مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُعا کے متعلق یسوع مسیح کی ہدایات سے فائدہ حاصل کریں

دُعا کے متعلق یسوع مسیح کی ہدایات سے فائدہ حاصل کریں

دُعا کے متعلق یسوع مسیح کی ہدایات سے فائدہ حاصل کریں

‏”‏جب یسوؔع نے یہ باتیں ختم کیں تو ایسا ہوا کہ بِھیڑ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔‏“‏—‏متی ۷:‏۲۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ لوگ یسوع کا پہاڑی وعظ سُن کر حیران کیوں ہوئے؟‏

ہمیں خدا کے پہلوٹھے بیٹے یسوع مسیح کی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے۔‏ یسوع مسیح عظیم‌ترین اُستاد تھا اور اسی وجہ سے لوگ اُس کے پہاڑی وعظ کو سُن کر حیران ہو گئے۔‏‏—‏متی ۷:‏۲۸،‏ ۲۹ کو پڑھیں۔‏

۲ یسوع مسیح نے فقیہوں کی طرح تعلیم نہیں دی جو لمبی چوڑی تقریریں پیش کرتے تھے اور جن کی تعلیم انسانی سوچ پر مبنی تھی۔‏ لیکن یسوع ”‏صاحبِ‌اختیار کی طرح .‏ .‏ .‏ تعلیم دیتا تھا“‏ کیونکہ اُس کی تعلیم خدا کی طرف سے تھی۔‏ (‏یوح ۱۲:‏۵۰‏)‏ یسوع نے پہاڑی وعظ میں دُعا کے سلسلے میں بھی ہدایات دیں۔‏ آئیں دیکھیں کہ ہم اِن ہدایات پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

ریاکاروں کی مانند نہ بنیں

۳.‏ متی ۶:‏۵ میں درج یسوع کے الفاظ کا خلاصہ دیں۔‏

۳ دُعا کرنا خدا کی عبادت کا اہم پہلو ہے۔‏ ہمیں باقاعدگی سے یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے۔‏ ایسا کرتے وقت ہمیں اُن ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جو یسوع نے پہاڑی وعظ میں دُعا کے سلسلے میں دی تھیں۔‏ یسوع نے کہا:‏ ‏”‏جب تُم دُعا کرو تو ریاکاروں کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو دیکھیں۔‏ مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔‏“‏‏—‏متی ۶:‏۵‏۔‏

۴-‏۶.‏ (‏ا)‏ فریسی ”‏عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا“‏ پسند کیوں کرتے تھے؟‏ (‏ب)‏ یہ ریاکار کس لحاظ سے ”‏اپنا اجر پا چکے“‏ تھے؟‏

۴ یسوع کے شاگردوں کو ’‏ریاکار‘‏ فریسیوں کی طرح دُعا نہیں کرنی تھی جو دینداری کا محض دکھاوا کرتے تھے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۱۳-‏۳۲‏)‏ فریسی ”‏عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے“‏ تھے۔‏ وہ ایسا اِس لئے کرتے تھے ”‏تاکہ لوگ اُن کو دیکھیں۔‏“‏ پہلی صدی کے یہودیوں کا رواج تھا کہ وہ اُس وقت دُعا کرنے کے لئے ہیکل میں جمع ہوتے جب سوختنی قربانیاں گزرانی جاتی تھیں (‏یہ صبح کے ۹ بجے اور دوپہر کے ۳ بجے کے لگ‌بھگ ہوا کرتا تھا)‏۔‏ یروشلیم کے بہتیرے باشندے جو ہیکل میں نہیں تھے وہ بھی اُسی وقت دُعا کرتے تھے۔‏ اس کے علاوہ ایسے یہودی جو یروشلیم میں نہیں رہتے تھے وہ بھی دن میں دو بار ’‏عبادتخانوں میں کھڑے ہو کر‘‏ دُعا کرتے تھے۔‏—‏لوقا ۱۸:‏۱۱،‏ ۱۳ پر غور کریں۔‏

