مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ ہمیشہ کی زندگی پانے کیلئے کونسی قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟‏

آپ ہمیشہ کی زندگی پانے کیلئے کونسی قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟‏

آپ ہمیشہ کی زندگی پانے کیلئے کونسی قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟‏

‏”‏آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟‏“‏—‏متی ۱۶:‏۲۶‏۔‏

۱.‏ یسوع نے پطرس کی بات کو کیوں رد کر دیا؟‏

پطرس رسول بہت پریشان تھا کیونکہ اُس کے عزیز پیشوا یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو ”‏صاف صاف“‏ بتایا تھا کہ جلد ہی اُسے اذیت پہنچائی جائے گی اور پھر مار ڈالا جائے گا۔‏ پطرس کو یسوع کی فکر تھی اس لئے اُس نے اُس کی ملامت کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اَے خداوند خدا نہ کرے۔‏ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔‏“‏ اِس پر یسوع نے دوسرے شاگردوں کی طرف دیکھا۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی پطرس جیسی سوچ رکھتے تھے۔‏ پھر یسوع نے پطرس سے کہا:‏ ”‏اَے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔‏ تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔‏“‏—‏مر ۸:‏۳۲،‏ ۳۳؛‏ متی ۱۶:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

۲.‏ یسوع اپنے پیروکاروں سے کس بات کی توقع رکھتا تھا؟‏

۲ اِس واقعے کے بعد یسوع نے شاگردوں سے جو باتیں کہیں اِن سے پطرس جان گیا ہوگا کہ یسوع کا ردِعمل اتنا شدید کیوں رہا تھا۔‏ یسوع نے ”‏بِھیڑ کو اپنے شاگردوں سمیت پاس بلا کر“‏ کہا:‏ ”‏اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔‏ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اُسے بچائے گا۔‏“‏ (‏مر ۸:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ یسوع اپنی جان کی قربانی دینے والا تھا اور وہ اپنے پیروکاروں سے بھی یہ توقع رکھتا تھا کہ وہ خدا کی خدمت میں اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار رہیں۔‏ اِس جذبے کے ساتھ خدا کی خدمت کرنے سے اُنہیں مستقبل میں بڑا اَجر ملنا تھا۔‏—‏متی ۱۶:‏۲۷ کو پڑھیں۔‏

۳.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے کونسے دو سوال اُٹھائے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کا دوسرا سوال سُن کر شاگردوں کو کونسا واقعہ یاد آیا ہوگا؟‏

۳ اُسی موقعے پر یسوع مسیح نے دو ایسے سوال اُٹھائے جن پر مسیحیوں کو غور کرنا چاہئے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‏ اور آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے؟‏“‏ (‏مر ۸:‏۳۶،‏ ۳۷‏)‏ پہلے سوال کا جواب دینا آسان ہے۔‏ ظاہری بات ہے کہ انسان اگر دُنیا کی ہر آسائش کو حاصل کرے لیکن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اُسے اِن تمام چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ مال‌ودولت کا فائدہ صرف زندوں کو ہوتا ہے۔‏ اب ذرا یسوع کے دوسرے سوال پر غور کریں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے؟‏“‏ یہ سوال سُن کر شاگردوں کو ایوب کے زمانے کا وہ واقعہ یاد آیا ہوگا جب شیطان نے دعویٰ کِیا تھا کہ ”‏انسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالے گا۔‏“‏ (‏ایو ۲:‏۴‏)‏ جو لوگ یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے وہ شیطان کی اِس بات سے متفق ہوں گے۔‏ وہ اپنی جان بچانے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں یہاں تک کہ وہ غلط کام کرنے پر بھی اُتر آئیں گے۔‏ لیکن سچےمسیحی ایسی روش اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‏

۴.‏ یسوع اپنے سوالوں میں کس قسم کی زندگی کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟‏

۴ ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح اس لئے زمین پر آیا تھا تاکہ انسان نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی پا سکے۔‏ (‏یوح ۳:‏۱۶‏)‏ وہ اِس لئے زمین پر نہیں آیا تاکہ انسان اِس دُنیا میں مال‌ودولت،‏ صحت اور لمبی عمر کا لطف اُٹھائے۔‏ لہٰذا مسیحی یسوع کے پہلے سوال سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ ”‏آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصل کرے لیکن ہمیشہ کی زندگی پانے کے موقعے کو ہاتھ سے نکلنے دے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‏“‏ واقعی اِس کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ (‏۱-‏یوح ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ یسوع کے دوسرے سوال کے سلسلے میں ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏مَیں نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے کس حد تک قربانیاں دینے کو تیار ہوں؟‏“‏ ہم ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کو کتنی اہمیت دیتے ہیں،‏ یہ بات ہماری حالیہ زندگی سے ظاہر ہوگی۔‏—‏یوحنا ۱۲:‏۲۵ پر غور کریں۔‏

