مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم توڑوں کی تمثیل سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

ہم توڑوں کی تمثیل سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

‏”‏[‏اُس نے]‏ ایک کو پانچ توڑے دئے۔‏ دوسرے کو دو اور تیسرے کو ایک۔‏“‏—‏متی 25:‏15‏۔‏

1‏،‏ 2.‏ یسوع مسیح نے توڑوں کی تمثیل کیوں دی؟‏

یسوع مسیح نے توڑوں کی تمثیل اِس لیے دی تاکہ وہ اپنے ممسوح پیروکاروں پر واضح کر سکیں کہ اُنہیں کون سی ذمےداری دی گئی ہے۔‏ ہمیں اِس تمثیل کا مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ تمام مسیحیوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے،‏ چاہے وہ آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی۔‏

2 یسوع مسیح نے توڑوں کی تمثیل کب دی؟‏ یسوع مسیح کے شاگردوں نے اُن سے پوچھا کہ ”‏تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟‏“‏ (‏متی 24:‏3‏)‏ اِس سوال کا جواب دیتے وقت یسوع مسیح نے توڑوں کی تمثیل بھی دی۔‏ یہ تمثیل آج ہمارے زمانے میں پوری ہوتی ہے اور اُس نشان کا ایک حصہ ہے جو یسوع مسیح نے بادشاہ کے طور پر اپنی موجودگی کے بارے میں دیا تھا۔‏

3.‏ متی 24 اور 25 ابواب میں درج تمثیلوں کے ذریعے یسوع مسیح نے ہمیں کیا سکھایا؟‏

3 توڑوں کی تمثیل اُن چار تمثیلوں میں سے ایک ہے جو متی 24:‏45 سے لے کر متی 25:‏46 میں درج ہیں۔‏ باقی تین تمثیلیں دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر،‏ دس کنواریوں اور بھیڑوں اور بکریوں کے بارے میں ہیں۔‏ یہ تین تمثیلیں بھی یسوع مسیح نے اُس وقت دیں جب وہ شاگردوں کو اُن کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔‏ چاروں تمثیلوں میں یسوع مسیح نے کچھ ایسی باتوں پر زور دیا جو آخری زمانے میں اُن کے پیروکاروں کی پہچان ہوں گی۔‏ یسوع مسیح نے دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر،‏ دس کنواریوں اور توڑوں کی تمثیل اپنے ممسوح پیروکاروں کے لیے دی۔‏ پہلی تمثیل دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر کے بارے میں ہے جو ممسوح مسیحیوں کے چھوٹے گروہ پر مشتمل ہے۔‏ اِس گروہ کو یہ ذمےداری دی گئی ہے کہ وہ آخری زمانے میں نوکرچاکر کو روحانی خوراک دے۔‏ اِس تمثیل میں یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ اِس نوکر کو عقل‌مند اور دیانت‌دار ہونا چاہیے۔‏ دس کنواریوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے اِس بات کو نمایاں کِیا کہ اُن کے تمام ممسوح پیروکاروں کو تیار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اُس دن اور گھڑی کو نہیں جانتے جب یسوع مسیح آئیں گے۔‏ توڑوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ ممسوح مسیحیوں کو محنت سے اپنی ذمےداریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ پھر یسوع مسیح نے بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل دی جس میں اُنہوں نے اُن لوگوں پر توجہ دِلائی جو زمین پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ اِن لوگوں کو وفاداری سے اُن کے بھائیوں کا ساتھ دینا ہوگا۔‏ * اِس مضمون میں ہم توڑوں کی تمثیل پر بات کریں گے۔‏

مالک نے اپنے نوکروں کو مال دیا

4‏،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ توڑوں کی تمثیل میں آدمی کس کی طرف اِشارہ کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک توڑے کی قیمت کتنی ہوتی تھی؟‏

