مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏رُوح میں سرگرم رہو“‏

‏”‏رُوح میں سرگرم رہو“‏

‏”‏رُوح میں سرگرم رہو“‏

‏”‏کوشش کرنے میں سُستی نہ کرو۔‏ رُوح میں سرگرم رہو۔‏ [‏یہوواہ]‏کی غلامی کرتے رہو۔‏“‏—‏روم ۱۲:‏۱۱‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

۱.‏ اسرائیلی جانوروں اور دیگر چیزوں کی قربانیاں کیوں پیش کرتے تھے؟‏

یہوواہ خدا اپنے خادموں کی اُن قربانیوں کی بہت قدر کرتا ہے جو وہ اُس کے لئے اپنی محبت ظاہر کرنے اور اُس کی مرضی پوری کرنے کے لئے خوشی سے دیتے ہیں۔‏ قدیم زمانے میں اُس نے مختلف جانوروں اور دیگر چیزوں کی قربانیوں کو قبول کِیا۔‏ موسوی شریعت کے تحت یہ قربانیاں اسرائیلی اپنے گُناہوں کی معافی اور خدا کی شکرگزاری کے لئے گزرانتے تھے۔‏ لیکن مسیح کی شریعت کے تحت یہوواہ خدا اپنے خادموں سے ایسی قربانیوں کا تقاضا نہیں کرتا ہے۔‏ توپھر مسیحیوں سے کن قربانیوں کی توقع کی جاتی ہے؟‏ اِس کے بارے میں جاننے کے لئے آئیں رومیوں کے نام پولس کے خط کے بارہویں باب پر غور کریں۔‏

ایک زندہ قربانی

۲.‏ مسیحیوں کے طور پر ہمیں کیسی زندگی گزارنی چاہئے،‏ اور اِس میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۲ رومیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲ کو پڑھیں۔‏ اپنے خط کے ابتدائی حصے میں پولس رسول نے واضح کِیا کہ ممسوح مسیحی خواہ وہ یہودی ہوں یا غیرقوم،‏ اپنے کاموں سے نہیں بلکہ ایمان کی بِنا پر خدا کے حضور راستباز ٹھہرتے ہیں۔‏ (‏روم ۱:‏۱۶؛‏ ۳:‏۲۰-‏۲۴‏)‏ اب بارہویں باب میں پولس رسول بیان کرتا ہے کہ مسیحی خدا کی خدمت میں قربانیاں دینے کے لئے تیار رہنے سے اُس کے لئے شکرگزاری کا اظہار کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے کے لئے ہمیں اپنی عقل یعنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے گُناہ کو ورثے میں پایا ہے اور ہم سب ”‏گُناہ اور موت کی شریعت“‏ کے تحت ہیں۔‏ (‏روم ۸:‏۲‏)‏ لہٰذا،‏ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ اور نظریات میں تبدیلی لاتے ہوئے ”‏اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے“‏ جائیں۔‏ (‏افس ۴:‏۲۳‏)‏ بِلاشُبہ،‏ ایسی تبدیلیاں صرف خدا اور اُس کی پاک رُوح کی مدد سے ہی کی جا سکتی ہیں۔‏ لیکن ہمیں ذاتی طور پر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں اِس ”‏جہان کے ہمشکل“‏ نہ بننے کے لئے سخت کوشش کرنی چاہئے۔‏ ہمیں کسی بھی طرح اِس دُنیا کی بداخلاق سوچ،‏ کاموں اور تفریح سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔‏—‏افس ۲:‏۱-‏۳‏۔‏

