح جال ”ہر قسم کی مچھلیاں“ کھینچ لاتا ہے اُسی طرح مُنادی کے کام کی وجہ سے ہر طرح کے لوگ بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی لیتے ہیں۔ (یسع 60:5) اِس بات کا ثبوت وہ لاکھوں لوگ ہیں جو ہر سال ہمارے علاقائی اِجتماعوں اور یادگاری تقریب پر آتے ہیں۔ اِن میں سے کچھ لوگ تو ”اچھی“ مچھلیاں ثابت ہوتے ہیں اور اِنہیں کلیسیا میں شامل کر لیا جاتا ہے جبکہ کچھ لوگ ”خراب“ مچھلیاں ثابت ہوتے ہیں اور یہوواہ خدا اِنہیں قبول نہیں کرتا۔
10. یسوع مسیح نے بڑے جال کی تمثیل کیوں دی؟
10 یسوع مسیح نے یہ تمثیل کیوں دی؟ مچھلیوں کے الگ کیے جانے کا کام بڑی مصیبت کے دوران ہونے والی عدالت کی طرف اِشارہ نہیں کرتا۔ اِس کی بجائے یہ اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آخری زمانے میں کیا ہوگا۔ اِس تمثیل میں یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ جو لوگ بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی لیتے ہیں، وہ سب یہوواہ خدا کی خدمت نہیں کریں گے۔ بہت سے لوگ ہمارے اِجلاسوں پر آتے ہیں اور کچھ لوگ تو ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہوواہ خدا کے لیے اپنی زندگی وقف نہیں کرنا چاہتے۔ (1-سلا 18:21) کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ہمارے اِجلاسوں پر آنا چھوڑ دیا ہے۔ اِس کے علاوہ کچھ نوجوانوں کی پرورش تو یہوواہ کے گواہوں کے گھرانے میں ہوئی ہے لیکن اُنہوں نے پھر بھی اپنے دل میں یہوواہ خدا کے معیاروں کے لیے محبت پیدا نہیں کی۔ صورتحال چاہے کچھ بھی ہو، یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ ہر شخص کو خود کرنا ہے۔ جو لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں، یسوع مسیح اُنہیں ایسی ”مرغوب چیزیں“ یعنی بیشقیمت لوگ خیال کرتا ہے جو ”سب قوموں“ سے آئے ہیں۔—حج 2:7۔
11، 12. (الف) بڑے جال کی تمثیل پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ (ب) اِس تمثیل سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
11 بڑے جال کی تمثیل پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اِس تمثیل کے ذریعے یسوع مسیح نے یہ بات سکھائی کہ اگر ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ہمارا کوئی بچہ یا وہ شخص جس کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں، سچائی کو نہیں اپناتا تو ہمیں حد سے زیادہ پریشان یا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایک شخص بائبل کا مطالعہ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے یا اگر اُس کی پرورش سچائی میں ہوئی ہے تو یہ اِس بات کی ضمانت نہیں کہ اُس کا یہوواہ خدا کے ساتھ مضبوط رشتہ خودبخود پیدا ہو جائے گا۔ جو لوگ یہوواہ خدا کو اپنا حکمران تسلیم نہیں کرنا چاہتے، اُنہیں خدا کے بندوں سے الگ کر دیا جائے گا۔
12 لیکن کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے سچائی کو چھوڑ دیا ہے، اُنہیں کبھی کلیسیا میں واپس آنے کی اِجازت نہیں ملے گی؟ یا اگر کسی نے اپنی زندگی کو یہوواہ خدا کے لیے وقف نہیں کِیا تو اُس کا شمار ہمیشہ ”خراب“ مچھلیوں میں ہی ہوگا؟ نہیں۔ بڑی مصیبت کے آنے ملا 3:7) اِس بات پر زور دینے کے لیے یسوع مسیح نے ایک اَور تمثیل دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی تمثیل تھی جو اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلا گیا۔—لوقا 15:11-32 کو پڑھیں۔
سے پہلے اِن لوگوں کے لیے کلیسیا میں آنے کے دروازے کُھلے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے یہوواہ خدا اِن لوگوں سے کہہ رہا ہے: ”تُم میری طرف رُجوع ہو تو مَیں تمہاری طرف رُجوع ہوں گا۔“ (اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلے جانے والے بیٹے کی تمثیل
13. اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلے جانے والے بیٹے کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟
13 اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلے جانے والے بیٹے کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ اِس تمثیل میں رحمدل باپ ہمارے شفیق آسمانی باپ یہوواہ کی عکاسی کرتا ہے۔ اور وہ بیٹا جس نے جائیداد میں اپنا حصہ لے لیا اور اِسے ضائع کر دیا، اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو کلیسیا سے دُور چلے گئے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ کسی ”دُوردراز ملک“ چلے گئے ہوں یعنی شیطان کی دُنیا میں جو خدا سے دُور ہے۔ (افس 4:18؛ کل 1:21، 22) بعد میں اِن میں سے کچھ لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ یہوواہ خدا کی تنظیم میں لوٹ آتے ہیں۔ یہوواہ خدا بھی توبہ کرنے والے اِن لوگوں کو معاف کر دیتا ہے اور خوشی سے اِنہیں دوبارہ قبول کر لیتا ہے۔—یسع 44:22؛ 1-پطر 2:25۔
14. یسوع مسیح نے اُس بیٹے کی تمثیل کیوں دی جو اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا؟
