مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ارتقا کا نظریہ اور تخلیق کا عقیدہ—‏کیا اِن دونوں کا ملاپ ممکن ہے؟‏

ارتقا کا نظریہ اور تخلیق کا عقیدہ—‏کیا اِن دونوں کا ملاپ ممکن ہے؟‏

ارتقا کا نظریہ اور تخلیق کا عقیدہ—‏کیا اِن دونوں کا ملاپ ممکن ہے؟‏

ارتقا کے نظریے کے مطابق زمین پر زندگی کی شروعات چند ہی ننھے سے جراثیم سے ہوئی تھی۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا روپ بدل گیا اور ان سے مچھلیاں وجود میں آئیں۔‏ پھر مچھلیاں اپنا روپ بدل کر رینگنے والے جانور بن گئیں،‏ رینگنے والے جانوروں نے دودھ پلانے والے جانوروں کا روپ اختیار کِیا،‏ اور آخرکار تبدیلی کے لاتعداد منازل سے گزرنے کے بعد بندروں سے انسان وجود میں آئے۔‏ اس کے برعکس خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان سمیت تمام جانداروں کو براہِ‌راست خلق کِیا ہے۔‏ البتہ بعض سائنسدانوں اور مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ارتقا کے نظریے اور تخلیق کے عقیدے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‏ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا کے نبی موسیٰ نے توریت میں تخلیق کے بارے میں جو کچھ لکھا یہ محض ایک تمثیل ہے۔‏ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ خدا نے زمین پر زندگی کی بنیاد تو ڈالی لیکن اس کے بعد جانوروں کی مختلف اقسام اور انسان ارتقا کے عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔‏ شاید آپ نے بھی اِس سوال پر غور کِیا ہو کہ کیا پاک صحائف اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انسان اصل میں جانوروں کے ارتقا کے ذریعے وجود میں آئے ہیں؟‏

انسان کیسے وجود میں آیا،‏ اِس سوال کا صحیح جواب تلاش کرنا بہت اہم ہے۔‏ اس کے بغیر ہم یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ ہماری ذات کیا ہے،‏ ہمارا مستقبل کیا لائے گا اور ہمیں اپنی زندگی کیسے گزارنی چاہئے۔‏ اگر ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ خدا ہمارا خالق ہے تو ہم یہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ وہ بُرائی کیوں ہونے دیتا ہے اور وہ مستقبل میں انسان کے لئے کیا کرے گا۔‏ اس کے علاوہ ہم خدا کی قربت حاصل نہیں کر سکیں گے۔‏ اس لئے سب سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ خدا کے کلام میں انسان کی شروعات،‏ اس کے موجودہ حالات اور اُس کے مستقبل کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏ اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ آیا ارتقا کے نظریے اور پاک صحائف کے عقیدے میں واقعی اتفاق پایا جاتا ہے یا نہیں۔‏

انسان کی شروعات

ارتقا کے نظریے کے مطابق انسانی نسل کی شروعات ایک ہی انسان سے نہیں ہوئی بلکہ جانور آہستہ آہستہ تبدیلیوں سے گزرتے گئے اور آخرکار انسان بنے۔‏ اس کے برعکس پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ تمام انسان ایک ہی انسان یعنی آدم کی اولاد ہیں۔‏ پاک صحائف آدم کے بارے جو کچھ بتاتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض کہانی کا کردار نہیں بلکہ ایک حقیقی شخص تھا۔‏ اُس کی بیوی اور اُس کے بعض بچوں کا نام بتایا گیا ہے۔‏ یہ بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اُس نے کیا کِیا اور کیا کہا،‏ وہ کس زمانے میں زندہ تھا اور کب فوت ہوا۔‏ جو کچھ خدا کے کلام میں آدم کے بارے میں بتایا گیا ہے یسوع مسیح نے اِسے محض اَن‌پڑھ لوگوں کے لئے ایک کہانی نہیں خیال کِیا تھا۔‏ اُس نے پڑھےلکھے مذہبی رہنماؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:‏ ’‏کیا تُم نے نہیں پڑھا کہ جس نے اُنہیں بنایا اُس نے ابتدا ہی سے اُنہیں مرد اور عورت بنایا۔‏‘‏ (‏متی ۱۹:‏۳-‏۵‏)‏ پھر یسوع مسیح نے پیدایش ۲:‏۲۴ کا حوالہ دیا جس آیت میں آدم اور حوا کے متعلق بتایا گیا ہے۔‏

