آپبیتی
”بےشمار جزیرے خوشی منائیں“
مَیں 22 مئی 2000ء کا دن کبھی نہیں بھول سکتا۔ مَیں اور دُنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے کچھ بھائی اُس کمرے میں بیٹھے تھے جہاں گورننگ باڈی کا اِجلاس ہوتا ہے۔ ہم تحریر کی کمیٹی کے ارکان کا اِنتظار کر رہے تھے جو بس آنے ہی والے تھے۔ ہم کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ دراصل پچھلے کچھ ہفتوں سے ہم اُن مسئلوں کا جائزہ لے رہے تھے جن کا سامنا ہمارے ترجمہنگاروں کو ہو رہا تھا۔ اب ہمیں تحریر کی کمیٹی کے سامنے اِن مسئلوں کے حل کے لیے کچھ تجاویز پیش کرنی تھیں۔ لیکن یہ اِجلاس اِتنا اہم کیوں تھا؟ یہ بتانے سے پہلے آئیں، مَیں آپ کو اپنے پسمنظر کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔
مَیں 1955ء میں آسٹریلیا کی ریاست کوئنزلینڈ میں پیدا ہوا۔ میری امی کا نام اِسٹل اور ابو کا نام ران ہے۔ میری پیدائش کے کچھ ہی دیر بعد امی یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کا کورس کرنے لگیں اور اگلے ہی سال اُنہوں نے بپتسمہ لے لیا۔ میرے ابو نے اِس کے 13 سال بعد بپتسمہ لیا۔ اور میرا بپتسمہ 1968ء میں ہوا۔
مجھے بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے اور فرق فرق زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ جب مَیں امیابو کے ساتھ گھومنے جایا کرتا تھا تو مَیں راستے میں خوبصورت منظر دیکھنے کی بجائے کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ یہ بات میرے والدین کو یقیناً بُری لگتی ہو گی۔ لیکن کتابیں پڑھنے کا شوق پڑھائی میں میرے بڑے کام آیا۔ مَیں نے ہائی سکول میں بہت سے اِنعام جیتے۔ میرا سکول ریاست تسمانیا کے شہر گیلناورکی میں تھا۔
آخر ایک وقت آیا جب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ مَیں یونیورسٹی میں پڑھنے جاؤں گا یا نہیں۔ مجھے جتنی محبت کتابوں سے تھی، اُس سے کہیں زیادہ محبت یہوواہ خدا سے تھی۔ میرے دل میں یہ محبت میری امی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ (1-کُر 3:18، 19) لہٰذا مَیں نے جنوری 1971ء میں سکول کی پڑھائی ختم کر کے سند حاصل کی اور اِس کے بعد اپنے امیابو کی رضامندی سے پہلکار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔ اُس وقت مَیں 15 سال کا تھا۔
اگلے آٹھ سال کے دوران مجھے تسمانیا میں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے
کا شرف ملا۔ اُس دوران میری شادی تسمانیا کی ایک خوبصورت لڑکی سے ہو گئی۔ اُس کا نام جینی آلکوک تھا۔ ہم دونوں نے چار سال تک دو قصبوں میں خصوصی پہلکاروں کے طور پر خدمت کی۔ ایک قصبہ تسمانیا کے شمال مغرب میں واقع تھا اور دوسرا مغربی ساحل پر واقع تھا۔بحراُلکاہل کے جزائر کو روانگی
1978ء میں ہم پہلی بار آسٹریلیا سے باہر گئے۔ دراصل ہم پاپوا نیوگنی کے شہر پورٹ مورسبی میں بینالاقوامی اِجتماع پر گئے تھے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ وہاں مَیں نے ایک مشنری کو ہیری موتو زبان میں تقریر دیتے سنا۔ مجھے تقریر کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا لیکن مجھے یہ ترغیب ضرور ملی کہ مَیں بھی ایک مشنری بنوں، دوسری زبانیں سیکھوں اور اُس مشنری کی طرح تقریر دوں۔ آخرکار مجھے یہوواہ خدا سے محبت اور زبانوں سے محبت دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی راہ مل گئی۔
