مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے نوجوان بچوں کو خدا کی خدمت کرنے کی تربیت دیں

اپنے نوجوان بچوں کو خدا کی خدمت کرنے کی تربیت دیں

‏”‏یسوؔع حکمت اور قدوقامت میں اور خدا کی اور اِنسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔‏“‏—‏لُو 2:‏52‏۔‏

گیت:‏ 41،‏ 11

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ بعض والدین اپنے نوجوان بچوں کے حوالے سے کیوں فکرمند ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ نوجوانوں کے پاس کیا کرنے کا موقع ہوتا ہے؟‏

یہوواہ کی خدمت کرنے والے والدین کی زندگی میں وہ لمحہ بڑی خوشی کا ہوتا ہے جب اُن کا بچہ بپتسمہ لیتا ہے۔‏ ذرا بہن برنیس کی مثال پر غور کریں جن کے چار بچے ہیں۔‏ اُن کے چاروں بچوں نے 14 سال کی عمر سے پہلے بپتسمہ لیا۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اُس وقت ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔‏ ہم اِس بات پر بہت خوش تھے کہ ہمارے بچے یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ مگر ہمیں یہ بھی پتہ تھا کہ نوجوانوں کے طور پر ہمارے بچوں کو بہت سی مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔‏“‏ اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی نوجوان ہے یا نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا ہے تو بہن برنیس کی طرح شاید آپ بھی اپنے بچے کے لیے فکرمند ہوں۔‏

2 نوجوانی کا عرصہ والدین اور بچوں دونوں کے لیے بہت مشکل ہو سکتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں بچوں کی نفسیات کے ایک ماہر نے کہا:‏ ”‏نوجوانی کا عرصہ ایسا عرصہ نہیں جس میں نوجوان نادانی یا بچکانہ حرکتیں کرتے ہیں۔‏ دراصل یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب اُن کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں،‏ وہ لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نئے نئے کام کرنے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں۔‏“‏ اِس عرصے میں آپ کا نوجوان بچہ یہوواہ خدا کے ساتھ دوستی کو اَور گہرا کر سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے یسوع مسیح نے نوجوانی میں کِیا تھا۔‏ ‏(‏لُوقا 2:‏52 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے علاوہ وہ خدا کی خدمت میں اَور آگے بڑھ سکتا ہے اور خود اہم فیصلے کر سکتا ہے جیسے کہ خدا کے لیے زندگی وقف کرنے کا فیصلہ۔‏ لیکن آپ اپنے نوجوان بچے کی تربیت کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ خدا کی خدمت کرے؟‏ اِس سلسلے میں آپ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت کرتے وقت محبت،‏ خاکساری اور سمجھ‌داری ظاہر کی۔‏

اپنے نوجوان بچے کے لیے محبت ظاہر کریں

3.‏ یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کو دوست کیوں کہا؟‏

3 یسوع مسیح اپنے رسولوں کے صرف مالک نہیں تھے بلکہ وہ اُن کے دوست بھی تھے۔‏ ‏(‏یوحنا 15:‏15 کو پڑھیں۔‏)‏ قدیم زمانے میں مالک اپنے نوکروں سے اپنا دُکھ سُکھ نہیں بانٹتے تھے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے نوکروں جیسا سلوک نہیں کِیا۔‏ اِس کی بجائے وہ اُن سے پیار کرتے تھے؛‏ اُن کے ساتھ وقت گزارتے تھے؛‏ اُن کے سامنے اپنے احساسات کا اِظہار کرتے تھے اور بڑے دھیان سے اُن کے دل کی باتیں سنتے تھے۔‏ (‏مر 6:‏30-‏32‏)‏ اِس وجہ سے یسوع مسیح اور رسولوں کی دوستی بہت گہری ہو گئی اور یوں رسول اُس ذمےداری کو نبھانے کے لیے تیار ہو گئے جو اُنہیں بعد میں سونپی گئی۔‏

4.‏ آپ اپنے نوجوان بچے کے دوست کیسے بن سکتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

4 ذرا بھائی مائیکل کے بیان پر غور کریں جن کے دو بچے ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہم والدین اپنے بچوں کے ہم‌عمروں جیسے تو نہیں ہو سکتے لیکن ہم اُن کے دوست ضرور بن سکتے ہیں۔‏“‏ دوست وہ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔‏ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے اپنی ملازمت اور دیگر کاموں سے تھوڑی بہت فرصت نکال سکتے ہیں؟‏ کیوں نہ ایسا کرنے کے لیے یہوواہ خدا سے مدد مانگیں؟‏ اِس کے علاوہ دوستوں کی پسند ناپسند بھی ملتی ہے۔‏ لہٰذا اُن باتوں میں دلچسپی لیں جو آپ کے نوجوان بچے کو پسند ہیں جیسے کہ اُس کے پسندیدہ گانوں،‏ فلموں اور کھیل وغیرہ میں۔‏ اِٹلی میں رہنے والی اِلاریہ کہتی ہیں:‏ ”‏میرے امی ابو بھی وہ گانے سنتے ہیں جو مجھے پسند ہیں۔‏ میرے ابو تو میرے سب سے قریبی دوست ہیں اور مَیں کُھل کر اُن سے کسی بھی معاملے کے بارے میں بات کر سکتی ہوں۔‏“‏ اگر آپ اپنے نوجوان بچے کے دوست بنیں گے اور یہوواہ کا دوست بننے میں اُس کی مدد کریں گے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین کے طور پر آپ کا اِختیار کم ہو جائے گا۔‏ اِس کی بجائے آپ کے بچے کو لگے گا کہ آپ اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُس کی عزت کرتے ہیں اور یوں وہ بِلاجھجک آپ سے کسی بھی معاملے کے بارے میں بات کر سکے گا۔‏

5.‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی کیا حوصلہ‌افزائی کی تاکہ اُن کو خوشی ملے؟‏

5 یسوع مسیح چاہتے تھے کہ اُن کے شاگرد اُس خوشی کو محسوس  کریں جو خدا کی خدمت میں مصروف رہنے سے ملتی ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اپنے شاگردوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ دل لگا کر مُنادی کا کام کریں اور اُنہیں یقین دِلایا کہ وہ اِس کام میں اُن کا پورا ساتھ دیں گے۔‏—‏متی 28:‏19،‏ 20‏۔‏

6،‏ 7.‏ والدین کو بچوں کے لیے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا معمول کیوں قائم کرنا چاہیے؟‏

6 یقیناً آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ یہوواہ کی قربت میں رہے۔‏ یہوواہ خدا بھی یہی چاہتا ہے کہ آپ ’‏اُس کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اپنے بچوں کی پرورش کریں۔‏‘‏ (‏اِفس 6:‏4‏)‏ لہٰذا ایسا معمول بنائیں جس سے آپ کے بچوں کو باقاعدگی سے یہوواہ خدا کی طرف سے تربیت ملتی رہے۔‏ غور کریں:‏ آپ بِلاناغہ اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تاکہ وہ تعلیم کا زیور پہنیں اور اُن کے دل میں نئی نئی باتیں سیکھنے کا شوق پیدا ہو۔‏ اِسی طرح بِلاناغہ اپنے بچوں کو اِجلاسوں اور اِجتماعوں پر لے کر جائیں اور اُن کے ساتھ خاندانی عبادت کریں تاکہ وہ یہوواہ سے تعلیم پائیں اور حکمت حاصل کریں اور اُن کے دل میں خدا کی خدمت کرنے کا شوق پیدا ہو۔‏ (‏امثا 24:‏14‏)‏ اپنے بچوں کو باقاعدگی سے مُنادی میں بھی لے کر جائیں۔‏ جس طرح یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو مُنادی کرنا سکھایا اُسی طرح آپ بھی اپنے بچوں کو خدا کے کلام سے تعلیم دینا سکھائیں۔‏

7 جب والدین بچوں کے لیے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا معمول قائم کرتے ہیں تو اِس سے بچوں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏ جنوبی افریقہ میں رہنے والی بہن ایرن کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں اور میرے بہن بھائی بائبل کا مطالعہ کرنے اور اِجلاسوں اور مُنادی پر جانے سے اکثر بھاگتے تھے۔‏ کبھی کبھار تو ہم جان بُوجھ کر کچھ ایسا کر دیتے تھے تاکہ ہمیں خاندانی عبادت نہ کرنی پڑے۔‏ لیکن ہمارے والدین نے ہمت نہیں ہاری۔‏ اُن کی تربیت کی وجہ سے مَیں خدا کی عبادت کرنے کے معمول پر قائم ہوں۔‏ اگر کبھی کسی وجہ سے اِس معمول میں خلل پڑ جاتا ہے تو مجھے بہت خالی خالی محسوس ہوتا ہے اور میری خواہش ہوتی ہے کہ مَیں دوبارہ اپنی روٹین پر آ جاؤں۔‏ اگر میرے والدین نے ہمارے لیے ایسا معمول قائم نہ کِیا ہوتا تو مَیں آئے دن اِجلاسوں اور مُنادی سے غیرحاضر رہتی۔‏“‏

خاکساری ظاہر کریں

8.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کی خاکساری کا اُن کے شاگردوں پر کیا اثر ہوا؟‏

8 اگرچہ یسوع مسیح بےعیب تھے تو بھی اُنہوں نے خاکساری ظاہر کی اور شاگردوں کے سامنے اِس بات کو تسلیم کِیا کہ وہ یہوواہ خدا کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔‏ ‏(‏یوحنا 5:‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ کیا اِس وجہ سے شاگردوں کی نظر میں یسوع مسیح کی عزت گھٹ گئی؟‏ جی نہیں۔‏ جب شاگردوں نے دیکھا کہ یسوع مسیح یہوواہ خدا پر کتنا بھروسا کرتے ہیں تو اُن کا بھروسا یسوع مسیح پر بڑھا۔‏ بعد میں شاگردوں نے یسوع مسیح کی طرح خاکساری بھی ظاہر کی۔‏—‏اعما 3:‏12،‏ 13،‏ 16‏۔‏

9.‏ جب آپ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں تو اِس کا آپ کے نوجوان بچے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟‏

9 یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی خاکساری ظاہر کرنی چاہیے۔‏ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ بہت سے ایسے کام ہیں جو ہمارے بس سے باہر ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم عیب‌دار ہیں اور اکثر بہت سی غلطیاں کرتے ہیں۔‏ (‏1-‏یوح 1:‏8‏)‏ ذرا سوچیں کہ آپ کس طرح کے باس کی عزت کریں گے؟‏ اُس باس کی جو اپنی غلطی پر معافی مانگتا ہے یا اُس کی جو اپنی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کرتا؟‏ جب آپ کا بچہ دیکھے گا کہ آپ اپنی غلطیوں پر معافی مانگتے ہیں تو وہ آپ کی اَور زیادہ عزت کرے گا اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا سیکھے گا۔‏ ذرا بہن روزمیری کی مثال پر غور کریں جن کے تین بچے ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏چونکہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں اِس لیے جب بچوں سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ کُھل کر ہم سے اِس بارے میں بات کرتے ہیں۔‏ وہ ہمیں کُھل کر اپنے مسئلے بھی بتاتے ہیں۔‏ ہمیں پتہ ہے کہ کچھ مسئلوں کو حل کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔‏ اِس لیے ہم نے بچوں کو سکھایا ہے کہ وہ اپنے مسئلوں کا بہترین حل کہاں سے تلاش کر سکتے ہیں۔‏ جب اُنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم ہمیشہ اُن کی توجہ بائبل پر مبنی کتابوں اور رسالوں پر دِلاتے ہیں اور اُن کے ساتھ مل کر دُعا کرتے ہیں۔‏“‏

10.‏ شاگردوں کو حکم دیتے وقت یسوع مسیح نے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏

10 یسوع مسیح کے پاس اپنے شاگردوں کو حکم دینے کا اِختیار تھا۔‏ لیکن چونکہ وہ خاکسار تھے اِس لیے وہ اکثر شاگردوں کو بتاتے تھے کہ اُنہوں نے فلاں حکم کیوں دیا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے اپنے پیروکاروں سے بس یہ نہیں کہا کہ ”‏پہلے [‏خدا]‏ کی بادشاہی اور اُس کی راست‌بازی کی تلاش کرو“‏ بلکہ اُنہوں نے ایسا کرنے کی وجہ بھی بتائی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تو یہ سب چیزیں بھی تُم کو مل جائیں گی۔‏“‏ اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے اُنہیں کہا:‏ ”‏عیب‌جوئی نہ کرو“‏ اور اِس کی وجہ یہ بتائی کہ ”‏تمہاری بھی عیب‌جوئی نہ کی جائے۔‏ کیونکہ جس طرح تُم عیب‌جوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیب‌جوئی کی جائے گی۔‏“‏—‏متی 6:‏31–‏7:‏2‏۔‏

