یسوع مسیح کی سکھائی ہوئی دُعا کے مطابق زندگی گزاریں—دوسرا حصہ
”تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تُم کن کن چیزوں کے محتاج ہو۔“—متی 6:8۔
1-3. ایک بہن کو اِس بات پر پورا یقین کیوں ہے کہ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہمیں کس وقت کس چیز کی ضرورت ہے؟
ایک بہن جس کا نام لانا ہے، وہ 2012ء میں جرمنی گئیں۔ جرمنی سے واپس آتے وقت اُن کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو وہ کبھی نہیں بھول سکتیں۔ اُنہیں لگتا ہے کہ اُس وقت یہوواہ خدا نے اُن کی دو دُعاؤں کا جواب دیا۔ پہلی دُعا اُنہوں نے اُس وقت کی جب وہ ائیرپورٹ پر جانے کے لیے ٹرین میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے دُعا کی کہ اُنہیں کوئی ایسا شخص ملے جسے وہ گواہی دے سکیں۔ دوسری دُعا اُنہوں نے اُس وقت کی جب ائیرپورٹ پر پہنچ کر اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کی فلائٹ اگلے دن تک ملتوی ہو گئی ہے۔ بہن لانا کے تقریباً سارے پیسے خرچ ہو چکے تھے اور اُن کے پاس اِتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کسی ہوٹل میں رُک سکتیں۔ اِس وجہ سے اُنہوں نے یہوواہ خدا سے مدد مانگی۔
2 بہن لانا نے ابھی اپنی دُعا ختم ہی کی تھی کہ ایک جوان آدمی نے اُن سے کہا: ”ارے لانا، تُم یہاں کیسے؟“ یہ آدمی اُن کی کلاس میں پڑھتا تھا اور کسی کام سے جنوبی افریقہ جا رہا تھا۔ اُس کی ماں اور نانی اُسے ائیرپورٹ چھوڑنے آئیں تھیں۔ لانا کی صورتحال دیکھتے ہوئے اِس آدمی کی ماں الکی نے لانا کو اپنے گھر رُکنے کے لیے
کہا۔ الکی اور اُن کی امی نے لانا کے لیے بہت مہماننوازی ظاہر کی اور اُن سے اُن کے عقیدوں اور اُن کی کُلوقتی خدمت کے بارے میں بہت سے سوال پوچھے۔3 اگلی صبح ناشتے کے بعد بھی الکی اور اُن کی امی نے لانا سے بائبل سے متعلق کئی سوال پوچھے۔ جانے سے پہلے لانا نے اُن کا فون نمبر اور پتہ وغیرہ لے لیا تاکہ کوئی مقامی یہوواہ کا گواہ اُن کے پاس جا سکے۔ لانا اپنے گھر صحیح سلامت پہنچ گئیں اور پہلکار کے طور پر خدمت جاری رکھی۔ اُنہیں پورا یقین ہے کہ ”دُعا کے سننے والے“ نے اِس صورتحال میں اُن کی مدد کی تھی۔—زبور 65:2۔
4. اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
4 جب ہمیں اچانک کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو ہم بِلاجھجک یہوواہ خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہوواہ خدا بھی اِس بات سے خوش ہوتا ہے کہ ہم مدد کے لیے اُسے پکار رہے ہیں۔ (زبور 34:15؛ امثا 15:8) لیکن یسوع مسیح کی سکھائی دُعا سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ اَور بھی ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں دُعا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ لیکن شاید ہم ایسا کرنا بھول جاتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم یسوع مسیح کی سکھائی ہوئی دُعا کی آخری تین درخواستوں پر غور کریں گے جو ثابتقدم اور خدا کی قربت میں رہنے میں ہمارے کام آ سکتی ہیں۔ لیکن پہلے آئیں، اِس دُعا کی چوتھی درخواست پر غور کریں جس کا تعلق ہماری روز کی روٹی سے ہے۔—متی 6:11-13 کو پڑھیں۔
”ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے“
5، 6. اگر ہمارے گھر میں کھانے پینے کی تنگی نہیں بھی ہے تو بھی ہمیں دُعا میں ”ہماری روز کی روٹی“ کے لیے درخواست کیوں کرنی چاہیے؟
