مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے پڑوسی سے سچ بولیں

اپنے پڑوسی سے سچ بولیں

اپنے پڑوسی سے سچ بولیں

‏”‏پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے۔‏“‏—‏افس ۴:‏۲۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ بہت سے لوگ سچائی کے بارے میں کیسا نظریہ رکھتے ہیں؟‏

کئی سال سے انسان یہ بحث کرتے آئے ہیں کہ آیا سچائی جاننا یا سچ بولنا ممکن ہے۔‏ چھٹی صدی قبل‌ازمسیح میں یونانی شاعر ایلسی‌اس نے کہا:‏ ”‏مے پی کر کسی شخص کے مُنہ سے سچائی نکلتی ہے۔‏“‏ اُس کا مطلب یہ تھا کہ ایک شخص صرف اُسی وقت سچ بولتا ہے جب وہ بہت زیادہ شراب پی لیتا ہے۔‏ پہلی صدی میں رومی گورنر پنطس پیلاطُس بھی سچائی کے بارے میں غلط نظریہ رکھتا تھا۔‏ اُس نے یسوع مسیح سے پوچھا:‏ ”‏حق [‏سچائی]‏ کیا ہے؟‏“‏ یو ں اُس نے یہ ظاہر کِیا کہ اُس کی نظر میں سچائی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‏—‏یوح ۱۸:‏۳۸‏۔‏

۲ آجکل سچائی کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔‏ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولنا ممکن نہیں ہوتا۔‏ دیگر صرف اُس وقت سچ بولتے ہیں جب اُن کا اپنا فائدہ ہو۔‏ جھوٹ بولنے کے متعلق ایک کتاب ‏(‏دی امپورٹنس آف لائنگ)‏ بیان کرتی ہے:‏ ”‏دیانتدار ہونا اچھی بات ہے لیکن روزمرّہ زندگی میں اِس کا کم ہی فائدہ ہوتا ہے۔‏ کامیاب زندگی گزارنے کے لئے کسی شخص کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔‏“‏

۳.‏ یسوع مسیح نے سچ بولنے کے سلسلے میں ایک عمدہ مثال کیسے قائم کی؟‏

۳ تاہم،‏ یسوع کے شاگرد سچائی کے بارے میں ایسے نظریات نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ یسوع مسیح جیسا نظریہ رکھتے تھے جو ہمیشہ سچ بولتا تھا۔‏ یہاں تک کہ اُس کے دشمنوں نے بھی یہ کہا:‏ ”‏اَے اُستاد ہم جانتے ہیں کہ تُو سچا ہے اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۱۶‏)‏ آجکل بھی سچے مسیحی یسوع مسیح کی مثال کی نقل کرتے ہیں۔‏ وہ سچ بولنے سے نہیں ہچکچاتے۔‏ وہ پولس رسول کے اِن الفاظ سے متفق ہیں جو اُس نے ساتھی مسیحیوں سے کہے تھے:‏ ”‏پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۲۵‏)‏ آئیں پولس رسول کے اِس بیان کے بارے میں تین سوالات پر غور کریں۔‏ پہلا،‏ ہمارا پڑوسی کون ہے؟‏ دوسرا،‏ سچ بولنے کا کیا مطلب ہے؟‏ اور تیسرا،‏ ہم اپنی روزمرّہ زندگی میں اِس مشورت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

ہمارا پڑوسی کون ہے؟‏

۴.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی کے یہودی پیشوا کس شخص کو اپنا پڑوسی خیال کرنے کی تعلیم دیتے تھے؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے اِس سلسلے میں یہوواہ خدا کے نظریے کو کیسے واضح کِیا؟‏

۴ پہلی صدی عیسوی میں بعض یہودی پیشوا لوگوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ صرف یہودی اور اُن کے قریبی دوست ہی اُن کے ”‏پڑوسی“‏ ہیں۔‏ تاہم،‏ یسوع مسیح نے اپنے باپ کی سوچ اور خوبیوں کی بڑی عمدگی سے عکاسی کی۔‏ (‏یوح ۱۴:‏۹‏)‏ اُس نے اپنے شاگردوں پر واضح کِیا کہ خدا کسی ایک قوم یا نسل کا طرفدار نہیں ہے۔‏ (‏یوح ۴:‏۵-‏۲۶‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ خدا نے اپنی پاک رُوح کے ذریعے پطرس رسول پر آشکارا کِیا کہ وہ ”‏کسی کا طرفدار نہیں۔‏ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔‏“‏ (‏اعما ۱۰:‏۲۸،‏ ۳۴،‏ ۳۵‏)‏ لہٰذا،‏ ہمیں سب لوگوں کو اپنا پڑوسی خیال کرنا چاہئے اور اُن لوگوں سے بھی محبت رکھنی چاہئے جو ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔‏—‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۵‏۔‏

