مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح کی طرح خاکسار اور ہمدرد بنیں

یسوع مسیح کی طرح خاکسار اور ہمدرد بنیں

‏”‏مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏“‏—‏1-‏پطر 2:‏21‏۔‏

1.‏ یسوع مسیح کی طرح بننے سے ہم یہوواہ خدا کے اَور قریب کیوں ہو جائیں گے؟‏

ہم عموماً اُن لوگوں کی طرح بننا چاہتے ہیں جن کی شخصیت اور کاموں کی ہم قدر کرتے ہیں۔‏ آج تک زمین پر جتنے بھی اِنسان ہو گزرے ہیں،‏ اُن میں سے سب سے بہترین مثال یسوع مسیح کی ہے۔‏ اِس لیے ہم سب کو اُن کی طرح بننا چاہیے۔‏ لیکن یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یسوع مسیح نے ہی سب سے بہترین مثال قائم کی؟‏ اِس کا جواب یسوع مسیح کے اِن الفاظ سے ملتا ہے:‏ ”‏جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔‏“‏ (‏یوح 14:‏9‏)‏ یسوع مسیح نے اُن خوبیوں کو ہوبہو ظاہر کِیا جو اُن کے آسمانی باپ میں ہیں۔‏ اِس لیے جب ہم یسوع مسیح کی شخصیت پر غور کرتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم یہوواہ خدا کی ذات پر غور کر رہے ہیں۔‏ یہ واقعی بڑے اعزاز کی بات ہے کہ یسوع مسیح کی طرح بننے سے ہم کائنات کی سب سے اعلیٰ ہستی یہوواہ خدا کے اَور قریب ہو سکتے ہیں۔‏

2‏،‏ 3.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے بائبل میں یسوع مسیح کے بارے میں تفصیل سے کیوں لکھوایا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏ (‏ج)‏ اِس مضمون اور اگلے مضمون میں ہم یسوع مسیح کی کن خوبیوں پر غور کریں گے؟‏

2 ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یسوع مسیح کی شخصیت کیسی تھی؟‏ یہوواہ خدا نے بائبل میں یسوع مسیح کے بارے میں تفصیل سے لکھوایا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم یسوع مسیح کی شخصیت سے واقف ہوں اور اُن  کی طرح بنیں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 2:‏21 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح نے ہمارے لیے جو مثال قائم کی ہے،‏ اُسے بائبل میں ”‏نقشِ‌قدم“‏ سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ دراصل یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ جن قدموں کے نشان یسوع مسیح نے ہمارے لیے چھوڑے ہیں،‏ ہم اُنہی پر اپنے قدم رکھ کر چلیں۔‏ سچ ہے کہ ہم عیب‌دار اِنسانوں کے لیے یسوع مسیح کی مثال پر مکمل طور پر عمل کرنا ممکن نہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا بھی ہم سے اِس کی توقع نہیں کرتا۔‏ وہ بس یہ توقع کرتا ہے کہ ہم اُس کے بیٹے کی طرح بننے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔‏

3 آئیں،‏ یسوع مسیح کی کچھ شان‌دار خوبیوں پر غور کرتے ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم یسوع مسیح کی خاکساری اور ہمدردی کی خوبی پر غور کریں گے۔‏ اور اگلے مضمون میں ہم اُن کی دلیری اور سمجھ‌داری کی خوبی پر غور کریں گے۔‏ ہر خوبی پر غور کرتے وقت ہم اِن تین سوالوں پر بات کریں گے:‏ (‏1)‏ اِس خوبی میں کیا شامل ہے؟‏ (‏2)‏ یسوع مسیح نے یہ خوبی کیسے ظاہر کی؟‏ اور (‏3)‏ ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

