مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر دوبارہ روشنی

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر دوبارہ روشنی

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر دوبارہ روشنی

‏’‏تُو اَے دانیؔ‌ایل اِن باتوں کو آخری زمانہ تک بند کر رکھ۔‏ بہتیرے اِس کی تفتیش‌وتحقیق کریں گے اور دانش افزون ہوگی۔‏‘‏—‏دان ۱۲:‏۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟‏

آجکل لاکھوں لوگ واضح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پاک صحائف زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر روشنی ڈالتے ہیں۔‏ (‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۷‏)‏ انسانی تاریخ کے آغاز میں خدا نے یہ آشکارا کِیا کہ انسانوں کو چند سال زندہ رہنے اور پھر مر جانے کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لئے بنایا گیا ہے۔‏—‏پید ۱:‏۲۶-‏۲۸‏۔‏

۲ اسرائیلی بھی یہ اُمید رکھتے تھے کہ وقت آنے پر تمام انسان آدم سے ورثے میں ملنے والے گُناہ سے پاک ہو جائیں گے۔‏ یونانی صحائف بیان کرتے ہیں کہ خدا انسانوں کے لئے زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا کیسے ممکن بنائے گا۔‏ مگر اِس اُمید کو پوشیدہ کیوں رکھا گیا؟‏ اِس اُمید پر دوبارہ روشنی کیسے ڈالی گئی تاکہ لاکھوں لوگ اِس سے واقف ہو سکیں؟‏

اُمید جو پوشیدہ رکھی گئی

۳.‏ یہ کیوں حیرانی کی بات نہیں کہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید انسانوں سے پوشیدہ رکھی گئی؟‏

۳ یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی تھی کہ جھوٹے نبی اُس کی تعلیمات کو بگاڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۱‏)‏ پطرس رسول نے مسیحیوں کو آگاہ کِیا:‏ ”‏تُم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے۔‏“‏ (‏۲-‏پطر ۲:‏۱‏)‏ پولس رسول نے بھی بیان کِیا کہ ”‏ایسا وقت آئے گا کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی‌اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لیں گے۔‏“‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ دراصل شیطان لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔‏ وہ انسان اور زمین کے بارے میں خدا کے مقصد کو اُن سے پوشیدہ رکھنے کے لئے جھوٹے مسیحیوں کو استعمال کرتا ہے۔‏‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۳،‏ ۴ کو پڑھیں۔‏

۴.‏ جھوٹے مذہبی پیشواؤں نے انسانوں کی کس اُمید کو رد کر دیا؟‏

۴ خدا کا کلام واضح کرتا ہے کہ خدا کی بادشاہت ایک آسمانی حکومت ہے جو تمام انسانی حکومتوں کو نیست‌ونابود کر دے گی۔‏ (‏دان ۲:‏۴۴‏)‏ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران شیطان کو اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا جائے گا اور مُردوں کو دوبارہ زندہ کِیا جائے گا۔‏ نیز،‏ تمام انسان گُناہ سے پاک اور بےعیب ہو جائیں گے۔‏ (‏مکا ۲۰:‏۱-‏۳،‏ ۶،‏ ۱۲؛‏ ۲۱:‏۱-‏۴‏)‏ تاہم،‏ جھوٹے مذہبی پیشواؤں نے اِس تعلیم کی بجائے دیگر نظریات کو اپنا لیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کے چرچ فادر آریگن نے اُن لوگوں کی مذمت کی جو یہ ایمان رکھتے تھے کہ ہزار سالہ بادشاہت زمین پر برکات لائے گی۔‏ دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے کہ کیتھولک عالم آگسٹین (‏۳۵۴-‏۴۳۰ عیسوی)‏ نے اِس نظریے کی حمایت کی کہ ہزار سالہ بادشاہت کبھی نہیں آئے گی۔‏ *

