آپبیتی
ایسا کام جس سے ہمیں حقیقی خوشی ملی
مَیں اُس وقت پانچ سال کا تھا جب مَیں نے ڈانس کی کلاسیں لینا شروع کیں۔ اور گوین نے بھی اِسی عمر میں ڈانس سیکھنا شروع کِیا تھا۔ اُس وقت ہم ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔ بچپن میں ہی ہم دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم ڈانس کا پیشہ اِختیار کریں گے۔ لیکن پھر ہم نے اِس پیشے کو ایک ایسے وقت میں چھوڑ دیا جب ہم کامیابی کی بلندیوں کو چُھو رہے تھے۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم نے ایسا کیوں کِیا۔
ڈیوڈ: مَیں 1945ء میں اِنگلینڈ کے صوبے شروپشائر میں پیدا ہوا۔ ہم ایک پُرسکون گاؤں میں رہتے تھے اور میرے ابو کسان تھے۔ سکول سے آنے کے بعد مُرغیوں کو دانا ڈالنا، اُن کے انڈے جمع کرنا اور گائے اور بھیڑوں کا خیال رکھنا مجھے بہت پسند تھا۔ سکول کی چھٹیوں میں مَیں فصل کی کٹائی میں اپنے ابو کا ہاتھ بٹاتا تھا اور کبھی کبھار ٹریکٹر بھی چلاتا تھا۔
لیکن پھر میرے دل میں ایک اَور کام کو کرنے کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ میرے ابو نے دیکھا کہ مجھے بچپن سے ہی ڈانس کا بہت شوق تھا کیونکہ جب بھی کوئی گانا لگتا، مَیں ڈانس کرنے لگتا۔ لہٰذا جب مَیں پانچ سال کا ہوا تو ابو نے امی سے کہا کہ وہ میرا قریب کے ایک ڈانس سکول میں داخلہ کروا دیں تاکہ مَیں ٹیپ ڈانس سیکھوں۔ میرے اُستاد نے دیکھا کہ میرے اندر بیلے ڈانسر بننے کی بھی صلاحیت ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے مجھے اِس ڈانس میں بھی تربیت دی۔ 15 سال کی عمر میں مجھے لندن کے ایک جانے مانے سکول میں وظیفہ ملا۔ اِس سکول کا نام ”رائل بیلے سکول“ ہے۔ یہاں میری ملاقات گوین سے ہوئی اور ہماری ڈانس کی جوڑی بنی۔
گوین: مَیں 1944ء میں لندن میں پیدا ہوئی۔ چھوٹی عمر سے ہی مَیں خدا پر بہت مضبوط ایمان رکھتی تھی۔ مَیں اپنی بائبل کو پڑھا تو کرتی تھی لیکن اِسے سمجھنا مجھے بہت مشکل لگتا تھا۔ پانچ سال کی عمر میں مَیں نے ڈانس کی کلاسیں لینا شروع کیں۔ چھ سال بعد مَیں نے ڈانس کے ایک ایسے مقابلے میں حصہ لیا جس میں برطانیہ کے سب لوگ حصہ لے سکتے تھے۔ مَیں نے یہ مقابلہ جیت لیا۔ جیتنے والے کے لیے یہ اِنعام تھا کہ وہ رائل بیلے سکول میں تربیت لے سکتا تھا۔ یہ سکول ایک بہت ہی عالیشان گھر میں تھا جو جنوبی لندن میں واقع ہے۔ یہاں مَیں نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بیلے ڈانس بھی سیکھا۔ جن اُستادوں نے مجھے ڈانس میں تربیت دی، وہ بہت ہی جانے مانے ڈانسر تھے۔ 16 سال کی عمر میں مَیں اِسی سکول کی دوسری برانچ میں گئی جو سینٹرل لندن میں ہے۔ یہاں میری ملاقات ڈیوڈ سے ہوئی۔ کچھ ہی مہینوں میں مَیں اور ڈیوڈ لندن کے ایک مشہور تھیٹر ”رائل اوپرا ہاؤس“ میں شو کرنے لگے۔
ڈیوڈ: جیسے کہ گوین نے بتایا، ہم نے مل کر رائل اوپرا ہاؤس میں شو کیے۔ اِس کے علاوہ ہم نے ”لندن فیسٹیول بیلے“ کمپنی (جو کہ اب ”اِنگلش نیشنل بیلے“ کہلاتی ہے) کے ساتھ بھی شو کیے۔ پھر رائل بیلے سکول کے ایک ڈانس ماسٹر نے جرمنی کے شہر وپرٹال میں ایک بینالاقوامی ڈانس کمپنی قائم کی اور ہمیں شو کا سٹار ڈانسر منتخب کِیا۔ اِن سالوں میں ہم نے دُنیا بھر کے مختلف تھیٹروں میں بڑے نامی گرامی ڈانسروں کے ساتھ شو کیے، جیسے کہ ڈیم مارگو فونٹین اور رڈولف نورییف۔ چونکہ ہمیں اپنے پیشے میں بہت کامیابی ملی اِس لیے ہم خود کو بہت بڑا سمجھنے لگے۔ ہم نے اپنی زندگی اپنے پیشے کے نام کر دی۔
