مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خودغرض دُنیا میں دوستی برقرار رکھیں

خودغرض دُنیا میں دوستی برقرار رکھیں

خودغرض دُنیا میں دوستی برقرار رکھیں

‏”‏مَیں تُم کو اِن باتوں کا حکم اِس لئے دیتا ہوں کہ تُم ایک‌دوسرے سے محبت رکھو۔‏“‏—‏یوح ۱۵:‏۱۷‏۔‏

۱.‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کو ایک‌دوسرے کے ساتھ دوستی برقرار رکھنے کی ضرورت کیوں تھی؟‏

زمین پر اپنی زندگی کی آخری رات،‏ یسوع مسیح نے اپنے وفادار شاگردوں کو ایک‌دوسرے کی دوستی میں قائم رہنے کی ہدایت دی۔‏ اِس سے تھوڑی دیر پہلے اُس نے اُن سے کہا تھا کہ اُن کی آپس کی محبت سے یہ ظاہر ہوگا کہ وہ اُس کے شاگرد ہیں۔‏ (‏یوح ۱۳:‏۳۵‏)‏ رسولوں کو ایک‌دوسرے کے ساتھ دوستی برقرار رکھنی تھی تاکہ وہ آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کر سکیں اور اُس کام کو انجام دے سکیں جو یسوع اُنہیں سونپنے والا تھا۔‏ واقعی،‏ پہلی صدی کے مسیحی یہوواہ خدا اور ایک‌دوسرے کے لئے اپنی وفاداری کی بِنا پر مشہور تھے۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ ہم کیا کرنے کا عزم رکھتے ہیں،‏ اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟‏

۲ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہم ایک ایسی عالمگیر تنظیم کا حصہ ہیں جس کے اراکین پہلی صدی کے مسیحیوں کے نمونے کی نقل کرتے ہیں!‏ ہم یسوع مسیح کے حکم کے مطابق ایک‌دوسرے کے لئے محبت دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔‏ مگر اِن آخری دنوں میں زیادہ‌تر لوگ وفاداری اور محبت دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۳‏)‏ وہ محض دکھاوے یا پھر اپنے مطلب کے لئے دوستی کرتے ہیں۔‏ سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں اِس خودغرض دُنیا سے فرق ہونا چاہئے۔‏ آئیں دوستی کے سلسلے میں اِن سوالات پر غور کریں:‏ مضبوط دوستی کی بنیاد کیا ہے؟‏ ہم اچھے دوست کیسے بنا سکتے ہیں؟‏ ہمیں کس صورت میں دوستی ختم کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏ نیز ہم اچھی دوستی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

مضبوط دوستی کی بنیاد کیا ہے؟‏

۳،‏ ۴.‏ مضبوط دوستی کی بنیاد کیا ہے،‏ اور کیوں؟‏

۳ دو اشخاص کے درمیان مضبوط دوستی کی بنیاد یہوواہ خدا کے لئے اُن کی محبت ہوتی ہے۔‏ بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏اگر کوئی ایک پر غالب ہو تو دو اُس کا سامنا کر سکتے ہیں اور تہری ڈوری جلد نہیں ٹوٹتی۔‏“‏ (‏واعظ ۴:‏۱۲‏)‏ جس دوستی میں یہوواہ خدا تہری ڈوری ہوتا ہے وہ دوستی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔‏

۴ یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا سے محبت نہ رکھنے والے لوگوں کے درمیان بھی اچھی دوستی ہو سکتی ہے۔‏ لیکن یہوواہ خدا سے محبت رکھنے والے اشخاص کے درمیان پائی جانے والی دوستی مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔‏ اگر اُن کے درمیان غلط‌فہمیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں تو وہ ایک‌دوسرے کے ساتھ اِس طرح سے پیش آتے ہیں کہ یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے۔‏ جب مخالفین یہوواہ کے لوگوں کے مابین اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ جان جاتے ہیں کہ سچے مسیحیوں کے درمیان پائی جانے والی دوستی کس‌قدر مضبوط ہے۔‏ انسانی تاریخ کے دوران یہوواہ خدا کے لوگوں نے ثابت کِیا ہے کہ وہ ایک‌دوسرے کے ساتھ بےوفائی کرنے کی بجائے مرنا پسند کرتے ہیں۔‏‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۶ کو پڑھیں۔‏