۵،‏ ۶.‏ آریگن اور آگسٹین نے ہزار سالہ حکمرانی کی تعلیم کو کیوں رد کر دیا؟‏

۵ آریگن اور آگسٹین نے ہزار سالہ حکمرانی کی تعلیم کو کیوں رد کر دیا؟‏ آریگن سکندریہ کے کلیمنٹ کا شاگرد تھا جس نے یونانی روایت سے جان کے غیر فانی ہونے کے عقیدے کو اپنا لیا تھا۔‏ مذہبی عالم ورنر جاگر نے بیان کِیا کہ جان کے بارے میں افلاطون کے نظریے نے آریگن کو اِتنا متاثر کِیا کہ ”‏اُس نے غیرفانی جان کی تعلیم کو مسیحی عقائد میں شامل کر دیا۔‏“‏ لہٰذا،‏ آریگن نے یہ تعلیم دی کہ ہزار سالہ بادشاہت کے تحت حاصل ہونے والی برکات زمین پر نہیں بلکہ روحانی عالم میں ملیں گی۔‏

۶ ‏”‏مسیحیت“‏ کو قبول کرنے سے پہلے،‏ آگسٹین ۳۳ برس کی عمر میں نوافلاطونیت کا پیرو بن گیا تھا۔‏ نوافلاطونیت دراصل افلاطون کے فلسفے پر مبنی ایک مذہبی نظام تھا جسے تیسری صدی عیسوی میں پلوٹینس نے ترتیب دیا تھا۔‏ مسیحی بن جانے کے بعد بھی آگسٹین کی سوچ نوافلاطونیت کی طرف مائل رہی۔‏ نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا بیان کرتا ہے کہ ”‏اُس کے ذہن .‏ .‏ .‏ میں نئے عہدنامے کا مذہب مکمل طور پر یونانی فلسفے کی افلاطونی روایت سے ملا ہوا تھا۔‏“‏ دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے کہ آگسٹین کا کہنا تھا کہ مکاشفہ ۲۰ باب میں جس ہزار سالہ حکمرانی کا ذکر کِیا گیا ہے وہ محض ”‏علامتی“‏ ہے اور اِس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‏ اِس انسائیکلوپیڈیا نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏اُس کی اِس وضاحت کو .‏ .‏ .‏ بعد میں بیشتر مغربی مذہبی عالموں نے اپنا لیا۔‏ اِسی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ زمین پر ہزار سالہ دَور کے متعلق اصل ایمان کو پسِ‌پشت ڈال دیا گیا۔‏“‏

۷.‏ کس جھوٹے عقیدے کی وجہ سے انسان کی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پوشیدہ ہوگئی،‏ اور کیسے؟‏

۷ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں انسانوں کی اُمید اِس نظریے کی وجہ سے بھی پوشیدہ ہوگئی کہ انسان کے اندر ایک غیرفانی جان یا رُوح ہوتی ہے جو اُس کی موت کے بعد کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہتی ہے۔‏ یہ نظریہ قدیم بابل میں پایا جاتا تھا اور اب پوری دُنیا میں پھیل چکا ہے۔‏ جب جھوٹے مسیحیوں نے اِس نظریے کو اپنایا تو مذہبی عالموں نے آسمانی اُمید کے متعلق بیان کرنے والے صحائف کو توڑمروڑ کر اِس طرح پیش کِیا کہ تمام نیک انسان آسمان پر جاتے ہیں۔‏ اِس نظریے کے مطابق زمین پر ہر شخص کی زندگی عارضی ہے اور اُس کی اِسی زندگی کی بِنا پر اِس بات کا تعیّن کِیا جاتا ہے کہ آیا وہ آسمان میں زندگی حاصل کرنے کے لائق ہے یا نہیں۔‏ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے متعلق یہودیوں کی اصل اُمید کے سلسلے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔‏ جوں‌جوں یہودی جان کے غیرفانی ہونے کے یونانی نظریے کو اپناتے گئے وہ زمین پر زندگی کے بارے میں اپنی اصل اُمید کو بھولتے گئے۔‏ انسان کے غیرفانی ہونے کا نظریہ بائبل میں بیان‌کردہ نظریے سے کتنا فرق ہے!‏ یہوواہ خدا نے پہلے انسان سے کہا تھا:‏ ”‏تُو خاک ہے۔‏“‏ (‏پید ۳:‏۱۹‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان روحانی نہیں بلکہ جسمانی مخلوق ہے۔‏ پس انسان آسمان پر نہیں بلکہ زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔‏‏—‏زبور ۱۰۴:‏۵؛‏ ۱۱۵:‏۱۶ کو پڑھیں۔‏