۵.‏ اپنے پڑوسی سے سچ بولنے کا کیا مطلب ہے؟‏

۵ تاہم،‏ جب پولس رسول نے کہا کہ ہمیں اپنے پڑوسی سے سچ بولنا چاہئے تو اُس کا کیا مطلب تھا؟‏ سچ بولنے میں دوسروں کو صحیح معلومات دینا شامل ہے۔‏ سچے مسیحی حقائق کو توڑمروڑ کر پیش نہیں کرتے جس سے لوگوں کو غلط تاثر ملے۔‏ وہ ”‏بدی سے نفرت“‏ رکھتے اور ”‏نیکی سے لپٹے“‏ رہتے ہیں۔‏ (‏روم ۱۲:‏۹‏)‏ ہمیں ”‏سچائی کے خدا“‏ کی نقل کرتے ہوئے تمام معاملات میں دیانتداری ظاہر کرنی چاہئے۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲؛‏ ۳۱:‏۵‏)‏ اگر ہم سوچ‌سمجھ کر بولتے ہیں تو ہمیں مشکل صورتحال میں بھی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‏‏—‏کلسیوں ۳:‏۹،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ کیا سچ بولنے کا یہ مطلب ہے کہ جب کوئی ہم سے کچھ پوچھتا ہے تو ہم اُسے ہر ایک بات بتا دیں؟‏ وضاحت کریں۔‏ (‏ب)‏ ہم کن لوگوں پر بھروسا کر سکتے اور اُنہیں پوری بات بتا سکتے ہیں؟‏

۶ کیا دوسروں سے سچ بولنے کا یہ مطلب ہے کہ جب کوئی ہم سے سوال پوچھتا ہے تو ہم ہر ایک بات اُسے بتا دیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس نے ظاہر کِیا کہ ہر شخص ہر بات جاننے کا حق نہیں رکھتا۔‏ جب ریاکار مذہبی پیشواؤں نے یسوع سے پوچھا کہ وہ تمام کام اور معجزات کس اختیار سے کرتا ہے تو اُس نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں تُم سے ایک بات پوچھتا ہوں تُم جواب دو تو مَیں تُم کو بتاؤں گا کہ اِن کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہوں۔‏“‏ جب اُنہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا تو یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مَیں بھی تُم کو نہیں بتاتا کہ اِن کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہوں۔‏“‏ (‏مر ۱۱:‏۲۷-‏۳۳‏)‏ اُس نے اُن کی ریاکاری اور اُن کے غلط کاموں کی وجہ سے اُن کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔‏ (‏متی ۱۲:‏۱۰-‏۱۳؛‏ ۲۳:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ آجکل بھی یہوواہ کے لوگوں کو برگشتہ اور دیگر شریر لوگوں سے خبردار رہنا چاہئے جو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مکاری سے ہم سے سوال پوچھتے ہیں۔‏—‏متی ۱۰:‏۱۶؛‏ افس ۴:‏۱۴‏۔‏

۷ پولس رسول نے بھی اِسی بات کو واضح کِیا کہ بعض لوگوں کو اُن کے سوال کے جواب میں ہر بات بتانا ضروری نہیں ہوتا۔‏ اُس نے بیان کِیا کہ ”‏بک‌بک“‏ کرنے اور ”‏اَوروں کے کام میں دخل“‏ دینے والے ”‏ناشایستہ باتیں“‏ کہتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ لوگ ایسے اشخاص کو اپنی ذاتی باتیں نہیں بتاتے جو اُن کے معاملات میں دخل‌اندازی کرتے یا اُن کے راز فاش کرتے ہیں۔‏ پس،‏ پولس رسول کی اِس مشورت پر عمل کرنا کتنا اچھا ہو گا کہ ”‏ہر ایک شخص چپ‌چاپ اپنے کام میں لگا رہے۔‏“‏ (‏۱-‏تھس ۴:‏۱۱‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات اپنی ذمہ‌داری کو پورا کرنے کے لئے کلیسیا کے بزرگ ہم سے ذاتی نوعیت کے کچھ سوال پوچھ سکتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں اُن کے ساتھ تعاون کرنے اور سچ بولنے سے ہم اُن کی مدد کر رہے ہوں گے۔‏—‏۱-‏پطر ۵:‏۲‏۔‏