۳.‏ ہم کیوں مسیحی کارگزاریوں میں حصہ لیتے ہیں؟‏

۳ پولس رسول ہمیں یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے ”‏خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی“‏ معلوم کریں۔‏ ذرا سوچیں کہ ہم کیوں باقاعدگی سے بائبل پڑھتے،‏ اِس پر غوروخوض کرتے،‏ دُعا کرتے،‏ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرتے ہیں؟‏ کیا ہم اِس وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ بزرگ ہمیں ایسا کرنے کی ہدایت دیتے ہیں؟‏ بِلاشُبہ،‏ ہم بزرگوں کی طرف سے دی جانے والی اِن یاددہانیوں کے لئے اُن کے شکرگزار ہوتے ہیں۔‏ لیکن ہم اِن کاموں میں اِس لئے مشغول رہتے ہیں کیونکہ پاک رُوح ہمارے اندر یہوواہ خدا کے لئے محبت ظاہر کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔‏ نیز،‏ ہمیں پورا یقین ہے کہ ایسے کاموں میں حصہ لینے سے ہم خدا کی مرضی کو پورا کر رہے ہیں۔‏ (‏زک ۴:‏۶؛‏ افس ۵:‏۱۰‏)‏ یہ جان کر ہمیں بہت خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ مسیحیوں کے طور پر اپنی ذمہ‌داری کو پورا کرنے سے ہم خدا کی پسندیدگی حاصل کر سکتے ہیں۔‏

مختلف نعمتیں

۴،‏ ۵.‏ مسیحی بزرگوں کو خدا کی طرف سے دی گئی نعمتوں کو کیسے استعمال کرنا چاہئے؟‏

۴ رومیوں ۱۲:‏۶-‏۸،‏ ۱۱ کو پڑھیں۔‏ پولس رسول بیان کرتا ہے کہ ”‏اُس توفیق کے موافق جو ہم کو دی گئی ہمیں طرح‌طرح کی نعمتیں ملیں۔‏“‏ پولس رسول نے جن نعمتوں کا ذکر کِیا اُن میں پیشوائی اور نصیحت کرنا بھی شامل ہے۔‏ یہ نعمتیں خاص طور پر مسیحی بزرگوں کو دی گئیں اور اُنہیں تاکید کی گئی کہ ”‏سرگرمی سے پیشوائی“‏ کریں۔‏

۵ پولس رسول نے یہ واضح کِیا کہ نگہبانوں کو سرگرمی سے تعلیم دینے اور ”‏خدمت“‏ کرنے کی ذمہ‌داری کو پورا کرنا چاہئے۔‏ اِن آیات کے سیاق‌وسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس رسول ایسی ”‏خدمت“‏ کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو ”‏ایک بدن“‏ یعنی کلیسیا کے اندر انجام دی جاتی تھی۔‏ (‏روم ۱۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ یہ خدمت ویسی ہی ہے جیسی اعمال ۶:‏۴ میں بیان کی گئی ہے،‏ جہاں رسولوں نے کہا:‏ ”‏ہم تو دُعا میں اور کلام کی خدمت میں مشغول رہیں گے۔‏“‏ اِس خدمت میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ مسیحی بزرگ اپنی نعمتوں کو کلیسیا کے اراکین کی حوصلہ‌افزائی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔‏ وہ پہلے خود بائبل کا مطالعہ کرتے اور تحقیق کرتے ہیں۔‏ پھر وہ کلیسیا کو تعلیم دینے اور گلّہ‌بانی کرنے سے اِسے راہنمائی اور ہدایت فراہم کرتے ہیں۔‏ یوں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ’‏خدمت میں لگے‘‏ ہوئے ہیں۔‏ پس نگہبانوں کو مستعدی سے اپنی نعمتوں کو استعمال کرنا چاہئے اور ”‏خوشی کے ساتھ“‏ بھیڑوں کی نگہبانی کرنی چاہئے۔‏—‏روم ۱۲:‏۷،‏ ۸؛‏ ۱-‏پطر ۵:‏۱-‏۳‏۔‏