11.‏ نوجوان بچوں کو کسی حکم یا فیصلے کی وجہ بتانے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

11 جب بھی ممکن ہو،‏ اپنے بچوں کو بتائیں کہ آپ نے فلاں حکم کیوں دیا ہے یا فلاں فیصلہ کیوں کِیا ہے۔‏ اگر نوجوان بچہ آپ کے حکم یا فیصلے کی وجہ سمجھتا ہے تو اِس بات کا زیادہ اِمکان ہے کہ وہ خوشی سے اِس پر عمل کرے۔‏ ذرا بھائی بیری کی مثال پر غور کریں جن کے چار بچے ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب آپ اپنے نوجوان بچے کو کوئی حکم دیتے وقت اِس کی وجہ بھی بتاتے ہیں تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ آپ نے یہ حکم اُس پر رُعب جمانے کے لیے نہیں بلکہ اُس کے فائدے کے لیے دیا ہے۔‏“‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کا نوجوان بچہ اب چھوٹا بچہ نہیں رہا۔‏ وہ زندگی کے اُس مرحلے میں ہے جب اُس کی ”‏سوچنے سمجھنے کی صلاحیت“‏ بڑھ رہی ہے۔‏ (‏روم 12:‏1‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ بھائی بیری نے یہ بھی کہا:‏ ”‏نوجوانوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ وہ جذبات میں آ کر نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں۔‏“‏ (‏زبور 119:‏34‏)‏ جب آپ خاکساری سے کام لیتے ہوئے اپنے نوجوان بچے کو اپنے فیصلے کی وجہ بتائیں گے تو اُسے احساس ہوگا کہ اب وہ آپ کی نظر میں بچہ نہیں رہا بلکہ سمجھ‌دار ہو گیا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُسے خود سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی ترغیب بھی ملے گی۔‏

سمجھ‌داری سے کام لیں

12.‏ پطرس کی اِصلاح کرنے کے لیے یسوع مسیح نے سمجھ‌داری سے کام کیسے لیا؟‏

12 یسوع مسیح سمجھ‌دار تھے اور جانتے تھے کہ اُن کے شاگردوں کو کس سلسلے میں مدد کی ضرورت ہے۔‏ مثال کے طور پر جب یسوع مسیح نے شاگردوں کو اپنی موت کے بارے میں بتایا تو پطرس نے اُن سے کہا کہ خود پر رحم کریں۔‏ یسوع مسیح کو پتہ تھا کہ پطرس نے یہ بات اُن سے محبت کی بِنا پر کہی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پطرس کی سوچ درست نہیں ہے۔‏ لہٰذا اُنہوں نے پطرس اور دوسرے شاگردوں کی مدد کی تاکہ وہ درست سوچ اپنا سکیں۔‏ پہلے تو اُنہوں نے پطرس کی اِصلاح کی۔‏ پھر اُنہوں نے بتایا کہ جو لوگ مشکل وقت میں خدا کی مرضی پر نہیں چلتے،‏ اُن کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔‏ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہوواہ اُن لوگوں کو اجر دیتا ہے جو خودغرض نہیں۔‏ (‏متی 16:‏21-‏27‏)‏ یسوع مسیح کی بات سے پطرس نے یقیناً سبق سیکھ لیا تھا۔‏—‏1-‏پطر 2:‏20،‏ 21‏۔‏

13،‏ 14.‏ ‏(‏الف)‏ کن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے بچے کا ایمان کمزور پڑ رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ آپ کے بچے کو کس سلسلے میں مدد کی ضرورت ہے؟‏