انجیل نویس لوقا ایک قابلِ‌بھروسہ تاریخ‌دان تھا۔‏ اُس نے آدم کو ایک حقیقی شخصیت کے طور پر بیان کِیا۔‏ یسوع مسیح کے نسب‌نامے کو درج کرتے وقت اُس نے آدم کو بھی یسوع کے باپ‌دادا میں شامل کِیا۔‏ (‏لوقا ۳:‏۲۳-‏۳۸‏)‏ پولس رسول ایک موقع پر ایک ایسی بِھیڑ سے مخاطب ہوا جس میں یونانی عالم اور فلاسفر بھی شامل تھے۔‏ اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏جس خدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا .‏ .‏ .‏ اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رویِ‌زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۴-‏۲۶‏)‏ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ ہم سب ایک ہی انسان کی اولاد ہیں۔‏ آئیں اب ہم دیکھیں گے کہ پاک صحائف کے مطابق شروع میں انسان کس حالت میں تھا اور پھر ہم اس کا مقابلہ ارتقا کے نظریے سے کریں گے۔‏

ارتقا یا زوال؟‏

پاک صحائف کے مطابق جب یہوواہ خدا نے انسان کو خلق کِیا تو انسان میں کوئی عیب نہیں تھا۔‏ خدا کوئی عیب‌دار چیز خلق نہیں کر سکتا۔‏ اس لئے اُس کے کلام میں تخلیق کے بارے میں یوں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔‏ .‏ .‏ .‏ اور خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷،‏ ۳۱‏)‏ ایک بےعیب انسان کن صلاحیتوں کا مالک ہے؟‏

ایک بےعیب شخص مکمل طور پر خدا کی خوبیوں کی عکاسی کرتا ہے۔‏ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی مرضی کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں کہا گیا ہے کہ ”‏خدا نے انسان کو راست بنایا پر اُنہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کیں۔‏“‏ (‏واعظ ۷:‏۲۹‏)‏ آدم نے خدا کے خلاف بغاوت کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اس طرح وہ عیب‌دار بن گیا اور گُناہ کے پھندے میں پھنس گیا۔‏ اس سے اُس کی اولاد پر بھی بُرا اثر پڑا۔‏ چونکہ انسان گُناہ کی طرف مائل ہیں اس لئے ہم اچھے کام کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اکثر بُرے کام کر بیٹھتے ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جس کا مَیں ارادہ کرتا ہوں وہ نہیں کرتا بلکہ جس سے مجھ کو نفرت ہے وہی کرتا ہوں۔‏“‏—‏رومیوں ۷:‏۱۵‏۔‏

پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ ایک بےگُناہ اور بےعیب شخص کبھی بیمار نہیں ہوتا اور ہمیشہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔‏ خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آدم نے گُناہ نہ کِیا ہوتا تو اُسے کبھی مرنا نہیں پڑتا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۳:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اگر انسان تخلیق کے شروع سے ہی بیمار پڑتا اور بغاوت کرنے کی طرف مائل ہوتا تو کیا خدا اپنی مخلوق کے بارے میں یہ کہہ سکتا کہ یہ ”‏بہت اچھا ہے“‏؟‏ انسان کے جسم کا ڈیزائن واقعی حیرت‌انگیز ہے۔‏ لیکن اس کے باوجود ہم بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔‏ ارتقا کے نظریے کے مطابق ہمیں یہ توقع رکھنی چاہئے کہ انسان کی ذہنی اور جسمانی کیفیت میں درجہ بدرجہ بہتری آتی رہے گی۔‏ اس کے برعکس پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ انسان بےعیب خلق کِیا گیا تھا لیکن تب سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بگڑتا جا رہا ہے۔‏