۶.‏ ہم اِس مضمون کی مرکزی آیت رومیوں ۱۲:‏۱۱ میں درج ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۶ پولس رسول مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏کوشش کرنے میں سُستی نہ کرو۔‏ رُوح میں سرگرم رہو۔‏ [‏یہوواہ]‏ کی غلامی کرتے رہو۔‏“‏ (‏روم ۱۲:‏۱۱‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدمتگزاری کے لئے ہمارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے تو ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنے کی اپنی عادات کو تبدیل کرنے اور یہوواہ کی پاک رُوح کے لئے باقاعدگی سے دُعا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم دوبارہ جوش سے خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہوں گے۔‏ (‏لو ۱۱:‏۹،‏ ۱۳؛‏ مکا ۲:‏۴؛‏ ۳:‏۱۴،‏ ۱۵،‏ ۱۹‏)‏ پاک رُوح نے ابتدائی مسیحیوں کو ”‏خدا کے بڑےبڑے کاموں“‏ کا بیان کرنے کی طاقت بخشی تھی۔‏ (‏اعما ۲:‏۴،‏ ۱۱‏)‏ یہ ہمارے اندر بھی جوش سے مُنادی کرنے کا جذبہ پیدا کر سکتی ہے تاکہ ہم ”‏رُوح میں سرگرم“‏ رہیں۔‏

فروتنی

۷.‏ ہمیں فروتنی سے خدمت کیوں کرنی چاہئے؟‏

۷ رومیوں ۱۲:‏۳،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏ ہمیں جو بھی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں وہ خدا کے ”‏توفیق [‏”‏فضل،‏“‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏]‏“‏ کی بدولت ہیں۔‏ پولس رسول نے اپنے ایک دوسرے خط میں بیان کِیا:‏ ”‏ہماری لیاقت خدا کی طرف سے ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۳:‏۵‏)‏ اِس لئے ہمیں اپنی بڑائی نہیں کرنی چاہئے۔‏ ہمیں فروتنی سے اِس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہماری خدمت کے اچھے نتائج کا انحصار ہماری لیاقت پر نہیں بلکہ خدا کی برکت پر ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۳:‏۶،‏ ۷‏)‏ اِس سلسلے میں پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ تُم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنےآپ کو نہ سمجھے۔‏“‏ یہ سچ ہے کہ ہم ایک بہت اہم کام میں حصہ لے رہے ہیں جس سے ہمیں خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏ مگر ہمیں فروتنی سے اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو زیادہ اہم خیال نہیں کرنا چاہئے۔‏

۸.‏ ہم ”‏اپنےآپ کو عقلمند“‏ سمجھنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۸ ہمیں کبھی بھی اپنی کامیابیوں کی وجہ سے خود پر فخر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ”‏خدا .‏ .‏ .‏ بڑھانے والا“‏ ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۳:‏۷‏)‏ پولس رسول بیان کرتا ہے کہ خدا نے کلیسیا کے ہر رُکن کو ”‏اندازہ کے موافق ایمان“‏ تقسیم کِیا ہے۔‏ لہٰذا،‏ خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنے کی بجائے ہمیں اِس بات کی قدر کرنی چاہئے کہ دوسرے اپنے ایمان کے موافق کیا کچھ انجام دے رہے ہیں۔‏ پولس رسول مزید کہتا ہے:‏ ”‏آپس میں یکدل رہو۔‏“‏ ایک اَور خط میں پولس ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ”‏تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک‌دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔‏“‏ (‏فل ۲:‏۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ اِس بات کو تسلیم کرنے کے لئے فروتنی درکار ہے کہ ہمارے بہن‌بھائیوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طریقے سے ہم سے بہتر ہے۔‏ فروتنی ہمیں ”‏اپنےآپ کو عقلمند“‏ سمجھنے سے باز رکھے گی۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم میں سے بعض کو کلیسیا میں کوئی خاص شرف حاصل ہو سکتا ہے۔‏ لیکن ہم سب اُن ”‏ادنیٰ“‏ کاموں کو بھی کرنے سے خوشی حاصل کریں گے جو عام طور پر لوگوں کی توجہ میں نہیں آتے۔‏—‏۱-‏پطر ۵:‏۵‏۔‏

