نوجوانوں کے دل تک رسائی حاصل کریں
خاندان کی خوشی کا راز
نوجوانوں کے دل تک رسائی حاصل کریں
”میں اپنے بیٹے سے آسانی سے باتچیت کر لیتی تھی لیکن جب سے وہ سولہ سال کا ہو گیا ہے میرے اور میرے شوہر کے لئے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ وہ خود کو اپنے کمرے میں بند رکھتا ہے اور ہم سے کم ہی بات کرتا ہے۔“—مریم، میکسیکو۔
”ایک ایسا وقت تھا جب میرے بچے میری باتیں بڑے شوق سے سنتے تھے۔ وہ میری ہر بات پر غور کرتے۔ لیکن آج جب کہ وہ نوجوان ہو گئے ہیں اُنہیں لگتا ہے کہ میں اُن کو سمجھ نہیں پاتا۔“—سکاٹ، آسٹریلیا۔
اگر آپ کے بچے نوجوان ہیں تو شاید آپ بھی اِن والدین کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ ماضی میں شاید آپ اور آپ کے بچے بِلاجھجھک ایک دوسرے کے ساتھ باتچیت کرتے تھے لیکن اب آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے درمیان دیوار سی کھڑی ہو گئی ہے۔ اِٹلی سے تعلق رکھنے والی اَنجیلی کہتی ہے: ”جب میرا بیٹا چھوٹا تھا تو وہ اکثر سوالوں کی بوچھاڑ کِیا کرتا تھا لیکن اب جب تک مَیں اُس سے بات نہیں کرتی وہ چپ رہتا ہے۔ اور اگر مَیں بات کرنے میں پہل نہیں کرتی تو ہماری صرف رسمی باتچیت ہوتی ہے۔“
اَنجیلی کی طرح شاید آپ نے بھی دیکھا ہو کہ آپ کا باتونی اور خوشمزاج بچہ ایک چڑچڑا اور بدمزاج نوجوان بن گیا ہے۔ باتچیت کرنے کی غرض سے جب آپ اپنے بچے سے سوال پوچھتے ہیں تو وہ بڑی بےرُخی سے جواب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ اپنے بیٹے سے پوچھتے ہیں کہ ”آپ کا دِن کیسا رہا؟“ تو وہ تلخ لہجے میں جواب دیتا ہے: ”ٹھیک رہا۔“ یا شاید آپ اپنی بیٹی سے پوچھیں کہ ”آپ نے آج سکول میں کیا کِیا؟“ تو وہ کندھے اُچکا کر کہتی ہے: ”کچھ نہیں۔“ جب آپ اپنے بچے سے پوچھتے ہیں: ”آخر تُم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے؟“ تو وہ آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا۔
کچھ نوجوان اپنے والدین سے بات کرتے تو ہیں لیکن اُن کی باتیں والدین کو ناگوار گزرتی ہیں۔ نائیجیریا میں رہنے والی ایڈنا بتاتی ہے کہ جب بھی وہ اپنی بیٹی سے کوئی کام لینا چاہتی تو اُس کی بیٹی کہتی: ”آپ میرے پیچھے کیوں پڑ جاتی ہیں!“ میکسیکو میں رہنے والے رامون بھی اپنے سولہ سالہ بیٹے کے بارے میں کچھ ایسی ہی بات بتاتا ہے: ”ہم تقریباً ہر دِن جھگڑا کرتے ہیں۔ جب بھی مَیں اُسے کوئی کام کرنے کو کہتا ہوں تو وہ اپنی جان چھڑانے کے لئے بہانے بناتا ہے۔“
جب والدین کی ہر کوشش کے باوجود اُن کے بچے اُن سے بات نہیں کرتے تو والدین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ روس میں رہنے والی اَنا کہتی ہے: ”جب مَیں یہ نہیں جان پاتی کہ میرا بیٹا کیا سوچ رہا ہے تو مجھے بڑی چڑ ہوتی ہے۔“ یہ بہت اہم ہے کہ والدین اور اُن کے نوجوان بچے ایک دوسرے سے کُھل کر بات کریں۔ تو پھر زندگی کے اِس اہم موڑ پر پہنچ کر اِن کے درمیان دیوار سی کیوں کھڑی ہو جاتی ہے؟
رُکاوٹوں کو پہچانیں