4 متی 25:‏14-‏30 کو پڑھیں۔‏ توڑوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کِیا جو پردیس چلا گیا۔‏ اِس سے پہلے بھی یسوع مسیح نے ایک تمثیل دی جو توڑوں کی تمثیل سے کافی ملتی جلتی ہے۔‏ اِس تمثیل میں یسوع مسیح نے بتایا کہ آدمی اِس لیے پردیس چلا گیا تاکہ ”‏بادشاہی حاصل کرکے پھر آئے۔‏“‏ (‏لو 19:‏12‏)‏ کافی عرصے سے ہماری کتابوں اور رسالوں میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ دونوں تمثیلوں میں ذکرکردہ آدمی یسوع مسیح کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔‏ جس طرح یہ آدمی پردیس چلے گئے اُسی طرح یسوع مسیح 33ء میں آسمان پر چلے گئے۔‏ * لیکن اُنہیں فوراً بادشاہ نہیں بنایا گیا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اُس وقت تک اِنتظار کِیا جب تک ’‏اُن کے دُشمنوں کو اُن کے پاؤں تلے کی چوکی‘‏ نہیں بنا دیا گیا۔‏—‏عبر 10:‏12،‏ 13‏۔‏

5 تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ آدمی کے پاس آٹھ توڑے تھے جو کہ اُس زمانے میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔‏ * پردیس جانے سے پہلے اِس آدمی نے اپنے توڑے اپنے نوکروں میں بانٹ دیے تاکہ وہ اُس کے جانے کے بعد اِن توڑوں سے لین‌دین کر سکیں۔‏ اِس آدمی کی طرح یسوع مسیح کے پاس بھی آسمان پر جانے سے پہلے ایک بیش‌قیمت مال تھا۔‏ یہ کیا تھا؟‏ یہ وہ کام تھا جو اُنہوں نے زمین پر رہتے ہوئے کِیا۔‏

6‏،‏ 7.‏ توڑوں سے کیا مُراد ہے؟‏

6 یسوع مسیح کی نظر میں مُنادی اور تعلیم دینے کا کام بہت ہی اہم تھا۔‏ اِس کام کے ذریعے کئی لوگ اُن کے شاگرد بنے۔‏ ‏(‏لوقا 4:‏43 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن یسوع مسیح جانتے تھے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے اور بہت سے لوگ خوش‌خبری کا پیغام قبول کریں گے۔‏ ایک مرتبہ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ ”‏اپنی آنکھیں اُٹھا کر کھیتوں پر نظر کرو کہ فصل پک گئی ہے۔‏“‏ (‏یوح 4:‏35-‏38‏)‏ ایک اچھے کسان کی طرح یسوع مسیح نے اُس فصل کو ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا جو پک گئی تھی۔‏ اُنہوں نے آسمان پر جانے سے پہلے اپنے شاگردوں کو حکم دیا:‏ ”‏تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔‏“‏ (‏متی 28:‏18-‏20‏)‏ یوں یسوع مسیح نے اُنہیں ایک بہت ہی بیش‌قیمت خزانہ سونپا۔‏ یہ مُنادی کا کام تھا۔‏—‏2-‏کر 4:‏7‏۔‏

7 جب یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو شاگرد بنانے کی ذمےداری سونپی تو ایک طرح سے وہ ”‏اپنا مال“‏ یعنی توڑے اُن کے سپرد کر رہے تھے۔‏ (‏متی 25:‏14‏)‏ لہٰذا توڑوں سے مُراد مُنادی اور شاگرد بنانے کا کام ہے۔‏

8.‏ حالانکہ ہر نوکر کو فرق تعداد میں توڑے دیے گئے تھے تو بھی اُن کے مالک کو اُن سے کیا توقع تھی؟‏

8 تمثیل میں یسوع مسیح نے بتایا کہ مالک نے اپنے پہلے نوکر کو پانچ توڑے،‏ دوسرے کو دو توڑے اور تیسرے کو ایک توڑا دیا۔‏ (‏متی 25:‏15‏)‏ حالانکہ ہر نوکر کو فرق فرق تعداد میں توڑے دیے گئے لیکن مالک کو اپنے ہر نوکر سے یہ توقع تھی کہ وہ محنت سے اِن توڑوں سے کاروبار کرے۔‏ اِسی طرح یسوع مسیح بھی اپنے ممسوح بھائیوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ پورے دل‌وجان سے مُنادی کا کام کریں۔‏ (‏متی 22:‏37؛‏ کل 3:‏23‏)‏ پنتِکُست 33ء میں یسوع مسیح کے پیروکاروں نے اپنے توڑوں سے کاروبار کرنا شروع کِیا۔‏ اعمال کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ اِن شاگردوں نے مُنادی اور شاگرد بنانے کا کام بڑی محنت سے کِیا۔‏ *‏—‏اعما 6:‏7؛‏ 12:‏24؛‏ 19:‏20‏۔‏