۵ ایسے یہودی جو ہیکل یا کسی عبادتخانے میں جمع نہیں ہو سکتے تھے وہ دُعا کے مخصوص اوقات پر جہاں کہیں بھی ہوتے وہیں دُعا کرنے لگتے۔‏ کئی لوگ ایسے وقت پر گھر سے نکلتے جب دُعا کا وقت نزدیک ہوتا تاکہ وہ ”‏بازاروں کے موڑوں پر“‏ ہوں۔‏ وہ ایسا اِس لئے کرتے ’‏تاکہ لوگ اُن کو دُعا کرتے دیکھیں۔‏‘‏ یہ ریاکار لوگ ”‏دکھاوے کے طور پر لمبی لمبی دُعائیں کرتے۔‏“‏ (‏لو ۲۰:‏۴۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ سچے مسیحیوں کو ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہئے۔‏

۶ یسوع مسیح نے اِن ریاکاروں کے بارے میں کہا کہ ”‏وہ اپنا اجر پا چکے۔‏“‏ یہ ریاکار چاہتے تھے کہ لوگ اُن کی بڑائی کریں اور اُن کو داد دیں۔‏ اور یہی اُن کا اجر تھا۔‏ اِس کے علاوہ اُن کو کوئی اَور اجر نہیں ملنا تھا کیونکہ یہوواہ خدا اُن کی دُعائیں قبول نہیں کرتا تھا۔‏ لیکن یہوواہ خدا سچے مسیحیوں کی دُعاؤں کو قبول کرتا ہے۔‏ یہ بات یسوع مسیح کے اگلے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔‏

۷.‏ ’‏اپنی کوٹھری میں جا کر دُعا کرنے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۷ ‏”‏جب تُو دُعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کرکے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا کر۔‏ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۶‏)‏ جب یسوع نے کہا تھا کہ ہمیں کمرے میں جا کر اور دروازہ بند کر کے دُعا کرنی چاہئے تو کیا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اجلاسوں پر کلیسیا کے سامنے دُعا کرنا غلط ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ یسوع نے یہ ہدایت اِس لئے دی تاکہ لوگ دوسروں کو متاثر کرنے اور اُن سے تعریفیں سننے کے لئے دُعائیں نہ مانگیں۔‏ ہمیں یہ بات اُس وقت یاد رکھنی چاہئے جب ہمیں اجلاسوں پر کلیسیا کے سامنے دُعا کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔‏ یسوع نے دُعا کے سلسلے میں اَور بھی ہدایات دیں۔‏ آئیں دیکھیں کہ ہم اِن پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

۸.‏ متی ۶:‏۷ کے مطابق ہمیں دُعا کرتے وقت کیا نہیں کرنا چاہئے؟‏

۸ ‏”‏جب تُم دُعا کرو تو غیریہودیوں کی طرح محض رٹےرٹائے جملے ہی نہ دہراتے رہا کرو۔‏ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے بہت بولنے کے باعث اُن کی سنی جائے گی۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ اِن الفاظ سے یسوع ظاہر کر رہا تھا کہ دُعا کرتے وقت بِلا سوچے سمجھے ایک ہی بات دہرانا غلط ہے۔‏ وہ یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ ہم بار بار ایک بات کے بارے میں درخواست نہ کریں یا پھر بار بار خدا کا شکر ادا نہ کریں۔‏ اپنی موت سے پہلے باغِ‌گتسمنیؔ میں یسوع نے خود بھی ”‏وہی بات کہہ کر دُعا کی۔‏“‏—‏مر ۱۴:‏۳۲-‏۳۹‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ ہمیں دُعا کرتے وقت کس غلط سوچ سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۹ ہمیں اُن لوگوں کی طرح دُعا نہیں کرنی چاہئے جو یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے۔‏ وہ بار بار ’‏رٹےرٹائے جملے ہی دہراتے رہتے ہیں۔‏‘‏ مثال کے طور پر بعل کے پجاری ”‏صبح سے دوپہر تک بعلؔ سے دُعا کرتے اور کہتے رہے اَے بعلؔ ہماری سُن۔‏“‏ لیکن اُن کی دُعائیں نہ سنی گئیں۔‏ (‏۱-‏سلا ۱۸:‏۲۶‏)‏ آجکل بھی لاکھوں لوگ اپنی دُعاؤں میں رٹےرٹائے جملے دہراتے ہیں۔‏ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ”‏اُن کی سنی جائے گی۔‏“‏ لیکن یسوع نے کہا تھا کہ یہوواہ خدا ہمارے ”‏بہت بولنے“‏ یعنی لمبی لمبی دُعاؤں سے خوش نہیں ہوتا۔‏