جب ہم آسٹریلیا واپس آئے تو ہمیں یہ سُن کر بڑی حیرانی ہوئی کہ ہمیں مشنریوں کے طور پر خدمت کرنے کے لیے ٹوالو کے جزیرے فونافوتی بھیجا جا رہا ہے۔ اُس وقت اِس جزیرے کا نام الیس تھا۔ ہم نے جنوری 1979ء میں مشنریوں کے طور پر خدمت شروع کی۔ اُس وقت ٹوالو میں صرف تین مبشر تھے۔
ٹوالوان زبان سیکھنا آسان نہیں تھا۔ اُس وقت ٹوالوان زبان میں صرف ایک ہی کتاب تھی جسے عام طور پر نیا عہدنامہ کہا جاتا ہے۔ اِس زبان میں نہ تو کوئی لغت تھی اور نہ ہی زبان سیکھنے کے لیے کوئی اَور کتاب۔ ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہم ہر دن 10 سے 20 لفظ سیکھیں گے۔ لیکن جلد ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ہم جو لفظ سیکھ رہے ہیں، اُن میں سے زیادہتر کا صحیح مطلب ہم نہیں جانتے تھے۔ مثال کے طور پر لوگوں کو یہ سکھانے کی بجائے کہ غیب کا حال بتانا غلط ہے ہم اُن کو یہ سکھا رہے تھے کہ ترازو اور چھڑی اِستعمال کرنا غلط ہے۔ چونکہ ہم بہت سے لوگوں کو بائبل کا کورس کرا رہے تھے اِس لیے یہ ضروری تھا کہ ہم ٹوالوان زبان سیکھیں۔ لہٰذا ہم نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ جن لوگوں کو ہم بائبل کا کورس کراتے تھے، اُن میں سے ایک شخص کئی سال بعد ہمیں ملا اور اُس نے کہا: ”ہم بہت خوش ہیں کہ اب آپ ہماری زبان بول سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو ہمیں آپ کی بات بالکل سمجھ نہیں آتی تھی۔“
بعض کہتے ہیں کہ زبان سیکھنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن لوگوں میں رہیں جو یہ زبان بولتے ہیں۔ اور ہمارے سلسلے میں ایسا ہی ہوا۔ ٹوالو میں ہمیں کرائے پر کوئی گھر نہیں ملا اِس لیے ہمیں وہاں کے ایک گاؤں میں ایک ایسے خاندان کے ساتھ رہنا پڑا جو یہوواہ کا گواہ تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں ہر وقت ٹوالوان زبان سننے اور بولنے کا موقع ملا اور ہم وہاں کے رہنسہن کے بھی عادی ہو گئے۔ ہم نے کئی سال تک انگریزی نہیں بولی اِس لیے ٹوالوان ہی ہماری زبان بن گئی۔
کچھ ہی عرصے میں بہت سے لوگ پاک کلام کی سچائیاں سیکھنے میں دلچسپی لینے 1-کُر 14:9) لیکن ہمارے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ”کیا کبھی ٹوالوان زبان میں کتابیں اور رسالے شائع ہوں گے کیونکہ یہ زبان صرف 15 ہزار لوگ بولتے تھے؟“ یہوواہ خدا نے جس طرح سے اِس سوال کا جواب دیا، اُس سے دو باتیں ثابت ہو گئیں: (1) وہ چاہتا ہے کہ ”دُور کے جزیروں میں“ اُس کا کلام سنایا جائے۔ (2) اُس کی خواہش ہے کہ وہ لوگ اُس کے نام پر توکل کریں جنہیں دُنیا ”مظلوم اور مسکین“ یعنی چھوٹا اور حقیر سمجھتی ہے۔—یرم 31:10؛ صفن 3:12۔