یسوع مسیح خاکسار تھے

4.‏ خاکساری کیا ہے؟‏

4 خاکساری کیا ہے؟‏ اِس دُنیا میں بہت سے لوگ مغرور  ہیں اور اُن کی نظر میں خاکسار صرف ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کمزور ہیں یا جن میں اِعتماد کی کمی ہے۔‏ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔‏ دراصل اِس خوبی کو ظاہر کرنے کے لیے ہمت اور دلیری چاہیے۔‏ خاکساری غرور کا اُلٹ ہے۔‏ یونانی صحیفوں میں جس لفظ کا ترجمہ خاکساری کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ”‏دوسرے کو اپنے سے  بہتر  سمجھنا“‏  بھی  ہے۔‏ خاکسار بننے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے بارے میں درست نظریہ رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ مثال کے طور پر بائبل کی ایک لغت میں لکھا ہے:‏ ”‏ایک خاکسار شخص اِس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں۔‏“‏ اگر ہم اِس بات کو ذہن میں رکھیں گے تو ہم کبھی بھی خود کو دوسروں سے افضل نہیں سمجھیں گے۔‏ (‏روم 12:‏3؛‏ فل 2:‏3‏)‏ بِلاشُبہ عیب‌دار اِنسانوں کے لیے خاکساری کی خوبی پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔‏ لیکن یہوواہ خدا کی عظمت پر غور کرنے اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے سے ہم خاکسار بن سکتے ہیں۔‏

5‏،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ فرشتوں کے سردار میکائیل کون ہیں؟‏ (‏ب)‏ میکائیل نے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏

5 یسوع مسیح نے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏ یسوع  مسیح  ہمیشہ  سے خاکسار ہیں۔‏ اُنہوں نے اُس وقت بھی خاکساری ظاہر کی جب وہ زمین پر آنے سے پہلے آسمان پر ایک طاقت‌ور فرشتے تھے اور اُس وقت بھی جب وہ زمین پر ایک بےعیب اِنسان تھے۔‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏

6 یسوع مسیح کا رویہ:‏ یہوداہ کی کتاب میں یسوع مسیح کی زندگی کے ایک ایسے واقعے کا ذکر کِیا گیا ہے جب وہ زمین پر آنے سے پہلے آسمان پر مقرب فرشتے،‏ میکائیل تھے۔‏ ‏(‏یہوداہ 9 کو پڑھیں۔‏)‏ ایک بار اُن کی اِبلیس سے موسیٰ کی لاش کے بارے میں ”‏بحث‌وتکرار“‏ ہوئی۔‏ یاد کریں کہ جب موسیٰ فوت ہوئے تھے تو یہوواہ خدا نے اُن کی لاش کو ایک ایسی جگہ دفنایا تھا جس کا کسی کو نہیں پتہ۔‏ (‏است 34:‏5،‏ 6‏)‏ شاید شیطان،‏ موسیٰ کی لاش کو اِس لیے لینا چاہتا تھا تاکہ وہ بنی‌اِسرائیل کو موسیٰ کی لاش کی پوجا کرنے پر اُکسائے۔‏ شیطان کا مقصد چاہے جو بھی تھا،‏ میکائیل نے بڑی دلیری سے اُسے ایسا کرنے سے روکا۔‏ ایک کتاب کے مطابق جن یونانی اِصطلاحوں کا ترجمہ ”‏بحث‌وتکرار“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ”‏قانونی معاملات میں بحث‌وتکرار“‏ کے لیے بھی اِستعمال ہوتی ہیں اور یہ خیال پیش کرتی ہیں کہ ”‏میکائیل نے اِس بات پر اِعتراض کِیا کہ شیطان کو موسیٰ کی لاش لے جانے کا حق ہے۔‏“‏ اگرچہ میکائیل نے شیطان کے حق پر اِعتراض تو کِیا لیکن اُنہوں نے اُس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔‏ وہ جانتے تھے کہ شیطان کو سزا سنانے کا اِختیار اُن کا نہیں بلکہ سب سے اعلیٰ جج یہوواہ کا ہے۔‏ حالانکہ فرشتوں کے سردار کے طور پر میکائیل کے پاس بہت اِختیار تھا لیکن اُنہوں نے اپنے اِختیار سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کِیا۔‏ اُنہوں نے واقعی خاکساری کی بہت عمدہ مثال قائم کی۔‏

7.‏ یسوع مسیح نے اپنی باتوں اور کاموں سے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏

7 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے اپنی باتوں اور کاموں سے ظاہر کِیا کہ وہ کتنے خاکسار ہیں۔‏ یسوع مسیح کی باتیں:‏ یسوع مسیح نے کبھی بھی دوسروں کے سامنے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے لوگوں کی توجہ ہمیشہ اپنے آسمانی باپ کی طرف دِلائی تاکہ اُس کی بڑائی ہو۔‏ (‏مر 10:‏17،‏ 18؛‏ یوح 7:‏16‏)‏ یسوع مسیح نے کبھی بھی اپنے شاگردوں سے ایسے بات نہیں کی جس سے شاگردوں کو کم‌تری کا احساس ہو یا اُنہیں لگے کہ وہ بےوقوف ہیں۔‏ اِس کی بجائے یسوع مسیح اُن سے عزت سے بات کرتے تھے،‏ اُن کی خوبیوں کی تعریف کرتے تھے اور اُن پر اپنا بھروسا ظاہر کرتے تھے۔‏ (‏لو 22:‏31،‏ 32؛‏ یوح 1:‏47‏)‏ یسوع مسیح کے کام:‏ یسوع مسیح نے بہت سادہ زندگی گزاری۔‏ (‏متی 8:‏20‏)‏ اُنہوں نے ایسے کام بھی کیے جنہیں دوسرے حقیر سمجھتے تھے۔‏ (‏یوح 13:‏3-‏15‏)‏ اُنہوں نے یہوواہ خدا کا فرمانبردار رہ کر خاکساری کی شان‌دار مثال قائم کی۔‏ ‏(‏فلپیوں 2:‏5-‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح مغرور لوگوں کی طرح نہیں تھے جنہیں دوسروں کا حکم ماننا اپنی توہین لگتا ہے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے فروتنی سے ہر وہ کام کِیا جو یہوواہ خدا نے اُنہیں کرنے کو کہا اور خدا کے اِتنے ’‏فرمانبردار رہے کہ موت بھی گوارا کی۔‏‘‏ کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یسوع مسیح واقعی ’‏دل کے فروتن‘‏ تھے؟‏—‏متی 11:‏29‏۔‏

یسوع مسیح کی طرح خاکسار بنیں

8‏،‏ 9.‏ ہم خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

8 ہم یسوع مسیح کی طرح خاکسار کیسے بن سکتے ہیں؟‏ ہمارا رویہ:‏ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم اپنے اِختیار سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کریں گے۔‏ جب ہم اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کو غلط قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے تو ہم دوسروں کی نکتہ‌چینی نہیں کریں گے اور نہ ہی اُن کی نیت پر شک کریں گے۔‏ (‏لو 6:‏37؛‏ یعقو 4:‏12‏)‏ خاکسار ہونے کی وجہ سے ہم ”‏حد سے زیادہ نیکوکار“‏ نہیں بنیں گے یعنی ہم اپنی صلاحیتوں اور ذمےداریوں کی وجہ سے دوسروں کو کم‌تر خیال نہیں کریں گے۔‏ (‏واعظ 7:‏16‏)‏ کلیسیا کے ایسے بزرگ جو خاکسار ہیں،‏ خود کو دوسرے بہن بھائیوں سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔‏ اِس کی بجائے یہ چرواہے ’‏دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھتے‘‏ ہیں اور خود کو چھوٹا خیال کرتے ہیں۔‏—‏فل 2:‏3؛‏ لو 9:‏48‏۔‏

9 ذرا بھائی والٹر تھارن کی مثال پر غور کریں جنہوں نے 1894ء میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت شروع کی۔‏ بہت سالوں بعد اُنہیں ریاست نیویارک کے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے لیے بلایا گیا۔‏ وہاں اُنہیں مُرغی خانے میں کام کرنے کو کہا گیا۔‏ جب بھی وہ خود کو اہم سمجھتے اور سوچتے کہ اُنہیں اِس معمولی کام کی بجائے کوئی خاص کام دیا جانا چاہیے تو وہ خود سے کہتے:‏ ”‏تُم بس خاک کے ایک ذرّے ہو۔‏ تمہارے پاس ایسا ہے ہی کیا جس پر تُم اِتنا غرور کر رہے ہو؟‏“‏ ‏(‏یسعیاہ 40:‏12-‏15 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بھائی نے واقعی اپنے رویے سے خاکساری ظاہر کی۔‏

10.‏ ہم اپنی باتوں اور کاموں سے خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