۱۰ اِس کے بعد یسوع نے کہا:‏ ‏”‏اُن کی مانند نہ بنو کیونکہ تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تُم کن کن چیزوں کے محتاج ہو۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۸‏)‏ غیرقوموں کے لوگوں کی طرح یہودی مذہبی رہنما بھی لمبی لمبی دُعائیں کرتے تھے۔‏ لیکن ہمیں دل سے دُعا کرنی چاہئے کیونکہ یہ خدا کی عبادت کا اہم پہلو ہے۔‏ ایسی دُعاؤں میں ہم خدا کی ستائش کرتے ہیں،‏ اُس کا شکر ادا کرتے ہیں اور مِنت کرتے ہیں۔‏ (‏فل ۴:‏۶‏)‏ یاد رکھیں کہ دُعا کرتے وقت ہم اُس خدا سے مخاطب ہیں جو ’‏ہمارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہم کن کن چیزوں کے محتاج ہیں۔‏‘‏ لہٰذا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر ہم کسی چیز کے لئے باربار دُعا نہیں کریں گے تو خدا ہماری ضروریات کو نظرانداز کرے گا۔‏

۱۱.‏ جب ہمیں دوسروں کے سامنے دُعا کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے تو ہمیں کونسی باتیں یاد رکھنی چاہئیں؟‏

۱۱ دُعا کے بارے میں یسوع کی ہدایات سے ہم جان جاتے ہیں کہ خدا بڑے بڑے الفاظ اور لمبی لمبی دُعاؤں سے خوش نہیں ہوتا۔‏ دوسروں کے سامنے دُعا کرتے وقت ہمیں اُن کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اتنی لمبی دُعا کرنی چاہئے کہ لوگ سوچنے لگیں کہ یہ دُعا کب ختم ہوگی۔‏ دُعا کرنے کے دوران ہمیں نہ تو کوئی اعلان کرنا چاہئے اور نہ ہی حاضرین کی اصلاح کرنی چاہئے۔‏ یہ تمام باتیں پہاڑی وعظ میں پائے جانے والے اصولوں سے اتفاق نہیں رکھتیں۔‏

یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھایا

۱۲.‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏تیرا نام پاک مانا جائے“‏ تو ہم کس بات کی درخواست کرتے ہیں؟‏