۵.‏ روت اور نعومی کی دوستی اتنی مضبوط کیوں تھی؟‏

۵ بِلاشُبہ،‏ ہمارے لئے وہ دوستیاں بہترین ثابت ہوتی ہیں جو ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھنے والوں کے ساتھ قائم کرتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں روت اور نعومی کی مثال پر غور کریں۔‏ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں کہ اِن دونوں عورتوں کے درمیان مضبوط دوستی تھی۔‏ اُن کی دوستی اِس قدر مضبوط کیوں تھی؟‏ اِس سوال کا جواب ہمیں نعومی سے کہے گئے روت کے اِن الفاظ سے ملتا ہے:‏ ”‏تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔‏ .‏ .‏ .‏[‏یہوواہ]‏مجھ سے اَیسا ہی بلکہ اِس سے بھی زیادہ کرے اگر موت کے سوا کوئی اَور چیز مجھ کو تجھ سے جُدا کر دے۔‏“‏ (‏روت ۱:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روت اور نعومی خدا سے گہری محبت رکھتی تھیں اور یہی محبت ایک‌دوسرے کے ساتھ اُن کے برتاؤ پر بھی اثرانداز ہوئی۔‏ اِس کے نتیجے میں یہوواہ خدا نے اُن دونوں کو برکت دی۔‏

ہم اچھے دوست کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

۶-‏۸.‏ (‏ا)‏ دوستی قائم رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنے ضرورت ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ دوست بنانے میں پہل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۶ روت اور نعومی کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اچھی دوستیاں فوراً نہیں ہو جاتیں۔‏ جیساکہ ہم نے دیکھا مضبوط دوستی کی بنیاد یہوواہ خدا کے لئے محبت ہوتی ہے۔‏ لیکن دوستی قائم رکھنے کے لئے ہمیں محنت کرنے اور قربانیاں دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ یہاں تک کہ مسیحی خاندانوں میں یہوواہ کی پرستش کرنے والے بچوں کو بھی دوسروں کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ توپھر آپ اچھے دوست کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

۷ پہل کریں۔‏ پولس رسول نے روم کی کلیسیا میں رہنے والے اپنے دوستوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ”‏مسافرپروری میں لگے رہو۔‏“‏ (‏روم ۱۲:‏۱۳‏)‏ مسافرپروری یا مہمان‌نوازی میں باقاعدگی سے دوسروں کے لئے چھوٹےچھوٹے کام کرنا شامل ہے۔‏ یہ ایک راستے پر چلنے کی مانند ہے جس پر ہم مسلسل ایک کے بعد ایک قدم اُٹھاتے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ ہم سب پر ایک‌دوسرے کے لئے مہمان‌نوازی دکھانے کی ذمہ‌داری عائد ہوتی ہے۔‏ ‏(‏امثال ۳:‏۲۷ کو پڑھیں۔‏)‏ ایسا کرنے کا ایک طریقہ کلیسیا کے مختلف بہن‌بھائیوں کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دینا ہے۔‏ کیا آپ اپنی کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کے لئے مہمان‌نوازی دکھانے کو اپنا معمول بنا سکتے ہیں؟‏