یسوع مسیح نے کہا: ”جو دل میں بھرا ہے وہی [انسان] کے مُنہ پر آتا ہے۔“ (لوقا ۶:۴۵) باتچیت کرنے سے ہم دوسروں سے سیکھتے ہیں اور اُن کو اپنے بارے میں بتاتے ہیں۔ البتہ نوجوانوں کے لئے دوسروں کو اپنے احساسات کے بارے میں بتانا آسان نہیں ہوتا کیونکہ زندگی کے اِس مرحلے میں وہ شرمیلے ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر نوجوانوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اسٹیج پر ہیں اور سب کی نظریں اُن پر لگی ہیں۔ اِس احساس سے بچنے کے لئے وہ پردہ گِرا دیتے ہیں یعنی وہ اپنی ہی دُنیا میں کھو جاتے ہیں اور والدین کے لئے اِس پردے کو چیرنا آسان نہیں ہوتا۔
نوجوانوں کے لئے اپنے والدین سے باتچیت کرنا اِس لئے بھی مشکل ثابت ہوتا ہے کیونکہ اُن میں خودمختاری کی خواہش اُبھرنے لگتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کا بچہ بالغپن کی طرف بڑھ رہا ہے اور اِس لئے وہ ذہنی طور پر خود کو آپ سے الگ کر رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ سے جُدا رہنے کے لئے تیار ہے۔ یہ تو زندگی کا وہ موڑ ہے جب اُسے پہلے سے بھی زیادہ آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن اِس وقت آپ کا بچہ اپنی ذاتی پہچان قائم کرنے لگتا ہے۔ اِس لئے وہ اپنے معاملوں کے بارے میں کسی اَور کو بتانے سے پہلے خود اِن پر سوچبچار کرنا چاہتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ نوجوان ہچکچائے بغیر اپنے ہمعمروں کو اپنے دِل کی بات بتا دیتے ہیں۔ میکسیکو میں رہنے والی جیسیکا اپنی بیٹی کے بارے میں کہتی ہے: ”جب میری بیٹی چھوٹی تھی تو وہ مجھے اپنے تمام مسئلے بتاتی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے دوستوں سے ہی اپنے مسئلوں کے بارے میں بات کرتی ہے۔“ اگر یہ آپ کے بچے کے بارے میں بھی سچ ہے تو یہ مت سوچیں کہ وہ آپ کی راہنمائی کو رد کرتا ہے۔ کئی جائزوں کے مطابق نوجوان اپنے دوستوں کے مشوروں سے زیادہ اپنے والدین کے مشوروں کو خاطر میں لاتے ہیں حالانکہ وہ اِس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ زندگی کے اِس موڑ پر آپ کے اور آپ کے بچے کے درمیان خاموشی کی دیوار نہ کھڑی ہو جائے؟
رُکاوٹوں کو راستے سے ہٹائیں
فرض کریں کہ آپ کافی دیر سے ایک لمبی سیدھی سڑک پر گاڑی چلا رہے ہیں کہ اچانک سڑک میں ایک موڑ آتا ہے اور موڑ کاٹنے کے لئے آپ کو گاڑی کا رُخ بدلنا پڑتا ہے۔ اسی طرح آپ کے بچے کی زندگی میں بھی ایک ایسا موڑ آتا ہے جب آپ کو اپنے باتچیت کرنے کے انداز میں تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں۔ خود سے یہ سوال پوچھیں:
▪ ”جب میرا بچہ بات کرنے کے موڈ میں ہوتا ہے تو کیا مَیں اُس کے لئے وقت نکالتا ہوں؟“ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”جو بات مناسب وقت پر کہی جائے وہ چاندی کی رکابی میں سونے کے سیب کی مانند ہوتی ہے۔“ (امثال ۲۵:۱۱، نیو اُردو بائبل ورشن) جیسے کہ اِس آیت میں واضح کِیا جاتا ہے ہمیں اُس وقت اپنے بچے سے بات کرنی چاہئے جب یہ اُس کے لئے مناسب ہو۔غور کریں کہ کسان کو اُس وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب فصل پک جاتی ہے۔ پھر جونہی فصل پک جاتی ہے کسان کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسے کاٹنا پڑتا ہے۔فصل کتنی جلدی پکتی ہے اِس میں کسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسی طرح شاید آپ کے بچے کا ایک خاص وقت ہو جب وہ آپ سے بات چیت کرنا چاہے۔ اِس موقعے کا فائدہ اُٹھائیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والی فرانسس جس نے اکیلے میں اپنی بیٹی کی پرورش کی، وہ کہتی ہے: ”میری بیٹی اکثر رات گئے میری خواب گاہ میں مجھ سے بات چیت کرنے کے لئے آتی اور گھنٹابھر رہتی۔ یہ میرے لئے آسان نہیں تھا کیونکہ مَیں رات کو دیر سے سونے کی عادی نہیں ہوں۔ لیکن یہ وہ وقت تھا جب میری بیٹی دِل کھول کر مجھ سے بات کرنا چاہتی تھی۔“
اِس طریقے کو آزمائیں: اگر آپ کا بچہ آپ سے بات کرنے سے ہچکچاتا ہے تو مل کر سیروتفریح کریں، کوئی کھیل کھیلیں یا پھر مل کر گھر کے کام کریں۔ ایسے موقعوں پر شاید آپ کا بچہ آپ سے کُھل کر بات کرنے کو تیار ہو۔
▪ ”کیا مَیں اپنے بچے کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں؟“ ایوب ۱۲:۱۱ میں لکھا ہے: ”کیا کان باتوں کو نہیں پرکھ لیتا جیسے زبان کھانے کو چکھ لیتی ہے؟“ جب آپ کا بچہ نوجوان ہو جاتا ہے تو یہ اَور بھی اہم ہوتا ہے کہ آپ اُس کے احساسات کو ’پرکھ لینے‘ کی کوشش کریں۔ نوجوان اکثر ایک بات کو ایسے کہتے ہیں جیسے کہ وہ اٹل حقیقت ہو۔ مثال کے طور پر شاید وہ کہیں: ”آپ ہمیشہ مجھ سے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔“ یا پھر شاید وہ کہیں: ”آپ کبھی میری بات نہیں سنتے۔“ اِس کی بات پر اعتراض کرنے کی بجائے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کے بچے نے ایسی بات کیوں کہی ہے۔ مثال کے طور پر ”آپ ہمیشہ مجھ سے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں“ کہنے سے شاید آپ کا بچہ یہ کہنا چاہے: ”مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے۔“ اور جب آپ کا بچہ کہتا ہے کہ ”آپ کبھی میری بات نہیں سنتے“ تو شاید وہ کہنا چاہتا ہے کہ ”آپ میرے احساسات سمجھنے کی کوشش تو کریں۔“اپنے بچے کے الفاظ پر اتنی توجہ نہ دیں بلکہ اُس کے احساسات کو پرکھنے کی کوشش کریں۔
اِس طریقے کو آزمائیں: جب آپ کا بچہ کوئی ایسی بات کرتا ہے جو آپ کو ناگوار گزرتی ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں: ”آپ ناراض نہ ہوں، مَیں آپ کی بات سمجھنا چاہتا ہوں۔ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ مَیں آپ سے بچوں جیسا سلوک کرتا ہوں؟“ اور پھر جب آپ کا بچہ بولنے لگتا ہے تو اُس کی بات نہ کاٹیں بلکہ اُس کی باتوں کو غور سے سنیں۔