۵.‏ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

۵ یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ہم ہمیشہ کی زندگی اچھے کاموں کے ذریعے کما سکتے ہیں۔‏ زندگی خدا کی ایک نعمت ہے۔‏ چاہے ہم کچھ بھی کریں ہم اِس کے حقدار نہیں ہیں بلکہ یہ ہم پر خدا کی مہربانی ہے۔‏ ہمیشہ کی زندگی پانے کی شرط یہ ہے کہ ہم ’‏یسوؔع پر ایمان لائیں‘‏ اور یہوواہ خدا پر ایمان رکھیں جو ”‏اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔‏“‏ (‏گل ۲:‏۱۶؛‏ عبر ۱۱:‏۶‏)‏ اس کے علاوہ ہمیں اپنے ایمان کو اعمال سے ظاہر کرنا ہوگا کیونکہ ”‏ایمان .‏ .‏ .‏ بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔‏“‏ (‏یعقو ۲:‏۲۶‏)‏ اس لئے ہمیں سنجیدگی سے یسوع کے سوالوں پر غور کرنا چاہئے۔‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ مَیں اِس موجودہ دَور میں کتنی قربانیاں دینے کو تیار ہوں؟‏ اور یہ بھی کہ مَیں اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لئے یہوواہ کی خدمت میں کیا کچھ کرنے کو تیار ہوں؟‏

‏”‏مسیح نے بھی اپنی خوشی کا خیال نہیں ر کھا“‏

۶.‏ یسوع مسیح نے اپنی زندگی میں کس بات کو پہلا درجہ دیا؟‏

۶ یسوع مسیح جب زمین پر تھا تو اُس نے اپنی زندگی زیادہ آرام‌دہ بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اُس کا سارا دھیان خدا کی مرضی کرنے پر تھا۔‏ اُس نے خدا کی خدمت کو زندگی میں پہلا درجہ دیا اور ایسا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھا۔‏ اپنی مرضی کرنے کی بجائے اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو [‏خدا کو]‏ پسند آتے ہیں۔‏“‏ (‏یوح ۸:‏۲۹‏)‏ یسوع خدا کی مرضی بجا لانے کے لئے کیا کچھ کرنے کو تیار تھا؟‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے کونسی قربانی دی اور اِس کے نتیجے میں اُسے کیا اَجر ملا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کونسے سوال کرنے چاہئیں؟‏

۷ ایک موقعے پر یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏ابنِ‌آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔‏“‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ اِس سے کچھ عرصہ پہلے جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ ’‏اپنی جان دینے‘‏ والا ہے تو پطرس نے اُسے ٹوکا تھا۔‏ لیکن یسوع مسیح اپنی بات پر قائم رہا۔‏ اُس نے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔‏ اِس کے نتیجے میں اُس کو بہت سی خوشیاں ملیں۔‏ اُسے زندہ کِیا گیا اور وہ ”‏خدا باپ کے داہنے ہاتھ کی طرف سربلند ہوا۔‏“‏ (‏اعما ۲:‏۳۲،‏ ۳۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یسوع نے اپنی روش کے ذریعے ہمارے لئے عمدہ مثال قائم کی۔‏

۸ پولس رسول نے رومہ کے مسیحیوں سے کہا کہ وہ ’‏اپنی خوشی نہ کرتے رہیں‘‏ کیونکہ ”‏مسیح نے بھی اپنی خوشی کا خیال نہیں رکھا۔‏“‏ (‏روم ۱۵:‏۱-‏۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ہم کس حد تک پولس رسول کی اِس بات پر عمل کرنے کو تیار ہیں؟‏ اور یہ بھی کہ ہم یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلتے ہوئے کتنی قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟‏

قابلِ‌قبول قربانیاں

۹.‏ جب مسیحی یہوواہ خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں تو وہ کیا کرنے کا انتخاب کرتے ہیں؟‏

