مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا اِنسانوں سے بات کرتا ہے

یہوواہ خدا اِنسانوں سے بات کرتا ہے

‏”‏سُن۔‏ مَیں کچھ کہوں گا۔‏“‏—‏ایو 42:‏4‏۔‏

گیت:‏ 2،‏ 23

1-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا کی زبان اور بات کرنے کا طریقہ اِنسانوں سے بلند کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

یہوواہ خدا نے فرشتوں اور اِنسانوں کو بنایا اور اُنہیں زندگی دی۔‏ (‏زبور 36:‏9‏)‏ یوحنا رسول نے خدا کی پہلی تخلیق کے بارے میں کہا کہ وہ ”‏کلام“‏ اور ”‏خدا کی خلقت کا مبدا ہے۔‏“‏ (‏یوح 1:‏1؛‏ مکا 3:‏14‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے پہلوٹھے بیٹے کو اپنے خیالات اور احساسات کے بارے میں بتایا۔‏ (‏یوح 1:‏14،‏ 17؛‏ کُل 1:‏15‏)‏ پولُس رسول نے ’‏فرشتوں کی زبان‘‏ کا ذکر کِیا جو اِنسانوں کی زبان سے بہت فرق ہے۔‏—‏1-‏کُر 13:‏1‏۔‏

2 یہوواہ خدا اربوں فرشتوں اور اِنسانوں کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔‏ بےشمار لوگ ایک ہی وقت میں اپنی اپنی زبان میں اُس سے دُعا کرتے ہیں اور وہ اِن لوگوں کی دُعائیں سننے کے ساتھ ساتھ فرشتوں سے بھی بات کرتا ہے اور اُنہیں ہدایات بھی دیتا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کے خیالات،‏ زبان اور بات کرنے کا طریقہ اِنسانوں سے بلندتر ہے۔‏ ‏(‏یسعیاہ 55:‏8،‏ 9 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس لیے جب یہوواہ خدا اِنسانوں سے کلام کرتا ہے تو اِس طرح سے کرتا ہے کہ اِنسان اُس کی بات کو سمجھ سکیں۔‏

3 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ خدا نے تاریخ کے دوران کیا کچھ کِیا تاکہ وہ اِنسانوں سے بات کر سکے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ وہ اِنسانوں سے بات کرنے کے لیے حالات کے مطابق اپنے طریقۂ‌کار کو کیسے بدلتا ہے۔‏

خدا نے بائبل کو فرق فرق زبانوں میں کیوں لکھوایا؟‏

4.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ،‏ سموئیل،‏ داؤد اور اپنے دیگر بندوں سے بات کرتے وقت کون سی زبان اِستعمال کی؟‏ (‏ب)‏ بائبل میں کون کون سی باتیں درج ہیں؟‏

4 جب یہوواہ خدا نے باغِ‌عدن میں آدم سے بات کی تو اُس نے غالباً عبرانی زبان کی سب سے قدیم شکل اِستعمال کی۔‏ بعد میں اُس نے اپنے خیالات موسیٰ،‏ سموئیل،‏ داؤد اور اپنے دیگر بندوں پر ظاہر کیے جو عبرانی زبان بولتے تھے اور اُنہوں نے اُس کے خیالات کو اپنے الفاظ اور انداز میں لکھا۔‏ اُنہوں نے نہ صرف یہوواہ خدا کے بیانات کو ہوبہو تحریر کِیا بلکہ یہ بھی لکھا کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا۔‏ اُنہوں نے اُن موقعوں کا بھی ذکر کِیا جب خدا کے بندوں نے اُس کے لیے محبت ظاہر کی اور اُس پر بھروسا کِیا اور اُن موقعوں کا بھی جب اُنہوں نے غلطیاں کیں اور خدا سے بےوفائی کی۔‏ یہ سب باتیں ہمارے فائدے کے لیے لکھی گئیں۔‏—‏روم 15:‏4‏۔‏