تاریکی میں روشنی چمکتی ہے

۸.‏ سترہویں صدی کے بعض عالموں نے انسان کی اُمید کے بارے میں کیا کہا؟‏

۸ اگرچہ مسیحی ہونے کا دعویٰ کرنے والے بیشتر لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کا انکار کرتے آئے ہیں توبھی شیطان سچائی کو پوشیدہ رکھنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا۔‏ صدیوں کے دوران،‏ بائبل پڑھنے والے چند خلوص‌دل لوگوں نے اِس بات کے بعض پہلوؤں کو سمجھ لیا کہ خدا کیسے انسانوں کو گناہ سے پاک کرے گا۔‏ (‏زبور ۹۷:‏۱۱؛‏ متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۱۳:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ سترہویں صدی تک بائبل کے ترجمے اور چھپائی کی وجہ سے بہت سے لوگ اِسے حاصل کرنے کے قابل تھے۔‏ سن ۱۶۵۱ میں،‏ ایک عالم نے لکھا کہ چونکہ آدم کے سبب سے انسان ”‏زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع کھو چکے تھے“‏ اِس لئے مسیح میں ”‏سب زمین ہی پر زندہ کئے جائیں گے؛‏ بصورتِ‌دیگر یہ موازنہ درست نہیں تھا۔‏“‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۱،‏ ۲۲ کو پڑھیں۔‏)‏ انگریزی زبان کے مشہور شاعر جان ملٹن (‏۱۶۰۸-‏۱۶۷۴)‏ نے ایک کتاب ”‏فردوس کھو گیا“‏ ‏(‏پیراڈائز لوسٹ)‏ اور اِس کا دوسرا حصہ”‏فردوس دوبارہ قائم ہوگا“‏ ‏(‏پیراڈائز ریگینڈ)‏ لکھی۔‏ اِن تحریروں میں ملٹن نے وفادار انسانوں کے اُس اجر کا ذکر کِیا جو وہ زمین پر فردوس میں حاصل کریں گے۔‏ اگرچہ ملٹن نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ بائبل کا مطالعہ کرنے میں صرف کِیا توبھی وہ یہ جان گیا کہ صحائف میں درج سچائی کو مسیح کی آمد تک مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ سر آئزک نیوٹن نے انسانوں کی اُمید کے بارے میں کیا لکھا؟‏ (‏ب)‏ نیوٹن یہ کیوں سمجھتا تھا کہ یسوع مسیح کی آمد میں ابھی کافی عرصہ باقی ہے؟‏

۹ مشہور ماہرِریاضیات سر آئزک نیوٹن (‏۱۶۲۴-‏۱۷۲۷)‏ بھی بائبل میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ مُقدس لوگ آسمانی زندگی کے لئے زندہ کئے جائیں گے اور انسانی آنکھوں سے اوجھل،‏ مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔‏ (‏مکا ۵:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ بادشاہت کی رعایا کے متعلق اُس نے لکھا:‏ ”‏عدالت کے دن کے بعد بھی انسان زمین پر بستے رہیں گے اور یہ صرف ۰۰۰،‏۱ برس کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہوگا۔‏“‏