کلیسیا میں اتحاد

۹.‏ پولس رسول نے رُوح سے مسح‌شُدہ مسیحیوں کو ایک بدن سے کیوں تشبِیہ دی؟‏

۹ رومیوں ۱۲:‏۴،‏ ۵،‏ ۹،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏ پولس رسول ممسوح مسیحیوں کو ایک بدن کے اعضا سے تشبِیہ دیتا ہے جو متحد ہو کر اپنے سر یعنی یسوع مسیح کے تحت کام کرتے ہیں۔‏ (‏کل ۱:‏۱۸‏)‏ وہ رُوح سے مسح‌شُدہ تمام مسیحیوں کو یاد دلاتا ہے کہ وہ ایک بدن کے مختلف اعضا ہیں جو فرق‌فرق کام انجام دیتے ہیں۔‏ اگرچہ وہ ”‏بہت سے ہیں“‏ تو بھی وہ ”‏مسیح میں شامل ہو کر ایک بدن ہیں۔‏“‏ پولس رسول نے افسس کے مسیحیوں کو بھی ایسی ہی نصیحت کی:‏ ”‏محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اُس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہو کر ہر طرح سے بڑھتے جائیں۔‏ جس سے سارا بدن ہر ایک جوڑ کی مدد سے پیوستہ ہو کر گٹھ کر اُس تاثیر کے موافق جو بقدرِ ہر حصہ ہوتی ہے اپنےآپ کو بڑھاتا ہے تاکہ محبت میں اپنی ترقی کرتا جائے۔‏“‏—‏افس ۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۰.‏ مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو کن کے اختیار کو تسلیم کرنا چاہئے؟‏

۱۰ اگرچہ یسوع کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ مسیح کے بدن کا حصہ نہیں ہیں تو بھی وہ اِس تمثیل سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۶‏)‏ پولس رسول بیان کرتا ہے کہ یہوواہ خدا نے ”‏سب کچھ [‏مسیح]‏ کے پاؤں تلے کر دیا اور اُس کو سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیا کو دے دیا۔‏“‏ (‏افس ۱:‏۲۲‏)‏ آجکل اَور بھی بھیڑیں اُن ”‏سب چیزوں“‏ میں شامل ہیں جنہیں یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کے تحت کر دیا ہے۔‏ وہ اُس ”‏مال“‏ کا بھی حصہ ہیں جسے مسیح نے ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کے سُپرد کِیا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ لہٰذا،‏ زمینی اُمید رکھنے والوں کو مسیح کو اپنا سر تسلیم کرنا چاہئے۔‏ اُنہیں دیانتدار اور عقلمند نوکر اور اُس کی گورننگ باڈی نیز کلیسیا میں مقرر نگہبانوں کے تابع بھی رہنا چاہئے۔‏ (‏عبر ۱۳:‏۷،‏ ۱۷‏)‏ اِس سے کلیسیا میں اتحاد کو فروغ ملتا ہے۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ ہمارے اتحاد کی بنیاد کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول نے محبت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اَور کون سی نصیحت دی؟‏

۱۱ کلیسیا میں پائے جانے والے اتحاد کی بنیاد محبت ہے جو ”‏کمال کا پٹکا“‏ ہے۔‏ (‏کل ۳:‏۱۴‏)‏ رومیوں ۱۲ باب میں پولس رسول اِس بات پر زور دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ہماری محبت کو ”‏بےریا“‏ ہونا چاہئے۔‏ نیز،‏ ہمیں ”‏برادرانہ محبت سے آپس میں ایک‌دوسرے کو پیار“‏ کرنا چاہئے۔‏ اِس محبت کی بِنا پر کلیسیا کا ہر رکن ایک‌دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آئے گا۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏عزت کی رُو سے ایک‌دوسرے کو بہتر سمجھو۔‏“‏ لیکن محبت رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسروں کی سنگین غلطیوں کو نظرانداز کر دیں۔‏ ہمیں کلیسیا کو پاک‌صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔‏ محبت کے بارے میں بات کرتے ہوئے پولس رسول نے یہ نصیحت بھی دی:‏ ”‏بدی سے نفرت رکھو۔‏ نیکی سے لپٹے رہو۔‏“‏