۱۲ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو نہ صرف یہ بتایا کہ اُنہیں دُعا کے سلسلے میں کیا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اُس نے اُنہیں یہ بھی بتایا کہ اُنہیں کیسے دُعا کرنی چاہئے۔‏ (‏متی ۶:‏۹-‏۱۳ کو پڑھیں۔‏‏)‏ اُس نے اُن کو دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا۔‏ لیکن یسوع کے شاگردوں کو اِس دُعا کو زبانی یاد کر کے بار بار دہرانا نہیں تھا۔‏ یسوع نے اپنی دُعا کے آغاز میں ایسی باتوں کا ذکر کِیا جو خدا کے متعلق ہیں۔‏ اُس نے کہا:‏ ‏”‏اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۹‏)‏ ہم یہوواہ خدا کو اِس لئے ”‏اَے ہمارے باپ“‏ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کیونکہ وہی ہمارا خالق ہے۔‏ اُس کی سکونت‌گاہ ”‏آسمان پر ہے۔‏“‏ (‏است ۳۲:‏۶؛‏ ۲-‏توا ۶:‏۲۱؛‏ اعما ۱۷:‏۲۴،‏ ۲۸‏)‏ لفظ ”‏ہمارے“‏ کے استعمال سے ہمیں اِس بات کی یاد دلائی جاتی ہے کہ ہمارے مسیحی بہن‌بھائیوں کو بھی خدا کی قربت حاصل ہے۔‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏تیرا نام پاک مانا جائے“‏ تو ہم یہوواہ خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اُن سب الزامات کو جھوٹا ثابت کرے جو آدم اور حوا کے زمانے سے اُس کے نام پر لگائے جا رہے ہیں۔‏ اِس دُعا کے جواب میں یہوواہ خدا زمین پر سے تمام بُرائی کو مٹا کر اپنے نام کو پاک ٹھہرائے گا۔‏—‏حز ۳۶:‏۲۳‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ یہ درخواست کیسے پوری ہوگی کہ ”‏تیری بادشاہی آئے“‏؟‏ (‏ب)‏ خدا زمین پر اپنی مرضی کیسے پوری کرے گا؟‏

۱۳ ‏”‏تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۱۰‏)‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِس ”‏بادشاہی“‏ سے مُراد وہ حکمرانی ہے جو یسوع مسیح کو سونپی گئی ہے۔‏ یسوع کے ساتھ وہ ”‏مُقدس لوگ“‏ بھی حکمرانی کرتے ہیں جو آسمان پر زندہ کئے گئے ہیں۔‏ (‏دان ۷:‏۱۳،‏ ۱۴،‏ ۱۸؛‏ یسع ۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏تیری بادشاہی آئے“‏ تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت اُن تمام لوگوں کو ختم کر دے جو خدا کی حکمرانی کی مخالفت کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا بہت جلد ایسا کرنے والا ہے۔‏ اِس کے نتیجے میں زمین پر صداقت،‏ سلامتی اور خوشحالی کا دَور شروع ہو جائے گا۔‏ (‏زبور ۷۲:‏۱-‏۱۵؛‏ دان ۲:‏۴۴؛‏ ۲-‏پطر ۳:‏۱۳‏)‏ یہوواہ کی مرضی آسمان پر پوری ہو رہی ہے۔‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا کی مرضی زمین پر بھی پوری ہو تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ خدا زمین کے لئے اپنے مقصد کو پورا کرے۔‏ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ خدا اپنے دُشمنوں کو تباہ کر دے جیسا کہ اُس نے ماضی میں بھی کِیا تھا۔‏‏—‏زبور ۸۳:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۳-‏۱۸ کو پڑھیں۔‏

۱۴.‏ ”‏روز کی روٹی“‏ کے لئے دُعا کرنا کیوں مناسب ہے؟‏

۱۴ ‏”‏ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۱۱؛‏ لو ۱۱:‏۳‏)‏ اِس درخواست سے ہم خدا سے ایک دن کے لئے روٹی مانگتے ہیں۔‏ یوں ہم اِس بات پر بھروسہ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا ہر دن ہماری ضروریات کو پورا کرے گا۔‏ لیکن ہم خدا سے ضروریاتِ‌زندگی سے بڑھ کر نہیں مانگتے۔‏ یاد رکھیں کہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو من کے سلسلے میں حکم دیا کہ وہ ”‏فقط ایک ایک دن کا حصہ ہر روز بٹور لیا کریں۔‏“‏—‏خر ۱۶:‏۴‏۔‏