5 غور کریں کہ یسوع مسیح نے یہ درخواست کرنے کو نہیں کہا کہ ”میری روز کی روٹی آج مجھے دے“ بلکہ یہ درخواست کرنے کو کہا کہ ”ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔“ ذرا وکٹر نامی بھائی کی مثال پر غور کریں جو افریقہ میں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”مَیں اکثر یہوواہ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اور میری بیوی کو اِس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ہم کیا کھائیں گے اور کہاں رہیں گے۔ بہن بھائی بڑی محبت سے ہر روز ہماری ضروریات کو پورا کر دیتے ہیں۔ مَیں دُعا میں اِس بات کا ذکر ضرور کرتا ہوں کہ جو بہن بھائی ہماری مدد کر رہے ہیں، وہ اُن معاشی مشکلات سے نپٹنے کے قابل ہوں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔“
6 اگر ہمارے گھر میں کھانے پینے کی تنگی نہیں ہے تو ہم غریب اور آفتزدہ بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ ہمیں صرف اِن بہن بھائیوں کے لیے دُعا ہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیں اِن کی مدد کرنے کے لیے قدم بھی اُٹھانا چاہیے۔ ہم اپنے ضرورتمند بہن بھائیوں کی مختلف طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں۔ ہم باقاعدگی سے عالمگیر کام کے لیے عطیات بھی دے سکتے ہیں جو بڑی سمجھداری سے اِستعمال کیے جاتے ہیں۔—1-یوح 3:17۔
7. یسوع مسیح نے یہ بات کیسے سمجھائی کہ ”کل کے لئے فکر نہ کرو“؟
7 جب یسوع مسیح نے اِصطلاح ”ہماری روز کی روٹی“ کا ذکر کِیا تو غالباً وہ بنیادی ضروریات کی بات کر رہے تھے۔ اِس کا اِشارہ اِس بات سے ملتا ہے کہ یہ دُعا سکھانے کے بعد اُنہوں نے کہا کہ اگر یہوواہ خدا جنگلی پودوں کو پوشاک پہنا سکتا ہے تو ”اَے کماِعتقادو تُم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اِس لئے فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم . . . کیا پہنیں گے؟“ پھر اُنہوں نے یہ اہم نصیحت دُہرائی: ”کل کے لئے فکر نہ کرو۔“ (متی 6:30-34) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں مالودولت کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ جو ہمارے پاس ہے، اُسی پر خوش رہنا چاہیے۔ ہم اپنی بنیادی ضروریات کے لیے خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم خدا سے مناسب رہائش کے لیے دُعا کر سکتے ہیں، اپنے گھرانے کی دیکھبھال کرنے کے لیے مناسب نوکری حاصل کرنے کے لیے دُعا کر سکتے ہیں اور صحت کے مسائل سے نپٹنے کے لیے دانشمندی کی درخواست کر سکتے ہیں۔ لیکن اِن بنیادی ضروریات کے لیے دُعا کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم روحانی ضروریات کے لیے دُعا کریں۔
8. اِصطلاح ”ہماری روز کی روٹی“ ہمیں کون سی بات یاد دِلاتی ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
8 اِصطلاح ”ہماری روز کی روٹی“ ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ ہمیں باقاعدگی سے روحانی خوراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح متی 4:4) لہٰذا ہمیں یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ یہوواہ ہمیں وقت پر روحانی خوراک دیتا رہے۔
نے کہا: ”آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو [یہوواہ] خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔“ (”ہمارے قرض ہمیں معاف کر“
9. ہمارے گُناہ کس لحاظ سے ”قرض“ کی طرح ہیں؟