۸ دوست بنانے کے سلسلے میں پہل کرنے کا ایک اَور طریقہ مختلف بہن‌بھائیوں کو اپنے ساتھ مُنادی کرنے کی دعوت دینا ہے۔‏ مُنادی کرتے وقت جب آپ اُنہیں یہوواہ خدا کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتے سنتے ہیں تو آپ اُن کے اَور قریب آ جاتے ہیں۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ پولس رسول نے کونسی مثال قائم کی؟‏ (‏ب)‏ ہم اُس کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۹ کشادہ‌دل بنیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۲،‏ ۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ کیا آپ نے کبھی یہ محسوس کِیا ہے کہ کلیسیا میں آپ کا کوئی دوست نہیں ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو کیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صرف چند محدود لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں؟‏ پولس رسول نے کشادہ‌دل ہونے کے سلسلے میں ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏ ایک وقت تھا جب اُس نے غیریہودیوں کو دوست بنانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔‏ لیکن بعد میں وہ ”‏غیرقوموں کا رسول“‏ بن گیا۔‏—‏روم ۱۱:‏۱۳‏۔‏

۱۰ اِس کے علاوہ،‏ پولس نے صرف اپنی عمر کے لوگوں سے ہی دوستی نہیں کی تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ وہ اور تیمتھیس مختلف عمر اور پس‌منظر کے باوجود قریبی دوست بن گئے۔‏ آجکل بہت سے نوجوان کلیسیا میں ایسے اشخاص کے ساتھ دوستی کی بہت قدر کرتے ہیں جو اُن سے عمر میں بڑے ہیں۔‏ بیس سالہ ونیسا بیان کرتی ہے:‏ ”‏میری ایک بہت اچھی دوست ہیں جن کی عمر ۵۰ سال ہے۔‏ مَیں اُن کو وہ سب باتیں بتا سکتی ہوں جو مَیں اپنی ہم‌عمر سہیلیوں کو بتاتی ہوں۔‏ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔‏“‏ ایسی دوستی کیسے پیدا کی جا سکتی ہیں؟‏ ونیسا کہتی ہے:‏ ”‏اِس بہن کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے مَیں نے پہل کی تھی۔‏“‏ کیا آپ ایسے لوگوں سے دوستی کر سکتے ہیں جو آپ کے ہم‌عمر نہیں ہیں؟‏ یقیناً یہوواہ خدا آپ کی کوششوں کو برکت دے گا۔‏

۱۱.‏ ہم یونتن اور داؤد کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱ وفادار بنیں۔‏ بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کے لئے پیدا ہوا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۷:‏۱۷‏)‏ اِن الفاظ کو تحریر کرتے وقت غالباً سلیمان کے ذہن میں یونتن اور اپنے باپ داؤد کی دوستی تھی۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۸:‏۱‏)‏ بادشاہ ساؤل چاہتا تھا کہ اُس کا بیٹا یونتن اُس کے بعد اسرائیل کا بادشاہ بنے۔‏ لیکن یونتن نے اِس بات کو تسلیم کِیا کہ یہوواہ خدا نے داؤد کو بادشاہ بننے کے لئے منتخب کِیا ہے۔‏ وہ ساؤل کی طرح داؤد کا دشمن نہیں بنا۔‏ داؤد کی تعریف پر نہ تو یونتن نے اُس سے حسد کِیا اور نہ ہی اُن باتوں پر یقین کِیا جو ساؤل نے اُس کے خلاف پھیلائی تھیں۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۰:‏۲۴-‏۳۴‏)‏ کیا ہم یونتن کی طرح ہیں؟‏ جب ہمارے دوستوں کو کلیسیا میں شرف ملتے ہیں تو کیا ہم خوش ہوتے ہیں؟‏ جب اُنہیں آزمائشوں اور تکلیفوں کا سامنا ہوتا ہے تو کیا ہم اُنہیں تسلی دیتے اور اُن کی مدد کرتے ہیں؟‏ جب ہم اپنے دوست کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو کیا ہم فوراً اِس کا یقین کر لیتے ہیں؟‏ یاپھر کیا ہم یونتن کی طرح وفاداری سے اپنے دوست کی حمایت کرتے ہیں؟‏