۱۵.‏ یہوواہ خدا ہمیں کس صورت میں معاف کرے گا؟‏

۱۵ یسوع نے آگے کہا:‏ ‏”‏جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کِیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۱۲‏)‏ لوقا کی انجیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”‏قرض“‏ سے مُراد ہمارے گُناہ ہیں۔‏ (‏لو ۱۱:‏۴‏)‏ یہوواہ خدا ہمیں صرف اُس صورت میں معاف کرے گا اگر ہم نے دوسروں کو ”‏معاف کِیا ہے۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۴،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏‏)‏ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے قصور معاف کریں۔‏—‏افس ۴:‏۳۲؛‏ کل ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۶.‏متی ۶:‏۱۳ میں پائی جانے والی درخواستوں کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۶ ‏”‏ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا۔‏“‏ ‏(‏متی ۶:‏۱۳‏)‏ اِن دو درخواستوں کا کیا مطلب ہے؟‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہمیں نہیں آزماتا۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏‏)‏ دراصل آزمائشیں شیطان کی طرف سے آتی ہیں کیونکہ وہی ہمارا ’‏آزمانے والا‘‏ ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۳‏)‏ بائبل میں اکثر کہا جاتا ہے کہ خدا نے ایک کام کِیا جبکہ اُس نے وہ کام محض ہونے دیا۔‏ (‏روت ۱:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ واعظ ۱۱:‏۵‏)‏ لہٰذا جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏ہمیں آزمایش میں نہ لا“‏ تو ہم خدا سے مدد کی درخواست کرتے ہیں تا کہ ہم آزمائش کا سامنا کرتے وقت بھی اُس کے فرمانبردار رہیں۔‏ اور جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ’‏ہمیں بُرائی سے بچا‘‏ تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ شیطان ہمیں آزمانے میں کامیاب نہ ہو۔‏ ہم اِس بات پر پورا یقین کر سکتے ہیں کہ خدا ’‏ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا۔‏‘‏‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏

‏’‏مانگتے،‏ ڈھونڈتے اور کھٹکھٹاتے رہو‘‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ جب یسوع نے کہا کہ ’‏مانگتے،‏ ڈھونڈتے اور کھٹکھٹاتے رہو‘‏ تو وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟‏

۱۷ پولس رسول نے تاکید کی کہ ”‏دُعا کرنے میں مشغول رہو۔‏“‏ (‏روم ۱۲:‏۱۲‏)‏ اسی طرح یسوع مسیح نے بھی کہا:‏ ‏”‏مانگو تو تُم کو دیا جائے گا۔‏ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔‏ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔‏ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔‏“‏ ‏(‏متی ۷:‏۷،‏ ۸‏)‏ یہ مناسب ہے کہ مسیحی ایسی باتوں کے لئے دُعا’‏مانگتے رہیں‘‏ جو خدا کی مرضی کے مطابق ہیں۔‏ یوحنا رسول نے اِس سلسلے میں لکھا:‏ ”‏ہمیں جو [‏خدا]‏ کے سامنے دلیری ہے اُس کا سبب یہ ہے کہ اگر اُس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوح ۵:‏۱۴‏۔‏

۱۸ جب یسوع نے کہا کہ مسیحیوں کو ’‏مانگتے اور ڈھونڈتے‘‏ رہنا چاہئے تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہمیں اُس صورت میں بھی دُعا کرتے رہنا چاہئے جب ہمیں دُعا کا فوراً جواب نہیں ملتا۔‏ اور ہمیں اِس وجہ سے ’‏کھٹکھٹاتے رہنا‘‏ چاہئے تاکہ ہم خدا کی بادشاہت کی برکات حاصل کر سکیں۔‏ کیا خدا ہماری دُعائیں سنتا ہے؟‏ جی ہاں،‏ اگر ہم اُس کے وفادار رہیں گے تو وہ ہماری دُعائیں ضرور سنے گا۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔‏“‏ اور واقعی خدا کے بہت سے خادموں نے خود بھی اِس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ یہوواہ خدا ’‏دُعا کا سننے والا ہے۔‏‘‏—‏زبور ۶۵:‏۲‏۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ متی ۷:‏۹-‏۱۱ میں یسوع نے یہوواہ خدا کو ایک شفیق باپ سے تشبیہ کیوں دی؟‏