9 یسوع مسیح نے یہ کیوں کہا کہ ”ہمارے قرض ہمیں معاف کر“ جبکہ ایک اَور موقعے پر اُنہوں نے کہا کہ ”ہمارے گُناہ معاف کر“؟ (متی 6:12؛ لُو 11:4) 1951ء کے مینارِنگہبانی میں بتایا گیا کہ ”جب ہم خدا کا کوئی حکم توڑ کر گُناہ کرتے ہیں تو ہم خدا کے قرضدار بن جاتے ہیں۔ . . . ہمارے گُناہ کی وجہ سے خدا ہماری جان لے سکتا ہے۔ . . . وہ ہمیں اُس اِطمینان سے محروم کر سکتا ہے جو اُس نے ہمیں دیا اور ہم سے دوستی توڑ سکتا ہے۔ خدا ہماری محبت اور وفاداری کا حقدار ہے لیکن جب ہم گُناہ کرتے ہیں تو ہم خدا کے لیے محبت ظاہر نہیں کرتے اور یوں اُس کے قرضدار بن جاتے ہیں۔“—1-یوح 5:3۔
10. یہوواہ خدا کس بِنا پر ہمارے گُناہ معاف کر سکتا ہے اور ہمیں اِس بات کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟
10 ہم خدا کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمارے گُناہ معاف کرنے کے لیے یسوع مسیح کے فدیے کا بندوبست کِیا۔ ہمیں ہر روز یہوواہ خدا کی معافی کی ضرورت ہے۔ حالانکہ یسوع مسیح نے تقریباً 2000 سال پہلے اپنی جان قربان کی لیکن ہمیں آج بھی اُن کی قربانی سے فائدہ ہوتا ہے۔ ہماری ”جان کا فدیہ“ اِس قدر ”گراںبہا“ تھا کہ کوئی بھی عیبدار اِنسان اِسے ادا نہیں کر سکتا تھا۔ (زبور 49:7-9؛ 1-پطرس 1:18، 19 کو پڑھیں۔) ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا کے اِس بیشقیمت تحفے کے لیے اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ غور کریں کہ یسوع مسیح کی سکھائی ہوئی دُعا میں یہ نہیں کہا گیا کہ ”میرے گُناہ معاف کر“ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ”ہمارے گُناہ معاف کر۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ہمیں ہی یسوع مسیح کے فدیے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارے بہن بھائیوں کو بھی اِس کی ضرورت ہے۔ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی فکر رکھیں اور اِس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اُس کی قربت میں رہیں۔ ایسا کرنے میں یہ شامل ہے کہ جب وہ ہمارے خلاف گُناہ کرتے ہیں تو ہم اُنہیں معاف کریں۔ عموماً یہ گُناہ بڑی نہیں بلکہ چھوٹی موٹی غلطیاں ہوتے ہیں۔ اِنہیں معاف کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کے شکرگزار ہیں کہ وہ ہمیں معاف کرتا ہے۔—کل 3:13۔
11. دوسروں کو معاف کرنا کیوں ضروری ہے؟
11 عیبدار اِنسان ہونے کی وجہ سے شاید کبھی کبھار ہمیں دوسروں کو معاف کرنا مشکل لگے۔ (احبا 19:18) اگر ہم کلیسیا کے بہن بھائیوں کو یہ بتاتے ہیں کہ فلاں بہن یا بھائی نے ہمارے ساتھ کیا کِیا ہے تو شاید وہ ہماری طرفداری کریں اور یوں کلیسیا میں اِختلافات پیدا ہو جائیں۔ اگر ہم اِس صورتحال کو بگڑنے دیں گے تو ہم ظاہر کر رہے ہوں گے کہ ہم یہوواہ خدا کے رحم اور یسوع مسیح کے فدیے کی قدر نہیں کرتے۔ اگر ہم دوسروں کو معاف نہیں کریں گے تو یہوواہ خدا بھی یسوع مسیح کے فدیے کی بِنا پر ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ (متی 18:35) اپنے شاگردوں کو دُعا سکھانے کے فوراً بعد یسوع مسیح نے اِسی موضوع پر مزید بات کی۔ (متی 6:14، 15 کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا کی معافی حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سنگین گُناہ سے بچنے کی پوری کوشش کریں۔ اِس سلسلے میں آئیں، یسوع مسیح کی سکھائی ہوئی دُعا کی اگلی درخواست پر غور کریں۔—1-یوح 3:4، 6۔
”ہمیں آزمائش میں نہ لا“
12، 13. (الف) یسوع مسیح کے بپتسمہ لینے کے تھوڑی دیر بعد کیا ہوا؟ (ب) جب ہم شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں تو ہمیں دوسروں کو اِس کا ذمےدار کیوں نہیں ٹھہرانا چاہیے؟ (ج) یسوع مسیح نے موت تک وفادار رہنے سے کیا ثابت کِیا؟