آخری زمانے میں توڑوں کا اِستعمال

9.‏ ‏(‏الف)‏ دو وفادار نوکروں نے اپنے توڑوں سے کیا کِیا اور اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو کیا کرنا ہوگا؟‏

9 آخری زمانے میں خاص طور پر 1919ء سے زمین پر موجود وفادار ممسوح مسیحیوں نے پہلے دو نوکروں کی طرح اپنے مالک کے توڑوں سے لین‌دین کی۔‏ اُنہوں نے اپنی اپنی صورتحال کے مطابق پورے جی جان سے مُنادی کا کام کِیا۔‏ اگرچہ تمثیل میں ایک نوکر کو پانچ توڑے اور دوسرے کو دو توڑے ملے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ دو نوکر ممسوح مسیحیوں کے دو مختلف گروہوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔‏ دراصل دونوں ہی نوکروں نے بڑی محنت سے اپنے مالک کا مال دُگنا کِیا۔‏ لیکن کیا صرف ممسوح مسیحیوں کو ہی مُنادی اور تعلیم دینے کے کام میں محنت کرنی چاہیے؟‏ جی نہیں۔‏ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ جو لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں،‏ اُنہیں وفاداری سے مُنادی کے کام میں ممسوح مسیحیوں کی حمایت کرنی ہوگی۔‏ اِس آخری زمانے میں یہ دونوں گروہ ’‏ایک ہی گلّے‘‏ کے طور پر جوش سے شاگرد بنانے کا کام کر رہے ہیں۔‏—‏یوح 10:‏16‏۔‏

10.‏ یسوع مسیح کی موجودگی کے نشان کا ایک نمایاں حصہ کیا ہے؟‏

10 یسوع مسیح اپنے ہر پیروکار سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اُن کے مال میں اِضافہ کرنے کے لیے محنت کرے۔‏ پہلی صدی میں اُن کے شاگردوں نے ایسا ہی کِیا تھا۔‏ چونکہ توڑوں کی تمثیل آخری زمانے میں پوری ہوتی ہے تو کیا اِس زمانے میں بھی یسوع مسیح کے پیروکار اِتنی ہی لگن سے اپنے مالک کے مال کو بڑھا رہے ہیں؟‏ جی ہاں۔‏ پوری تاریخ میں اِتنے بڑے پیمانے پر مُنادی اور شاگرد بنانے کا کام نہیں کِیا گیا جتنا آخری زمانے میں کِیا جا رہا ہے۔‏ یسوع مسیح کے پیروکاروں کی اَن‌تھک محنت کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ بپتسمہ لیتے ہیں اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا شروع کرتے ہیں۔‏ یوں مُنادی اور تعلیم دینے کا کام یسوع مسیح کی موجودگی کے نشان کا نمایاں حصہ بن گیا ہے۔‏ بِلاشُبہ یسوع مسیح کو اپنے پیروکاروں پر بہت ناز ہے۔‏

یسوع مسیح نے اپنے خادموں کو مُنادی کا اہم کام کرنے کا اعزاز دیا ہے۔‏ (‏پیراگراف 10 کو دیکھیں۔‏)‏

مالک حساب لینے کب آئے گا؟‏

11.‏ ہم کس بِنا پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یسوع مسیح بڑی مصیبت کے دوران حساب لینے آئیں گے؟‏

11 یسوع مسیح بڑی مصیبت کے آخر پر نوکروں سے حساب لینے آئیں گے۔‏ ہم کس بِنا پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏ متی 24 اور 25 ابواب میں درج پیش‌گوئی میں یسوع مسیح نے بار بار اپنے آنے کا ذکر کِیا۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے کہا کہ لوگ ’‏اِبنِ‌آدم کو آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔‏‘‏ یہ اُس وقت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جب یسوع مسیح بڑی مصیبت کے دوران لوگوں کی عدالت کریں گے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے آخری زمانے کے اپنے پیروکاروں کو چوکس رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا“‏ اور ”‏جس گھڑی تُم کو گمان بھی نہ ہوگا اِبنِ‌آدم آ جائے گا۔‏“‏ (‏متی 24:‏30،‏ 42،‏ 44‏)‏ لہٰذا جب یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏نوکروں کا مالک آیا اور اُن سے حساب لینے لگا“‏ تو اُن کا اِشارہ اُس وقت کی طرف تھا جب وہ لوگوں کی عدالت کریں گے اور اِس بُری دُنیا کو تباہ کریں گے۔‏ *‏—‏متی 25:‏19‏۔‏