10 ہماری باتیں:‏ اگر ہم واقعی خاکسار ہیں تو یہ ہماری  باتوں   سے بھی ظاہر ہوگا۔‏ (‏لو 6:‏45‏)‏ دوسروں سے بات کرتے وقت ہم اِس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے کہ ہم کتنے کامیاب ہیں یا خدا کی تنظیم میں ہمارے پاس کتنی ذمےداریاں ہیں۔‏ (‏امثا 27:‏2‏)‏ اِس کی بجائے ہم دوسرے بہن بھائیوں کی خوبیوں پر توجہ دیں گے اور اُن کے اچھے کاموں اور صلاحیتوں کی وجہ سے اُن کی تعریف کریں گے۔‏ (‏امثا 15:‏23‏)‏ ہمارے کام:‏ خدا کے خاکسار بندے اِس دُنیا میں بڑا بننے یا مشہور ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔‏ اِس کی بجائے وہ پورے دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرنے کے لیے سادہ زندگی گزارتے ہیں۔‏ اِس کے لیے وہ ایسی ملازمت کرنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں جسے یہ دُنیا حقیر خیال کرتی ہے۔‏ (‏1-‏تیم 6:‏6،‏ 8‏)‏ خاکساری ظاہر کرنے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم فرمانبردار رہیں۔‏ کلیسیا میں ”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار“‏ رہنے اور یہوواہ خدا کی تنظیم کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے خاکساری کی خوبی واقعی بہت اہم ہے۔‏—‏عبر 13:‏17‏۔‏

یسوع مسیح ہمدرد تھے

11.‏ ہمدردی کیا ہے؟‏

11 ہمدردی کیا ہے؟‏ ہمدردی کا مطلب دوسروں کے لیے ترس محسوس کرنا اور اُن کے ساتھ محبت،‏ مہربانی،‏ نرمی اور رحم سے پیش آنا ہے۔‏ خدا کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہمیشہ دوسروں کے ساتھ رحم اور محبت سے پیش آتے ہیں۔‏ (‏لو 1:‏78؛‏ 2-‏کر 1:‏3؛‏ فل 1:‏8‏)‏ بائبل کی ایک لغت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہمدرد شخص ضرورت‌مندوں کے لیے صرف ترس محسوس نہیں کرتا بلکہ اُن کی مدد کرنے کے لیے قدم بھی اُٹھاتا ہے۔‏ وہ اُن کے لیے ایسے کام کرتا ہے جس سے اُن کی زندگی بدل جائے۔‏ ہمدردی کی وجہ سے ہمیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏

12.‏ ‏(‏الف)‏ کن باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح ہمدرد تھے؟‏ (‏ب)‏ ہمدردی کی وجہ سے یسوع مسیح کیا کرتے تھے؟‏

12 یسوع مسیح نے ہمدردی کیسے ظاہر کی؟‏ یسوع مسیح کے احساسات اور اُن کے کام:‏ یسوع مسیح کے دل میں دوسروں کے لیے بہت ہمدردی تھی۔‏ مثال کے طور پر جب اُنہوں نے لعزر کی موت پر اُن کی بہن اور دوسرے لوگوں کو روتے دیکھا تو اُن کے بھی ”‏آنسو بہنے لگے۔‏“‏ ‏(‏یوحنا 11:‏32-‏35 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن جس طرح ہمدردی کی وجہ سے اُنہوں نے ایک بار ایک بیوہ کے بیٹے کو زندہ کر دیا تھا اُسی طرح اُنہوں نے لعزر کو بھی زندہ کر دیا۔‏ (‏لو 7:‏11-‏15؛‏ یوح 11:‏38-‏44‏)‏ یوں لعزر کو آسمان پر زندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔‏ اِس واقعے سے پہلے جب ایک بار ایک بِھیڑ یسوع مسیح سے ملنی آئی تو یسوع مسیح کو اِن لوگوں پر ”‏ترس آیا“‏ اور اِس وجہ سے وہ ”‏اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے“‏ لگے۔‏ (‏مر 6:‏34‏)‏ اِس بِھیڑ میں سے جن لوگوں نے یسوع مسیح کی تعلیمات کے مطابق عمل کیا،‏ اُنہیں یقیناً بہت فائدہ ہوا ہوگا اور اُن کی زندگی بدل گئی ہوگی۔‏ غور کریں کہ ہمدردی کی وجہ سے یسوع مسیح نہ صرف دوسروں کے لیے ترس محسوس کرتے تھے بلکہ اُن کی مدد کرنے کے لیے قدم بھی اُٹھاتے تھے۔‏—‏متی 15:‏32-‏38؛‏ 20:‏29-‏34؛‏ مر 1:‏40-‏42‏۔‏