14 یسوع مسیح نے یہ تمثیل کیوں دی؟ دل کو چُھو لینے والی اِس تمثیل کے ذریعے یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ جو لوگ اُسے چھوڑ کر چلے گئے ہیں، وہ اُس کی طرف لوٹ آئیں۔ تمثیل میں باپ نے یہ اُمید نہیں چھوڑی تھی کہ ایک دن اُس کا بیٹا واپس آئے گا۔ پھر جب بیٹا واپس آیا تو ”وہ ابھی دُور ہی تھا“ کہ باپ دوڑ کر اُس کے پاس گیا اور اُسے گلے لگا لیا۔ جو لوگ یہوواہ خدا کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اُنہیں اِس تمثیل پر غور کرنے سے یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ وہ جلد از جلد اُس کے پاس لوٹ آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ اِن لوگوں کا یہوواہ خدا کے ساتھ رشتہ بہت کمزور ہو گیا ہو اور اُنہیں کلیسیا میں واپس آتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہو یا اُنہیں لگ رہا ہو کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن اُنہیں واپس آنے کا بہت فائدہ ہوگا۔ جب وہ کلیسیا میں لوٹ آئیں گے تو یہوواہ خدا، یسوع مسیح اور فرشتوں کو بہت خوشی ہوگی۔—لو 15:7۔
15، 16. (الف) اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلے جانے والے بیٹے کی تمثیل سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ مثالیں دیں۔ (ب) اِس تمثیل سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
15 اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلے جانے والے بیٹے کی تمثیل پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ہمیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرنا چاہیے۔ جب توبہ کرنے والا کوئی شخص کلیسیا میں واپس آتا ہے تو ہمیں ”حد سے زیادہ نیکوکار“ بنتے ہوئے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اِسے قبول نہیں کریں گے۔ ایسا کرنے سے ہم اپنے آپ کو روحانی طور پر ”برباد“ کرنے کے خطرے میں ہوں گے۔ (واعظ 7:16) اِس تمثیل سے ہم ایک اَور بات بھی سیکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کلیسیا کو چھوڑ دیتا ہے تو ہمیں اُسے ”کھوئی ہوئی بھیڑ“ خیال کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُس کے واپس آنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ (زبور 119:176) اگر ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو کلیسیا سے دُور چلا گیا ہے لیکن وہ خارجشُدہ نہیں ہے تو کیا ہم بڑے پیار سے اُس کی مدد کریں گے تاکہ وہ کلیسیا میں واپس آ جائے؟ چاہے ایک شخص خارجشُدہ ہو یا وہ خود کلیسیا سے دُور چلا گیا ہو، کیا ہم فوراً بزرگوں کو اُس کے بارے میں بتائیں گے تاکہ وہ اُس کی مدد کر سکیں؟ اگر ہم اُن باتوں پر عمل کریں گے جو ہم نے اِس تمثیل سے سیکھی ہیں تو ہم ایسا ضرور کریں گے۔
16 آئیں، اب ایسے لوگوں کی مثالوں پر غور کریں جو یہوواہ خدا سے دُور چلے گئے تھے لیکن پھر وہ اُس کے پاس واپس آ گئے اور اُنہوں نے یہوواہ خدا کے رحم اور کلیسیا کی طرف سے ملنے والی مدد کے لیے شکرگزاری ظاہر کی۔ ایک بھائی جو 25 سال تک کلیسیا سے خارج رہا، کہتا ہے: ”جب سے مَیں کلیسیا میں بحال ہوا ہوں تب سے میری خوشی میں آئے دن اِضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مجھے یہوواہ خدا کی طرف سے ”تازگی کے دن“ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ (اعما 3:19) سب بہن بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور میری بہت مدد کر رہے ہیں۔ اب مَیں ایک روحانی خاندان کا حصہ ہوں جو بہت اچھا ہے۔“ ایک جوان بہن کی مثال پر بھی غور کریں جو پانچ سال تک یہوواہ خدا سے دُور رہنے کے بعد اُس کی طرف واپس لوٹ آئی۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں بتا ہی نہیں سکتی کہ جب مَیں اُس محبت کو محسوس کرتی ہوں جس کا ذکر یسوع مسیح نے کِیا تھا تو مجھے کتنا اچھا لگتا ہے۔ یہوواہ خدا کی تنظیم کا حصہ ہونا بہت بیشقیمت ہے۔“
17، 18. (الف) جن تین تمثیلوں پر ہم نے غور کِیا ہے، ہم اُن سے کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) ہمیں کیا عزم کرنا چاہیے؟
17 ہم نے اِن تین تمثیلوں سے کیا سیکھا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ جس شخص کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں، اُس کا روحانی طور پر بڑھنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ یہوواہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ سب لوگ جو اِجلاسوں پر آتے ہیں یا ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں، یہوواہ خدا کی خدمت ضرور کریں گے۔ تیسری بات یہ کہ جو لوگ سچائی کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہوواہ خدا سے مُنہ موڑ لیتے ہیں، ہمیں اُن کے بارے میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کبھی کلیسیا میں واپس نہیں آئیں گے۔ اور جب وہ کلیسیا میں واپس آتے ہیں تو ہمیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اُنہیں قبول کرنا چاہیے۔
18 آئیں، ہم سب علم، سمجھ اور دانائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ جب آپ یسوع مسیح کی کوئی تمثیل پڑھتے ہیں تو خود سے یہ سوال پوچھیں: ”اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ یہوواہ خدا نے اِسے بائبل میں کیوں درج کروایا ہے؟ مَیں اِس تمثیل سے سیکھی ہوئی باتوں پر کیسے عمل کر سکتا ہوں؟ اور اِس سے مَیں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتا ہوں؟“ ایسا کرنے سے ہم یسوع مسیح کی باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ پائیں گے۔