ایلیاہ نے سچی پرستش کی حمایت کی
اُن جیسا ایمان پیدا کریں
ایلیاہ نے سچی پرستش کی حمایت کی
ایلیاہ دیکھ رہا تھا کہ لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ کوہِکرمل پر جمع ہو رہی ہے۔ صبح کے دُھندلکے کے باوجود اُن کے چہروں سے غربت اور بدحالی جھلک رہی تھی۔ قحطسالی کے ساڑھے تین سالوں نے اُنہیں بہت زیادہ متاثر کِیا تھا۔
اِس بِھیڑ میں غرور سے بھرے بعل کے ۴۵۰ نبی بھی شامل تھے۔ وہ یہوواہ کے نبی ایلیاہ سے سخت نفرت کرتے تھے۔ کیونکہ ملکہ ایزبل کے یہوواہ کے بہتیرے خادموں کو قتل کرا دینے کے باوجود ایلیاہ نے بعل کی پرستش کی حمایت نہیں کی تھی۔ لیکن وہ کب تک ایسا کرے گا؟ غالباً بعل کے نبیوں کا خیال تھا کہ ایک تنہا آدمی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ (۱-سلاطین ۱۸:۳، ۱۹، ۲۰) بادشاہ اخیاب بھی اپنے شاہی رتھ پر سوار ہو کر کوہِکرمل پر آ چکا تھا۔ وہ بھی ایلیاہ کو پسند نہیں کرتا تھا۔
ایلیاہ نبی کو پہلے کبھی سچی پرستش کی حمایت کے لئے ایسے حیرتانگیز واقعات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ نیکی اور بدی کے درمیان ہونے والے ڈرامائی مقابلے کا ایک ایسا منظر دیکھ رہا تھا جو شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔ اُس دن وہ کیسا محسوس کر رہا تھا؟ ایلیاہ خوفزدہ تھا کیونکہ وہ بھی ”ہمارا ہم طبیعت انسان تھا۔“ (یعقوب ۵:۱۷) ہم اِس بات کا تصور کر سکتے ہیں کہ برگشتگی کے شکار بادشاہ، بےایمان لوگوں اور قاتل نبیوں کے درمیان ایلیاہ خود کو کتنا تنہا محسوس کر رہا ہوگا۔—۱-سلاطین ۱۸:۲۲۔
اسرائیلی کس وجہ سے اِس صورتحال میں پڑ گئے تھے؟ آج ہم اِس سرگزشت سے کیا سیکھتے ہیں؟ بائبل ہمیں خدا کے وفادار خادموں ”جیسے ایماندار“ بننے کے لئے اُن کی زندگیوں پر غور کرنے کی تاکید کرتی ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۷) آئیے تھوڑی دیر کے لئے ایلیاہ کی مثال پر غور کریں۔
ایک طویل کشمکش کا عروج
ایلیاہ نے اپنی زندگی میں کئی بار بےبسی سے اپنے مُلک اور اپنے لوگوں کو پامال ہوتے دیکھا تھا۔ دراصل، اسرائیلی سچے اور جھوٹے مذہب کے درمیان ایک طویل کشمکش کا شکار تھے۔ کیونکہ اُنہیں یہوواہ خدا کی سچی پرستش اور اردگرد کی قوموں کے درمیان پائی جانے والی بتپرستی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ایلیاہ کے دنوں میں اُن کی اِس کشمکش نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا۔
بادشاہ اخیاب نے صیدا کے بادشاہ کی بیٹی ایزبل سے شادی کر لی۔ ایزبل نے اسرائیل کی سرزمین پر سے یہوواہ خدا کی پرستش کو مٹانے اور بعل کی پرستش کو فروغ دینے کا عزم کر رکھا تھا۔ جلد ہی اخیاب بھی ایزبل سے مغلوب ہو گیا۔ اُس نے بعل کے لئے مندر اور مذبح بنوایا اور اِس غیرقوم دیوتا کی پرستش کو فروغ دیا۔ ایسا کرنے سے اُس نے یہوواہ خدا کو غضبناک کِیا۔—۱-سلاطین ۱۶:۳۰-۳۳۔ *
بعل کی پرستش مکروہ کیوں تھی؟ کیونکہ بعل کی پرستش کی وجہ سے بہتیرے اسرائیلی سچے خدا سے دُور ہو گئے تھے۔ اِس مذہب نے نفرتانگیز کاموں اور ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ بعل کی پرستش کا مقام نہ صرف جنسی بداخلاقی کے لئے مشہور تھا بلکہ یہاں معصوم بچوں کو بھی بعل کے آگے قربان کِیا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یہوواہ خدا نے اپنے نبی ایلیاہ کو اخیاب کے پاس بھیجا تاکہ اُسے آنے والے قحط کے بارے میں بتائے جو اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک خدا کا نبی اِس کے ختم ہونے کا اعلان نہ کر دے۔ (۱-سلاطین ۱۷:۱) کئی سال گزر جانے کے بعد ایلیاہ دوبارہ اخیاب کے پاس آ کر کہتا ہے کہ وہ لوگوں کو اور بعل کے نبیوں کو کوہِکرمل پر جمع کرے۔