۱۰ نیوٹن کا خیال تھا کہ مسیح کی موجودگی میں ابھی کافی عرصہ باقی ہے۔‏ تاریخ‌دان سٹیفن سنوبلین نے بیان کِیا:‏ ”‏نیوٹن خدا کی بادشاہت کو اِس لئے اتنی دور سمجھتا تھا کیونکہ بہت سے لوگوں نے بائبل کی تعلیم کے برعکس تثلیث جیسی جھوٹی تعلیم کو اپنا لیا تھا۔‏“‏ خوشخبری ابھی تک پوشیدہ تھی اور نیوٹن کو کوئی ایسا گروہ نظر نہیں آ رہا تھا جو اِس کی مُنادی کر سکے۔‏ نیوٹن نے لکھا:‏ ”‏دانی‌ایل کی پیشینگوئی اور مکاشفہ کی کتاب میں درج یوحنا کی پیشینگوئی کو خاتمے کے وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا۔‏“‏ اُس نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏دانی‌ایل نے کہا،‏ ’‏بہتیرے اِس کی تفتیش‌وتحقیق کریں گے اور دانش افزون ہوگی۔‏‘‏ بڑی مصیبت اور دُنیا کے خاتمے سے پہلے تمام قوموں میں انجیل کی مُنادی کرنے کی ضرورت ہوگی۔‏ جب ہم بڑی مصیبت سے بچ نکلنے والی بِھیڑ پر غور کرتے ہیں جو کھجور کی ڈالیاں ہاتھوں میں لئے ہوئے ہے تو اُن کی تعداد صرف اُسی صورت میں بےشمار ہو سکتی ہے اگر خاتمے سے پہلے تمام قوموں میں انجیل کی مُنادی کی جائے۔‏“‏—‏دان ۱۲:‏۴؛‏ متی ۲۴:‏۱۴؛‏ مکا ۷:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۱.‏ ملٹن اور نیوٹن کے زمانے میں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بیشتر لوگوں کے لئے پوشیدہ کیوں رہی؟‏

۱۱ ملٹن اور نیوٹن کے زمانے میں چرچ کے عقائد کے برخلاف نظریات پیش کرنا بہت خطرناک تھا۔‏ لہٰذا،‏ بائبل کے بارے میں اُن کی بیشتر تحریروں کو اُن کی موت تک شائع نہیں کِیا گیا۔‏ سولہویں صدی کی تحریکِ‌اصلاح بھی جان کے غیرفانی ہونے کے عقیدے کی اصلاح کرنے میں ناکام رہی۔‏ نیز،‏ پروٹسٹنٹ چرچوں نے آگسٹین کے اِس نظریے کی تعلیم دینا جاری رکھا کہ ہزار سالہ حکمرانی ماضی کی بات ہے نہ کہ مستقبل کی۔‏ کیا آخری زمانے میں علم میں اضافہ ہوا ہے؟‏

‏”‏دانش افزون ہوگی“‏

۱۲.‏ صحیح علم میں کب اضافہ ہوا؟‏

۱۲ دانی‌ایل نبی نے ”‏آخری زمانہ“‏ کے بارے میں ایک بڑی تبدیلی کی پیشینگوئی کی۔‏ ‏(‏دانی‌ایل ۱۲:‏۳،‏ ۴،‏ ۹،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ بعدازاں،‏ یسوع مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏اُس وقت راستباز .‏ .‏ .‏ آفتاب کی مانند چمکیں گے۔‏“‏ (‏متی ۱۳:‏۴۳‏)‏ مگر آخری زمانے میں صحیح علم میں کیسے اضافہ ہوا؟‏ اِس آخری زمانے کا آغاز ۱۹۱۴ میں ہوا۔‏ آئیں بعض تاریخی واقعات پر غور کریں جو ۱۸۷۰ سے ۱۹۱۴ کے دوران واقع ہوئے۔‏

۱۳.‏ چارلس ٹیز رسل نے انسانوں کے گُناہ سے پاک ہونے کے موضوع پر تحقیق کرنے کے بعد کیا لکھا؟‏

۱۳ اُنیسویں صدی کے آخر میں،‏ بعض خلوص‌دل لوگ ’‏صحیح باتوں‘‏ کی سمجھ حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے۔‏ (‏۲-‏تیم ۱:‏۱۳‏)‏ اِن میں سے ایک چارلس ٹیز رسل تھا۔‏ سن ۱۸۷۰ میں،‏ اُس نے اور چند دیگر سچائی کی تلاش کرنے والے لوگوں نے بائبل کا مطالعہ کرنے کے لئے ایک گروہ تشکیل دیا۔‏ سن ۱۸۷۲ میں،‏ اُنہوں نے اِس موضوع پر تحقیق کی کہ انسانوں کو گُناہ سے کیسے پاک کِیا جائے گا۔‏ بعدازاں،‏ رسل نے لکھا:‏ ”‏اُس وقت تک ہم واضح طور پر اِس بات کو نہیں سمجھ پائے تھے کہ سچی کلیسیا جو اب آزمائی جا رہی ہے اُس کے اَجر اور دُنیا میں وفادار رہنے والے دیگر لوگوں کے اَجر میں کیا فرق ہے۔‏“‏ دُنیا میں وفادار رہنے والے لوگ ”‏آدم کی طرح گُناہ سے پاک ہوں گے اور فردوس میں رہیں گے۔‏“‏ رسل نے یہ تسلیم کِیا کہ بائبل کا مطالعہ کرنے میں دوسروں نے اُس کی بہت مدد کی۔‏ اُس کی مدد کرنے والے یہ لوگ کون تھے؟‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ ہنری ڈن نے اعمال ۳:‏۲۱ کی وضاحت کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ ڈن کے مطابق کون لوگ زمین پر ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‏

