یادوں کے ذخیرے سے
”سال کا اہمترین وقت“
سن 1870ء میں امریکہ کے شہر پٹسبرگ (ریاست پینسلوانیا) میں ایک چھوٹے سے گروہ نے بائبل کی سچائیوں کو تلاش کرنا شروع کِیا۔ اِس گروہ کی پیشوائی چارلس ٹیز رسل کر رہے تھے۔ اُنہوں نے اِس گروہ کے ساتھ مل کر مسیح کے فدیے کے عقیدے پر تحقیق کی اور جلد ہی سمجھ گئے کہ خدا کے مقصد میں اِس کا نہایت اہم کردار ہے۔ وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ فدیے کی وجہ سے اِنسانوں کے لیے نجات حاصل کرنا ممکن ہوا یہاں تک کہ اُن لوگوں کے لیے بھی جنہیں یسوع مسیح کے بارے میں سیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ اِس گروہ کے دل میں فدیے کے لیے اِتنی قدر تھی کہ وہ مسیح کی موت کی یادگاری تقریب ہر سال منانے لگا۔—1-کر 11:23-26۔
بعد میں بھائی رسل نے رسالہ زائنز واچٹاور شائع کِیا جس میں اُنہوں نے اِس بات کو مشہور کِیا کہ فدیہ خدا کی محبت کا سب سے شاندار ثبوت ہے۔ واچٹاور میں مسیح کی یادگاری تقریب کے وقت کو ”سال کا اہمترین وقت“ کہا گیا۔ اُنہوں نے رسالے کو پڑھنے والوں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ پٹسبرگ میں آ کر یا اپنے اپنے علاقے میں چھوٹے گروہوں میں اِس تقریب کو منائیں۔ اُنہوں نے لکھا: ”جہاں دو یا تین ہمایمان اِکٹھے ہیں وہاں مسیح اُن کے بیچ میں ہے۔“
ہر سال اُن لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی جو پٹسبرگ میں یادگاری تقریب کے لیے آتے تھے۔ اِس تقریب کے دعوتنامے میں لکھا تھا: ”آپ کا پُرتپاک خیرمقدم کِیا جائے گا۔“ اور واقعی مقامی بائبل سٹوڈنٹس نے بڑی خوشی سے اپنے روحانی بہن بھائیوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ 1886ء میں یادگاری تقریب کے مہینے میں کئی دنوں تک ایک اِجتماع منعقد کِیا گیا۔ واچٹاور میں یہ دعوت دی گئی: ”اِس اِجتماع پر آئیں اور اپنے دلوں میں مالک، اُس کی سچائیوں اور اُس کے بھائیوں کے لیے محبت بھر لیں۔“
پٹسبرگ میں رہنے والے بائبل سٹوڈنٹس کئی سالوں تک اُن بہن بھائیوں کے لیے اِجتماعات منعقد کرتے رہے جو یادگاری تقریب منانے کے لیے وہاں آتے تھے۔ جیسے جیسے بائبل سٹوڈنٹس کی تعداد بڑھتی گئی، پوری دُنیا میں یادگاری تقریب اَور زیادہ جگہوں پر منائی جانے لگی اور جگہ جگہ حاضرین کی تعداد میں بھی اِضافہ ہوتا گیا۔ رئے بوپ جو شہر شکاگو کی کلیسیا کے رُکن تھے، اُنہوں نے بتایا کہ 1910ء کی دہائی میں یادگاری تقریب پر روٹی اور مے کو سینکڑوں لوگوں میں گزارنے میں گھنٹے لگ جاتے تھے کیونکہ تقریباً سبھی حاضرین اُن میں سے کھاتے پیتے تھے۔
واچٹاور میں یہ تو تسلیم کِیا گیا کہ یسوع مسیح نے عشائےربانی پر مے اِستعمال کی تھی لیکن کچھ عرصے تک یہ سفارش کی جاتی تھی کہ مے کی بجائے تازہ انگوروں کا رس یا پکی ہوئی کشمش کا رس اِستعمال کِیا جائے تاکہ وہ لوگ جن کا ”جسم کمزور ہے“ آزمائش میں نہ پڑیں۔ البتہ جن لوگوں کو لگتا تھا کہ ”اصلی مے اِستعمال ہونی چاہیے“ اُن کے لیے مے کا اِنتظام کِیا جاتا تھا۔ بعد میں بائبل سٹوڈنٹس سمجھ گئے کہ لال مے ہی یسوع مسیح کے خون کی صحیح علامت ہے۔