ہمیں کب دوستی ختم کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏

۱۲-‏۱۴.‏ (‏ا)‏ بعض بائبل سیکھنے والوں کو کونسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ جب کوئی شخص بائبل کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانا شروع کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اُسے دوستوں کے سلسلے میں فیصلہ کرنا پڑے۔‏ شاید پہلے وہ ایسے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتا تھا جو بائبل کے اصولوں کے مطابق نہیں چلتے۔‏ مگر اب وہ سمجھتا ہے کہ اُن کی بُری عادات اُس پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔‏ اِس لئے وہ اُن سے تعلقات کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۳۳‏)‏ لیکن شاید وہ یہ محسوس کرے کہ اُن سے دوستی ختم کرکے وہ اُن کے ساتھ بےوفائی کر رہا ہے۔‏

۱۳ اگر آپ بھی ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک سچا دوست اِس بات سے خوش ہوگا کہ آپ اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ آپ کو دیکھ کر شاید وہ بھی یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھنا چاہے۔‏ اِس کے برعکس،‏ وہ جو آپ کے حقیقی دوست نہیں ہیں وہ آپ پر ”‏لعن‌طعن“‏ کریں گے کیونکہ آپ اُن کی ”‏سخت بدچلنی تک اُن کا ساتھ نہیں دیتے۔‏“‏ (‏۱-‏پطر ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ اصل میں آپ اُن سے بےوفائی نہیں کر رہے بلکہ وہ آپ سے بےوفائی کر رہے ہیں۔‏

۱۴ جب بائبل سیکھنے کی وجہ سے کسی شخص کے پُرانے دوست اُسے چھوڑ دیتے ہیں تو کلیسیا کے ارکان کو اُس کے ساتھ دوستی کرنی چاہئے۔‏ (‏گل ۶:‏۱۰‏)‏ کیا آپ ذاتی طور پر ایسے اشخاص کو جانتے ہیں جو بائبل کا مطالعہ کر رہے اور اجلاسوں پر حاضر ہو رہے ہیں؟‏ کیا آپ اُن کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں؟‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ اگر ہمارا کوئی دوست یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ہم خدا کے لئے اپنی محبت کا ثبوت کیسے پیش کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ تاہم،‏ اُس صورت میں آپ کیا کریں گے جب کلیسیا میں آپ کا کوئی دوست یہوواہ کے اصولوں کی خلاف‌ورزی کرتے ہوئے کسی سنگین گُناہ میں پڑ جاتا ہے اور اُسے کلیسیا سے خارج کرنا پڑتا ہے؟‏ ایسی صورتحال آپ کے لئے بہت تکلیف‌دہ ہو سکتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک بہن کے الفاظ پر غور کریں جس کی قریبی سہیلی نے یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دیا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مجھے دلی صدمہ پہنچا۔‏ مَیں سوچتی تھی کہ میری سہیلی سچائی میں بہت مضبوط ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔‏ مَیں نے سوچا کہ شاید وہ اپنے خاندان کو خوش کرنے کے لئے یہوواہ کی خدمت کر رہی تھی۔‏ پھر مَیں نے اپنا جائزہ لیا کہ مَیں کس وجہ سے یہوواہ کی خدمت کر رہی ہوں۔‏“‏ پھر اُس بہن نے کیا کِیا؟‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے اپنا بوجھ یہوواہ خدا پر ڈال دیا۔‏ مَیں یہ ثابت کرنے کے لئے پُرعزم تھی کہ مَیں اِس وجہ سے یہوواہ خدا کی خدمت نہیں کر رہی کہ مجھے کلیسیا میں اچھے دوست ملے ہیں بلکہ اِس وجہ سے کہ مَیں اُس سے محبت رکھتی ہوں۔‏“‏