۹ موسیٰ کی شریعت میں عبرانی غلاموں کے سلسلے میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اُنہیں یا تو غلامی کے ساتویں سال میں یا پھر یوبلی کے سال میں رہا کر دیا جانا تھا۔‏ لیکن اگر غلام کو اپنے مالک سے محبت ہوتی تو وہ عمر بھر کے لئے اُس کا غلام رہنے کا انتخاب کر سکتا تھا۔‏ (‏استثنا ۱۵:‏۱۲،‏ ۱۶،‏ ۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ اسی طرح ہم نے بھی یہوواہ خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم نے اپنی مرضی کرنے کی بجائے اُس کی مرضی بجا لانے کا انتخاب کِیا ہے۔‏ اس طرح ہم یہوواہ خدا کے لئے اپنی گہری محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ ہم یہوواہ کی ملکیت کب بن جاتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کی ملکیت ہوتے ہوئے ہمیں کن چیزوں سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۱۰ اگر آپ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں،‏ منادی کے کام میں حصہ لے رہے ہیں اور اجلاسوں پر حاضر ہو رہے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔‏ اُمید ہے کہ جلد ہی آپ خود کو یہوواہ خدا کی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہیں گے اور اپنے آپ سے وہی سوال کریں گے جو حبشی اہلکار نے فلپس سے کِیا تھا:‏ ”‏اب مجھے بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روکتی ہے؟‏“‏ (‏اعما ۸:‏۳۵،‏ ۳۶‏)‏ پھر یہی بات آپ کے بارے میں بھی سچ ہوگی جو پولس رسول نے مسیحیوں کو لکھی تھی:‏ ”‏تُم اپنے نہیں کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۶:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ چاہے ہم آسمان پر یا پھر زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہوں،‏ جب ہم خود کو یہوواہ کے لئے وقف کر دیتے ہیں تو ہم اُس کی ملکیت بن جاتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے یہ بہت اہم ہے کہ ہم نہ تو اپنے فائدے کا سوچیں اور نہ ہی ’‏آدمیوں کے غلام بنیں۔‏‘‏ (‏۱-‏کر ۷:‏۲۳‏)‏ ہمارے لئے یہ کتنا بڑا شرف ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے خادم ہیں اور وہ ہمیں اپنا کام انجام دینے کے لئے استعمال کرتا ہے۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو کونسی قربانی نذر کرنے کی تاکید کی؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا کی نظر میں کس قسم کی قربانیاں قابلِ‌قبول ہیں؟‏ اس بات کو موسیٰ کی شریعت سے واضح کریں۔‏

۱۱ پولس رسول نے مسیحیوں کو تاکید کی:‏ ”‏اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔‏ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔‏“‏ (‏روم ۱۲:‏۱‏)‏ رومہ کی کلیسیا میں بعض مسیحی پہلے یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔‏ پولس رسول کے یہ الفاظ سُن کر اُنہیں وہ قربانیاں یاد آئی ہوں گی جو وہ مسیحی بننے سے پہلے گزرانتے تھے۔‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق بنی‌اسرائیل کو صرف اعلیٰ درجے کے جانور قربانی کے طور پر چڑھانے تھے۔‏ کوئی عیب‌دار جانور یہوواہ خدا کی نظر میں قابلِ‌قبول نہیں تھا۔‏ (‏ملا ۱:‏۸،‏ ۱۳‏)‏ اسی طرح ہم نے بھی اپنے بدن ’‏زندہ قربانی‘‏ کے طور پر یہوواہ خدا کو پیش کئے ہیں۔‏ اس لئے ہم یہوواہ خدا کو جو کچھ پیش کرتے ہیں اِسے بھی اعلیٰ درجے کا ہونا چاہئے۔‏ جب ہم خود کو یہوواہ کے لئے وقف کرتے ہیں تو ہم دل‌وجان سے اُس کی خدمت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔‏ اس کا مطلب ہے کہ ہم اُس کی خدمت میں اپنا سب کچھ وقف کرتے ہیں،‏ مثلاً اپنی توانائی،‏ اپنا مال،‏ اپنی لیاقتیں وغیرہ۔‏ (‏کل ۳:‏۲۳‏)‏ آئیں دیکھیں کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔‏

وقت کو دانشمندی سے استعمال کریں

۱۲،‏ ۱۳.‏ خدا کی خدمت میں اپنا سب کچھ وقف کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۲ خدا کی خدمت میں اپنا سب کچھ وقف کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے وقت کو دانشمندی سے استعمال کریں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ شیطان کی دُنیا میں اِس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہم اپنے وقت کو سیروتفریح اور مال‌ودولت جمع کرنے کے لئے استعمال کریں۔‏ یہ بات سچ ہے کہ ”‏ہر کام کا .‏ .‏ .‏ ایک وقت ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں تفریح اور ملازمت کے لئے بھی وقت نکالنا چاہئے تاکہ ہم اپنی مسیحی ذمہ‌داریوں کو پورا کر سکیں۔‏ لیکن مسیحیوں کو اِن باتوں کے لئے اتنا وقت صرف نہیں کرنا چاہئے کہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت کو پہلا درجہ نہ دے پائیں۔‏

۱۳ جب پولس رسول شہر اتھینے گیا تو اُس نے دیکھا کہ ”‏سب اتھینوی اور پردیسی جو وہاں مقیم تھے اپنی فرصت کا وقت نئی‌نئی باتیں کہنے سننے کے سوا اَور کسی کام میں صرف نہ کرتے تھے۔‏“‏ (‏اعما ۱۷:‏۲۱‏)‏ آج بھی بہت سے لوگ وقت ضائع کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہ ٹی‌وی دیکھنے،‏ ویڈیو گیمز کھیلنے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔‏ اِس قسم کے بہت سے غیرضروری کام ہیں جو ہمارا وقت لے سکتے ہیں۔‏ اگر ہمارا دھیان ایسے کاموں پر رہے گا تو ہم روحانی باتوں کو نظرانداز کرنے لگیں گے۔‏ یہاں تک کہ شاید ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہمارے پاس ”‏عمدہ‌عمدہ باتوں“‏ یعنی خدا کی خدمت کے لئے وقت نہیں ہے۔‏—‏فل ۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۴.‏ ہمیں کن سوالوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے؟‏

۱۴ اگر آپ یہوواہ خدا کے خادم ہیں تو خود سے پوچھیں کہ کیا مَیں ہر روز بائبل کو پڑھنے،‏ اِس پر سوچ‌بچار کرنے اور دُعا کرنے کے لئے وقت نکالتا ہوں؟‏ (‏زبور ۷۷:‏۱۲؛‏ ۱۱۹:‏۹۷؛‏ ۱-‏تھس ۵:‏۱۷‏)‏ کیا مَیں اجلاسوں پر پیش کئے جانے والے مواد کی پہلے سے تیاری کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں تبصرے دے کر اجلاس پر حاضر دوسرے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہوں؟‏ (‏زبور ۱۲۲:‏۱؛‏ عبر ۲:‏۱۲‏)‏ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ پولس رسول اور اُس کے ساتھیوں نے ”‏دلیری کے ساتھ خداوند کے بارے میں تعلیم دی“‏ اور ایسا کرنے میں ”‏کافی وقت گزارا۔‏“‏ (‏اعما ۱۴:‏۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ کیا آپ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں تاکہ آپ بھی خوشخبری سنانے میں ’‏کافی وقت گزار‘‏ سکیں یہاں تک کہ پائنیر کے طور پر خدمت انجام دے سکیں؟‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۵ کو پڑھیں۔‏

۱۵.‏ کلیسیا کے بزرگ اپنا وقت کیسے استعمال میں لاتے ہیں؟‏

۱۵ جب پولس رسول اور اُس کے ساتھی انطاکیہ کی کلیسیا گئے تو ”‏وہ شاگردوں کے پاس مُدت تک رہے۔‏“‏ (‏اعما ۱۴:‏۲۸‏)‏ اسی طرح آج بھی کلیسیا کے بزرگ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے بہت وقت نکالتے ہیں۔‏ منادی کے کام میں حصہ لینے کے علاوہ بزرگ کلیسیا کی گلّہ‌بانی کرتے ہیں،‏ روحانی طور پر کمزور مسیحیوں کو سہارا دیتے ہیں،‏ بیمار بہن‌بھائیوں کی مدد کرتے ہیں اور کلیسیا میں اَور بھی بہت سی ذمہ‌داریاں نبھاتے ہیں۔‏ اگر آپ ایک بپتسمہ‌شُدہ بھائی ہیں تو کیا آپ بھی کلیسیا میں مزید ذمہ‌داریاں سنبھالنے کی شرائط پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‏

