’یہوواہ کی تعلیم‘ پھیلانے کے لیے ایک منفرد دَور
”صوبہدار . . . [یہوواہ] کی تعلیم سے حیران ہو کر ایمان لے آیا۔“—اعما 13:12۔
1-3. یسوع مسیح کے شاگردوں کے لیے ”سب قوموں“ میں خوشخبری کی مُنادی کرنا مشکل کیوں تھا؟
یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو جو کام سونپا، وہ کوئی چھوٹا کام نہیں تھا۔ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ ”جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔“ شاگردوں کو ’بادشاہی کی خوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں کرنی تھی تاکہ سب قوموں کے لیے گواہی ہو۔‘—متی 24:14؛ 28:19۔
2 بِلاشُبہ شاگردوں کو یسوع مسیح اور بادشاہت کی خوشخبری سے بہت پیار تھا۔ لیکن شاید اُنہوں نے سوچا ہو کہ وہ یسوع مسیح کے حکم کو کیسے پورا کریں گے؟ ایسا سوچنے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُن کی تعداد بہت کم تھی۔ پھر یہ کہ وہ لوگوں کو بتا رہے تھے کہ یسوع مسیح خدا کے بیٹے ہیں جبکہ اُنہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ اِس کے علاوہ لوگوں کی نظر میں شاگرد ”اَنپڑھ اور ناواقف“ تھے کیونکہ اُنہوں نے یہودی مذہبی رہنماؤں کی طرح مذہبی اِداروں سے تعلیم نہیں پائی تھی۔ (اعما 4:13) جو پیغام شاگرد سنا رہے تھے، وہ یہودی روایتوں کے مطابق بھی نہیں تھا جو مذہبی رہنما سینکڑوں سالوں سے لوگوں کو سکھا رہے تھے۔ شاگردوں نے سوچا ہوگا کہ جب اُن کے ملک میں لوگوں نے اُن کے پیغام کے لیے اچھا ردِعمل نہیں دِکھایا تو پھر رومی سلطنت کے باقی ملکوں میں لوگ اُن کی بات کیا سنیں گے؟
متی 24:10-12؛ لو 21:16، 17) شاید شاگردوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ اگر ہر جگہ لوگ اُن کا پیغام قبول کر بھی لیں گے تو بھی وہ ”زمین کی اِنتہا تک“ خوشخبری کیسے سنا پائیں گے؟ (اعما 1:8) یقیناً اِن سب باتوں کی وجہ سے اُن کے لیے پوری دُنیا میں خوشخبری سنانا آسان نہیں تھا۔
3 اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ اُن کے شاگردوں سے نفرت کی جائے گی، اذیت پہنچائی جائے گی اور اُن میں سے بعض کو قتل کِیا جائے گا۔ اِتنا ہی نہیں، اُن کے گھر والے اور دوست اُنہیں پکڑوائیں گے، جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور شاگرد ایسے علاقوں میں مُنادی کریں گے جہاں جُرم اور تشدد بہت عام ہوگا۔ (4. پہلی صدی میں شاگردوں کو مُنادی کے کام سے کیسے نتائج حاصل ہوئے؟
4 اگرچہ شاگرد جانتے تھے کہ مُنادی کا کام کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن وہ پھر بھی اِس کام میں مشغول ہو گئے۔ اُنہوں نے نہ صرف یروشلیم اور سامریہ میں بلکہ دیگر ملکوں میں بھی خوشخبری پھیلا دی۔ حالانکہ اُنہیں بہت سی مشکلات سہنی پڑیں تو بھی 30 سال کے اندر اندر ”مُنادی آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں کی گئی“ اور بہت سی قوموں سے لوگ یسوع مسیح کے شاگرد بن گئے۔ (کل 1:6، 23) مثال کے طور پر جب پولُس رسول نے کُپرس کے صوبےدار سرگِیُس پولُس کو خوشخبری سنائی تو وہ ”[یہوواہ] کی تعلیم سے حیران ہو کر ایمان لے آیا۔“—اعمال 13:6-12 کو پڑھیں۔
5. (الف) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کیا وعدہ کِیا؟ (ب) ایک تاریخی کتاب میں پہلی صدی عیسوی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟
5 شاگرد یہ بات اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ اپنے بلبوتے پر مُنادی کا کام نہیں کر سکتے۔ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا کہ وہ شاگردوں کے ساتھ ہوں گے اور پاک روح اِس کام میں اُن کی مدد کرے گی۔ (متی 28:20) اِس کے علاوہ پہلی صدی میں حالات بھی کچھ ایسے تھے جو مُنادی کا کام کرنے میں بہت فائدہمند ثابت ہوئے۔ اِس سلسلے میں کتاب اِبتدائی چرچ کا بشارتی کام (انگریزی میں دستیاب) میں لکھا ہے: ”چرچ کو قائم کرنے کے لیے پہلی صدی کا دَور جتنا موزوں تھا اُتنا تاریخ کا کوئی بھی دَور نہیں تھا۔ . . . دوسری صدی تک مسیحیوں کو یہ لگنے لگا کہ خدا نے دُنیا میں مسیحی مذہب کو پروان چڑھانے کے لیے راہ کھولی ہے۔“
6. (الف) اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟ (ب) اگلے مضمون میں کن باتوں پر غور کِیا جائے گا؟
6 بائبل میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ پہلی صدی میں خدا نے مُنادی کے کام کو پھیلانے کے لیے دُنیا کے حالات کا رُخ کس حد تک موڑا تھا۔ لیکن یہ بات پکی ہے کہ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ خوشخبری کی مُنادی کی جائے جبکہ شیطان ایسا نہیں چاہتا تھا۔ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی باتوں پر غور کریں گے جن کی وجہ سے پہلی صدی میں مُنادی کا کام کرنا زیادہ آسان رہا۔ اور اگلے مضمون میں ہم کچھ ایسی باتوں پر غور کریں گے جو آج پوری دُنیا میں خوشخبری سنانے میں ہمارے کام آ رہی ہیں۔
رومی سلطنت میں امن کا دَور
7. (الف) رومی حکومت نے امن قائم کرنے کے لیے کیا کِیا؟ (ب) امن کا یہ دَور اِتنا خاص کیوں تھا؟
7 پہلی صدی عیسوی میں رومی سلطنت میں ایک ایسا دَور آیا جو خوشخبری پھیلانے میں مسیحیوں کے لیے بہت فائدہمند ثابت ہوا۔ یہ امن کا دَور تھا۔ اِس دوران رومی حکومت نے پوری سلطنت میں امن قائم رکھنے کے لیے ٹھوس اِقدامات اُٹھائے۔ البتہ اُس وقت یسوع مسیح کی پیشگوئی کے مطابق ”لڑائیاں اور لڑائیوں“ کی افواہیں پیدا ہوئیں۔ (متی 24:6) مثال کے طور پر 70ء میں رومی فوج نے یروشلیم کو تباہ کر دیا اور رومی سلطنت کی سرحدوں پر چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ہوئیں۔ لیکن سلطنت کے زیادہتر حصوں میں امن رہا۔ امن کا یہ دَور یسوع مسیح کے زمانے سے شروع ہو کر تقریباً 200 سال تک رہا۔ تاریخ کی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”پوری اِنسانی تاریخ میں امن کا ایسا دَور کبھی نہیں آیا جو اِتنا طویل ہو اور جس سے اِتنے زیادہ لوگوں کو فائدہ ہوا ہو۔“
8. رومی سلطنت میں قائم امن کس لحاظ سے شاگردوں کے لیے فائدہمند ثابت ہوا؟
رومیوں 12:18-21 کو پڑھیں۔
8 امن کے اِس دَور کے بارے میں تیسری صدی کے عالم اوریگن نے لکھا: ”اگر اُس وقت بہت سی حکومتیں ہوتیں تو یسوع مسیح کی تعلیمات کو پوری دُنیا میں پھیلانا بہت مشکل ہوتا۔ . . . پھر تو ہر مرد کو اپنے ملک کی خاطر لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہونا پڑتا۔ . . . یسوع مسیح نے یہ تعلیم دی کہ ہر شخص دوسروں کے ساتھ امن سے رہے یہاں تک کہ اپنے دُشمن سے بھی بدلہ نہ لے۔ اگر پہلی صدی میں امن قائم نہ ہوتا تو بھلا کون اِس پیغام کو سننے کے لیے تیار ہوتا؟“ اگرچہ امن کے اِس دَور میں شاگردوں کو اذیت بھی پہنچائی گئی تو بھی اُنہوں نے خوشخبری پھیلانے کے لیے اِس دَور سے پورا فائدہ اُٹھایا۔—سفر کی سہولیات
9، 10. شاگردوں کو رومی سلطنت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کون سی سہولیات میسر تھیں؟
9 رومی لوگوں نے ایسی سڑکیں بنائیں جو سلطنت کے مختلف صوبوں کو جاتی تھیں۔ اِن سڑکوں کی لمبائی کُل ملا کر تقریباً 80 ہزار کلومیٹر (50 ہزار میل) تھی۔ اِنہیں بنانے کا مقصد یہ تھا کہ رومی فوج اپنی سلطنت کا دِفاع کرنے اور اپنی رعایا کو قابو میں رکھنے کے لیے آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکے۔ یہ سڑکیں جنگلوں، پہاڑی علاقوں اور صحراؤں سے گزرتی تھیں۔ اِن کے ذریعے مسیحی خوشخبری کا پیغام بہت سے علاقوں میں پہنچانے کے قابل ہوئے۔
10 سڑکوں سے سفر کرنے کے علاوہ رومی لوگ دریا، نہروں اور سمندر کے ذریعے بھی سفر کرتے تھے۔ پوری سلطنت میں پھیلے اِن دریاؤں اور نہروں کی لمبائی کُل ملا کر تقریباً 27 ہزار کلومیٹر (17 ہزار میل) تھی۔ اِس کے علاوہ سینکڑوں بندرگاہیں بھی تھیں جو تقریباً 900 سمندری راستوں سے جڑی تھیں۔ یوں پہلی صدی کے مسیحی آسانی سے دوسرے صوبوں میں جا سکتے تھے۔ اِس کے لیے اُنہیں پاسپورٹ، ویزے یا کسی اَور دستاویز کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اُس زمانے میں سڑکوں اور بحری جہازوں سے سفر کرنا کافی محفوظ تھا۔ سڑکوں سے سفر کرتے وقت چوری کا اِتنا خطرہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ رومی قانون کے مطابق ڈاکوؤں کو بہت کڑی سزا دی جاتی تھی۔ اور چونکہ سمندری راستوں پر فوج کے بحری جہاز پھیرا لگاتے تھے اِس لیے سمندری لُٹیروں کا بھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ بائبل میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ پولُس کو اکثر سمندری خطروں کا سامنا کرنا پڑا اور کئی بار اُن کا جہاز بھی تباہ ہو گیا لیکن اِس میں ایک بار بھی یہ نہیں لکھا کہ اُنہیں کسی لوٹ مار کا سامنا کرنا پڑا۔—2-کر 11:25، 26۔
یونانی زبان
11. شاگردوں کو یونانی زبان کے حوالے سے کیا فائدے ہوئے؟
11 رومی جن علاقوں پر حکومت کر رہے تھے اُن میں سے بہت سے علاقوں کو کافی عرصہ پہلے یونانی حاکم سکندرِاعظم نے فتح کِیا تھا۔ لہٰذا اِن علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے یونانی زبان سیکھ لی۔ اِس وجہ سے شاگرد مختلف لوگوں کے ساتھ اِسی زبان میں بات کر سکتے تھے اور یوں خوشخبری کو پھیلا سکتے تھے۔ اِس کے علاوہ مصر میں رہنے والے کچھ یہودیوں نے عبرانی صحیفوں کا ترجمہ یونانی زبان میں کِیا جسے سپتواجنتا کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اِس ترجمے سے واقف تھے اور پہلی صدی کے مسیحی اِسے بہت اِستعمال کرتے تھے۔ جن مسیحیوں نے بائبل کے باقی حصوں کو تحریر کِیا، اُنہوں نے اِسے یونانی زبان میں لکھا۔ بائبل کی گہری سچائیاں بیان کرنے کے لیے یہ زبان بہت ہی اچھی تھی کیونکہ اِس کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع تھا۔ چونکہ پوری سلطنت میں یونانی بولی جاتی تھی اِس لیے ہر مسیحی ایک دوسرے سے آسانی سے بات کر سکتا تھا۔ یوں اُن کا اِتحاد مضبوط ہوا۔
12. (الف) پہلی صدی کے مسیحی طومار کی جگہ کیا اِستعمال کرنے لگے اور اِس کا کیا فائدہ ہوا؟ (ب) مسیحیوں میں کتابوں کو اِستعمال کرنا کب عام ہوا؟
12 پہلی صدی کے مسیحی شروع شروع میں طومار سے تعلیم