لگے۔ لیکن ہمارے پاس اُن کی زبان میں کوئی کتاب یا رسالہ نہیں تھا۔ اب سوچنا یہ تھا کہ ہم اُنہیں بائبل کا کورس کرانے کے لیے کیا اِستعمال کریں گے؟ وہ ذاتی طور پر تحقیق کرنے کے لیے کیا اِستعمال کریں گے؟ جب وہ اِجلاسوں پر آئیں گے تو وہ کون سے گیت گائیں گے، کون سی کتابیں اور رسالے اِستعمال کریں گے اور اِجلاسوں کی تیاری کیسے کریں گے؟ اور کیا وہ کبھی بپتسمے تک پہنچ پائیں گے؟ یہ ضروری تھا کہ اُن لوگوں کو روحانی خوراک اُن کی اپنی زبان میں ملے۔ (ترجمہنگاروں کے طور پر خدمت
1980ء میں برانچ نے ہمیں ترجمہنگاروں کے طور پر کام کرنے کی ذمےداری سونپی حالانکہ ہم خود کو اِس لائق نہیں سمجھتے تھے۔ (1-کُر 1:28، 29) شروع میں ہم نے ایک سرکاری اِدارے سے ایک مشین خریدی جس کے ذریعے ہم اِجلاسوں پر اِستعمال ہونے والے مواد کو چھاپ سکتے تھے۔ ہم نے کتاب سچائی جو باعثِابدی زندگی ہے کا ترجمہ بھی کِیا اور اِس کتاب کو اِسی مشین پر چھاپا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب ہم اِس مشین پر کام کرتے تھے تو سیاہی کی کتنی بُو آتی تھی اور ہم سخت گرمی میں کتابوں اور رسالوں کو ہاتھ سے چھاپنے کے لیے کتنی محنت کرتے تھے۔ اُس زمانے میں تو بجلی بھی نہیں تھی۔
ٹوالوان زبان میں ترجمہ کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ اِس زبان میں کوئی لغت دستیاب نہیں تھی۔ لیکن کبھی کبھار یہوواہ خدا نے ایسے طریقوں سے ہماری مدد کی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک دن مُنادی کے دوران مَیں نے غلطی سے ایک ایسے شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا جو یہوواہ کے گواہوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ شخص بوڑھا ہو چُکا تھا لیکن پہلے وہ ایک سکول میں پڑھاتا تھا۔ اُس نے فوراً مجھ سے کہا کہ مجھے اُس کے گھر نہیں آنا چاہیے تھا۔ پھر اُس نے کہا: ”مَیں تمہیں بس ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ تُم اپنے ترجمے میں گرامر کے کچھ قواعد کو جیسے اِستعمال کرتے ہو، ٹوالوان زبان میں اُنہیں ویسے اِستعمال نہیں کِیا جاتا۔“ جب مَیں نے دوسرے لوگوں سے اِس
کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بھی کہا کہ اُس شخص کی بات صحیح ہے۔ اِس کے بعد ہم ترجمہ کرتے وقت اِس بات کو ذہن میں رکھتے تھے۔ لیکن مَیں اِس بات سے بہت حیران تھا کہ یہوواہ خدا نے ایک ایسے شخص کے ذریعے ہماری مدد کی جو یہوواہ کے گواہوں کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن ہماری کتابیں ضرور پڑھتا تھا۔ہم نے ٹوالوان زبان میں سب سے پہلے جو چیز شائع کی، وہ یسوع مسیح کی یادگاری تقریب کا دعوتنامہ تھا۔ اِس کے بعد بادشاہتی خبر نمبر 30 شائع ہوئی۔ یہ پرچہ اور انگریزی کا پرچہ ایک ہی وقت میں شائع ہوئے۔ ہم اِس بات سے بہت خوش تھے کہ اب ہم لوگوں کو اُن کی اپنی زبان میں کچھ دے سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم نے کچھ کتابیں بھی شائع کیں۔ 1983ء میں آسٹریلیا کی برانچ نے ہر تین ماہ بعد 24 صفحوں پر مشتمل مینارِنگہبانی شائع کرنا شروع کِیا۔ اب ہم ہر ہفتے اِجلاس پر تقریباً سات پیراگراف کا مطالعہ کر سکتے تھے۔ ہماری اِن کوششوں پر لوگوں کا کیا ردِعمل تھا؟ چونکہ ٹوالو کے لوگ پڑھنے کے بہت شوقین ہیں اِس لیے ہماری کتابیں اور رسالے بہت مقبول ہو گئے۔ جب بھی کوئی نئی کتاب یا رسالہ آتا تو سرکاری ریڈیو پر خبروں میں اِس کا اِعلان کِیا جاتا اور کبھی کبھار تو اِس کا ذکر اہم خبروں میں کِیا جاتا تھا۔ *