گوین: مَیں نے بھی اپنی زندگی ڈانس کے لیے وقف کر دی۔ ڈیوڈ اور میرا ایک ہی خواب تھا کہ ہم ڈانس کی دُنیا میں خوب نام کمائیں۔ مجھے آٹو گراف دینا، اپنے مداحوں سے پھول لینا یا اپنے لیے تالیوں کی گُونج سننا بہت پسند تھا۔ مَیں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتی تھی جو بےحیا تھے، سگریٹ پیتے تھے اور شرابنوشی کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ دوسرے ڈانسروں اور اداکاروں کی طرح میرے پاس بھی کچھ ایسی چیزیں تھیں جنہیں مَیں خوشقسمتی کا نشان مانتی تھی۔
ہماری زندگی بالکل بدل گئی
ڈیوڈ: مَیں نے بہت سالوں تک ڈانسر کے طور پر کام کِیا۔ لیکن پھر مَیں جگہ جگہ سفر کرتے کرتے تھک گیا۔ چونکہ میرا بچپن کھیتوں میں گزرا تھا اِس لیے میرے دل میں گاؤں میں سادہ زندگی گزارنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لہٰذا 1967ء میں مَیں نے اپنے پیشے کو خیرباد کہہ دیا اور ایک بڑے مویشی خانے میں کام کرنے لگا جو میرے والدین کے گھر کے قریب ہی تھا۔ مویشی خانے کے مالک نے مجھے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر دے دیا۔ پھر مَیں نے گوین کو فون کِیا اور اُنہیں شادی کی پیشکش کی۔ اُس وقت اُنہوں نے ڈانس کی دُنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی تھی اِس لیے اُن کے لیے یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل تھا۔ پھر بھی اُنہوں نے شادی کے لیے ہاں کر دی اور ایک دیہاتی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو گئیں۔
گوین: شروع شروع میں میرے لیے ایسی زندگی گزارنا آسان نہیں تھا۔ ہمیں ہر اچھے بُرے موسم میں گائے کا دودھ نکالنا، مُرغیوں کو دانا ڈالنا اور سؤروں کو کھانا دینا پڑتا تھا۔ میرے لیے یہ ایسے کام تھے جو مَیں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیے تھے۔ ڈیوڈ، مویشیوں کو پالنے کے نتنئے طریقے جاننا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے ایک کالج میں نو مہینوں کا کورس کِیا۔ چونکہ ڈیوڈ رات کو دیر سے گھر آتے تھے اِس لیے مَیں سارا دن بہت تنہا محسوس کرتی تھی۔ اُس وقت تک ہماری ایک بیٹی بھی ہو گئی تھی جس کا نام ہم نے گلیِ رکھا۔ ڈیوڈ کے کہنے پر مَیں نے گاڑی چلانا سیکھا۔ ایک دن جب مَیں قریب کے ایک قصبے میں گئی تو وہاں میری ملاقات گئیل سے ہوئی جو پہلے ہمارے گاؤں کی ایک دُکان میں کام کرتی تھیں۔
گئیل مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئیں۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی شادی کی تصویریں دِکھائیں۔ گئیل کی شادی کی ایک تصویر میں اُن کے پیچھے ایک عمارت نظر آر ہی تھی جس پر کنگڈم ہال لکھا ہوا تھا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ ”یہ کون سا چرچ ہے؟“ جب اُنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اور اُن کے شوہر یہوواہ کے گواہ ہیں تو مَیں بہت خوش ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ میری ایک آنٹی بھی یہوواہ کی گواہ ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ میرے ابو اُن سے کتنا چڑتے تھے اور اُن کی کتابیں اور رسالے کچرے میں پھینک دیتے تھے۔ یہ دیکھ کر مَیں اکثر سوچ میں پڑ جاتی تھی کہ ویسے تو میرے ابو اِتنے خوشمزاج ہیں تو پھر وہ آنٹی پر غصہ کیوں کرتے ہیں حالانکہ وہ اِتنی اچھی ہیں۔
آخرکار مجھے یہ جاننے کا موقع مل گیا کہ میری آنٹی کے عقیدوں اور چرچ کی تعلیم میں کیا فرق ہے۔ گئیل نے مجھے بائبل کی بہت سی سچائیوں کے بارے میں بتایا۔ مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بہت سے عقیدے جیسے کہ تثلیث اور مرنے کے بعد روح واعظ 9:5، 10؛ یوح 14:28؛ 17:3) اِس کے علاوہ مَیں نے پہلی بار بائبل میں دیکھا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔—خر 6:3۔