▪ ”کیا آپ کا بچہ آپ سے اِس لئے بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ اُسے باتچیت کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟“ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ ”صلح کرانے والوں کے لئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۸) اپنے بچے سے بات کرتے وقت ایسے الفاظ استعمال کریں اور ایسا انداز اپنائیں جس سے آپ ’صلح کرائیں۔‘ اِس طرح آپ کے بچے کا دِل چاہے گا کہ وہ آپ سے بات کرے۔ یاد کریں کہ آپ کو اپنے بچے سے ایسے انداز میں بات نہیں کرنی چاہئے جیسا کہ آپ مقدمے کے دوران ایک گواہ کی شہادت کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش میں ہوں۔ اِس کے برعکس آپ کو اپنے بچے کی وکالت کرنی چاہئے۔ کوریا میں رہنے والا آن کہتا ہے: ”سمجھدار والدین یہ نہیں کہتے کہ تُم کو عقل کب آئے گی؟ مَیں نے تمہیں کتنی بار منع کِیا ہے؟ ماضی میں جب مجھ سے ایسی بھول ہو جاتی تو میرے بیٹوں کو نہ صرف میرے بات کرنے کے انداز سے چڑ ہوتی بلکہ وہ میرے الفاظ پر بھی ناراض ہوتے۔“
اِس طریقے کو آزمائیں: اگر آپ کا بچہ آپ کے سوالوں پر چپ رہتا ہے تو آپ اپنے سوالوں کا رُخ بدل دیں۔ مثال کے طور پر اپنی بیٹی سے یہ پوچھنے کی بجائے کہ آپ کا دِن کیسا رہا، اُسے اپنے دِن کے بارے میں بتائیں۔اِس طرح شاید وہ خودبخود اپنے دِن کے بارے میں بات کرنے لگے۔ یا پھر اگر آپ ایک معاملے کے بارے میں اپنے بچے کی رائے دریافت کرنا چاہتے ہیں تو اُس سے پوچھیں کہ”اِس بارے میں آپ کے دوست کی کیا رائے ہے؟“ اور پھر اُس سے پوچھیں کہ وہ اِس سلسلے میں اپنے دوست کو کیا مشورہ دے گا۔
نوجوانوں کی دِل کی بات دریافت کرنا والدین کے لئے ناممکن نہیں ہے۔ اپنے بچے کی ضروریات کے مطابق اپنے باتچیت کرنے کے انداز میں تبدیلی لائیں۔ ایسے والدین سے بھی مشورہ لیں جو اِس سلسلے میں کامیاب رہے ہیں۔ (امثال ۱۱:۱۴) اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کرتے وقت ”سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر کرنے میں دھیما“ ہوں۔ (یعقوب ۱:۱۹) سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ”[یہوواہ] کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر“ اپنے بچوں کی پرورش کریں اور ایسا کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔—افسیوں ۶:۴۔
خود سے پوچھیں . . .
▪ جب سے میرا بچہ نوجوان ہوا ہے اُس کے مزاج میں کونسی تبدیلیاں آئی ہیں؟
▪ مَیں اپنے بچوں سے باتچیت کرنے کے انداز میں بہتری کیسے لا سکتا ہوں؟
[صفحہ ۳۲ پر بکس]
والدین کی طرف سے ہدایات
”میرا بیٹا تب زیادہ باتیں کرتا ہے جب ہم دوسروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اِس لئے بعد میں جب ہم اکیلے ہوتے ہیں تو مَیں اُنہی موضوعات پر بات جاری رکھتی ہوں جن پر ہم دوسروں کے ساتھ بات کر رہے تھے۔“—اَنجیلی، اٹلی۔
”ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ہمارے بچے ہم سے اکثر اُس وقت کُھل کر بات کرتے ہیں جب ہم اُن کو کسی بات پر داد دیتے ہیں اور اُنہیں بتاتے ہیں کہ ہم اُن سے بہت پیار کرتے ہیں۔“—دونیزیتی، برازیل۔
”مَیں نے ایسے لوگوں سے بات کی ہے جنہوں نے خدا کے کلام کے معیاروں کے مطابق پرورش پائی ہے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ جب وہ نوجوان تھے تو وہ کیسے احساسات رکھتے تھے اور اُن کے والدین نے اُن کی مدد کیسے کی۔اِن سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔“—ڈان، برطانیہ۔