دیتے تھے۔ لیکن طوماروں کو اِستعمال کرنا اور ہر وقت مُنادی میں اِنہیں اپنے ساتھ لے کر جانا آسان نہیں تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ طومار بھاری تھے اور ہر دفعہ اِنہیں کھولنا اور پھر لپیٹنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ اِس کے علاوہ طومار پر لکھائی عموماً آگے پیچھے نہیں بلکہ ایک ہی طرف ہوتی تھی۔ اِس لیے اِس میں زیادہ مواد لکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر متی کی اِنجیل کے لیے ایک پورے طومار کی ضرورت تھی۔ پھر لوگ چھوٹے ورقوں کو جوڑ کر اِنہیں کتاب کی صورت دینے لگے۔ اِس طرح لوگ ورقوں کو پلٹ کر آسانی سے صحیفوں کو ڈھونڈ سکتے تھے۔ ہم یہ تو پوری طرح سے نہیں جانتے کہ مسیحیوں نے کتابیں اِستعمال کرنا کب شروع کِیا تھا لیکن تاریخ کی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ”دوسری صدی میں رہنے والے مسیحیوں میں کتابوں کو اِستعمال کرنا بہت ہی عام تھا۔ اِس سے یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر تک مسیحیوں نے کتابوں کو اِستعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔“رومی قانون
13، 14. (الف) پولُس رسول کو رومی شہری ہونے سے کیا فائدہ ہوا؟ (ب) رومی قانون کس لحاظ سے مسیحیوں کے لیے فائدہمند تھا؟
13 پوری سلطنت میں رومی قانون نافذ تھا اور رومی شہریت سے لوگوں کو بہت سے حقوق حاصل تھے۔ پولُس رسول بھی ایک رومی شہری تھے جس کی وجہ سے اُنہیں کئی موقعوں پر بہت فائدہ ہوا۔ مثال کے طور پر جب اُنہیں یروشلیم میں گِرفتار کِیا گیا اور رومی فوجی اُنہیں کوڑے مارنے والے تھے تو پولُس نے رومی صوبےدار سے کہا: ”کیا تمہیں روا ہے کہ ایک رومی آدمی کے کوڑے مارو اور وہ بھی قصور ثابت کئے بغیر؟“ ایسا کرنا رومی قانون کے خلاف تھا۔ اِسی لیے جب پولُس نے اِن آدمیوں کو بتایا کہ وہ پیدائش سے رومی شہری ہیں تو ’جو اُن کا اِظہار لینے کو تھے فوراً اُن سے الگ ہو گئے اور پلٹن کا سردار بھی یہ معلوم کرکے ڈر گیا کہ جس کو مَیں نے باندھا ہے وہ رومی ہے۔‘—اعما 22:25-29۔
14 پولُس رسول کو رومی شہری ہونے کی وجہ سے شہر فِلپّی میں بھی بہت فائدہ ہوا۔ (اعما 16:35-40) پھر جب ایک بار شہر اِفسس میں لوگوں کی بِھیڑ نے غصے میں آ کر پولُس اور اُن کے ساتھیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو شہر کے ناظم نے اِن لوگوں کو ٹھنڈا کِیا اور اُنہیں آگاہ کِیا کہ وہ رومی قانون کی خلافورزی کر رہے ہیں۔ (اعما 19:35-41) بعد میں جب پولُس قیصریہ میں تھے تو اُنہوں نے رومی شہری کے طور پر اپنے حقوق اِستعمال کرتے ہوئے اپنے مُقدمے کے لیے رومی شہنشاہ کے ہاں اپیل کی۔ (اعما 25:8-12) رومی قانون کے ذریعے مسیحیوں نے ’خوشخبری کا دِفاع کِیا اور اِسے قانونی حیثیت دی۔‘—فل 1:7، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
مختلف علاقوں میں یہودیوں کی آبادی
15. پہلی صدی کے یہودی کن کن علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے؟