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ خدا نے جانوروں کے ارتقا پر اثر کِیا تاکہ اس کے ذریعے انسان وجود میں آئے۔‏ لیکن پاک صحائف میں خدا کی شخصیت کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے یہ اِس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا ہے۔‏ اگر خدا نے ارتقا کے ذریعے انسان کو وجود دیا ہوتا تو انسان شروع سے ہی بیمار اور عیب‌دار ہوتے۔‏ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ خدا دُنیا کے بگڑے ہوئے حالات کا ذمہ‌دار ہوتا۔‏ لیکن پاک صحائف خدا کے بارے میں یوں بتاتے ہیں:‏ ”‏وہ وہی چٹان ہے۔‏ اُس کی صنعت کامل ہے۔‏ کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔‏ وہ منصف اور برحق ہے۔‏ یہ لوگ اُس کے ساتھ بُری طرح سے پیش آئے۔‏ یہ اُس کے فرزند نہیں۔‏ یہ اُن کا عیب ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ خدا کو اس بات کا قصوروار ہرگز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ انسان دُکھ اور تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں۔‏ انسان خدا کے خلاف بغاوت کرکے خود پر یہ مشکل لایا۔‏ اب ہم دیکھیں گے کہ آیا یسوع مسیح کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم ارتقا کے نظریے سے اتفاق کرتی ہے یا نہیں۔‏

یسوع مسیح اور ارتقا کا نظریہ

ایک بنیادی مسیحی عقیدہ یہ ہے کہ ’‏مسیح ہمارے گُناہوں کے لئے مؤا۔‏‘‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۸‏)‏ دراصل ارتقا کا نظریہ اس عقیدے کے خلاف ہے۔‏ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ خدا کا کلام گُناہ اور انسان پر گُناہ کے اثر کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔‏

ہم سب اس مفہوم میں گنہگار ہیں کہ ہم مکمل طور پر خدا کی خوبیوں کی عکاسی نہیں کر پاتے۔‏ اس لئے خدا کے کلام میں کہا گیا ہے کہ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ انسان گُناہ کرنے کی وجہ سے مرتے ہیں۔‏ پہلے کرنتھیوں ۱۵:‏۵۶ میں لکھا ہے کہ ”‏موت کا ڈنک گُناہ ہے۔‏“‏ اس کے علاوہ انسان گُناہ کے اثر کی وجہ سے بیمار بھی پڑتا ہے۔‏ یسوع نے اس بات کو ظاہر کِیا۔‏ ایک موقعے پر اُس نے ایک مفلوج شخص سے کہا کہ ”‏تیرے گُناہ معاف ہوئے“‏ اور وہ آدمی فوراً تندرست ہو گیا۔‏—‏متی ۹:‏۲-‏۷‏۔‏

یسوع کی موت سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوا؟‏ آدم کا مقابلہ یسوع مسیح سے کرتے ہوئے پاک صحائف میں کہا گیا کہ ”‏جیسے آؔدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۲‏)‏ آدم نے گُناہ کرکے ہمیشہ کی زندگی گنوا دی اور ہم نے آدم سے گُناہ ورثے میں پایا۔‏ لیکن یسوع مسیح نے ہماری خاطر اپنی جان قربان کی۔‏ اس طرح اُس نے ایک ایسی قیمت ادا کی جو ہمیں گُناہ کی غلامی سے رہائی دِلا سکتی ہے۔‏ لہٰذا جو شخص یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہے اور اُس کے حکموں پر عمل کرتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتا ہے۔‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ رومیوں ۶:‏۲۳‏۔‏