کا زندہ رہنا بائبل کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔ (ڈیوڈ: گوین نے جو کچھ سیکھا، اُنہوں نے وہ مجھے بھی بتایا۔ مجھے یاد ہے کہ جب مَیں چھوٹا تھا تو میرے والد مجھے بائبل پڑھنے کو کہتے تھے۔ لہٰذا مَیں نے اور گوین نے فیصلہ کِیا کہ ہم گئیل اور اُن کے شوہر ڈیرک کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کریں گے۔ چھ مہینے بعد ہم شروپشائر کے قصبے اوسوستری منتقل ہو گئے کیونکہ یہاں ہمیں ایک چھوٹا سا مویشی خانہ کرائے پر لینے کا موقع ملا۔ یہاں ایک مقامی یہوواہ کی گواہ نے جس کا نام ڈیڈری ہے، ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ جاری رکھا۔ شروع شروع میں ہم اِتنی زیادہ ترقی نہیں کر رہے تھے کیونکہ اپنے مویشیوں کی دیکھبھال کرنے کی وجہ سے ہم بہت مصروف رہتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ سچائی ہمارے دل میں جڑ پکڑتی گئی۔
گوین: ایک کام جسے چھوڑنا میرے لیے بہت مشکل تھا، وہ توہمپرستی تھی۔ لیکن پھر مَیں نے سیکھا کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو ”خوش قسمتی کے دیوتا جد کے لئے میز بچھاتے“ ہیں۔ (یسع 65:11، اُردو جیو ورشن) اگرچہ مجھے اپنے سب تعویذ گنڈوں کو پھینکے میں کچھ وقت لگا لیکن بہت دُعا کرنے کے بعد مَیں نے اِنہیں پھینک دیا۔ جب مَیں نے سیکھا کہ ”جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا“ تو مَیں سمجھ گئی کہ یہوواہ خدا کو کس قسم کے لوگوں کی تلاش ہے۔ (متی 23:12) اِس بات نے میرے دل کو بہت چُھوا کہ خدا کو ہمارا اِتنا خیال ہے کہ اُس نے اپنے عزیز بیٹے کو ہماری خاطر قربان کر دیا۔ مَیں واقعی ایسے خدا کی خدمت کرنا چاہتی تھی۔ اُس وقت تک ہماری ایک اَور بیٹی ہو گئی۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ زمین پر فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
ڈیوڈ: جب مَیں نے یہوواہ کے گواہوں سے سیکھا کہ بائبل کی پیشگوئیاں کیسے پوری ہو رہی ہے جیسے کہ متی 24 باب اور دانیایل کی کتاب میں درج پیشگوئیاں تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی سچا مذہب ہے۔ مجھے احساس ہو گیا کہ دُنیا میں کوئی بھی چیز اِتنی بیشقیمت نہیں جتنی یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، دُنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی میری خواہش کم ہوتی گئی۔ مَیں سمجھ گیا کہ میرے بیوی بچے میرے لیے زیادہ اہم ہیں۔ فلپیوں 2:4 سے مَیں نے سیکھا کہ مجھے صرف اپنے بارے میں ہی نہیں سوچنا چاہیے۔ اِس لیے مَیں نے ایک بڑا مویشی خانہ حاصل کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کِیا۔ اِس کے علاوہ مَیں نے سگریٹ پینا بھی چھوڑ دی۔ ہماری کلیسیا 10 کلومیٹر (6 میل) دُور تھی اور ہفتے کی شام کو ہونے والے اِجلاس پر جانا ہمارے لیے مشکل ہوتا تھا کیونکہ اُس وقت گائیں دودھ دیتی تھیں۔ لیکن گوین کی وجہ سے ہم کبھی بھی کسی اِجلاس سے غیرحاضر نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ ہم کسی اِتوار کی صبح اپنی بیٹیوں کے ساتھ مُنادی پر نہ گئے ہوں حالانکہ اُس وقت بھی ہمیں گائے کا دودھ نکالنا پڑتا تھا۔
ہمارے رشتےدار اِس بات پر خوش نہیں تھے کہ ہم نے نیا مذہب اپنا لیا ہے۔ گوین کے ابو نے تو اُن سے چھ سال تک بات نہیں کی۔ اور میرے والدین نے بھی بڑی کوشش کی کہ ہم گواہوں سے میل جول نہ رکھیں۔
لو 18:29، 30) ہم نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کی اور1972ء میں بپتسمہ لیا۔ مَیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں سکھانا چاہتی تھی اِس لیے مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔
گوین: اِس مشکل وقت میں یہوواہ خدا نے ہماری بہت مدد کی۔ اِس کے علاوہ اوسوستری کلیسیا کے بہن بھائیوں کی صورت میں ہمیں ایک نیا خاندان ملا جو مشکل وقت میں ہمارا سہارا بنا۔ (ایک اِطمینانبخش کام
ڈیوڈ: اگرچہ مویشی خانے میں کام کرنا ہمیں بہت تھکا دیتا تھا پھر بھی ہم نے خدا کی خدمت کرنے کے حوالے سے اپنی بیٹوں کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ حکومت نے کسانوں کے فنڈ میں کمی کر دی تھی اِس لیے ہمیں اپنا مویشی خانہ چھوڑنا پڑا۔ ہمارا گھر بھی نہیں رہا اور آمدنی کا ذریعہ بھی چلا گیا۔ اُس وقت ہماری تیسری بیٹی ایک سال کی تھی۔ ہم نے یہوواہ خدا سے مدد اور رہنمائی مانگی۔ ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہم اپنے فن کو اِستعمال کریں گے اور ایک ڈانس سکول کھولیں گے۔ چونکہ ہمارا عزم تھا کہ ہم یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں گے اِس لیے ہمیں بڑی برکتیں ملیں۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہماری تینوں بیٹیوں نے سکول ختم کرنے کے بعد پہلکار کے طور پر خدمت کرنا شروع کی۔ چونکہ گوین بھی پہلکار کے طور پر خدمت کر رہی تھیں اِس لیے وہ بیٹیوں کی بہت مدد کر سکیں۔
جب ہماری دو بڑی بیٹیوں گلیِ اور ڈنیز کی شادی ہو گئی تو ہم نے ڈانس سکول بند کر دیا۔ ہم نے برانچ کے دفتر کو خط بھیجا جس میں ہم نے اُن سے ایسے علاقے کے بارے میں پوچھا جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ اُنہوں نے ہمیں اِنگلینڈ کے جنوب مشرق میں واقع مختلف علاقوں کے بارے میں بتایا۔ چونکہ اُس وقت صرف ہماری سب سے چھوٹی بیٹی ڈیبی ہمارے ساتھ تھی اِس لیے مَیں نے بھی پہلکار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔ پانچ سال بعد ہمیں شمال میں واقع کچھ کلیسیاؤں کی مدد کرنے کے لیے پوچھا گیا۔ ڈیبی کی شادی کے بعد ہم نے دس سال تک ملک زمبابوے، مالڈووا، ہنگری اور آئیوری کوسٹ میں ہمارے برانچ کے دفتروں اور عبادتگاہوں کو تعمیر کرنے کے کام میں حصہ لیا۔ پھر ہم اِنگلینڈ واپس آ گئے اور یہاں لندن کے بیتایل میں ہونے والے تعمیراتی کام میں حصہ لیا۔ چونکہ مجھے مویشیوں کو پالنے کا تجربہ تھا اِس لیے مجھ سے بیتایل کے مویشی خانے میں کام کرنے کے لیے پوچھا گیا۔ ابھی ہم اِنگلینڈ کے شمال مغرب میں پہلکار کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔
گوین: جب ہم نے اپنی زندگی ڈانس کے لیے وقف کی تھی تو ہمیں خوشی تو ملی لیکن یہ عارضی تھی۔ لیکن جب ہم نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کی تو ہمیں ایسی خوشی ملی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ مَیں اور ڈیوڈ ابھی بھی اپنے پیروں کو ایک ساتھ اُٹھاتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اب ہم اپنے پیروں کو ڈانس کے لیے نہیں اُٹھاتے بلکہ اِنہیں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے اُٹھاتے ہیں۔ ہم نے بائبل کی بیشقیمت اور زندگیبخش سچائیاں سیکھنے میں بہت سے لوگوں کی مدد کی۔ یہ لوگ ”نیکنامی کے خط“ ہیں جو دُنیا کی شہرت سے کہیں بہتر ہیں۔ (2-کر 3:1، 2) اگر ہم سچائی میں نہ ہوتے تو آج ہمارے پاس بس اپنے پیشے کی یادوں، پُرانی تصویروں اور ہمارے شو کے اِشتہاروں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
ڈیوڈ: یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ اِسی وجہ سے مَیں ایک اچھا شوہر اور باپ بنا ہوں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ مریم، بادشاہ داؤد اور خدا کے دیگر بندوں نے ناچ کر اپنی خوشی کا اِظہار کِیا۔ ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب نئی دُنیا قائم ہوگی اور ہم بھی اپنی خوشی کا اِظہار ناچ کر کریں گے۔—خر 15:20؛ 2-سمو 6:14۔