5.‏ کیا خدا نے اِنسانوں سے بات کرنے کے لیے صرف عبرانی زبان اِستعمال کی؟‏ وضاحت کریں۔‏

5 جوں‌جوں حالات بدلتے گئے،‏ خدا نے اِنسانوں سے بات کرنے کے لیے عبرانی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی اِستعمال کیں۔‏ جب بنی‌اِسرائیل بابل کی اسیری سے رِہا ہو کر اپنے ملک واپس آئے تو ارامی زبان کچھ اِسرائیلیوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔‏ شاید اِس لیے یہوواہ خدا نے دانی‌ایل اور یرمیاہ نبی اور عزرا کاہن کو اِلہام بخشا کہ وہ اپنی کتابوں کے کچھ حصے ارامی زبان میں لکھیں۔‏ *

6.‏ خدا کا کلام عبرانی کے علاوہ دوسری زبانوں میں کیسے دستیاب ہوا؟‏

6 بعد میں جب سکندرِاعظم نے دُنیا کے مختلف حصوں کو فتح کِیا تو یونانی زبان بہت سے ملکوں کی قومی زبان بن گئی۔‏ بہت سے یہودی بھی یہ زبان بولنے لگے۔‏ اِس لیے عبرانی صحیفوں کا یونانی زبان میں ترجمہ کِیا گیا جسے سپتواجنتا کہا جاتا ہے۔‏ یہ ترجمہ بائبل کا سب سے پہلا ترجمہ تھا اور یہ بہت اہم بھی تھا۔‏ ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس ترجمے پر 72 ترجمہ‌نگاروں نے کام کِیا۔‏ * اِن میں سے کچھ نے اِقتباسات کا لفظ‌بہ‌لفظ ترجمہ کِیا اور کچھ نے محض خلاصہ پیش کِیا۔‏ اِس لیے اِس ترجمے میں فرق فرق انداز نظر آتے ہیں۔‏ بہرحال یونانی بولنے والے یہودی اور بعد میں مسیحی بھی سپتواجنتا کو خدا کا کلام سمجھتے تھے۔‏

7.‏ یسوع مسیح غالباً کون سی زبان اِستعمال کرتے تھے؟‏

7 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو وہ غالباً عبرانی زبان بولتے تھے۔‏ (‏یوح 19:‏20؛‏ 20:‏16؛‏ اعما 26:‏14‏)‏ پہلی صدی عیسوی میں عبرانی زبان میں بہت سے ارامی الفاظ شامل ہو چکے تھے اِس لیے شاید یسوع مسیح نے کچھ ارامی الفاظ بھی اِستعمال کیے۔‏ وہ اُس عبرانی زبان سے بھی واقف تھے جو موسیٰ اور دوسرے نبیوں کے زمانے میں بولی جاتی تھی کیونکہ اِن نبیوں کی کتابیں ہر ہفتے عبادت‌گاہوں میں پڑھی جاتی تھیں۔‏ (‏لُو 4:‏17-‏19؛‏ 24:‏44،‏ 45؛‏ اعما 15:‏21‏)‏ اِسرائیل کے علاقے میں یونانی اور لاطینی زبانیں بھی بولی جاتی تھیں۔‏ پاک کلام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یسوع مسیح یہ زبانیں بولتے تھے یا نہیں۔‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ پاک کلام کی کچھ کتابیں یونانی زبان میں کیوں لکھی گئیں؟‏ (‏ب)‏ اِس سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

8 یسوع مسیح کے اِبتدائی پیروکار عبرانی زبان بولتے تھے لیکن یسوع مسیح کی موت کے بعد اُن کے شاگرد دوسری زبانیں بھی بولتے تھے۔‏ ‏(‏اعمال 6:‏1 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *‏)‏ جیسے جیسے مسیحی مذہب پھیلا،‏ مسیحیوں کے درمیان یونانی زبان زیادہ عام ہو گئی۔‏ متی،‏ مرقس،‏ لُوقا اور یوحنا کی اِنجیلیں جن میں یسوع مسیح کی تعلیمات اور اُن کے کاموں کے بارے میں تفصیلات درج ہیں،‏ یونانی زبان میں لکھی گئیں۔‏ * پولُس رسول کے خطوط اور دوسری اِلہامی کتابیں بھی یونانی زبان میں لکھی گئیں۔‏