ترجمے کا کام کیسے کِیا جاتا تھا؟ پہلے ہم ترجمے کو کاغذ پر ہاتھ سے لکھتے تھے۔ پھر اِسے ٹائپ رائٹر کے ذریعے ٹائپ کرتے تھے اور پھر آسٹریلیا کی برانچ میں چھپنے کے لیے بھیج دیتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا جب برانچ نے دو بہنوں کو جنہیں ٹوالوان زبان نہیں آتی تھی، یہ ذمےداری دی کہ وہ ترجمہشُدہ مواد کو الگ الگ کمپیوٹر پر ڈالیں۔ اِس طرح مواد کی دو کاپیاں بنانے اور کمپیوٹر پر اِن کا موازنہ کرنے سے غلطیوں کا اِمکان کم ہو جاتا تھا۔ مواد کو کمپوز کرنے کے بعد اِسے ہوائی ڈاک کے ذریعے ہمارے پاس چیک کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا اور پھر ہم اِسے چھپائی کے لیے واپس بھیج دیتے تھے۔
اب تو ترجمے کے کام میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ اب ترجمے کو براہِراست کمپیوٹر پر ٹائپ کِیا جاتا ہے۔ اکثر مواد کو مقامی برانچوں میں ہی کمپوز کِیا جاتا ہے اور پھر اِسے اِنٹرنیٹ کے ذریعے اُن برانچوں کو بھیجا جاتا ہے جو چھپائی کرتی ہیں۔ اب ترجمہشُدہ مواد کو دوسرے ملکوں میں بھیجنے کے لیے ڈاک خانے کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ترجمہنگاروں کی مدد کرنے کا اعزاز
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھے اور جینی کو بحراُلکاہل کے جزائر میں مختلف ذمےداریاں ملتی رہیں۔ 1985ء میں ہمیں ٹوالو سے ساموا کی برانچ میں بھیجا گیا۔ وہاں ہم نے ٹوالوان زبان کے ساتھ ساتھ ساموائی، ٹونگان اور ٹوکیلاؤان زبان میں ترجمہ کرنے والی ٹیموں کی مدد کی۔ پھر 1996ء میں ہمیں اِسی کام کے سلسلے میں فیجی کی برانچ میں بھیجا گیا۔ وہاں ہم نے فیجیائی، کیریباتی، ناؤروان، روتومان اور ٹوالوان زبان میں ترجمے کے کام میں مدد کی۔
مَیں اِس بات کی بڑی قدر کرتا ہوں کہ ہمارے ترجمہنگار اِتنی محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ کام بہت مشکل اور تھکا دینے والا ہے لیکن پھر بھی وہ یہوواہ خدا کی طرح یہ چاہتے ہیں کہ ”ہر قوم اور قبیلہ اور اہلِزبان اور اُمت“ کے لوگوں تک خوشخبری پہنچے۔ (مکا 14:6) مَیں آپ کو اِس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ جب تنظیم نے ٹونگان زبان میں مینارِنگہبانی کا ترجمہ کرنے کا فیصلہ کِیا تو مَیں جزیرہ ٹونگا کے بزرگوں سے ملا اور اُن سے پوچھا کہ ”ہم اِس کام کے لیے کس کو تربیت دے سکتے ہیں؟“ اِس پر ایک بزرگ نے کہا کہ وہ اگلے دن اِستعفیٰ دے گا اور ترجمہنگار کے طور پر کام کرے گا۔ وہ بھائی مکینک تھا اور اُس کے پاس اچھی خاصی نوکری تھی۔ اُس کے جذبے کو دیکھ کر مَیں بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ بالبچوں والا تھا اور یہ نہیں جانتا تھا کہ نوکری چھوڑنے کے بعد اُن کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ اِس کے باوجود اُس نے اپنے آپ کو پیش کِیا اور بہت سالوں تک ترجمہنگار کے طور پر کام کِیا۔ یہوواہ خدا نے اُس کی اور اُس کے گھر والوں کی ضروریات پوری کیں۔