12‏،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ مالک نے پہلے دو نوکروں سے کیا کہا اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ ممسوح مسیحیوں پر حتمی مہر کب کی جائے گی؟‏ (‏بکس ”‏موت کے وقت ممسوح مسیحیوں کا حساب“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ج)‏ جن لوگوں کو بھیڑیں قرار دیا جائے گا،‏ اُنہیں کیا اجر ملے گا؟‏

12 تمثیل کے مطابق جب مالک پردیس سے واپس آیا تو اُس نے دیکھا کہ پانچ توڑے والے اور دو توڑے والے نوکر نے اپنے اپنے توڑوں کو دُگنا کِیا۔‏ مالک نے اِن دونوں نوکروں سے ایک ہی بات کہی:‏ ”‏اَے اچھے اور دیانت‌دار نوکر شاباش!‏ تُو تھوڑے میں دیانت‌دار رہا۔‏ مَیں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا۔‏“‏ (‏متی 25:‏21،‏ 23‏)‏ جب یسوع مسیح مستقبل میں عدالت کرنے آئیں گے تو وہ کیا کریں گے؟‏

13 جو ممسوح مسیحی پہلے دو نوکروں کی طرح محنتی ثابت ہوں گے،‏ اُن پر بڑی مصیبت کے شروع ہونے سے پہلے حتمی مہر کر دی جائے گی۔‏ (‏مکا 7:‏1-‏3‏)‏ ہرمجِدّون کے شروع ہونے سے پہلے یسوع مسیح اُنہیں آسمانی اجر دیں گے۔‏ لیکن اُس وقت اُن لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا جو زمین پر زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں اور جو ابھی مُنادی کے کام میں مسیح کے بھائیوں کا ساتھ دے رہے ہیں؟‏ اُس وقت تک یہ فیصلہ ہو چُکا ہوگا کہ یہ لوگ بھیڑیں ہیں اور اُنہیں خدا کی بادشاہت کے تحت زمین پر زندگی پانے کا اجر دیا جائے گا۔‏—‏متی 25:‏34‏۔‏

شریر اور سُست نوکر

14‏،‏ 15.‏ کیا توڑوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے یہ اِشارہ دیا کہ اُن کے ممسوح بھائیوں کی ایک بڑی تعداد شریر اور سُست نوکر ثابت ہوگی؟‏ وضاحت کریں۔‏

14 تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ تیسرے نوکر نے اپنے مالک کے دیے ہوئے توڑے سے کوئی کاروبار نہیں کِیا۔‏ یہاں تک کہ اُس نے اِس سے سرمایہ‌کاری بھی نہیں کی۔‏ اِس کی بجائے اُس نے توڑے کو زمین میں دبا دیا۔‏ یوں اِس نوکر نے ظاہر کِیا کہ اُس کی نیت خراب ہے کیونکہ اُس نے جان بُوجھ کر اپنے مالک کا نقصان کِیا۔‏ لہٰذا مالک کا یہ کہنا بالکل جائز تھا کہ یہ نوکر ”‏شریر اور سُست“‏ ہے۔‏ مالک نے اِس نوکر سے توڑا واپس لے لیا اور اِسے اُس نوکر کو دے دیا جس کے پاس دس توڑے تھے۔‏ پھر اُس نے اِس شریر نوکر کو ’‏باہر اندھیرے میں ڈلوا دیا جہاں رونا اور دانت پیسنا تھا۔‏‘‏—‏متی 25:‏24-‏30؛‏ لو 19:‏22،‏ 23‏۔‏