کیا آپ سمجھ گئے ہیں کہ ارتقا کا نظریہ اس بنیادی مسیحی عقیدے کے خلاف کیوں ہے؟‏ اگر ہم اِس بات سے انکار کریں کہ ”‏آؔدم میں سب مرتے ہیں“‏ تو ہم یہ اُمید کیسے رکھ سکتے ہیں کہ ”‏مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“‏؟‏

ارتقا کا نظریہ مقبول کیوں ہے؟‏

خدا کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ ارتقا جیسا نظریہ اتنا مقبول کیسے بن گیا ہے۔‏ اس میں لکھا ہے:‏ ”‏ایسا وقت آئے گا کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لیں گے اور اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر کر کہانیوں پر متوجہ ہوں گے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ حالانکہ ارتقا عموماً ایک سائنسی نظریے کے طور پر پیش کِیا جاتا ہے لیکن دراصل یہ مذہبی عقیدوں میں شمار کِیا جا سکتا ہے۔‏ مذہبی عقیدوں کی طرح ارتقا کا نظریہ بھی زندگی کے بارے میں لوگوں کے نظریات پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور وہ خدا کے متعلق لوگوں کی سوچ کو بھی متاثر کرتا ہے۔‏ ارتقا کے نظریے کی وجہ سے لوگوں میں خودغرضی بڑھ گئی ہے اور وہ اختیار کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔‏ بہتیرے لوگ ارتقا کے نظریے کے ساتھ ساتھ خدا کے وجود پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔‏ لیکن وہ خدا کو ایک ایسی ہستی کے طور پر خیال کرتے ہیں جو نہ تو ہمارا خالق ہے اور نہ ہی انسان کی روک‌ٹوک کرتا ہے۔‏ ظاہر ہے کہ ایک ایسا عقیدہ لوگوں میں بہت مقبول ہے۔‏

سائنس‌دان اکثر سائنسی حقیقتوں کو نظرانداز کرکے ارتقا کے نظریے کو ”‏اپنی اپنی خواہشوں کے موافق“‏ پیش کرتے ہیں۔‏ چونکہ بہت سارے سائنس‌دان ارتقا کو مانتے ہیں اس لئے کوئی اس کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔‏ اس سلسلے میں بائیوکیمسٹری کے ایک پروفیسر مائیکل بی‌ہی کا بیان بہت دلچسپ ہے۔‏ اُنہوں نے اپنی زندگی کو خلیوں کی تحقیق پر وقف کِیا۔‏ اُن کا کہنا ہے کہ سائنس‌دانوں کا یہ دعویٰ کہ خلیوں کا ارتقا ہوتا ہے بےبنیاد ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏خلیوں کے ارتقا کی تعلیم کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔‏ آج تک سائنسی رسالوں اور کتابوں میں کوئی ایسا مضمون نہیں شائع ہوا ہے جس میں یا تو خلیوں کے ارتقا کو ثابت کِیا گیا ہو یا پھر اس کی وضاحت کی گئی ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ یہ نظریہ کہ خلیوں کا ارتقا ہوتا ہے،‏ خودپسند سائنس‌دانوں کا بےبنیاد دعویٰ ہے۔‏“‏

اگر سائنس‌دانوں کے پاس ارتقا کا ثبوت نہیں ہے تو وہ اس نظریے کو کیوں فروغ دیتے ہیں؟‏ پروفیسر مائیکل بی‌ہی کہتے ہیں:‏ ”‏معزز اور مشہور سائنس‌دانوں سمیت بہت سے لوگ اس بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ کائنات میں خالق موجود ہے۔‏“‏

اس کے علاوہ کئی پادری بھی ارتقا کے نظریے کو فروغ دیتے ہیں۔‏ وہ خود کو عقلمند ثابت کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔‏ پولس رسول نے ایسے لوگوں کے بارے میں لکھا:‏ ”‏جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اُس کی اَن‌دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الُوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔‏ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں۔‏ اس لئے کہ اگرچہ انہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اُس کی خدائی کے لائق اُس کی تمجید اور شکرگذاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور اُن کے بےسمجھ دِلوں پر اندھیرا چھا گیا۔‏ وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔‏“‏—‏رومیوں ۱:‏۱۹-‏۲۲‏۔‏