مسافرپروری

۱۲.‏ مسافرپروری کے سلسلے میں ہم مکدنیہ کے مسیحیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۲ رومیوں ۱۲:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏ جب ہم اپنے بہن‌بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں تو ہمارے اندر ”‏مُقدسوں کی احتیاجیں رفع“‏ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‏ یہاں تک کہ اگر ہم غریب ہیں توبھی ہم اُن کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‏ مکدنیہ کے مسیحیوں کو لکھتے ہوئے پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏مصیبت کی بڑی آزمایش میں اُن کی بڑی خوشی اور سخت غریبی نے اُن کی سخاوت کو حد سے زیادہ کر دیا۔‏ اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اُنہوں نے مقدور کے موافق بلکہ مقدور سے بھی زیادہ اپنی خوشی سے دیا۔‏ اور اِس خیرات اور مُقدسوں کی خدمت کی شراکت کی بابت ہم سے بڑی مِنت کے ساتھ درخواست کی۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۸:‏۲-‏۴‏)‏ مکدنیہ میں رہنے والے مسیحی غریب ہونے کے باوجود فیاضی سے دوسروں کی مدد کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے یہودیہ کے ضرورت‌مند بھائیوں کی مدد کرنے کو ایک شرف خیال کِیا۔‏

۱۳.‏ اصطلاح ”‏مسافرپروری میں لگے رہو“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۳ اصطلاح ”‏مسافرپروری میں لگے رہو“‏ ایک یونانی اصطلاح کا ترجمہ ہے جو مہمان‌نوازی دکھانے میں پہل کرنے کا مفہوم پیش کرتی ہے۔‏ دی نیو جیروشلم بائبل اِس اصطلاح کا ترجمہ یوں کرتی ہے،‏ ”‏مہمان‌نوازی دکھانے کے موقعوں کی تلاش میں رہیں۔‏“‏ ہم دوسروں کو کھانے کی دعوت دینے سے مسافرپروری یا مہمان‌نوازی دکھا سکتے ہیں اور جب محبت کی بِنا پر ایسا کِیا جاتا ہے تو یہ واقعی قابلِ‌تعریف بات ہے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہم مہمان‌نوازی دکھانے کے دیگر موقعوں کی بھی تلاش کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم اپنے حالات کی وجہ سے کسی کو کھانے پر نہیں بلا سکتے تو کیا ہم اُس کو اپنے ساتھ چائے یا کافی وغیرہ پینے کی دعوت دے سکتے ہیں؟‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏مسافرپروری“‏ کِیا گیا ہے وہ کن الفاظ سے مل کر بنا ہے؟‏ (‏ب)‏ مُنادی کے دوران ہم اجنبیوں کے لئے فکر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏مسافرپروری“‏ کِیا گیا ہے وہ دراصل دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جن کا مطلب ”‏محبت“‏ اور ”‏اجنبی“‏ ہے۔‏ اِس کے پیشِ‌نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اجنبیوں یا پردیسیوں کے بارے میں کیسے احساسات رکھتے ہیں؟‏ بعض مسیحی کوئی دوسری زبان سیکھتے ہیں تاکہ دوسرے ممالک سے اُن کی کلیسیا کے علاقے میں منتقل ہونے والے لوگوں کو مُنادی کر سکیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ اُن کے لئے مہمان‌نوازی دکھاتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ ہم میں سے زیادہ‌تر کے لئے اپنے حالات کی وجہ سے کوئی دوسری زبان سیکھنا ممکن نہیں ہے۔‏ لیکن ہم ایسے لوگوں کی مدد کے لئے کتابچہ گڈ نیوز فار پیپل آف آل نیشنز استعمال کر سکتے ہیں جس میں مختلف زبانوں میں بائبل سے ایک پیغام دیا گیا ہے۔‏ کیا آپ کو اِس کتابچے کو خدمتگزاری میں استعمال کرنے سے اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں؟‏