13.‏ یسوع مسیح نے اپنی باتوں سے دوسروں کے لیے ہمدردی کیسے دِکھائی؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

13 یسوع مسیح کی باتیں:‏ یسوع مسیح دوسروں کے ساتھ نرمی سے بات کرتے تھے،‏ خاص طور پر اُن لوگوں کے ساتھ جو نااِنصافی کا شکار تھے۔‏ متی رسول نے یسوع مسیح کے بارے میں یسعیاہ نبی کی اِس پیش‌گوئی کا حوالہ دیا:‏ ”‏وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔‏“‏ (‏یسع 42:‏3؛‏ متی 12:‏20‏)‏ جو لوگ ایک لحاظ سے مسلے ہوئے سرکنڈے یا دیے کی بجھتی ہوئی بتی کی طرح تھے،‏ یسوع مسیح نے اپنی باتوں سے اُن کو تازہ‌دم کِیا۔‏ اُنہوں نے ’‏شکستہ دلوں کو تسلی دینے‘‏ کے لیے اُنہیں خوش‌خبری سنائی۔‏ (‏یسع 61:‏1‏)‏ اُنہوں نے ’‏محنت اُٹھانے والوں اور بوجھ سے دبے ہوئے‘‏ لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی اور اُن سے وعدہ کِیا کہ ایسا کرنے سے اُن کی ”‏جانیں آرام پائیں گی۔‏“‏ (‏متی 11:‏28-‏30‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو یقین دِلایا کہ خدا کو اپنے ہر بندے کی فکر ہے،‏ اُس بندے کی بھی جو اِس دُنیا کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‏—‏متی 18:‏12-‏14؛‏ لو 12:‏6،‏ 7‏۔‏

یسوع مسیح کی طرح ہمدرد بنیں

14.‏ ہم اپنے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

14 ہم یسوع مسیح کی طرح ہمدرد کیسے بن سکتے ہیں؟‏  ہمارے احساسات:‏ شاید ہمارے اندر فطری طور پر ہمدردی کا احساس نہ ہو۔‏ لیکن بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اپنے اندر اِس احساس کو پیدا کرنا چاہیے۔‏ غور کریں کہ ”‏دردمندی“‏ یعنی ہمدردی نئی اِنسانیت کا حصہ  ہے جسے ہر مسیحی کو پہننا چاہیے۔‏ ‏(‏کلسیوں 3:‏9،‏ 10،‏ 12 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن ہم اپنے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏ ہم کُشادہ‌دل بن سکتے ہیں۔‏ (‏2-‏کر 6:‏11-‏13‏)‏ اِس کے علاوہ جب کوئی ہم سے اپنے احساسات اور پریشانیوں کا اِظہار کرتا ہے تو ہم پوری توجہ سے اُس کی بات سُن سکتے ہیں۔‏ (‏یعقو 1:‏19‏)‏ پھر ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ”‏اگر مَیں اِس کی جگہ ہوتا تو مَیں کیسا محسوس کرتا؟‏ مجھے کس چیز کی ضرورت ہوتی؟‏“‏—‏1-‏پطر 3:‏8‏۔‏

15.‏ ہم اُن لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو افسردہ یا مصیبت میں ہیں؟‏