۱۶ اگر ہم اُن لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں جو دُنیا سے دوستی رکھتے ہیں تو ہم خدا کے دوست نہیں رہ سکتے۔‏ شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دُنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دُشمنی کرنا ہے؟‏ پس جو کوئی دُنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنےآپ کو خدا کا دُشمن بناتا ہے۔‏“‏ (‏یعقو ۴:‏۴‏)‏ جب ہمارا کوئی دوست سچائی کو چھوڑ دیتا ہے تو ہمیں خدا پر بھروسا رکھنا چاہئے کہ وہ ہمیں اِس صورتحال سے نپٹنے میں مدد دے گا۔‏ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ خدا کے لئے اپنی محبت کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏زبور ۱۸:‏۲۵ کو پڑھیں۔‏)‏ پچھلے پیراگراف میں جس بہن کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُس نے مزید کہا:‏ ”‏مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ ہم کسی شخص کو یہوواہ خدا یا ہم سے محبت رکھنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے۔‏ یہ اُس کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔‏“‏ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اُن لوگوں کے ساتھ اچھی دوستی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں جو وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں؟‏

ہم اچھی دوستی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۷.‏ اچھے دوست ایک‌دوسرے کے ساتھ کیسے بات‌چیت کرتے ہیں؟‏

۱۷ اچھی دوستی برقرار رکھنے کیلئے ایک‌دوسرے کے ساتھ بات‌چیت کرنا بہت ضروری ہے۔‏ اچھے دوست کُھل کر اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کرنے کے ساتھ‌ساتھ ایک‌دوسرے کے لئے احترام بھی ظاہر کرتے ہیں۔‏ یہ بات روت اور نعومی،‏ داؤد اور یونتن نیز پولس اور تیمتھیس کی مثال سے بالکل واضح ہو جاتی ہے۔‏ دوسروں کے ساتھ بات‌چیت کرنے کے سلسلے میں پولس نے لکھا:‏ ”‏تمہارا کلام ہمیشہ .‏ .‏ .‏ پُرفضل اور نمکین ہو۔‏“‏ یہاں پولس رسول خاص طور پر ”‏باہر والوں“‏ یعنی ایسے لوگوں کے ساتھ بات‌چیت کرنے کا ذکر کر رہا تھا جو کلیسیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏ (‏کل ۴:‏۵،‏ ۶‏)‏ لہٰذا،‏ اگر ہمیں ایسے لوگوں کے لئے احترام دکھانا چاہئے جو ہمارے ہم‌ایمان نہیں تو کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا اِس سے کہیں زیادہ ضروری ہے!‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ جب کلیسیا میں ہمارا کوئی دوست ہمیں مشورت دیتا ہے تو ہمیں اِسے کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ افسس کی کلیسیا کے بزرگوں نے ہمارے لئے کونسی عمدہ مثال قائم کی؟‏

۱۸ اچھے دوست ایک‌دوسرے کے خیالات اور مشورت کی قدر کرتے ہیں۔‏ دانش‌مند بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏جیسے تیل اور عطر سے دل کو فرحت ہوتی ہے ویسے ہی دوست کی دلی مشورت کی شِیرینی سے۔‏“‏ (‏امثا ۲۷:‏۹‏)‏ کیا آپ بھی اپنے دوست کی طرف سے مشورت کو ایسا ہی خیال کرتے ہیں؟‏ ‏(‏زبور ۱۴۱:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ جب آپ کا کوئی دوست آپ کے کسی کام کے بارے میں مشورت دیتا ہے تو آپ کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟‏ کیا آپ اُس کی باتوں کو اُس کی محبت کا اظہار سمجھتے ہیں یا اُس سے ناراض ہو جاتے ہیں؟‏