تاہم، یہ طویل کشمکش آج ہمارے لئے کیا مطلب رکھتی ہے؟ بعض شاید سوچیں کہ آج ہمارے اردگرد بعل کے مندر اور مذبحے موجود نہیں ہیں اس لئے اِس واقعے کا ہمارے زمانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم، یاد رکھیں رومیوں ۱۵:۴) عبرانی زبان میں لفظ ”بعل“ سے مُراد ”مالک“ یا ”آقا“ ہے۔ پس کیا آپ اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ آج بھی لوگ قادرِمطلق خدا کو اپنا مالک تسلیم کرنے کی بجائے دوسرے مالکوں کی خدمت کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ سچے خدا یہوواہ کی بجائے لاتعداد جھوٹے معبودوں کو اپنا مالک مانتے اور اپنی زندگی میں مالودولت، پیشے، تفریحطبع اور جنسی تسکین جیسی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ (متی ۶:۲۴؛ رومیوں ۶:۱۶) اِس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعل کی پرستش جیسے عناصر آج بھی موجود ہیں۔ یہوواہ خدا اور بعل کے درمیان مقابلے کی قدیم سرگزشت اِس بات کا دانشمندانہ انتخاب کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے کہ ہم کس کی خدمت کریں گے۔
کہ یہ سرگزشت محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ (لوگ کس لحاظ سے ”ڈانوانڈول“ تھے؟
کوہِکرمل سے آپ اسرائیل کی سرزمین کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ مُلک قیسون کی وادی سے لیکر بحرِقلزم اور شمال میں لبنان کے اُونچے پہاڑی سلسلے تک پھیلا ہوا ہے۔ * یہ مُلک یہوواہ خدا نے ابرہام کی نسل کو دیا تھا جو اب سرسبزوشاداب ہونے کی بجائے قحطسالی کا شکار نظر آ رہا تھا۔ سورج نکلتے ہی اِس کی بدحالی کھل کر سامنے آ گئی۔ اُسے اِس حال کو پہنچانے والے خدا کے اپنے ہی لوگ تھے! پس جب بِھیڑ جمع ہو جاتی ہے تو ایلیاہ اُن کے نزدیک آ کر کہتا ہے: ”تُم کب تک دو خیالوں میں ڈانوانڈول رہو گے؟ اگر [یہوواہ] ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاؤ اور اگر بعلؔ ہے تو اُس کی پیروی کرو۔“—۱-سلاطین ۱۸:۲۱۔
ایلیاہ کے اِس اظہار ”دو خیالوں میں ڈانوانڈول“ سے کیا مراد تھی؟ دراصل، اسرائیلی ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ اُنہیں یہوواہ خدا اور بعل میں سے کسی ایک کی پرستش کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ دونوں کی پرستش کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ، وہ سمجھتے تھے کہ اپنی مکروہ رسومات کے ذریعے وہ بعل کو بھی خوش کر سکتے ہیں اور یہوواہ خدا سے بھی حمایت کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ جواز پیش کرتے تھے کہ بعل اُن کی فصلوں اور گلّوں کو برکت دیتا ہے جبکہ ’ربُالافواج‘ یہوواہ اُنہیں جنگ سے بچاتا ہے۔ (۱-سموئیل ۱۷:۴۵) ایلیاہ کے زمانے کے لوگ اِس بنیادی سچائی کو بھول چکے تھے کہ یہوواہ خدا اُن سے بِلاشرکتِغیرے پرستش کا تقاضا کرتا ہے۔ آج ہمارے زمانے کے بہتیرے لوگ بھی اِس اہم سچائی کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جب یہوواہ خدا کی پرستش میں کسی دوسرے معبود کو شامل کِیا جاتا ہے تو وہ اِسے بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ سخت ناراض ہوتا ہے۔—خروج ۲۰:۵۔