12 یہ سمجھنے کے لیے کہ ہمیں خدا سے یہ درخواست کیوں کرنی چاہیے کہ ”ہمیں آزمائش میں نہ لا،“ آئیں، دیکھیں کہ یسوع مسیح کے بپتسمہ کے تھوڑی دیر بعد کیا ہوا۔ خدا کی روح اُنہیں بیابان لے گئی ’تاکہ وہ اِبلیس سے آزمائے جائیں۔‘ (متی 4:1؛ 6:13) یہوواہ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ دراصل آدم اور حوا نے خدا کی حکمرانی کو رد کر دیا تھا۔ شیطان نے کچھ سوال کھڑے کر دیے تھے جن کا جواب دینے کے لیے وقت درکار تھا۔ مثال کے طور پر کیا جب خدا نے اِنسانوں کو خلق کِیا تو اُن میں کوئی نقص تھا؟ کیا ایک بےعیب اِنسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ شیطان کے آزمانے کے باوجود خدا کا وفادار رہے؟ اور کیا اِنسان کے لیے یہ اچھا ہے کہ وہ خدا کی حکمرانی کو رد کر کے خود حکمرانی کرے؟ (پید 3:4، 5) یسوع مسیح نے خدا کے وفادار رہنے سے ثابت کر دیا کہ اِبلیس جھوٹا ہے۔ جب مستقبل میں اِن تمام سوالوں کے جواب یہوواہ خدا کی تسلی کے مطابق مل جائیں گے تو اِنسانوں اور فرشتوں پر ظاہر ہو جائے گا کہ خدا کی حکمرانی کرنے کا طریقہ ہی سب سے بہترین ہے۔
13 یہوواہ پاک خدا ہے اِس لیے وہ کبھی بھی کسی کو بُرائی کرنے پر نہیں اُکساتا۔ دراصل شیطان ہی وہ ہستی ہے جسے بائبل میں ”آزمانے والے“ کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ (متی 4:3) شیطان مختلف طریقوں سے ہمیں آزمانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ ہم پر ہے کہ ہم اُس کے پھندے میں پھنستے ہیں یا اُس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ (یعقوب 1:13-15 کو پڑھیں۔) جب شیطان نے یسوع مسیح کو آزمایا تو یسوع مسیح نے اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے خدا کے پاک کلام کو اِستعمال کِیا۔ یوں یسوع مسیح نے خدا کی حکمرانی کی بڑائی کی۔ لیکن شیطان نے بھی ہار نہیں مانی۔ بائبل میں لکھا ہے: ”اِبلیس . . . کسی اَور موقعے کا اِنتظار کرنے لگا۔“ (لُو 4:13، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) شیطان نے یسوع مسیح کی راستی کو توڑنے کے لیے کئی حربے اِستعمال کیے لیکن یسوع مسیح خدا کے وفادار رہے۔ یسوع مسیح نے خدا کی حکمرانی کی حمایت کی اور یہ ثابت کِیا کہ ایک بےعیب اِنسان کٹھن سے کٹھن آزمائش میں بھی خدا کا وفادار رہ سکتا ہے۔ شیطان، یسوع مسیح کے پیروکاروں کو بھی آزماتا ہے جس میں آپ بھی شامل ہیں۔
14. ہمیں آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
14 خدا کی حکمرانی کے حوالے سے اُٹھائے گئے سوالوں کا جواب ابھی بھی مکمل طور پر نہیں ملا۔ اِس لیے یہوواہ خدا نے شیطان کو اِجازت دی ہے کہ وہ اِس دُنیا کے ذریعے لوگوں کو آزمائے۔ یہوواہ خدا ہم پر آزمائشیں نہیں لاتا بلکہ اُسے ہم پر پورا اِعتماد ہے اور وہ ہماری مدد کرتا ہے۔ چونکہ اُس نے ہمیں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے اِس لیے وہ ہم پر آنے والی آزمائشوں کو نہیں روکتا۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ آیا ہم اُس کے وفادار رہیں گے یا نہیں۔ اگر ہم غلط کام کرنے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں روحانی طور پر جاگتے رہنے اور دُعا میں مشغول رہنے کی ضرورت ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ جب ہم آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تو وہ ہماری دُعا کا جواب کیسے دیتا ہے۔
15، 16. (الف) کچھ ایسی آزمائشیں بتائیں جن کا ہمیں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ (ب) اگر ایک شخص آزمائش میں پڑ جاتا ہے تو اِس کا ذمےدار کون ہوتا ہے؟