۱۶.‏ ہم کن طریقوں سے ’‏اہلِ‌ایمان کے ساتھ نیکی‘‏کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ بہتیرے یہوواہ کے گواہ اپنے اُن بہن‌بھائیوں کی مدد کرنے میں بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں جو کسی آفت کا شکار ہوئے ہیں۔‏ ذرا ایک ۶۰ سالہ بہن کی مثال پر غور کریں جو بیت‌ایل میں خدمت انجام دیتی ہیں۔‏ اُنہوں نے کئی مرتبہ چھٹی لی تاکہ وہ اپنے مصیبت‌زدہ بہن‌بھائیوں کی مدد کر سکیں۔‏ اِن بہن‌بھائیوں تک پہنچنے کے لئے اُنہیں لمبا سفر طے کرنا پڑا۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏مَیں تعمیر کے کام میں کوئی خاص ہنر نہیں رکھتی۔‏ لیکن مجھے جو بھی کام دیا جاتا ہے مَیں اِسے شرف خیال کر کے انجام دیتی ہوں۔‏ جب مَیں اپنے اُن بہن‌بھائیوں کا ایمان دیکھتی ہوں جو اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں تو میری حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے۔‏“‏ اس کے علاوہ پوری دُنیا میں ہزاروں بہن‌بھائی کنگڈم ہال اور اسمبلی ہال تعمیر کرنے کیلئے وقت نکالتے ہیں۔‏ یقیناً ایسے کاموں میں حصہ لینے سے ہم ’‏اہلِ‌ایمان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں۔‏‘‏—‏گل ۶:‏۱۰‏۔‏

‏”‏مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں“‏

۱۷.‏ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے آپ کونسی قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟‏

۱۷ اِس بُری دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔‏ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ خاتمہ کب آئے گا لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ”‏وقت تنگ ہے“‏ اور ”‏دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۲۹-‏۳۱ کو پڑھیں۔‏)‏ اس لئے یسوع کی یہ آگاہی ہمارے لئے اَور بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ ”‏آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟‏“‏ یقیناً ہم یہوواہ کی مرضی بجا لانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوں گے تاکہ ہم ”‏حقیقی زندگی“‏ پا سکیں۔‏ (‏۱-‏تیم ۶:‏۱۹‏)‏ واقعی یہ بہت اہم ہے کہ ہم یسوع مسیح کی اِس ہدایت پر عمل کریں:‏ ’‏تُم پہلے خدا کی بادشاہی کی تلاش کرو۔‏‘‏—‏متی ۶:‏۳۱-‏۳۳؛‏ ۲۴:‏۱۳‏۔‏

۱۸.‏ ہمیں کن باتوں پر بھروسہ ہے؟‏

۱۸ یہ بات سچ ہے کہ یسوع مسیح کی پیروی کرنا آسان نہیں ہے۔‏ یہاں تک کہ اُس کی پیروی کرنے کی وجہ سے کئی مسیحی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح خدا کی مرضی بجا لانے کے لئے قربانیاں دینے کو تیار تھا اور ہم بھی ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں۔‏ یسوع نے پہلی صدی کے ممسوح مسیحیوں سے وعدہ کِیا تھا کہ ”‏مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‏“‏ ہم اِس وعدے پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۲۰‏)‏ آئیں جس حد تک ہمارے لئے ممکن ہے ہم اپنا وقت اور اپنی لیاقتوں کو یہوواہ خدا کی خدمت میں استعمال کریں۔‏ یوں ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ خدا پر بھروسہ ہے کہ وہ ہمیں یا تو بڑی مصیبت میں سے بچائے گا یا پھر نئی دُنیا میں ہمیں زندہ کرے گا۔‏ (‏عبر ۶:‏۱۰‏)‏ واقعی یہوواہ خدا کے لئے قربانیاں دینے سے ہم اِس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہم زندگی کی نعمت کے لئے شکرگزار ہیں۔‏

آپ کے جواب کیا ہیں؟‏

‏• یسوع نے خدا اور انسانوں کے لئے کونسی قربانیاں دیں؟‏

‏• ہمیں اپنی خودی سے انکار کیوں کرنا چاہئے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏• یہوواہ خدا کی نظروں میں کس قسم کی قربانیاں قابلِ‌قبول ہیں؟‏

‏• ہم اپنا وقت دانشمندی سے کیسے استعمال میں لا سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

یسوع مسیح ہمیشہ وہی کام کرتا تھا جو خدا کو پسند آتے تھے

یہودی اپنی شکرگزاری ظاہر کرنے کے لئے یہوواہ خدا کو اعلیٰ درجے کی قربانیاں پیش کرتے تھے

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویر]‏

جب ہم اپنا وقت دانشمندی سے استعمال میں لاتے ہیں تو یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے