انسان کس طرح وجود میں آیا ہے؟
انسان کس طرح وجود میں آیا ہے؟
اِس سوال کا جواب حاصل کرنا کیوں اہم ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انسان، جو سوچنےسمجھنے اور زندگی کے مقصد پر غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ارتقا کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ جانوروں میں اتفاق سے آہستہ آہستہ تبدیلیاں آنے لگیں اور اس طرح آخرکار انسانی نسل وجود میں آئی۔
لیکن ذرا سوچیں کہ اگر خالق کا وجود نہیں ہے اور انسان ارتقا کے ذریعے وجود میں آیا ہے تو دراصل ہم یتیموں کی طرح بےیارومددگار ہیں۔ اِس صورت میں ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے خالق کی طرف رجوع نہیں کر سکتے، ہم دُنیا کے ماحولیاتی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے صرف دوسرے انسانوں سے مشورہ لے سکتے اور ذاتی مسئلوں کا سامنا کرتے وقت بھی ہم انسانوں ہی سے مدد حاصل کر سکتے۔
کیا ایسی سوچ سے ہمیں دلی سکون حاصل ہو سکتا ہے؟ یاپھر کیا یہ بات ہمارے لئے زیادہ اطمینانبخش نہیں ہے کہ انسان کا خالق ہمارے مسئلوں کا حل جانتا ہے؟ خالق پر ایمان رکھنا نہ صرف دلی سکون کا باعث ہوتا ہے بلکہ یہ عقلمندی کی بات بھی ہے۔
پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے؟
پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ خدا نے انسان کو براہِراست خلق کِیا۔ انسان اتفاقاً وجود میں نہیں آیا بلکہ ہم ایک پُرمحبت اور ذہین خالق کی کاریگری ہیں۔ ذرا پاک صحائف کے اِن بیانات پر غور کیجئے:
پیدایش ۱:۲۷۔ ”خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا۔ نروناری اُن کو پیدا کِیا۔“
زبور ۱۳۹:۱۴۔ ”مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیبوغریب طور سے بنا ہوں۔ تیرے کام حیرتانگیز ہیں۔ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے۔“
متی ۱۹:۴-۶۔ ”کیا تُم نے نہیں پڑھا کہ جس نے اُنہیں بنایا اُس نے ابتدا ہی سے اُنہیں مرد اور عورت بنا کر کہا کہ اِس سبب سے مرد باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے؟ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اِس لئے جِسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔“
اعمال ۱۷:۲۴، ۲۵۔ ”جس خدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔“
مکاشفہ ۴:۱۱۔ ”اَے [یہوواہ] ہمارے خداوند اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔“
یہ جان کر ہمیں دلی سکون کیوں ملتا ہے؟
جب ہم یہ جان جاتے ہیں کہ خدا نے ’زمین کے ہر ایک خاندان‘ کو وجود دیا ہے تو اِس سے لوگوں کے بارے میں ہماری سوچ پر افسیوں ۳:۱۵) اس کے علاوہ ہم اپنی زندگی اور اپنے مسائل کے بارے میں بھی فرق نظریہ اپنانے لگتے ہیں۔ آئیں دیکھیں کہ خالق پر ایمان رکھنے سے ہماری سوچ کس طرح متاثر ہوتی ہے۔
گہرا اثر پڑتا ہے۔ (اہم فیصلے کرتے وقت ہم اِس اُلجھن میں نہیں پڑیں گے کہ ہمیں کہاں سے اچھا مشورہ مل سکتا ہے۔ لوگ ہر معاملے کے بارے میں طرح طرح کے مشورے پیش کرتے ہیں اور اکثر اِن میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہم خدا کے کلام کی راہنمائی پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔“—۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷۔
یہ بات سچ ہے کہ الہامی کتابوں کی راہنمائی پر چلنا اکثر آسان نہیں ہوتا کیونکہ کبھیکبھار ہمیں ایسی روش اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی جو ہمیں پسند نہیں۔ (پیدایش ۸:۲۱) لیکن اگر ہم مانتے ہیں کہ ایک پُرمحبت خالق نے ہمیں بنایا ہے تو ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کونسی راہ ہمارے لئے سب سے اچھی ہے۔ (یسعیاہ ۵۵:۹) خدا کے کلام میں یہ ہدایت دی گئی ہے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“ (امثال ۳:۵، ۶) اگر ہم اِس ہدایت پر عمل کریں گے تو ہم اُس وقت پریشان نہیں ہوں گے جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہوگا یا جب ہمیں اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔
جب ہم تعصب کا نشانہ بنتے ہیں تو ہم احساسِکمتری کا شکار نہیں ہوں گے۔ ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ کسی دوسری نسل، رنگ یا طبقے کے لوگوں کی نسبت ہماری قدر کم ہے۔ اس کی بجائے ہمیں اپنی قدر کا احساس ہوگا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارا خالق یہوواہ خدا ”کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔“—اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
یہ جان کر ہم خود تعصب کرنے سے بھی باز آئیں گے۔ ہم سمجھ جائیں گے کہ خود کو کسی دوسری نسل کے لوگوں سے بہتر خیال کرنا غلط ہے کیونکہ خدا نے ”ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رویِزمین پر رہنے کے لئے پیدا کی۔“—اعمال ۱۷:۲۶۔
یقیناً ہم یہ جان کر دلی سکون پاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے خالق کی کاریگری ہیں جسے ہماری فکر ہے۔ لیکن اِس دلی سکون کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں اَور بھی سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
[صفحہ ۴ پر عبارت]
کیا انسان ارتقا کے ذریعے وجود میں آیا ہے؟
[صفحہ ۵ پر تصویر]
یہ جان کر کہ ہمارے خالق کو ہماری فکر ہے ہمیں دلی سکون ملتا ہے