۱۹ یسوع نے خدا کو ایک شفیق باپ سے تشبیہ دی جو اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دیتا ہے۔‏ پہاڑی وعظ میں یسوع نے آگے کہا:‏ ‏”‏تُم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگر اُس کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھر دے؟‏ یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے؟‏ پس جبکہ تُم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟‏“‏‏—‏متی ۷:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۲۰ انسان اِس لحاظ سے ”‏بُرے“‏ ہیں کہ وہ گُناہ کی طرف مائل ہیں۔‏ اس کے باوجود ایک باپ اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے۔‏ وہ اپنے بچوں کو دھوکا نہیں دیتا بلکہ اُنہیں ”‏اچھی چیزیں“‏ ہی دیتا ہے۔‏ یہوواہ خدا بھی ایک باپ کی طرح ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمیں ”‏اچھی چیزیں“‏ فراہم کرتا ہے۔‏ وہ ”‏ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام“‏ کا دینے والا ہے۔‏ (‏یعقو ۱:‏۱۷‏)‏ مثال کے طور پر وہ ہمیں اپنی روحُ‌القدس بخشتا ہے۔‏ (‏لو ۱۱:‏۱۳‏)‏ اِس پاک روح کے ذریعے ہمیں خدا کی خدمت کرنے کی طاقت ملتی ہے۔‏

پہاڑی وعظ سے فائدہ حاصل کریں

۲۱،‏ ۲۲.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح کا پہاڑی وعظ تاریخ کا سب سے اعلیٰ وعظ کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ اِس پہاڑی وعظ کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

۲۱ یسوع مسیح کا پہاڑی وعظ تاریخ کا سب سے اعلیٰ وعظ ہے۔‏ اِس میں یسوع نے بڑے سادہ الفاظ میں خدا کے بارے میں بہت سی اہم سچائیاں پیش کیں۔‏ جس طرح ہم نے اِن تین مضامین میں دیکھا ہے پہاڑی وعظ میں پائی جانے والی ہدایات ہمارے لئے بہت فائدہ‌مند ہیں۔‏ اگر ہم اِن پر عمل کریں گے تو ہماری زندگی خوشگوار ہو جائے گی اور ہمارا مستقبل روشن ہوگا۔‏

۲۲ اِن مضامین میں ہم نے صرف چند ہی ہدایات پر غور کِیا ہے جو یسوع نے پہاڑی وعظ میں دیں۔‏ اِن پر غور کرنے سے ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ”‏بِھیڑ [‏یسوع]‏ کی تعلیم سے حیران“‏ کیوں ہوئی۔‏ (‏متی ۷:‏۲۸‏)‏ جب ہم یسوع کی تمام تعلیمات کو اپنے دل میں نقش کریں گے تو ہم بھی اُس بِھیڑ کی طرح محسوس کریں گے۔‏

آپ کیا جواب دیں گے؟‏

‏• یسوع نے ریاکاروں کی دُعاؤں کے بارے میں کیا کہا؟‏

‏• ہمیں دُعا کرتے وقت بِلاسوچےسمجھے ایک ہی بات کیوں نہیں دہرانی چاہئے؟‏

‏• یسوع نے دُعا کرنے کا جو نمونہ دِیا اِس میں کونسی درخواستیں شامل ہیں؟‏

‏• ہم اِس ہدایت پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں کہ ’‏مانگتے،‏ ڈھونڈتے اور کھٹکھٹاتے رہو‘‏؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

یسوع نے اُن ریاکاروں کی ملامت کی جو محض دکھاوے کے لئے دُعا کرتے تھے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ ”‏روز کی روٹی“‏ کے لئے دُعا کرنا کیوں مناسب ہے؟‏