9 یہ بات قابلِ‌غور ہے کہ جب یونانی صحیفے لکھنے والے مسیحیوں نے عبرانی صحیفوں کے اِقتباسات اِستعمال کیے تو عام طور پر اُنہوں نے اِنہیں سپتواجنتا سے لیا۔‏ کچھ صورتوں میں یہ اِقتباسات اصل عبرانی متن سے تھوڑے فرق ہیں۔‏ لیکن پھر بھی سپتواجنتا کے ترجمہ‌نگاروں کا کام اِلہامی صحیفوں کا حصہ بن گیا۔‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا کسی زبان یا ثقافت کو دوسری زبان یا ثقافت سے اہم نہیں سمجھتا۔‏‏—‏اعمال 10:‏34 کو پڑھیں۔‏

10.‏ یہوواہ خدا نے جس طرح اِنسانوں تک اپنا کلام پہنچایا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

10 ہم نے دیکھا ہے کہ خدا اِنسانوں سے بات کرنے کے لیے حالات کے مطابق اپنا طریقۂ‌کار بدل لیتا ہے۔‏ وہ یہ توقع نہیں کرتا کہ ہم اُس کی ذات اور مقصد کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی خاص زبان سیکھیں۔‏ ‏(‏زکریاہ 8:‏23؛‏ مکاشفہ 7:‏9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ خدا نے بائبل لکھنے والے لوگوں پر اپنے خیالات ظاہر کیے لیکن اُس نے اُنہیں یہ اِجازت دی کہ وہ اِن خیالات کو اپنے اپنے انداز میں لکھیں۔‏

خدا نے بائبل کو کیسے محفوظ رکھا؟‏

11.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو اِنسانوں سے رابطہ کرنے میں کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آتی؟‏

11 اگرچہ اِنسان فرق فرق زبانیں بولتے ہیں لیکن یہوواہ خدا کو اِنسانوں سے رابطہ کرنے میں کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آتی۔‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ بائبل میں اُس زبان کے صرف چند الفاظ ہیں جو یسوع مسیح بولتے تھے۔‏ (‏متی 27:‏46؛‏ مر 5:‏41؛‏ 7:‏34‏)‏ لیکن یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے پیغام کا یونانی زبان اور چند دوسری زبانوں میں ترجمہ کرایا۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ خدا نے یہودیوں اور مسیحیوں کے ذریعے بائبل کے نسخوں کی نقلیں تیار کرائیں تاکہ پاک صحیفے محفوظ رہیں۔‏ اور پھر اِن نقلوں کا بہت سی اَور زبانوں میں ترجمہ ہوا۔‏ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کے ایک عالم نے کہا کہ آج تک یسوع مسیح کی تعلیمات کا ارامی،‏ مصری،‏ ہندوستانی،‏ فارسی،‏ ایتھیوپیائی اور بہت سی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چُکا ہے۔‏