دوسروں کے احساسات کو سمجھیں

۱۵.‏ رومیوں ۱۲:‏۱۵ میں درج نصیحت کے سلسلے میں یسوع مسیح نے کیسے مثال قائم کی؟‏

۱۵ رومیوں ۱۲:‏۱۵ کو پڑھیں۔‏ اِس آیت میں پولس رسول مسیحیوں کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اُن کے لئے ہمدردی دکھائیں۔‏ اگر ہم رُوح میں سرگرم رہتے ہیں تو لوگ یہ دیکھنے کے قابل ہوں گے کہ ہم اُن کی خوشی اور غم کو محسوس کرتے ہیں۔‏ جب یسوع کے ۷۰ شاگرد مُنادی کے بعد خوشی‌خوشی واپس آئے اور اپنے کام کے اچھے نتائج کے بارے میں بتایا تو وہ ”‏روحُ‌القدس سے خوشی میں بھر گیا۔‏“‏ (‏لو ۱۰:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ اُن کی خوشی میں شامل ہوا۔‏ اِس کے برعکس،‏ جب اُس نے لعزر کی موت پر لوگوں کو روتے دیکھا تو اُس کی آنکھوں سے ”‏آنسو بہنے لگے۔‏“‏—‏یوح ۱۱:‏۳۲-‏۳۵‏۔‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ہم دوسروں کے لئے ہمدردی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خاص طور پر کن کو ہمدردی ظاہر کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۶ ہمیں بھی یسوع مسیح کی طرح دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ جب ہمارا کوئی بہن‌بھائی خوش ہوتا ہے تو ہمیں اُس کی خوشی میں شریک ہونا چاہئے۔‏ اِسی طرح اگر کوئی بہن‌بھائی اُداس یا پریشان ہے تو ہمیں اُس کے لئے ہمدردی دکھانی چاہئے۔‏ جب ہمارا کوئی بہن‌بھائی جذباتی طور پر پریشان ہوتا ہے تو ہم اُس کی بات کو سننے کے لئے وقت نکال سکتے اور یوں اُسے تسلی دے سکتے ہیں۔‏ بعض‌اوقات تو شاید ہم اپنے بہن‌بھائیوں کی پریشانیوں کو اِس حد تک محسوس کرتے ہیں کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطر ۱:‏۲۲‏)‏ خاص طور پر بزرگوں کو ہمدردی ظاہر کرنے کے سلسلے میں پولس رسول کی نصیحت پر عمل کرنا چاہئے۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ ہم نے ابھی تک رومیوں ۱۲ باب سے کیا سیکھا ہے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۱۷ ہم نے ابھی تک رومیوں ۱۲ باب کی جن آیات پر غور کِیا ہے،‏ اِن میں ہمیں مسیحیوں کے طور پر اپنی ذاتی زندگی اور بہن‌بھائیوں کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم اِس باب کی باقی آیات پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے جو مسیحی کلیسیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہمیں مخالفین کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے۔‏

اپنی یاد کو تازہ کریں

‏• ہم یہ کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ”‏رُوح میں سرگرم“‏ ہیں؟‏

‏• ہمیں کیوں فروتنی سے خدا کی خدمت کرنی چاہئے؟‏

‏• ہم کن طریقوں سے کلیسیائی بہن‌بھائیوں کے لئے ہمدردی ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویریں]‏

ہم اِن مسیحی کارگزاریوں میں حصہ کیوں لیتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

ہم بادشاہت کے بارے میں سیکھنے کے لئے اجنبیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