15 ہمارے کام:‏ ہمدردی ہمیں دوسروں کی  مدد  کرنے  کی  ترغیب دیتی ہے،‏ خاص طور پر اُن لوگوں کی جو افسردہ یا مصیبت میں ہیں۔‏ لیکن ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ رومیوں 12:‏15 میں لکھا ہے:‏ ”‏رونے والوں کے ساتھ روؤ۔‏“‏ افسردہ دل لوگوں کو اکثر مسئلوں کے حل کی نہیں بلکہ تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اُنہیں ایسے دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اُن کی فکر کریں اور اُن کی بات دھیان سے سنیں۔‏ جب ایک بہن کی بیٹی فوت ہوئی تو بہن بھائیوں نے اُسے بہت تسلی دی۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏جب بہن بھائی میرے پاس آئے اور میرے ساتھ روئے تو مجھے بہت تسلی ملی۔‏“‏ ہم دوسروں کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے سے بھی اُن کے لیے ہمدردی ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ کیا آپ کسی بیوہ کو جانتے ہیں جس کے گھر کو تھوڑی بہت مرمت کی ضرورت ہے؟‏ کیا کسی عمررسیدہ بہن بھائی کو اِجلاس پر،‏ مُنادی میں یا ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے لفٹ کی ضرورت ہے؟‏ ہماری چھوٹی سی مدد سے ہی ضرورت‌مند بہن بھائیوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔‏ (‏1-‏یوح 3:‏17،‏ 18‏)‏ ہمدردی ظاہر کرنے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو بادشاہت کی خوش‌خبری سنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔‏ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا اِس سے بہتر طریقہ اَور کوئی نہیں۔‏

کیا آپ دل سے بہن بھائیوں کی فکر کرتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 15 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ ہم کم‌ہمتوں کا حوصلہ کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

16 ہماری باتیں:‏ ہمدردی ہمیں ’‏کم‌ہمتوں کو دلاسا دینے‘‏ کی ترغیب بھی دیتی ہے۔‏ (‏1-‏تھس 5:‏14‏)‏ لیکن ہم ایسے لوگوں کا حوصلہ کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏ ہم اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ ہم اُن سے بہت پیار کرتے ہیں اور ہمیں واقعی اُن کی فکر ہے۔‏ ہم دل سے اُن کی تعریف کرنے سے اُن کی توجہ اُن کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر دِلا سکتے ہیں۔‏ ہم اُنہیں یاد دِلا سکتے ہیں کہ وہ یہوواہ خدا کی نظر میں بہت بیش قیمت ہیں اِسی لیے تو وہ اُنہیں اپنے بیٹے کی طرف لایا ہے۔‏ (‏یوح 6:‏44‏)‏ ہم اُنہیں یقین دِلا سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو اپنے اُن بندوں کی بہت فکر ہے جو ’‏شکستہ دل‘‏ اور ’‏خستہ جان‘‏ ہیں۔‏ (‏زبور 34:‏18‏)‏ ہماری باتوں سے اُن بہن بھائیوں کو بہت تازگی مل سکتی ہے جن کو تسلی کی ضرورت ہے۔‏—‏امثا 16:‏24‏۔‏

17‏،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا بزرگوں سے کیا توقع کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اگلے مضمون میں کس بات پر غور کریں گے؟‏

17 آپ بھائی جو کلیسیا میں بزرگوں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں،‏ یہوواہ خدا آپ سے توقع کرتا ہے کہ آپ اُس کی بھیڑوں کے ہمدرد بنیں اور اُن کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔‏ (‏اعما 20:‏28،‏ 29‏)‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا نے آپ کو یہ ذمےداری دی ہے کہ آپ اُس کی بھیڑوں کو تعلیم دیں،‏ اُن کا حوصلہ بڑھائیں اور اُنہیں تازہ‌دم کریں۔‏ (‏یسع 32:‏1،‏ 2؛‏ 1-‏پطر 5:‏2-‏4‏)‏ لہٰذا ایک نرم‌دل اور شفیق بزرگ کبھی بھی خدا کی بھیڑوں کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ کلیسیا میں اپنے قانون نہیں بنائے گا اور نہ ہی بہن بھائیوں کو یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کے لیے ایسے قدم اُٹھانے پر مجبور کرے گا جس کے لیے اُن کے حالات اِجازت نہیں دیتے۔‏ اِس کی بجائے وہ بہن بھائیوں کی خوشی چاہے گا اور یہ بات یاد رکھے گا کہ یہوواہ خدا کے لیے اُن کی محبت اُنہیں یہ ترغیب دے گی کہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت میں آگے بڑھیں۔‏—‏متی 22:‏37‏۔‏

18 یسوع مسیح کی خاکساری اور ہمدردی پر غور کرنے سے  ہمیں یقیناً اُن کے نقشِ‌قدم پر چلنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم یسوع مسیح کی اِن دو شان‌دار خوبیوں پر غور کریں گے:‏ دلیری اور سمجھ‌داری۔‏