۱۴ اُن میں سے ایک ہنری ڈن تھا۔‏ اُس نے ’‏سب چیزوں کے بحال کئے جانے‘‏ کے بارے میں لکھا ”‏جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کِیا ہے جو دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔‏“‏ (‏اعما ۳:‏۲۱‏)‏ ڈن جانتا تھا کہ سب چیزوں کے بحال کئے جانے میں یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران زمین پر انسانوں کا گُناہ سے پاک کِیا جانا بھی شامل ہے۔‏ ڈن نے اِس سوال پر بھی غور کیا کہ کون زمین پر ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‏ یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے بہت سے لوگوں کو پریشان کر رکھا تھا۔‏ اُس نے واضح کِیا کہ لاکھوں لوگ مُردوں میں سے زندہ کئے جائیں گے،‏ اُنہیں سچائی کی تعلیم دی جائے گی نیز اُنہیں مسیح پر ایمان لانے کا موقع دیا جائے گا۔‏

۱۵.‏ جارج سٹورز نے مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں کونسی سمجھ حاصل کی؟‏

۱۵ سن ۱۸۷۰ میں،‏ جارج سٹورز نے بھی یہ نتیجہ اخذ کِیا کہ ناراستوں کو مُردوں میں سے زندہ کِیا جائے گا اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔‏ اُس نے صحائف سے یہ سمجھ بھی حاصل کی کہ جو شخص اِس موقع سے فائدہ حاصل نہیں کرے گا وہ ”‏مرے گا،‏ خواہ وہ ’‏گنہگار سو برس‘‏ کا ہو جائے۔‏“‏ (‏یسع ۶۵:‏۲۰‏)‏ سٹورز نیویارک میں بروکلن کے علاقے میں رہتا تھا اور بائبل ایگزمینر نامی ایک رسالے کا ایڈیٹر تھا۔‏

۱۶.‏ بائبل سٹوڈنٹس دیگر مسیحی گروہوں سے کیسے فرق تھے؟‏

۱۶ رسل نے بائبل سے یہ سمجھ حاصل کی کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر خوشخبری پھیلائی جائے۔‏ لہٰذا،‏ ۱۸۷۹ میں اُس نے زائنز واچ ٹاور اینڈ ہیرلڈ آف کرائسٹ پریزنس شائع کرنا شروع کِیا جو اب مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے کہلاتا ہے۔‏ اِس سے پہلے بہت کم لوگ انسانوں کی اُمید کے بارے میں سچائی سمجھتے تھے۔‏ لیکن اِس رسالے کی اشاعت کے بعد بہت سے ممالک میں بائبل سٹوڈنٹس کے گروہ مینارِنگہبانی کو حاصل کر رہے اور اِس کا مطالعہ کر رہے تھے۔‏ وہ یہ ایمان رکھتے تھے کہ چند لوگ آسمان پر جائیں گے جبکہ لاکھوں لوگ زمین پر گُناہ سے پاک ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏ اِس وجہ سے بائبل سٹوڈنٹس دیگر مسیحی گروہوں سے فرق تھے۔‏