13 یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو سمجھ‌داری سے کام لینے کے قابل بنائے تاکہ آپ جان سکیں کہ آپ کے بچے کو کس سلسلے میں مدد کی ضرورت ہے۔‏ (‏زبور 32:‏8‏)‏ مثال کے طور پر شاید آپ دیکھیں کہ آپ کا بچہ پہلے کی طرح خوش نہیں ہے یا وہ بہن بھائیوں پر تنقید کرتا ہے۔‏ شاید آپ کو لگے کہ وہ آپ سے کچھ چھپا رہا ہے۔‏ ایسی صورت میں فوراً یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ آپ کا بچہ چوری چھپے کچھ غلط کر رہا ہے۔‏ لیکن اِن باتوں کو نظرانداز بھی نہ کریں اور نہ ہی یہ سوچیں کہ اِس عمر میں نوجوان ایسا ہی کرتے ہیں۔‏ دراصل یہی وہ وقت ہے جب آپ اپنے بچے کا ایمان مضبوط کرنے میں اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔‏

ایسے اِقدام اُٹھائیں جن سے آپ کے بچے کلیسیا کے بہن بھائیوں سے دوستی کر سکیں۔‏ (‏پیراگراف 14 کو دیکھیں۔‏)‏

14 ایسا کرنے کے لیے آپ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ نوجوان بچے کے دل کی بات جاننے کے لیے اُس سے پیار سے کچھ سوال کریں۔‏ یہ بالکل کنوئیں سے پانی نکالنے کی طرح ہے۔‏ اگر آپ بالٹی کو فوراً کھینچیں گے تو کافی پانی کنوئیں میں ہی گِر جائے گا اور آپ کے ہاتھ اِتنا پانی نہیں آئے گا۔‏ اِسی طرح اگر آپ بچوں سے فوراً جواب مانگیں گے اور اُنہیں بات کرنے پر مجبور کریں گے تو وہ آپ کو کُھل کر اپنے دل کی بات نہیں بتائیں گے اور یوں آپ اُن کے خیالات اور احساسات کو پوری طرح سے نہیں جان پائیں گے۔‏ ‏(‏امثال 20:‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ اِلاریہ جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے،‏ اُنہوں نے بتایا کہ نوجوانی میں وہ اپنے ہم‌جماعتوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہتی تھیں۔‏ لیکن اُنہیں یہ بھی پتہ تھا کہ یہ غلط ہے اور اِس وجہ سے وہ کافی پریشان رہتی تھیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ایک شام میرے امی ابو نے مجھ سے کہا کہ وہ کافی دنوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ مَیں کسی بات پر پریشان ہوں۔‏ پھر اُنہوں نے مجھ سے مسئلے کی وجہ پوچھی۔‏ یہ سُن کر مَیں رو پڑی۔‏ مَیں نے اُنہیں اپنا مسئلہ بتایا اور اُن سے مدد مانگی۔‏ اُنہوں نے مجھے گلے لگایا اور مجھ سے کہا کہ وہ میرے احساسات سمجھتے ہیں اور میری مدد ضرور کریں گے۔‏“‏ اِلاریہ کے والدین نے اُن کی مدد کرنے کے لیے فوراً قدم اُٹھایا اور کلیسیا کے بہن بھائیوں سے دوستی کرنے میں اُن کی مدد کی۔‏

15.‏ یسوع مسیح نے اَور کس طریقے سے سمجھ‌داری ظاہر کی؟‏

15 یسوع مسیح نے ایک اَور طریقے سے بھی سمجھ‌داری ظاہر کی۔‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کی خوبیوں پر توجہ دی۔‏ مثال کے طور پر جب نتن‌ایل نے سنا کہ یسوع مسیح ناصرة سے ہیں تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کیا ناؔصرة سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟‏“‏ (‏یوح 1:‏46‏)‏ اگر آپ وہاں موجود ہوتے تو آپ نتن‌ایل کے بارے میں کیا سوچتے؟‏ کیا آپ یہ سوچتے کہ وہ تعصب پسند ہیں؛‏ دوسروں میں نقص نکالنے والے ہیں اور اُن کا ایمان کمزور ہے؟‏ لیکن یسوع مسیح نے ایسا نہیں سوچا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے سمجھ‌داری سے کام لیا اور نتن‌ایل کی خوبیوں پر توجہ دی اور کہا:‏ ”‏دیکھو!‏ یہ فی‌الحقیقت اِسرائیلی ہے۔‏ اِس میں مکر نہیں۔‏“‏ (‏یوح 1:‏47‏)‏ یسوع مسیح دیکھ سکتے تھے کہ لوگوں کے دل میں کیا ہے اور وہ اپنی اِس صلاحیت کو دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنے کے لیے اِستعمال کرتے تھے۔‏

16.‏ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے نوجوان بچے کو اپنی خوبیاں نکھارنے کا موقع ملے؟‏

16 آپ اپنے بچے کا دل تو نہیں پڑھ سکتے لیکن آپ سمجھ‌داری سے کام ضرور لے سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا آپ کی مدد کر سکتا ہے تاکہ آپ اپنے بچے کی خوبیوں پر توجہ دیں۔‏ اگر آپ کا بچہ کسی وجہ سے آپ کو مایوس کرتا ہے تو بھی کبھی اُس کے بارے میں یہ نہ کہیں کہ وہ بگڑا ہوا ہے یا وہ بہت ڈھیٹھ ہے۔‏ کہنا تو دُور کی بات اُس کے بارے میں ایسا سوچیں بھی نہیں۔‏ اِس کی بجائے اُس کی خوبیوں کے لیے اُسے داد دیں اور اُسے بتائیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ اچھے کام کرنا چاہتا ہے۔‏ غور کریں کہ وہ اپنے اندر بہتری لانے کے لیے کیا کر رہا ہے اور اُس کی کوششوں کو سراہیں۔‏ جب بھی ممکن ہو،‏ اُسے ایسی ذمےداریاں دیں جن سے اُسے اپنی خوبیاں نکھارنے کا موقع ملے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسا ہی کِیا تھا۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے نتن‌ایل (‏جو برتُلمائی بھی کہلاتے تھے)‏ سے ملنے کے ڈیڑھ سال بعد اُنہیں ایک اہم ذمےداری سونپی۔‏ اُنہوں نے نتن‌ایل کو رسول کے طور پر منتخب کِیا۔‏ نتن‌ایل نے بڑی لگن سے اپنی ذمےداری نبھائی۔‏ (‏لُو 6:‏13،‏ 14؛‏ اعما 1:‏13،‏ 14‏)‏ لہٰذا اپنے بچے کو یہ احساس نہ دِلائیں کہ وہ کسی کام کا نہیں ہے۔‏ اِس کی بجائے اُسے یقین دِلائیں کہ اُس میں ایسی صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ خدا کی خدمت کرنے کے لیے اِستعمال کر سکتا ہے۔‏

بچوں کی تربیت خوشی کا باعث بنتی ہے

17،‏ 18.‏ اگر آپ بغیر ہمت ہارے اپنے بچوں کی تربیت کریں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‏

17 بچوں کی پرورش کرتے وقت شاید آپ بھی کبھی کبھار پولُس رسول جیسا محسوس کریں۔‏ پولُس رسول نے بہت سے لوگوں کی سچائی سیکھنے میں مدد کی۔‏ وہ اِن لوگوں سے بہت پیار کرتے تھے اور اِنہیں اپنے بچے خیال کرتے تھے۔‏ اِس لیے وہ یہ سوچ کر ہی ”‏رنجیدہ اور پریشان“‏ ہو جاتے تھے کہ اِن میں سے بعض کہیں خدا کی خدمت کرنا نہ چھوڑ دیں۔‏ (‏2-‏کُر 2:‏4‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن؛‏ 1-‏کُر 4:‏15‏)‏ بھائی وکٹر جن کے تین بچے ہیں،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏جب ہمارے بچے جوان ہو رہے تھے تو یہ عرصہ ہمارے لیے بہت مشکل تھا۔‏ لیکن اِس دوران ہمیں جو خوشیاں ملیں،‏ اُن کے آگے یہ مشکلیں کچھ بھی نہیں تھیں۔‏ یہوواہ کی مدد سے ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ بہت گہری دوستی قائم کی ہے۔‏“‏

18 اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے یہوواہ کی خدمت کریں تو اُن کی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔‏ یوں آپ ثابت کریں گے کہ آپ واقعی اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ آپ کو اُس وقت کتنی خوشی ہوگی جب آپ کا بچہ یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرے گا اور سچائی کی راہ پر چلتا رہے گا۔‏—‏3-‏یوح 4‏۔‏