۱۹ پولس رسول کی افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کے ساتھ بہت دوستی تھی۔‏ غالباً پولس اُن میں سے بعض کو اُس وقت سے جانتا تھا جب وہ مسیحی بنے تھے۔‏ پھربھی اُس نے اُن کے ساتھ آخری ملاقات پر اُنہیں کچھ مشورت دی۔‏ اِس پر اُن بزرگوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ پولس رسول کے یہ دوست اُس سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ اُس کی مشورت کی بہت زیادہ قدر کی۔‏ یہ جانتے ہوئے کہ وہ اُسے دوبارہ نہیں دیکھیں گے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔‏—‏اعما ۲۰:‏۱۷،‏ ۲۹،‏ ۳۰،‏ ۳۶-‏۳۸‏۔‏

۲۰.‏ ایک اچھا دوست کیا کرے گا؟‏

۲۰ اچھے دوست نہ صرف مشورت کو قبول کرتے ہیں بلکہ مشورت دیتے بھی ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کب ”‏اپنے کام سے کام رکھنا“‏ چاہئے۔‏ (‏۱-‏تھس ۴:‏۱۱‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ نیز،‏ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ”‏ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دے گا۔‏“‏ (‏روم ۱۴:‏۱۲‏)‏ مگر ایک اچھا دوست جب بھی ضروری ہو اپنے دوست کو یہوواہ کے معیار یاد دلانے سے باز نہیں آئے گا۔‏ (‏۱-‏کر ۷:‏۳۹‏)‏ مثال کے طور پر،‏ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کا ایک غیرشادی‌شُدہ دوست کسی ایسے مخالف جنس میں دلچسپی لینے لگتا ہے جو یہوواہ کا گواہ نہیں تو آپ کیا کریں گے؟‏ کیا آپ اِس ڈر سے اُس کی اصلاح نہیں کریں گے کہ آپ کی دوستی ختم ہو سکتی ہے؟‏ اگر وہ آپ کی مشورت پر دھیان نہیں دیتا تو آپ کیا کریں گے؟‏ اگر آپ کا دوست کوئی غلط قدم اُٹھاتا ہے تو آپ کو اُس کی مدد کرنے کے لئے کلیسیا کے بزرگوں سے رجوع کرنا چاہئے۔‏ یوں آپ خود کو ایک اچھا دوست ثابت کر رہے ہوں گے۔‏ یہ سچ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے دلیری درکار ہے۔‏ لیکن اگر آپ کی دوستی کی بنیاد یہوواہ خدا کے لئے محبت ہے تو یہ ختم نہیں ہو گی۔‏

۲۱.‏ (‏ا)‏ بعض‌اوقات ہم اپنے دوستوں کو کون سا موقع دیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم کلیسیا میں مضبوط دوستی قائم کریں؟‏

۲۱ کلسیوں ۳:‏۱۳،‏ ۱۴ کو پڑھیں۔‏ بعض‌اوقات ہم اپنے دوستوں کو ”‏شکایت“‏ کا موقع دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسی باتیں کہہ جاتے یا ایسے کام کر جاتے ہیں جن سے ہمیں ٹھیس پہنچتی ہے۔‏ یعقوب نے لکھا:‏ ”‏ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔‏“‏ (‏یعقو ۳:‏۲‏)‏ تاہم،‏ دوستی کی مضبوطی کا اندازہ اِس بات سے نہیں لگایا جاتا کہ ہم کتنی مرتبہ ایک‌دوسرے کے خلاف خطا کرتے ہیں بلکہ اِس بات سے کہ ہم کس حد تک ایک‌دوسرے کو معاف کرتے ہیں۔‏ پس یہ کس‌قدر ضروری ہے کہ ہم آپس میں کھل کر بات کرنے اور ایک‌دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے سے مضبوط دوستی قائم کریں۔‏ اگر ہم ایسی محبت ظاہر کرتے ہیں تو یہ ”‏کمال کا پٹکا“‏ بن جائے گی۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہم اچھے دوست کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں کس صورت میں دوستی ختم کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏

‏• ہمیں مضبوط دوستی برقرار رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

روت اور نعومی کی مضبوط دوستی کی بنیاد کیا تھی؟‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

کیا آپ اکثر دوسروں کے لئے مہمان‌نوازی دکھاتے ہیں؟‏