۱۷.‏ صحیح علم میں کیسے اضافہ ہوا؟‏

۱۷ جیسا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ ”‏آخری زمانہ“‏ کا آغاز ۱۹۱۴ میں ہوا۔‏ کیا اُس وقت انسانوں کی اُمید کے بارے میں صحیح علم میں واقعی اضافہ ہوا؟‏ (‏دان ۱۲:‏۴‏)‏ سن ۱۹۱۳ تک رسل کی تقریریں تقریباً ۲ ہزار اخباروں میں شائع ہو چکی تھیں جن کے پڑھنے والوں کی کُل تعداد ۱ کروڑ ۵۰ لاکھ تھی۔‏ سن ۱۹۱۴ کے آخر تک تین برّاعظموں میں ۹۰ لاکھ سے زائد لوگوں نے ”‏فوٹو ڈرامہ آف کریئیشن“‏ دیکھا۔‏ یہ ڈرامہ متحرک تصویروں اور سلائیڈز پر مشتمل تھا جن میں مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کی وضاحت کی گئی تھی۔‏ سن ۱۹۱۸ سے ۱۹۲۵ تک یہوواہ کے خادموں نے تقریر ”‏لاکھوں جو اب زندہ ہیں کبھی نہ مریں گے“‏ کو پوری دُنیا میں ۳۰ سے زائد زبانوں میں پیش کِیا۔‏ اِس تقریر میں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کی وضاحت کی گئی تھی۔‏ سن ۱۹۳۴ تک یہوواہ کے گواہ یہ سمجھ گئے کہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے والے لوگوں کو بپتسمہ لینا چاہئے۔‏ اِس سمجھ کی وجہ سے وہ بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرنے کے لئے اَور زیادہ جوش سے بھر گئے۔‏ آجکل زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے والے لاکھوں لوگوں کے دل یہوواہ خدا کے لئے شکرگزاری سے معمور ہیں۔‏

مستقبل میں ”‏جلال کی آزادی“‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۵ کے مطابق خدا کے لوگوں کی زندگی کیسی ہوگی؟‏

۱۸ یسعیاہ نبی نے الہام سے یہ تحریر کِیا کہ زمین پر خدا کے لوگوں کی زندگی کیسی ہوگی۔‏ ‏(‏یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏)‏ جب یسعیاہ نبی نے ۷۰۰،‏۲ سال پہلے اِن الفاظ کو تحریر کِیا تو اُس وقت موجود بعض درخت آج بھی زمین پر موجود ہیں۔‏ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ اِتنے لمبے عرصے تک زندہ رہیں اور اچھی صحت سے لطف اُٹھائیں؟‏

۱۹ انسان کی زندگی مختصر ہونے کی بجائے ہمیشہ تک ہوگی۔‏ اُن کے پاس گھر بنانے،‏ درخت لگانے اور سیکھنے کے لئے کافی وقت ہوگا۔‏ ذرا سوچیں کہ آپ وہاں کتنے زیادہ لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے کے قابل ہوں گے۔‏ آپ ہمیشہ دوستی کے اِس بندھن کو مضبوط بناتے رہیں گے۔‏ اُس وقت’‏خدا کے فرزند‘‏ زمین پر ”‏جلال کی آزادی“‏ سے کس‌قدر لطف‌اندوز ہوں گے!‏—‏روم ۸:‏۲۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 آگسٹین کا دعویٰ تھا کہ خدا کی ہزار سالہ بادشاہت مستقبل کی بات نہیں ہے بلکہ اِس کا آغاز اُس وقت سے ہو چکا ہے جب چرچ کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• زمین پر زندہ رہنے کی انسانوں کی اُمید کو کیسے پوشیدہ رکھا گیا؟‏

‏• سترہویں صدی میں،‏ بائبل کو پڑھنے والے بعض لوگوں کو کونسی سمجھ حاصل ہوئی؟‏

‏• جب ۱۹۱۴ نزدیک آیا تو انسانوں کی حقیقی اُمید کیسے اَور واضح ہوگئی؟‏

‏• زمینی اُمید کے متعلق علم میں کیسے اضافہ ہوا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویریں]‏

مشہور شاعر جان ملٹن (‏بائیں)‏ اور ماہرِریاضیات سر آئزک نیوٹن (‏دائیں)‏ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے بارے میں جانتے تھے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویریں]‏

ابتدائی بائبل سٹوڈنٹس نے صحائف سے یہ سمجھ حاصل کرلی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ پوری دُنیا میں انسانوں کی حقیقی اُمید کی مُنادی کریں