15 ایک اَور وجہ سے بھی پہلی صدی کے مسیحیوں کے لیے خوشخبری پھیلانا زیادہ آسان تھا۔ اُس زمانے میں یہودی صرف اِسرائیل میں ہی نہیں بلکہ رومی سلطنت کے اَور بھی بہت سے صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیونکہ سینکڑوں سال پہلے اسوری اور اِس کے کچھ عرصے بعد بابلی، یہودیوں کو قید کرکے لے گئے تھے۔ پھر فارس کی فوج نے بابلیوں کو شکست دی۔ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ پانچویں صدی قبلازمسیح میں یہودی فارس کی سلطنت کے127 صوبوں میں رہ رہے تھے۔ (آستر 9:30) جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُس وقت یہودیوں کی آبادی یونان، ایشیائی کوچک، مسوپتامیہ، مصر اور شمالی افریقہ کے دیگر علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ رومی سلطنت کی کُل آبادی 6 کروڑ تھی۔ اور ایک اندازے کے مطابق اِس میں ہر 14 میں سے 1 شخص یہودی تھا۔ حالانکہ یہودی بہت سے علاقوں میں پھیل گئے لیکن وہ اپنا مذہب نہیں بھولے۔—متی 23:15۔
16، 17. (الف) مختلف علاقوں میں یہودیوں کی آبادی ہونے سے غیریہودیوں کو کیا فائدہ ہوا؟ (ب) عبادت کرنے کے سلسلے میں شاگردوں نے یہودیوں کے کن طریقوں کو اپنایا؟
16 چونکہ یہودی اِتنے زیادہ علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے اِس لیے بہت سے غیریہودی عبرانی صحیفوں سے واقف ہوئے۔ اُنہوں نے سیکھا کہ صرف ایک ہی سچا خدا ہے اور جو بھی اُس کی عبادت کرنا چاہتا ہے، اُسے اُس کے معیاروں پر پورا اُترنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے مسیحا کے بارے میں بھی سیکھا کیونکہ عبرانی صحیفوں میں اُس کے بارے میں بہت سی پیشگوئیاں کی گئی ہیں۔ (لو 24:44) یہودی اور مسیحی دونوں ہی یہ مانتے تھے کہ عبرانی صحیفے خدا کے اِلہام سے لکھے گئے ہیں۔ اِس لیے پولُس رسول آسانی سے اُن لوگوں کے ساتھ صحیفوں پر بات کر سکتے تھے جن کے دل میں سچائی سیکھنے کا شوق تھا۔ پولُس رسول باقاعدگی سے یہودیوں کے عبادتخانوں میں جا کر اُنہیں صحیفوں سے دلیلیں پیش کرتے تھے۔—اعمال 17:1، 2 کو پڑھیں۔
17 یہودی اپنے دستور کے مطابق عبادتخانوں یا کُھلے میدانوں میں عبادت کے لیے جمع ہوتے تھے۔ وہ مل کر گیت گاتے تھے، دُعا کرتے تھے اور صحیفوں پر باتچیت کرتے تھے۔ پہلی صدی کے مسیحی بھی اِسی طریقے سے عبادت کرتے تھے اور آج ہم بھی ایسے ہی عبادت کرتے ہیں۔
مُنادی کے کام میں یہوواہ کی مدد
18، 19. (الف) کن باتوں کی وجہ سے پہلی صدی کے مسیحیوں کے لیے مُنادی کا کام کرنا زیادہ آسان تھا؟ (ب) اِس مضمون پر غور کرنے سے آپ یہوواہ خدا کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟
18 پہلی صدی اِنسانی تاریخ کا ایک منفرد دَور تھا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ رومی سلطنت میں امن کا دَور تھا، لوگوں کو سفر کی سہولیات میسر تھیں، بہت سے لوگ ایک ہی زبان بولتے تھے، رومی قانون کی وجہ سے شہریوں کو بہت سے حقوق حاصل تھے اور یہودی بہت سے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ سب باتیں خوشخبری پھیلانے میں پہلی صدی کے مسیحیوں کے بہت کام آئیں۔
19 یسوع مسیح کے زمین پر آنے سے تقریباً 400 سال پہلے یونانی فلاسفر افلاطون نے لکھا: ”اِس کائنات کے خالق اور باپ کو جاننا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اور اگر ہم اُسے جان بھی لیتے ہیں تو بھی ہر ایک کو اُس کے بارے میں بتانا ناممکن ہے۔“ لیکن یسوع مسیح نے کہا: ”جو اِنسان سے نہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے۔“ (لو 18:27) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ”سب قوموں“ کے لوگ اُسے ڈھونڈیں اور اُسے جانیں۔ (متی 28:19) ہم خدا کی مدد سے ہی ہر ایک کو اُس کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم غور کریں گے کہ آج پوری دُنیا میں خوشخبری کا کام کیسے ہو رہا ہے۔