12.‏ بائبل کا ترجمہ روکنے کے لیے کون سی کوششیں کی گئیں؟‏

12 کئی لوگوں نے بائبل کا نام‌ونشان مٹانے کی کوشش کی۔‏ مثال کے طور پر 303ء میں ایک رومی شہنشاہ نے حکم دیا کہ پاک صحیفوں کی تمام نقلوں کو ختم کر دیا جائے۔‏ اِس کے علاوہ اُن لوگوں کی بھی مخالفت کی گئی جنہوں نے بائبل کا ترجمہ کِیا اور اِسے تقسیم کِیا۔‏ مثال کے طور پر سولہویں صدی عیسوی میں وِلیم ٹینڈیل نے بائبل کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کِیا۔‏ اُنہوں نے ایک پڑھے لکھے آدمی سے کہا:‏ ”‏اگر خدا نے مجھے زندگی دی تو مَیں کوشش کروں گا کہ ایک ہل چلانے والے لڑکے کو صحیفوں کا آپ سے زیادہ علم ہو۔‏“‏ ٹینڈیل کو بائبل کا ترجمہ کرنے اور اِس ترجمے کو شائع کرنے کے لیے اِنگلینڈ سے بھاگنا پڑا۔‏ اگرچہ مذہبی پیشواؤں نے پوری کوشش کی کہ وہ ٹینڈیل کے ترجمے کی تمام کاپیوں کو جلا دیں لیکن یہ کاپیاں بہت سے لوگوں میں تقسیم ہو چکی تھیں۔‏ پھر ٹینڈیل پکڑے گئے اور اُن کا گلا دبا کر اُنہیں سُولی پر جلا دیا گیا۔‏ لیکن مذہبی پیشوا اُن کے ترجمے کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔‏ ٹینڈیل کے ترجمے کو بائبل کے ایک اَور ترجمے کی تیاری میں بہت زیادہ اِستعمال کِیا گیا جسے کنگ جیمز ورشن کہا جاتا ہے اور جو بہت عام ہے۔‏‏—‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏9 کو پڑھیں۔‏

13.‏ بائبل کے قدیم نسخوں کے جائزوں سے کیا ظاہر ہو گیا ہے؟‏

13 یہ سچ ہے کہ بائبل کی قدیم کاپیوں میں کچھ غلطیاں اور اِختلافات پائے جاتے ہیں۔‏ لیکن عالموں نے بائبل کے ہزاروں قدیم پارچوں،‏ نسخوں اور پُرانے ترجموں کا بڑی احتیاط سے جائزہ لیا اور اِن کا موازنہ کِیا۔‏ اور یہ عالم اِس نتیجے پر پہنچے کہ بائبل کی بہت ہی کم آیتیں ایسی ہیں جن میں چھوٹی موٹی غلطیاں اور اِختلافات پائے جاتے ہیں۔‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بائبل کا پیغام بدل گیا ہے۔‏ ایسے جائزوں سے خلوصِ‌دل سے بائبل کا مطالعہ کرنے والے لوگ اِس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ بائبل میں درج باتیں واقعی یہوواہ خدا کے اِلہام سے ہیں۔‏—‏یسع 40:‏8‏۔‏ *

14.‏ بائبل کتنے وسیع پیمانے پر دستیاب ہے؟‏

14 اگرچہ بائبل کا ترجمہ روکنے کے لیے بہت کوششیں کی گئیں لیکن یہوواہ خدا نے اپنے کلام کو محفوظ رکھا۔‏ بائبل تاریخ کی واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ پوری بائبل یا اِس کے حصوں کا 2800 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چُکا ہے۔‏ حالانکہ بہت سے لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر پھر بھی بائبل دُنیا بھر میں سب سے زیادہ بکنے اور تقسیم ہونے والی کتاب ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ بائبل کے کچھ ترجمے اِتنے آسان اور قابلِ‌بھروسا نہیں ہیں۔‏ لیکن بائبل کے تمام ترجموں میں اِنسانوں کے لیے اُمید اور نجات کا پیغام پایا جاتا ہے۔‏

بائبل کے نئے ترجمے کی ضرورت کیوں پڑی؟‏

15.‏ ‏(‏الف)‏ سن 1919ء سے ”‏دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر“‏ نے کیا کرنے کی کوشش کی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہماری کتابیں اور رسالے انگریزی زبان میں کیوں لکھے جاتے ہیں؟‏