خاندانی معاملات میں سچ بولیں

۸.‏ سچ بولنا خاندان میں رشتوں کو کیسے مضبوط بناتا ہے؟‏

۸ عام طور پر،‏ ہمارا سب سے قریبی رشتہ خاندان کے افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔‏ اِس بندھن کو اَور زیادہ مضبوط بنانے کے لئے ہمیں ہمیشہ ایک‌دوسرے سے سچ بولنا چاہئے۔‏ اگر ہم مہربانہ طریقے سے کھل کر ایک‌دوسرے سے بات‌چیت کرتے ہیں تو بہت سے مسائل اور غلط‌فہمیوں کو دُور کِیا جا سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو کیا ہم اپنے ساتھی،‏ اپنے بچوں یا خاندان کے دوسرے افراد کے سامنے اِسے تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں؟‏ پس،‏ معافی مانگنے سے خاندان میں امن‌واتحاد کو فروغ ملتا ہے۔‏‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۸-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏

۹.‏ سچ بولتے وقت ہمیں کیوں تلخی سے بات نہیں کرنی چاہئے؟‏

۹ سچ بولنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم تلخی سے بات کریں اور دوسروں کے احساسات کا خیال نہ کریں۔‏ کیونکہ تلخی سے بات کرنے والا شخص خواہ سچ ہی کیوں نہ بول رہا ہو لوگ اُس کی بات پر توجہ نہیں دیتے۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏ہر طرح کی تلخ‌مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔‏ اور ایک‌دوسرے پر مہربان اور نرم‌دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تُم بھی ایک‌دوسرے کے قصور معاف کرو۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ جب ہم مہربانی اور نرمی سے دوسروں کے ساتھ بات کرتے ہیں تو ہم اُن کے لئے عزت ظاہر کرتے ہیں۔‏ اِس کے نتیجے میں وہ ہماری بات کو توجہ سے سننے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏—‏متی ۲۳:‏۱۲‏۔‏

کلیسیائی معاملات میں سچ بولیں

۱۰.‏ یسوع مسیح جس طرح اپنے شاگردوں کے ساتھ پیش آیا اُس سے مسیحی بزرگ کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ یسوع مسیح نے ہمیشہ پُرمحبت طریقے سے اپنے شاگردوں کو نصیحت دی۔‏ لیکن اُس نے اُن کی ضروری اصلاح کرنے سے کبھی گریز نہیں کِیا۔‏ (‏یوح ۱۵:‏۹-‏۱۲‏)‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع کے شاگرد اکثر اِس بات پر بحث کرتے تھے کہ اُن میں بڑا کون ہے۔‏ تاہم،‏ یسوع مسیح نے اُنہیں بڑے تحمل سے مگر واضح طور پر یہ بتایا کہ اُنہیں فروتن بننے کی ضرورت ہے۔‏ (‏مر ۹:‏۳۳-‏۳۷؛‏ لو ۹:‏۴۶-‏۴۸؛‏ ۲۲:‏۲۴-‏۲۷؛‏ یوح ۱۳:‏۱۴‏)‏ آجکل بھی کلیسیا میں بزرگ خدا کے اصولوں کے مطابق چلنے میں بہن‌بھائیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن وہ اُن پر اختیار نہیں جتاتے۔‏ (‏مر ۱۰:‏۴۲-‏۴۴‏)‏ یسوع مسیح کی نقل کرتے ہوئے وہ دوسروں کے ساتھ ’‏مہربانی اور نرم‌دلی‘‏ سے پیش آتے ہیں۔‏

۱۱.‏ اگر ہم اپنے بہن‌بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اپنی زبان کو کیسے استعمال کریں گے؟‏

۱۱ اگر ہم اپنے بہن‌بھائیوں سے کھل کر بات کرتے ہیں تو ہم اُنہیں اپنے دل کی بات بتا سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ایسا کرتے وقت ہمیں اُن کے احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔‏ بِلاشُبہ،‏ ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ ہماری زبان ”‏تیز اُسترے کی مانند“‏ ہو یعنی ہماری بات‌چیت سے ہمارے بہن‌بھائیوں کو دُکھ پہنچے۔‏ (‏زبور ۵۲:‏۲؛‏ امثا ۱۲:‏۱۸‏)‏ بہن‌بھائیوں کے لئے محبت ہمیں ”‏اپنی زبان کو بدی سے .‏ .‏ .‏ اور اپنے ہونٹوں کو دغا کی بات سے“‏ باز رکھنے میں مدد دے گی۔‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۳‏)‏ ایسا کرنے سے ہم نہ صرف یہوواہ خدا کو جلال دیں گے بلکہ کلیسیا میں اتحاد کو بھی فروغ ملے گا۔‏