15 چونکہ تیسرا نوکر شریر اور سُست ثابت ہوا تو کیا اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہر تین میں سے ایک ممسوح مسیحی شریر اور سُست ثابت ہوگا؟‏ جی نہیں۔‏ ذرا اِس تمثیل سے پہلے دی گئی دو تمثیلوں پر غور کریں۔‏ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر کی تمثیل میں یسوع مسیح نے خراب نوکر کا ذکر کِیا جو اپنے ہم‌خدمتوں کو مارتا ہے۔‏ لیکن یسوع مسیح کے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ خراب نوکر ظاہر ہوگا۔‏ اِس کی بجائے وہ دیانت‌دار نوکر کو اِس بات سے خبردار کر رہے تھے کہ وہ خراب نوکر کی طرح نہ بنے۔‏ اِسی طرح دس کنواریوں کی تمثیل میں بھی یسوع مسیح نے یہ اِشارہ نہیں دیا کہ اُن کے آدھے ممسوح پیروکار پانچ بےوقوف کنواریوں کی طرح ہوں گے۔‏ اِس کی بجائے وہ اپنے ممسوح بھائیوں کو آگاہ کر رہے تھے کہ اگر وہ چوکس اور تیار نہیں رہیں گے تو اُن کے ساتھ کیا ہوگا۔‏ * لہٰذا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ توڑوں کی تمثیل میں بھی یسوع مسیح یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اُن کے ممسوح بھائیوں کی ایک بڑی تعداد شریر اور سُست ہوگی۔‏ اِس کی بجائے یسوع مسیح اپنے ممسوح پیروکاروں کو یہ نصیحت کر رہے تھے کہ وہ شریر نوکر کی طرح نہ بنیں بلکہ محنت سے اپنی ذمےداریوں کو پورا کرتے رہیں۔‏—‏متی 25:‏16‏۔‏

16.‏ ‏(‏الف)‏ ہم توڑوں کی تمثیل سے کون سے سبق سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں توڑوں کی تمثیل کے سلسلے میں ہمیں کون سی نئی وضاحت دی گئی ہے؟‏ (‏بکس ”‏توڑوں کی تمثیل کے سلسلے میں ہماری وضاحت“‏ کو دیکھیں۔‏)‏

16 ہم توڑوں کی تمثیل سے کون سے دو سبق سیکھتے ہیں؟‏ پہلا سبق یہ کہ مالک یعنی مسیح نے اپنے ممسوح پیروکاروں کو ایک قیمتی مال سونپا جو کہ مُنادی اور شاگرد بنانے کا کام ہے۔‏ دوسرا سبق یہ کہ مسیح ہم سب سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم محنت سے مُنادی کا کام کریں۔‏ اگر ہم دل‌وجان سے اِس کام کو کریں گے اور یسوع مسیح کے فرمانبردار اور وفادار رہیں گے تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ضرور اجر دیں گے۔‏—‏متی 25:‏21،‏ 23،‏ 34‏۔‏

^ پیراگراف 3 مینارِنگہبانی 15 جولائی 2013ء،‏ صفحہ 21،‏ 22 پر پیراگراف 8-‏10 میں بتایا گیا ہے کہ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر کون ہے۔‏ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا کہ کنواریاں کن کی طرف اِشارہ کرتی ہیں۔‏ اور بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کی وضاحت ہم اگلے مضمون میں اور مینارِنگہبانی 1 دسمبر 1995ء کے صفحہ 13-‏18 میں دیکھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 5 ایک توڑے میں تقریباً 20 کلو چاندی ہوتی تھی جس کی قیمت 6000 دینار کے برابر تھی۔‏ ایک مزدور پورے دن میں ایک دینار کماتا تھا۔‏ لہٰذا ایک توڑا کمانے کے لیے تقریباً 20 سال کی مزدوری درکار تھی۔‏

^ پیراگراف 8 رسولوں کی موت کے بعد شیطان نے کلیسیا میں برگشتگی پھیلائی جو کہ بہت صدیوں تک جاری رہی۔‏ اِس دوران شاگرد بنانے کا کام بہت ہی کم ہوا۔‏ لیکن پھر ”‏کٹائی کے وقت“‏ یعنی آخری زمانے میں صورتحال بالکل بدل گئی۔‏ (‏متی 13:‏24-‏30،‏ 36-‏43‏)‏ اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی 15 جولائی 2013ء،‏ صفحہ 9-‏12 کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 15 اِس سلسلے میں اِس شمارے کے مضمون ”‏کیا آپ ’‏جاگتے رہیں‘‏ گے؟‏“‏ میں پیراگراف 13 کو دیکھیں۔‏