ہمارے ایسے ترجمہنگاروں کی سوچ بالکل ویسی ہی جیسی گورننگ باڈی کی ہے۔ گورننگ باڈی چاہتی ہے کہ ایسی زبانوں میں بھی روحانی خوراک فراہم کی جائے جو بہت کم لوگ بولتے ہیں۔ ایک دفعہ یہ سوال اُٹھا کہ ”کیا ٹوالوان زبان میں ترجمہ کرنے کا کوئی فائدہ ہے؟“ جب ہم نے اِس سلسلے میں گورننگ باڈی سے پوچھا تو اُنہوں نے لکھا: ”ہمیں اِس زبان میں ترجمہ بند کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ یہ صحیح ہے کہ دوسری زبانوں کی نسبت ٹوالوان زبان بولنے والوں کی تعداد کم ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ اِن لوگوں تک خوشخبری اُن کی اپنی زبان میں پہنچے۔“ اِس جواب کو سُن کر مجھے بہت حوصلہ ملا۔
2003ء میں مجھے اور جینی کو فیجی کے بیتایل سے امریکہ کے شہر پیٹرسن کے بیتایل میں بلایا گیا جہاں ہم نے اُس شعبے کے ساتھ کام کِیا جو پوری دُنیا میں ترجمہنگاروں کی مدد کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز تھا! ہم نے اُس گروپ کے ساتھ کام کِیا جو حال ہی میں ترجمہ شروع کرنے والی ٹیموں کو تربیت دیتا ہے۔ اگلے دو سال کے دوران ہم مختلف ملکوں میں گئے اور وہاں ترجمہنگاروں کو تربیت دی۔
کچھ اہمترین فیصلے
آئیں، اب مَیں آپ کو اُس اِجلاس کے بارے میں بتاتا ہوں جس کا مَیں نے شروع میں ذکر کِیا تھا۔ 2000ء میں گورننگ باڈی نے دیکھا کہ پوری دُنیا میں ہمارے ترجمہنگاروں کو مزید مدد اور تربیت کی ضرورت ہے۔ اُس وقت تک ترجمہ کرنے والے زیادہتر بہن بھائیوں کو کوئی خاص تربیت نہیں مل رہی تھی۔ جب ہم نے تحریر کی کمیٹی کے ارکان کے سامنے اپنی تجاویز پیش کیں تو یہ اُنہیں پسند آئیں اور پھر گورننگ باڈی نے اِجازت دی کہ تمام ترجمہنگاروں کو تربیت دینے کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا جائے۔ اِس پروگرام کے تحت ترجمہنگاروں کو سکھایا گیا کہ وہ انگریزی کے معنی کو کیسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ترجمے میں پیش آنے والی مشکلوں کو حل کرنے کے لیے کون سے طریقے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اور ترجمہ ایک شخص نہیں بلکہ تین لوگ مل کر کریں گے۔
ترجمہنگاروں کو تربیت دینے سے کون سے فائدے ہوئے؟ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ترجمے کا معیار بہتر ہوا۔ دوسرا اُن زبانوں کی تعداد میں تیزی سے اِضافہ ہوا جن میں ہم اب کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں۔ 1979ء میں جب ہم نے مشنریوں کے طور پر خدمت شروع کی تو مینارِنگہبانی صرف 82 زبانوں میں شائع ہوتا تھا اور زیادہتر زبانوں میں تو یہ انگریزی شمارے کے کئی مہینوں بعد آتا تھا۔ لیکن اب مینارِنگہبانی کا ترجمہ 240 سے زیادہ زبانوں میں ہو رہا ہے اور زیادہتر زبانوں میں یہ انگریزی شمارے کے ساتھ ہی آتا ہے۔ اب روحانی خوراک 700 سے زیادہ زبانوں میں دستیاب ہے۔ کئی سال پہلے تک تو ہم اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے!