15 سن 1919ء میں جب بائبل سٹوڈنٹس کے ایک چھوٹے سے گروہ کو ”‏دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر“‏ کے طور پر مقرر کِیا گیا تو وہ ”‏مالک کے نوکر چاکروں“‏ کو زیادہ‌تر انگریزی زبان میں روحانی خوراک مہیا کرتا تھا۔‏ (‏متی 24:‏45‏)‏ لیکن اِس نوکر نے روحانی خوراک کو زیادہ سے زیادہ زبانوں میں فراہم کرنے کی کوشش کی اور اب یہ روحانی خوراک 700 سے زیادہ زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ جیسے پہلی صدی عیسوی میں زیادہ‌تر لوگ یونانی زبان اِستعمال کرتے تھے ویسے ہی آج‌کل تعلیم اور کاروبار کے میدان میں انگریزی زبان اِستعمال ہوتی ہے۔‏ اِس لیے ہماری کتابیں اور رسالے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں اور پھر اِن کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کِیا جاتا ہے۔‏

16،‏ 17.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے بندوں کو کس چیز کی ضرورت تھی؟‏ (‏ب)‏ اِس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیا کِیا گیا؟‏ (‏ج)‏ 1950ء میں بھائی ناتھن نار نے نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کے حوالے سے کس اُمید کا اِظہار کِیا؟‏

16 ہماری تمام کتابیں اور رسالے بائبل پر مبنی ہیں۔‏ 20ویں صدی عیسوی کے وسط تک ہم زیادہ‌تر کنگ جیمز ورشن اِستعمال کرتے تھے۔‏ لیکن چونکہ یہ ترجمہ 1611ء میں شائع ہوا تھا اِس لیے اِس کی زبان کافی پُرانی تھی۔‏ اِس کے علاوہ اِس میں خدا کا نام صرف کچھ مرتبہ آتا تھا جبکہ بائبل کے قدیم نسخوں میں خدا کا نام ہزاروں مرتبہ آتا ہے۔‏ اِس ترجمے میں کچھ غلطیاں بھی تھیں اور ایسی آیتیں بھی جو بائبل کے قابلِ‌بھروسا قدیم نسخوں میں نہیں پائی جاتیں۔‏ انگریزی زبان میں جو دوسرے ترجمے دستیاب تھے،‏ اُن میں بھی اِسی طرح کے مسئلے تھے۔‏

17 اِن وجوہات کی بِنا پر بائبل کے ایک ایسے ترجمے کی ضرورت تھی جو اصلی متن کے مطابق ہو اور واضح اور آسان بھی ہو۔‏ لہٰذا بائبل کا ترجمہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی اور دس سال یعنی 1950ء سے 1960ء کے دوران نیو ورلڈ ٹرانسلیشن چھ جِلدوں میں شائع کی گئی۔‏ جب 2 اگست 1950ء میں ایک اِجتماع پر پہلی جِلد ریلیز کی گئی تو بھائی ناتھن نار نے سامعین سے کہا:‏ ”‏ہمیں ایک ایسے ترجمے کی ضرورت تھی جو واضح اور آسان ہو،‏ جو اصلی متن کے عین مطابق ہو،‏ جس کے ذریعے ہم بائبل میں درج سچائیوں سے واقف ہو سکیں اور جو اُتنی ہی آسانی سے لوگوں کو سمجھ آئے جتنی آسانی سے یسوع مسیح کے شاگردوں کی باتیں لوگوں کو سمجھ آتی تھیں۔‏“‏ اُنہوں نے یہ اُمید بھی ظاہر کی کہ اِس ترجمے کے ذریعے لاکھوں لوگ یہوواہ خدا کے بارے میں صحیح علم حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔‏

18.‏ ہماری تنظیم نے بائبل کا ترجمہ زیادہ زبانوں میں کرنے کے لیے کون سے اِقدام اُٹھائے؟‏