جس طرح کوئی شخص ایک ہی وقت میں دو راستوں پر چلنے کی کوشش کر سکتا ہے اُسی طرح اسرائیلی بھی ”ڈانوانڈول“ تھے۔ آجکل بھی بہتیرے لوگ خدا کی پرستش کو چھوڑ کر ”بعل“ یعنی دیگر چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے سے اسرائیلیوں جیسی غلطی کرتے ہیں! ایلیاہ کا لوگوں کو واضح طور پر ڈانوانڈول رہنے سے منع کرنا اپنی ترجیحات اور پرستش کا جائزہ لینے میں ہماری بھی مدد کر سکتا ہے۔
ایک فیصلہکُن مقابلہ
ایلیاہ نے ایک مقابلے کی تجویز پیش کی۔ یہ مقابلہ بڑا آسان تھا۔ بعل کے نبیوں کو ایک مذبح بنا کر اُس پر قربانی چڑھانی تھی اور پھر اپنے معبود سے اُسے بھسم کرنے کی درخواست کرنی تھی۔ ایلیاہ نے بھی ایسا ہی کرنا تھا۔ اُس نے کہا: ”وہ خدا جو آگ سے جواب دے وہی خدا ٹھہرے۔“ ایلیاہ جانتا تھا کہ سچا خدا کون ہے۔ اُس کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ اُس نے بعل کے نبیوں کو پہلے قربانی گزراننے کی اجازت دے دی۔ اُس نے تو اپنے مخالفین کو یہ تک کہہ دیا کہ وہ پہلے بیل کا انتخاب کر سکتے اور بعل سے قربانی کو قبول کرنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ *—۱-سلاطین ۱۸:۲۴، ۲۵۔
یہ سچ ہے کہ آجکل ماضی کی طرح معجزات تو واقع نہیں ہوتے لیکن ہم ایلیاہ جیسا بھروسا رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ لاتبدیل خدا ہے۔ مثال کے طور پر، جب لوگ بائبل کی تعلیمات سے متفق نہیں ہوتے تو ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایلیاہ کی طرح معاملات کو سچے خدا یہوواہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں اپنی بجائے خدا کے الہامی کلام بائبل پر بھروسا رکھنا چاہئے جو ہماری ”اصلاح“ کے لئے لکھا گیا ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
بعل کے نبیوں نے قربانی تیار کی اور اپنے معبود کو پکارنے لگے۔ ”اَے بعلؔ ہماری سُن۔“ وہ بار بار چلّاتے رہے۔ اُنہیں اپنے دیوتا کو پکارتے پکارتے کئی گھنٹے گزر گئے۔ مگر بائبل بیان کرتی ہے کہ ”نہ کچھ آواز ہوئی اور نہ کوئی جواب دینے والا تھا۔“ دوپہر کے وقت ایلیاہ بعل کے جھوٹے نبیوں کو جوش دلانے کے لئے چڑا کر کہنے لگا کہ ”بلند آواز سے پکارو“ شاید بعل مصروف ہے، شاید وہ آرام کر رہا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سو رہا ہو اِس لئے کسی کا اُسے جگانا ضروری ہے۔ وہ خود تو واضح طور پر اِس بات کو جانتا تھا کہ بعل کی پرستش محض ایک دھوکا ہے مگر وہ چاہتا تھا کہ خدا کے لوگ بھی اُس کے فریب کو اچھی طرح دیکھ لیں۔—نتیجتاً بعل کے نبی شدید طیش میں آ کر ”بلند آواز سے پکارنے لگے اور اپنے دستور کے مطابق اپنے آپ کو چھریوں اور نشتروں سے گھایل کر لیا یہاں تک کہ لہولہان ہو گئے۔“ مگر ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا! کیونکہ ”نہ کچھ آواز ہوئی نہ کوئی جواب دینے والا نہ توجہ کرنے والا تھا۔“ (۱-سلاطین ۱۸:۲۸، ۲۹) درحقیقت، بعل کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ بلکہ یہ لوگوں کو یہوواہ خدا سے دُور لے جانے کی شیطان کی ایک چال تھی۔ ماضی کی طرح آج بھی جب کوئی شخص یہوواہ خدا کی بجائے کسی دوسرے معبود کی پرستش کرنے کا انتخاب کرتا ہے تو اُسے مایوسی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔—زبور ۲۵:۳؛ ۱۱۵:۴-۸۔
مقابلے کا نتیجہ