2004ء میں گورننگ باڈی نے ایک اَور اہم فیصلہ کِیا۔ اُنہوں نے طے کِیا کہ بائبل کے ترجمے کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ اِس فیصلے کی وجہ سے نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کا ترجمہ پہلے سے زیادہ زبانوں میں ہونے لگا۔ 2014ء تک اِس
پوری بائبل کا یا اِس کے کچھ حصوں کا ترجمہ 128 زبانوں میں ہو چُکا تھا اور اِن میں کچھ ایسی زبانیں بھی شامل تھیں جو جنوبی بحراُلکاہل کے جزائر میں بولی جاتی ہیں۔2011ء میں مجھے ٹوالو میں صوبائی اِجتماع کے لیے بھیجا گیا جو میرے لیے ایک شاندار اعزاز تھا۔ کئی مہینوں سے ٹوالو میں بارش نہیں ہوئی تھی اور پورا ملک خشکسالی کا شکار تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اِجتماع نہیں ہوگا۔ لیکن جس شام مَیں وہاں پہنچا، بہت تیز بارش ہوئی اور آخرکار اِجتماع منعقد ہوا۔ اِس اِجتماع پر مجھے یہ اِعلان کرنے کا شرف ملا کہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کے یونانی صحیفے اب ٹوالوان زبان میں بھی دستیاب ہیں۔ یہ پہلی بار تھا کہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن ایک ایسی زبان میں شائع کی گئی جسے اِتنے کم لوگ بولتے ہیں۔ یہ ٹوالوان زبان بولنے والے لوگوں کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت تحفہ تھا۔ اِجتماع کے آخر پر پھر سے تیز بارش ہوئی۔ سب کو روحانی پانی بھی کثرت سے ملا اور حقیقی پانی بھی۔
افسوس کی بات ہے کہ جینی میرے ساتھ ٹوالو نہیں جا سکیں۔ اُن کا اور میرا 35 سال کا ساتھ تھا لیکن دس سال تک چھاتی کے کینسر سے لڑنے کے بعد آخرکار 2009ء میں وہ فوت ہو گئیں۔ جب وہ زندہ ہوں گی تو وہ یقیناً یہ خبر سُن کر بہت خوش ہوں گی کہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن ٹوالوان زبان میں شائع ہوئی تھی۔
بعد میں میری شادی لورینی سکیوو سے ہو گئی۔ لورینی اور جینی، فیجی کی برانچ میں ایک ساتھ کام کرتی تھیں۔ لورینی بھی ایک ترجمہنگار تھیں اور فیجیائی زبان کی ٹیم کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ اب مَیں اور لورینی دونوں مل کر یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں اور ہم دونوں کو زبانوں سے محبت ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر بڑا حوصلہ ملتا ہے کہ یہوواہ خدا کو فرق فرق زبانیں بولنے والے لوگوں سے کتنی محبت ہے، چاہے وہ زبان چھوٹی ہو یا بڑی۔ (زبور 49:1-3) جب لوگ پہلی بار اپنی زبان میں ہماری کوئی کتاب وغیرہ دیکھتے ہیں یا کوئی گیت گاتے ہیں تو اُن کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھتے ہیں۔ اور یہی خوشی مجھے یہوواہ خدا کی محبت کی یاد دِلاتی ہے۔ (اعما 2:8، 11) مجھے ایک بوڑھے بھائی کی بات ابھی تک یاد ہے جنہوں نے پہلی بار اپنی زبان میں گیت گانے کے بعد مجھ سے کہا: ”آپ گورننگ باڈی کو ضرور یہ بتائیں کہ ٹوالوان زبان میں گیت انگریزی زبان میں گیتوں سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔“
ستمبر 2005ء سے مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ مَیں یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے ایک رُکن کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔ اب مَیں ترجمہنگار کے طور پر کام نہیں کرتا لیکن مَیں یہوواہ خدا کا بہت شکرگزار ہوں کہ مَیں ابھی بھی کسی نہ کسی طرح سے ترجمے کے کام کو فروغ دینے میں حصہ لے رہا ہوں۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو اُن کی زبان میں روحانی خوراک فراہم کر رہا ہے، یہاں تک کہ اُن کو بھی جو بحراُلکاہل کے الگ تھلگ جزیروں پر رہتے ہیں۔ واقعی زبورنویس کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ ”[یہوواہ] سلطنت کرتا ہے۔ زمین شادمان ہو۔ بےشمار جزیرے خوشی منائیں۔“—زبور 97:1۔
^ پیراگراف 18 اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی 15 دسمبر 2000ء، صفحہ 32 کو دیکھیں۔