ایمان کی بنیاد

خدا کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ ایمان ثبوت پر مبنی ہونا چاہئے۔‏ اس میں لکھا ہے:‏ ”‏ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱‏)‏ خدا پر ایمان ایسی حقیقتوں پر مبنی ہونا چاہئے جو خالق کے وجود کا ثبوت دیتی ہیں۔‏ آپ کو یہ ثبوت کہاں سے مل سکتا ہے؟‏

داؤد نے خدا کے الہام سے لکھا:‏ ”‏مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیب‌وغریب طور سے بنا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۱۴‏)‏ ذرا غور کریں کہ ہمارا جسم کتنے شاندار طور سے بنایا گیا ہے۔‏ جسم کے بہت سے ایسے عضو ہیں جن کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔‏ وہ سب اپنا اپنا کام حیرت‌انگیز طریقے سے انجام دیتے ہیں۔‏ یہ ایک ذہین خالق کے وجود کا ثبوت ہے۔‏ یا پھر کائنات پر غور کریں۔‏ ستارے اور سیارے پیچیدہ قوانین کے مطابق گردش کرتے ہیں۔‏ واقعی داؤد کے یہ الفاظ سچ ہیں کہ ”‏آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۹:‏۱‏۔‏

خالق کے وجود کا ثبوت پاک صحائف میں بھی ملتا ہے۔‏ بائبل ۶۶ کتابوں پر مشتمل ہے اور اِن میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔‏ اس میں دئے گئے اخلاقی معیار ہمیشہ انسان کی بھلائی کے لئے ہوتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ بائبل میں بےشمار ایسی پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں جو پوری ہو چکی ہیں۔‏ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا خالق بائبل کا مصنف ہے۔‏ بائبل کی تعلیمات پر غور کرنے سے بھی آپ سمجھ جائیں گے کہ بائبل واقعی خدا کا کلام ہے۔‏ مثال کے طور پر اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان پر دُکھ اور تکلیف کیوں آتے ہیں،‏ خدا کی بادشاہت کیا ہے،‏ مستقبل کیا لائے گا اور ہم خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اِن تعلیمات سے ہمارے خالق کی حکمت ظاہر ہوتی ہے۔‏ ان پر غور کرنے سے آپ بھی پولس رسول کی طرح محسوس کریں گے جس نے کہا:‏ ”‏واہ!‏ خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!‏ اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!‏“‏—‏رومیوں ۱۱:‏۳۳‏۔‏

اِن تمام ثبوت پر غور کرنے سے آپ کا ایمان مضبوط بن جائے گا۔‏ پھر جب آپ بائبل کو پڑھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ خالق آپ سے بات کر رہا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے زمین بنائی اور اُس پر انسان کو پیدا کِیا اور مَیں ہی نے ہاں میرے ہاتھوں نے آسمان کو تانا اور اُس کے سب لشکروں پر مَیں نے حکم کِیا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۵:‏۱۲‏)‏ اِس بات کے ثبوت پر غور کریں کہ یہوواہ خدا ہمارا خالق ہے۔‏ ایسا کرنے سے آپ کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر عبارت]‏

پولس رسول نے یونانی عالموں کو بتایا کہ ’‏خدا نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم پیدا کی‘‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر عبارت]‏

ارتقا کے نظریے کے مطابق انسان میں درجہ بدرجہ بہتری آتی رہے گی۔‏ اس کے برعکس پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ انسان بےعیب خلق کِیا گیا تھا لیکن تب سے وہ بگڑتا جا رہا ہے

‏[‏صفحہ ۱۶ پر عبارت]‏

‏”‏خلیوں کے ارتقا کی تعلیم کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے“‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر عبارت]‏

جانوروں اور پھولوں پر غور کرتے وقت ہم خالق کی حکمت پر حیران رہ جاتے ہیں