15 یہوواہ خدا ہمیں اپنی پاک روح دیتا ہے جس کی مدد سے ہم شیطان کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے کلام اور کلیسیا کے ذریعے ایسی صورتحال سے آگاہ کرتا ہے جن
سے ہمیں کنارہ کرنا چاہیے، مثلاً ہمیں آگاہ کِیا گیا ہے کہ ہمیں اپنا بہت سا وقت، پیسہ اور طاقت غیرضروری چیزیں حاصل کرنے میں نہیں لگانا چاہیے۔ ذرا ایسپن اور یانے کی مثال پر غور کریں جو یورپ کے ایک امیر ملک میں رہتے ہیں۔ بہت سالوں سے وہ اپنے ملک کے ایک ایسے علاقے میں پہلکار کے طور پر خدمت کر رہے تھے جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ جب اُن کا پہلا بچہ ہوا تو اُنہیں یہ خدمت چھوڑنی پڑی۔ اب اُن کا ایک اَور بچہ بھی ہے۔ ایسپن کہتے ہیں: ”چونکہ اب ہم پہلے کی طرح اپنا زیادہتر وقت مُنادی کے کام میں صرف نہیں کر پاتے اِس لیے ہم اکثر یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہم غیرضروری چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی آزمائش میں نہ پڑیں۔ ہم یہوواہ سے مدد مانگتے ہیں کہ ہم اُس کی قربت میں رہیں اور جوش سے مُنادی کے کام میں حصہ لیتے رہیں۔“16 ہمیں فحش مواد دیکھنے کی آزمائش سے بھی بچنا چاہیے۔ اگر ہم اِس پھندے میں پھنس جاتے ہیں تو ہم شیطان کو ذمےدار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ شیطان اور اُس کی دُنیا ہمیں کسی ایسے کام پر مجبور نہیں کر سکتی جو ہم نہیں کرنا چاہتے۔ بعض لوگ اِس لیے فحش مواد دیکھنے کے پھندے میں پھنستے ہیں کیونکہ وہ اپنے دلودماغ سے بُرے خیالوں کو نہیں نکالتے۔ لیکن بہت سے بہن بھائیوں نے اِس آزمائش کا مقابلہ کِیا اور ہم بھی کر سکتے ہیں۔—1-کُر 10:12، 13۔
ہمیں شیطان سے بچا
17. (الف) ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں شیطان سے بچائے؟ (ب) بہت جلد ہمیں کس بات سے سکون ملے گا؟
17 یسوع مسیح کی سکھائی دُعا کی آخری درخواست یہ ہے کہ ”ہمیں . . . بُرائی سے بچا۔“ جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”بُرائی“ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ”بُری ہستی“ ہے۔ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں شیطان سے بچائے؟ ایسا کرنے کے لیے ہمیں شیطان کی دُنیا کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمیں نہ تو شیطان کی دُنیا سے اور نہ اُن چیزوں سے محبت رکھنی چاہیے جو دُنیا میں ہیں۔ (یوح 15:19؛ 1-یوح 2:15-17) لیکن اِس کے لیے مسلسل کوشش درکار ہے۔ ہمیں اُس وقت واقعی سکون ملے گا جب یہوواہ خدا شیطان کو اتھاہ گڑھے میں بند کرے گا اور اُس کی دُنیا کو ختم کرے گا۔ تب تک ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب شیطان کو زمین پر پھینکا گیا تھا تو وہ جانتا تھا کہ اُس کا تھوڑا سا ہی وقت باقی ہے۔ وہ بہت غصے میں ہے اور اُس پر ہماری راستی توڑنے کی دُھن سوار ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ خدا ہمیں شیطان سے بچائے۔—مکا 12:12، 17۔
18. اگر ہم شیطان کی دُنیا کے خاتمے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرتے رہنا ہوگا؟
18 کیا آپ شیطان سے پاک دُنیا میں رہنا چاہتے ہیں؟ تو پھر خدا کی بادشاہت کے آنے، خدا کے نام کے پاک ٹھہرنے اور زمین پر اُس کی مرضی پوری ہونے کے لیے دُعا کرتے رہیں۔ اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ یہوواہ خدا ہماری ضروریات پوری کرے گا اور ہمیں اِس قابل بنائے گا کہ ہم اُس کے وفادار رہ سکیں۔ آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم یسوع مسیح کی سکھائی ہوئی دُعا کے مطابق زندگی گزاریں گے۔