یادگاری تقریب یسوع مسیح کے فدیے کی اہمیت پر سنجیدگی سے سوچ بچار کرنے کا موقع ہے۔ لیکن کچھ کلیسیاؤں میں اِس تقریب پر سوگ کا سماں چھایا ہوتا تھا۔ جیسے ہی تقریب ختم ہوتی تھی، بہن بھائی چپچاپ اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے تھے۔ پھر 1934ء میں کتاب جیہوواہ میں لکھا گیا کہ یہ تقریب یسوع مسیح کی موت پر ”غم کرنے“ کا موقع نہیں بلکہ اِس بات پر ”خوشی منانے“ کا موقع ہے کہ وہ 1914ء سے حکمرانی کر رہے ہیں۔
سن 1935ء میں ایک ایسی تبدیلی آئی جس کا یادگاری تقریب پر گہرا اثر ہوا۔ اُس وقت اُس ”بڑی بِھیڑ“ کی شناخت واضح ہو گئی جس کا ذکر مکاشفہ 7:9 میں کِیا گیا ہے۔ اِس سے پہلے یہوواہ کے خادموں کا خیال تھا کہ یہ گروہ ایسے مسیحی ہیں جنہوں نے خود کو خدا کے لیے وقف تو کِیا ہے مگر زیادہ جوش سے اُس کی خدمت نہیں کر رہے۔ لیکن اب یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ بِھیڑ خدا کے اُن وفادار بندوں پر مشتمل ہے جو زمین پر فردوس میں رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ ایک بھائی نے اِس نئی وضاحت کی روشنی میں اپنا جائزہ لیا اور کہا: ”مَیں سمجھ گیا کہ اصل میں یہوواہ خدا نے اپنی پاک روح کے ذریعے میرے دل میں آسمان پر جانے کی اُمید نہیں جگائی۔“ اِس بھائی کی طرح بہت سے وفادار مسیحیوں نے بھی یادگاری تقریب پر روٹی اور مے لینا بند کر دیا مگر وہ اِس تقریب میں شریک ہوتے رہے۔
فدیے کی قدر ظاہر کرنے کے لیے بہن بھائی ہر سال یادگاری تقریب کے مہینے میں مُنادی کرنے کی مہم کرتے تھے۔ 1932ء میں بلیٹن میں مسیحیوں کو تاکید کی گئی کہ بس یادگاری تقریب پر روٹی اور مے سے لینا ہی کافی نہیں بلکہ اُنہیں سچائی کا پیغام بھی پھیلانا چاہیے۔ 1934ء میں بلیٹن میں مددگار پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کی حوصلہافزائی کی گئی اور یہ سوال اُٹھایا گیا: ”کیا یادگاری تقریب تک 1000 مددگار پہلکار ہوں گے؟“ اِنفارمنٹ میں ممسوح مسیحیوں کے بارے میں لکھا گیا: ”اُن کی خوشی اُسی صورت میں پوری ہوگی جب وہ بادشاہت کے لیے گواہی دیں گے۔“ اور یہی بات اُن مسیحیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے جو زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ *
یہوواہ کے سب بندوں کے لیے مسیح کی یادگاری تقریب سال کی سب سے مُقدس رات ہے۔ وہ اِسے مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی مناتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1930ء میں پرل اِنگلش اور اُن کی بہن اورا نے یادگاری تقریب میں شریک ہونے کے لیے تقریباً 80 کلومیٹر (50 میل) پیدل سفر کِیا۔ جب ہیرلڈ کنگ نامی مشنری چین میں قیدِتنہائی میں تھے تو اُنہوں نے یادگاری تقریب کے بارے میں نظمیں اور گیت لکھے۔ روٹی اور مے کی جگہ اُنہوں نے چاول اور ایک لال پھل کا رس اِستعمال کِیا۔ مشرقی یورپ، وسطیٰ امریکہ اور افریقہ وغیرہ میں بہت سے بہن بھائیوں نے جنگوں اور ہمارے کام پر لگی پابندی کے باوجود یادگاری تقریب منائی۔ چاہے ہم کہیں بھی ہوں اور کسی بھی صورتحال کا سامنا کر رہے ہوں، ہم سال کی اِس اہمترین تقریب پر یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی بڑائی کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
^ پیراگراف 10 بلیٹن کو بعد میں اِنفارمنٹ کا نام دیا گیا اور اب اِسے ہماری بادشاہتی خدمتگزاری کہا جاتا ہے۔