دن ڈھلے جب ایلیاہ کی باری آئی تو اُس نے یہوواہ خدا کے مذبح کو جسے ڈھا دیا گیا تھا دوبارہ تعمیر کِیا تاکہ سچی پرستش کے دُشمنوں کے لئے کوئی شکوشُبہ باقی نہ رہے۔ اُس نے مذبح کو بنانے کے لئے ۱۲ پتھر استعمال کئے۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ ۱۰ قبیلوں پر مشتمل اسرائیل کی سلطنت کو یہ یاد دلایا جا سکے کہ وہ اب بھی اسرائیل کے ۱۲ قبیلوں کو دی جانے والی شریعت کے پابند ہیں۔ پھر اُس نے قربانی کو مذبح پر رکھا اور تمام چیزوں پر پانی اُنڈیل دیا۔ ممکن ہے کہ یہ پانی قریب ہی موجود بحرِقلزم سے لیا گیا ہو۔ اُس نے مذبح کے اردگرد کھائی کھودی اور اُسے بھی پانی سے بھر دیا۔ ایسا کرنے سے ایلیاہ نے قربانی کے بھسم ہونے کو مزید مشکل بنا دیا جبکہ اُس نے بعل کے نبیوں کو ایسا کچھ کرنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ دراصل اِس سے ایلیاہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اُسے اپنے خدا پر کتنا زیادہ بھروسا ہے۔—۱-سلاطین ۱۸:۳۰-۳۵۔
جب سب کچھ تیار ہو گیا تو ایلیاہ نے یہوواہ خدا سے دُعا کی۔ ایلیاہ نے دُعا کے لئے اگرچہ بہت ہی سادہ الفاظ استعمال کئے توبھی یہ بات بالکل واضح تھی کہ اُس کے نزدیک کونسی چیزیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم بات جو ایلیاہ لوگوں کو بتانا چاہتا تھا وہ یہ تھی کہ یہوواہ ’اسرائیل کا خدا‘ ہے نہ کے بعل۔ دوسری بات جو وہ لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا تھا وہ یہ تھی کہ ایلیاہ فقط یہوواہ کا ایک خادم ہے اور تمام عزت اور تمجید صرف یہوواہ خدا ہی کو دی جانی چاہئے۔ آخر میں ایلیاہ نے بیان کِیا کہ یہوواہ اب بھی اپنے لوگوں کی فکر رکھتا ہے۔ اِسی وجہ سے ایلیاہ یہوواہ خدا سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ”پھر اُن کے دلوں کو پھیر“ دے۔ (۱-سلاطین ۱۸:۳۶، ۳۷) اگرچہ اسرائیلی یہوواہ کے وفادار نہ رہنے کی وجہ سے اِن تمام مشکلات میں پھنس گئے توبھی ایلیاہ اُن کے لئے فکرمند تھا۔ کیا ہم بھی اپنی دُعاؤں میں خدا کے نام کے بارے میں ایسا ہی رجحان ظاہر کرتے ہیں؟ کیا ہم ضرورتمند اشخاص کے لئے ایسی ہی حلیمی اور دردمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟
ایلیاہ کے دُعا کرنے سے پہلے شاید بِھیڑ میں موجود بہتیرے لوگ یہ سوچ رہے ہوں کہ بعل کی طرح یہوواہ بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔ لیکن دُعا کے بعد حقیقت اُن کے سامنے آ گئی۔ سرگزشت بیان کرتی ہے: ”تب [یہوواہ] کی آگ نازل ہوئی اور اُس نے اُس سوختنی قربانی کو لکڑیوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کر دیا اور اُس پانی کو جو کھائی میں تھا چاٹ لیا۔“ (۱-سلاطین ۱۸:۳۸) اِس مقابلے کا کیا ہی شاندار اختتام! تاہم، اِس کے لئے لوگوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
تمام لوگ چلّا اُٹھے: ’یہوواہ ہی خدا ہے! یہوواہ ہی خدا ہے!‘ (۱-سلاطین ۱۸:۳۹) انجامکار سچائی اُن کے سامنے آ گئی۔ تاہم، اِن لوگوں نے ابھی تک ایمان کا کوئی خاص مظاہرہ نہیں کِیا تھا۔ اگرچہ دُعا کے جواب میں آسمان سے آگ آتے دیکھ کر اُنہوں نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے توبھی اپنے ایمان کا اظہار کرنے کے لئے اُنہیں اِس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ اِس لئے ایلیاہ نے اُن سے ایک فرق طریقے سے اپنے ایمان کا اظہار کرنے کے لئے کہا۔ اُس نے اُن سے کہا کہ اگرچہ وہ کئی سال سے یہوواہ کی شریعت کی پابندی کرنے میں ناکام رہے ہیں مگر اب اُنہیں یہوواہ کی شریعت پر فوری عمل کرنا چاہئے۔ خدا نے شریعت میں اسرائیلیوں کو حکم دیا تھا کہ جھوٹے نبیوں اور بتپرستوں کو اپنے درمیان زندہ نہ چھوڑیں۔ (استثنا ۱۳:۵-۹) اُس وقت وہاں موجود بعل کے نبی یہوواہ کے شدید مخالف تھے اور جانبوجھ کر اُس کے مقاصد کے خلاف کام کر رہے تھے۔ کیا بعل کے نبی رحم کے مستحق تھے؟ ہرگز نہیں۔ چونکہ اُنہوں نے بعل کے آگے قربانی کے طور پر زندہ جلائے جانے والے معصوم بچوں کے لئے رحم نہیں دکھایا تھا اِس لئے وہ کسی بھی طرح سے رحم کے مستحق نہیں تھے۔ (امثال ۲۱:۱۳؛ یرمیاہ ۱۹:۵) اِس لئے، ایلیاہ نے بعل کے نبیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ پس لوگوں نے بعل کے تمام نبیوں کو قتل کر دیا۔—۱-سلاطین ۱۸:۴۰۔
بعض جدید تنقیدنگار کوہِکرمل کے اِس واقعے پر اعتراض کرتے ہیں۔ بعض لوگ شاید یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ مذہبی طور پر جنونی لوگ اِس واقعہ کو مذہب کے نام پر کئے جانے والے ظلموتشدد کا جواز بنا سکتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل مذہبی طور پر جنونی لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن یاد رکھیں ایلیاہ جنونی نہیں تھا۔ اُس نے جوکچھ بھی کِیا وہ یہوواہ خدا کے راست معیاروں کی مطابقت میں تھا۔ اِس کے علاوہ، تمام سچے مسیحی جانتے ہیں کہ آج اُنہیں بُرائی کے خلاف ایلیاہ کی طرح تلوار اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ مسیحا نے زمین پر آنے کے بعد اپنے تمام شاگردوں کو ایک اصول فراہم کِیا۔ اِس سلسلے میں اُس نے پطرس سے کہا: ”اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“ (متی ۲۶:۵۲) یہوواہ خدا مستقبل میں انصاف کرنے کے لئے اپنے بیٹے کو استعمال کرے گا۔
ایک سچے مسیحی سے اپنے ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶) ایسا کرنے کا ایک طریقہ ایلیاہ جیسے ایماندار اشخاص کی نقل کرنا ہے۔ اُس نے خود بھی یہوواہ خدا کی پرستش کی اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تاکید کی۔ ایلیاہ نے دلیری سے اُس جھوٹے مذہب کو بےنقاب کِیا جسے شیطان لوگوں کو یہوواہ خدا سے دُور لے جانے کے لئے استعمال کر رہا تھا۔ اِس کے علاوہ، اُس نے معاملات کو اپنے طور پر حل کرنے کی بجائے ہمیشہ یہوواہ خدا پر آس لگائی۔ واقعی، ایلیاہ سچی پرستش کی حمایت کرتا رہا۔ دُعا ہے کہ ہم سب بھی ایلیاہ جیسا ایمان پیدا کریں!
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 9 اخیاب کے ساتھ ایلیاہ کی ابتدائی باتچیت کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مینارِنگہبانی اپریل ۱، ۱۹۹۲ کے مضمون ”کیا آپ ایلیاہ کی طرح کا ایمان رکھتے ہیں؟“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 13 کرمل سرسبزوشاداب علاقہ تھا۔ سمندر سے اُٹھنے والی مرطوب ہوائیں ڈھلوانوں سے ٹکرا کر اکثر بارش اور اوس کا سبب بنتی تھیں۔ کیونکہ بعل کو بارش کا دیوتا سمجھا جاتا تھا اِس لئے یہ پہاڑ اُس کی پرستش کا خاص مقام تھا۔ مگر اِس وقت کرمل کا بنجر اور خشک ہونا اِس بات کا واضح ثبوت تھا کہ بعل ایک جھوٹا دیوتا ہے۔
^ پیراگراف 17 غور کریں کہ ایلیاہ نے اُن سے کہا: ’نیچے آگ نہ جلانا۔‘ کئی علما کا خیال ہے کہ کچھ بتپرست لوگ کبھیکبھار مذبحوں کے نیچے آگ چھپا کر رکھ دیا کرتے تھے تاکہ ایسا لگے کہ کسی مافوقالفطرت ہستی نے آگ فراہم کی ہے۔
[صفحہ ۲۰ پر عبارت]
یہوواہ خدا کی بجائے کسی دوسرے معبود کی پرستش کرنا مایوسی کا باعث بنتا ہے
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
’یہوواہ ہی خدا ہے!‘