۱۲.‏ جھوٹ کے سلسلے میں بزرگوں کو عدالتی کمیٹی کب قائم کرنی چاہئے؟‏ وضاحت کریں۔‏

۱۲ بزرگ کلیسیا کو ایسے اشخاص سے محفوظ رکھنے کے لئے سخت کوشش کرتے ہیں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔‏ ‏(‏یعقوب ۳:‏۱۴-‏۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس میں چھوٹی‌چھوٹی باتوں کو بڑھاچڑھا کر بیان کرنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔‏ اگرچہ جھوٹ بولنا غلط ہے توبھی یہ ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں بزرگ عدالتی کمیٹی قائم کریں۔‏ تاہم،‏ جب کوئی بہن یا بھائی غلط‌بیانی کرتا ہے تو بزرگوں کو سمجھداری سے اِس بات کا تعیّن کرنا چاہئے کہ کیا وہ کسی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے جھوٹ بولنے کی عادت میں پڑ گیا ہے۔‏ اگر ایسا ہے تو اُنہیں عدالتی کمیٹی قائم کرنی چاہئے۔‏ بصورتِ‌دیگر اُسے صحائف میں سے پُرمحبت مشورت دی جانی چاہئے۔‏

کاروباری معاملات میں سچ بولیں

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ بعض لوگ اپنے آجر کے ساتھ دیانتدار رہنے میں ناکام کیسے رہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ دیانتداری اور ذمہ‌داری سے کام کرنے کے کون سے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں؟‏

۱۳ آجکل دُنیا میں بددیانتی بہت عام ہو چکی ہے۔‏ اِس لئے اپنے آجر کے ساتھ دیانتدار رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ بہت سے لوگ جب کسی ملازمت کے لئے درخواست دیتے ہیں تو وہ اپنے بارے میں غلط معلومات دیتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ وہ اچھی ملازمت حاصل کرنے کے لئے اپنی تعلیم اور تجربے کے بارے میں غلط‌بیانی کرتے ہیں۔‏ دیگر لوگ ملازمت کے اوقات میں اپنے ذاتی کام کرتے ہیں۔‏ شاید وہ ذاتی فون کرتے ہیں،‏ دوسروں کو پیغامات بھیجتے ہیں،‏ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یاپھر ایسی کتابیں اور رسالے پڑھتے ہیں جن کا اُن کے کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‏

۱۴ سچے مسیحی دیانتدار رہنے اور سچ بولنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔‏ ‏(‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹ کو پڑھیں۔‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم ہر بات میں نیکی [‏”‏دیانتداری،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبر ۱۳:‏۱۸‏)‏ لہٰذا،‏ سچے مسیحی ملازمت کے اوقات میں اپنے آجر کے لئے محنت سے کام کرتے ہیں۔‏ (‏افس ۶:‏۵-‏۸‏)‏ ایسا کرنے سے وہ اپنے آسمانی باپ کو جلال دیتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطر ۲:‏۱۲‏)‏ مثال کے طور پر،‏ سپین میں روبرٹو کے آجر نے دیانتداری اور ذمہ‌داری سے کام کرنے کی وجہ سے اُس کی تعریف کی۔‏ اُس کے اچھے چال‌چلن کے نتیجے میں اُس کمپنی نے اَور گواہوں کو بھی ملازمت پر رکھا۔‏ اِن گواہوں نے بھی بہت محنت سے کام کِیا۔‏ اب تک روبرٹو ۲۳ بپتسمہ‌یافتہ بہن‌بھائیوں اور ۸ بائبل سیکھنے والے لوگوں کو اپنی کمپنی میں ملازمت دلوا چکا ہے۔‏

۱۵.‏ اپنا کاروبار کرنے والے مسیحی کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دیانتدار ہیں؟‏

۱۵ اگر ہم اپنا کاروبار کرتے ہیں تو کیا اُس وقت بھی ہم لین‌دین کے معاملے میں اپنے پڑوسی سے سچ بولتے اور دیانتداری سے کام لیتے ہیں؟‏ اپنا کاروبار کرنے والے مسیحیوں کو اپنی چیزیں بیچتے وقت جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔‏ اُنہیں نہ تو رشوت لینی اور نہ ہی دینی چاہئے۔‏ ہمیں لوگوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہئے جیسا ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ کریں۔‏—‏امثا ۱۱:‏۱؛‏ لو ۶:‏۳۱‏۔‏

حکومت والوں کے ساتھ سچ بولیں

۱۶.‏ (‏ا)‏ مسیحی حکومتوں کی تابعداری کیسے کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مسیحی یہوواہ خدا کی تابعداری کیسے کرتے ہیں؟‏