18 سن 1963ء میں بھائی ناتھن نار کی اُمید پوری ہوئی کیونکہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی کرسچین گریک سکرپچرز ‏(‏یعنی متی سے مکاشفہ)‏ کا چھ اَور زبانوں یعنی ڈچ،‏ فرانسیسی،‏ جرمن،‏ اٹالین،‏ پُرتگالی اور سپینش میں ترجمہ کِیا گیا۔‏ 1989ء میں یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی نے اپنے مرکزی دفتر میں ایک شعبہ بنایا جو دُنیا بھر میں نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کا ترجمہ کرنے والی ٹیموں کی مدد کرتا ہے۔‏ پھر 2005ء میں یہ فیصلہ کِیا گیا کہ اُن زبانوں میں بائبل کا ترجمہ کِیا جائے جن میں رسالہ مینارِنگہبانی شائع ہوتا ہے۔‏ اِس کے نتیجے میں اب نیو ورلڈ ٹرانسلیشن 130 سے زیادہ زبانوں میں دستیاب ہے۔‏

19.‏ ‏(‏الف)‏ سن 2013ء میں یہوواہ کے گواہوں کے سالانہ اِجلاس میں کیا ہوا؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

19 وقت کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں کافی تبدیلی آئی اِس لیے یہ فیصلہ کِیا گیا کہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن پر نظرثانی کی جائے۔‏ 5 اکتوبر 2013ء کو واچ‌ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف پینسلوانیا کا 129واں سالانہ اِجلاس منعقد ہوا۔‏ اِس اِجلاس کو 31 ملکوں میں 14 لاکھ 13 ہزار 676 یہوواہ کے گواہوں نے یا تو براہِ‌راست دیکھا یا پھر اِس کی ریکارڈنگ دیکھی۔‏ اِس اِجلاس پر گورننگ باڈی کے ایک رُکن نے نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کا نظرثانی‌شُدہ ایڈیشن ریلیز کِیا۔‏ جب حاضرین میں اِس ایڈیشن کی کاپیاں تقسیم کی گئیں تو بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‏ اِس اِجلاس کے دوران جب نئے ایڈیشن سے آیتیں پڑھی گئیں تو حاضرین نے دیکھا کہ یہ ایڈیشن بہت آسان اور قابلِ‌سمجھ ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم اِس ایڈیشن اور مختلف زبانوں میں اِس کے ترجمے کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔‏

^ پیراگراف 5 عزرا 4:‏8–‏6:‏18،‏ 7:‏12-‏26؛‏ یرمیاہ 10:‏11 اور دانی‌ایل 2:‏4–‏7:‏28 ارامی زبان میں لکھی گئیں۔‏

^ پیراگراف 6 سپتواجنتا کا مطلب ہے:‏ ”‏ستر۔‏“‏ اِس ترجمے پر کام تیسری صدی قبل‌ازمسیح میں مصر میں شروع ہوا اور شاید 150 قبل‌ازمسیح میں ختم ہوا۔‏ یہ ترجمہ آج بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عالم مشکل عبرانی لفظوں اور عبارتوں کا مطلب سمجھنے کے لیے اِس سے مدد لیتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 8 اعمال 6:‏1 ‏(‏نیو ورلڈ ٹرانسلیشن)‏:‏ ‏”‏اُن دنوں میں جب شاگردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی تو یونانی بولنے والے یہودی عبرانی بولنے والے یہودیوں کے خلاف شکایت کرنے لگے کیونکہ ہر روز جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو اُن کی بیواؤں کو نظرانداز کِیا جاتا تھا۔‏“‏

^ پیراگراف 8 بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ متی نے اپنی اِنجیل عبرانی زبان میں لکھی اور بعد میں اِس کا ترجمہ یونانی زبان میں کِیا گیا اور یہ ترجمہ شاید متی نے خود ہی کِیا تھا۔‏

^ پیراگراف 13 اِس سلسلے میں بروشر سب لوگوں کے لئے ایک کتاب کے صفحہ 7-‏9 پر مضمون ”‏کتاب کیسے محفوظ رہی؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