۱۶ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۲۱‏)‏ ہم قیصر یعنی حکومت کو کیا ادا کرتے ہیں؟‏ جب یسوع مسیح نے یہ الفاظ کہے تو وہ ٹیکسوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔‏ لہٰذا،‏ خدا اور انسان کے حضور صاف ضمیر رکھنے کے لئے مسیحی ٹیکس ادا کرتے اور مُلک کے دیگر قوانین کو مانتے ہیں۔‏ (‏روم ۱۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا تمام کائنات کا خالق‌ومالک اور واحد سچا خدا ہے جس سے ہم اپنے پورے دل،‏ جان،‏ عقل اور طاقت سے محبت کرتے ہیں۔‏ (‏مر ۱۲:‏۳۰؛‏ مکا ۴:‏۱۱‏)‏ اِسی لئے جب حکومت کے قوانین یہوواہ کے اصولوں سے ٹکراتے ہیں تو ہم یہوواہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔‏‏—‏زبور ۸۶:‏۱۱،‏ ۱۲ کو پڑھیں۔‏

۱۷.‏ حکومت کی طرف سے مالی مدد کے سلسلے میں یہوواہ کے لوگوں کو کن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟‏

۱۷ بہتیرے ممالک میں ضرورت‌مند لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کچھ بندوبست کئے جاتے ہیں۔‏ وہ مسیحی جو واقعی مستحق ہیں اِس مدد کو قبول کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اپنے پڑوسی سے سچ بولنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم ایسی امداد حاصل کرنے کے لئے حکومتی عہدےداروں سے جھوٹ نہ بولیں اور اُنہیں غلط معلومات فراہم نہ کریں۔‏

سچ بولنے سے حاصل ہونے والی برکات

۱۸-‏۲۰.‏ اپنے پڑوسی سے سچ بولنے سے ہمیں کون سی برکات حاصل ہوتی ہیں؟‏

۱۸ سچ بولنے سے بہت سی برکات حاصل ہوتی ہیں۔‏ ہمیں ایک صاف ضمیر حاصل ہوتا ہے جس سے ہمیں دلی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔‏ (‏امثا ۱۴:‏۳۰؛‏ فل ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ خدا کی نظر میں صاف ضمیر رکھنا بیش‌قیمت ہے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ جب ہم ہمیشہ سچ بولتے ہیں تو ہم اِس بات سے پریشان نہیں ہوتے کہ دوسروں کو ہماری غلطیوں کا پتہ چل جائے گا۔‏—‏۱-‏تیم ۵:‏۲۴‏۔‏

۱۹ ایک اَور برکت پر غور کریں۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ’‏خدا کے خادموں کی طرح ہم کلامِ‌حق سے اپنی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏۲-‏کر ۶:‏۴،‏ ۷‏)‏ اِس سلسلے میں برطانیہ میں رہنے والے ایک گواہ کی مثال پر غور کریں۔‏ اُس نے ایک شخص کو کار فروخت کرتے ہوئے نہ صرف اُسے اِس کی خصوصیات کے بارے میں بتایا بلکہ اِس کے اُن نقائص سے بھی آگاہ کِیا جو بظاہر نظر نہیں آتے تھے۔‏ جب اُس شخص نے اِسے چلا کر دیکھا تو اُس نے بھائی سے پوچھا کہ کیا آپ یہوواہ کے گواہ ہیں؟‏ اُس نے یہ سوال کیوں پوچھا؟‏ دراصل وہ اُس بھائی کی وضع قطع اور اُس کی دیانتداری سے متاثر ہوا تھا۔‏ اِس بات‌چیت کی وجہ سے بھائی کو اُس شخص کو گواہی دینے کا موقع ملا۔‏

۲۰ کیا ہم بھی ہمیشہ سچ بولنے اور دیانتدار رہنے سے اپنے خالق کی بڑائی کرتے ہیں؟‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏ہم نے شرم کی پوشیدہ باتوں کو ترک کر دیا اور مکاری کی چال نہیں چلتے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۲‏)‏ پس آئیں ہم سب اپنے پڑوسی سے سچ بولنے کی بھرپور کوشش کریں۔‏ ایسا کرنے سے ہم اپنے آسمانی باپ اور اُس کے لوگوں کے لئے جلال کا باعث بنیں گے۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہمارا پڑوسی کون ہے؟‏

‏• اپنے پڑوسی سے سچ بولنے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• سچ بولنے سے ہم اپنے خالق کو جلال کیسے دیتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

کیا آپ اپنی چھوٹی‌چھوٹی غلطیوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

جب آپ کسی ملازمت کے لئے درخواست دیتے ہیں تو کیا آپ سچ بولتے ہیں؟‏