ہماری دُعائیں اور یہوواہ کے ساتھ ہماری قُربت
ہماری دُعائیں اور یہوواہ کے ساتھ ہماری قُربت
”اَے دُعا کے سننے والے! سب بشر تیرے پاس آئیں گے۔“—زبور ۶۵:۲۔
۱، ۲. یہوواہ کے خادم کیوں اعتماد کے ساتھ اُس سے دُعا کر سکتے ہیں؟
یہوواہ خدا ہمیشہ اپنے وفادار خادموں کی دُعائیں ضرور سنتا ہے۔ اگر ایک وقت میں یہوواہ کے لاکھوں گواہ بھی اُس سے دُعا کریں تو وہ اُن کی دُعاؤں کو سن سکتا ہے۔
۲ زبورنویس داؤد کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ خدا ہمیشہ اُس کی التجائیں سنتا ہے۔ اِس لئے اُس نے گیت گایا: ”اَے دُعا کے سننے والے! سب بشر تیرے پاس آئیں گے۔“ (زبور ۶۵:۲) داؤد یہوواہ کا وفادار خادم تھا اِس لئے یہوواہ نے اُس کی دُعاؤں کا جواب دیا۔ ہم بھی خود سے پوچھ سکتے ہیں: ’کیا میری دُعائیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مَیں یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتا ہوں اور اُس کی عبادت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتا ہوں؟ کیا میری دُعاؤں سے یہوواہ خدا کے ساتھ میری قُربت ظاہر ہوتی ہے؟‘
خاکساری سے دُعا کریں
۳، ۴. (ا) ہمیں دُعا کرتے وقت کونسی خوبی ظاہر کرنی چاہئے؟ (ب) اگر ہم کسی سنگین گُناہ کی وجہ سے پریشان ہوں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۳ اپنی دُعاؤں کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں خاکساری سے دُعا کرنی چاہئے۔ (زبور ۱۳۸:۶) داؤد نے یہوواہ سے درخواست کی: ”اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان؛ مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے۔ دیکھ، مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں، اور مجھے ابدی راہ میں لے چل۔“ (زبور ۱۳۹:۲۳، ۲۴، نیو اُردو بائبل ورشن۔) داؤد کی طرح ہمیں بھی خدا سے یہ التجا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں جانچے۔ اِس کے علاوہ، ہمیں اُس کے کلام سے ملنے والی راہنمائی کو بھی قبول کرنا چاہئے۔ یہوواہ خدا ہمیں ”ابدی راہ“ پر لے جا سکتا ہے جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث بنتی ہے۔
۴ اگر ہمارے دل میں بھی کسی سنگین گُناہ کی وجہ سے ”مضطرب“ یعنی پریشان کرنے والے خیالات پیدا ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ (زبور ۳۲:۱-۵ کو پڑھیں۔) اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جس طرح ایک درخت شدید گرمی کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے اُسی طرح گُناہ کے احساس کو دبانے سے ہم کمزور پڑ سکتے ہیں۔ داؤد اپنے گُناہ کی وجہ سے اپنی خوشی کھو بیٹھا اور اِس حد تک پریشان ہوگیا کہ بیمار پڑ گیا۔ لیکن خدا کے حضور اپنے گُناہ کا اقرار کرنے سے اُسے بہت سکون ملا۔ ذرا تصور کریں کہ جب داؤد کو یہ محسوس ہوا کہ یہوواہ خدا نے اُس کی ’خطا بخش‘ دی ہے تو وہ کتنا خوش ہوا ہوگا! یہ سچ ہے کہ خدا کے حضور اپنے گُناہوں کا اقرار کرنا اطمینان کا باعث ہو سکتا ہے مگر ایک خطاکار شخص کو دوبارہ خدا کی نزدیکی حاصل کرنے کے لئے کلیسیا کے بزرگوں سے مدد بھی لینی چاہئے۔—امثا ۲۸:۱۳؛ یعقو ۵:۱۳-۱۶۔
خدا کی مِنت اور شکرگزاری کریں
۵. یہوواہ سے مِنت کرنے کا کیا مطلب ہے؟
۵ اگر ہم کسی وجہ سے پریشان ہیں تو ہمیں پولس رسول کی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“ (فل ۴:۶) ”مِنت“ سے مُراد ”خاکساری اور خلوصدلی کے ساتھ مانگنا“ ہے۔ خاص طور پر ہمیں اذیت کے وقت میں مدد اور راہنمائی کے لئے یہوواہ سے مِنت کرنی چاہئے۔
۶، ۷. ہمیں کن وجوہات کی بِنا پر دُعا میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے؟
۶ اگر ہم صرف ضرورت کے وقت ہی دُعا کرتے ہیں تو اِس سے ہماری نیت کے بارے میں کیا ظاہر ہوگا؟ پولس رسول نے کہا کہ ہمیں اپنی درخواستیں خدا کے حضور ”شکرگزاری کے ساتھ“ پیش کرنی چاہئیں۔ ہم بھی داؤد جیسے احساسات کا اظہار کر سکتے ہیں: ”اَے [یہوواہ] عظمت اور ۱-توا ۲۹:۱۱-۱۳۔
قدرت اور جلال اور غلبہ اور حشمت تیرے ہی لئے ہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے تیرا ہے۔ اَے[یہوواہ]بادشاہی تیری ہے اور تُو ہی بحیثیتِسردار سبھوں سے ممتاز ہے۔ . . . اَے ہمارے خدا ہم تیرا شکر اور تیرے جلالی نام کی تعریف کرتے ہیں۔“—۷ یسوع ہمیشہ کھانے کے لئے خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔ اپنے آخری کھانے کے وقت بھی اُس نے روٹی اور مے کے لئے خدا کا شکر ادا کِیا تھا۔ (متی ۱۵:۳۶؛ مر ۱۴:۲۲، ۲۳) کھانے کے علاوہ ہمیں ”بنی آدم کے لئے اُس کے عجائب“ اور ”صداقت کے احکام“ کے لئے یہوواہ کا ”شکر“ ادا کرنا چاہئے۔ ہم بائبل میں درج اُس کے کلام یا پیغام کے لئے بھی شکرگزار ہو سکتے ہیں۔—زبور ۱۰۷:۱۵؛ ۱۱۹:۶۲، ۱۰۵۔
دوسروں کے لئے دُعا کریں
۸، ۹. ہمیں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے کیوں دُعا کرنی چاہئے؟
۸ ہم اپنے لئے تو دُعا کرتے ہی ہیں مگر ہمیں دوسرے مسیحیوں کے لئے بھی دُعا کرنی چاہئے یہاں تک کہ اُن کے لئے بھی جنہیں ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے۔ اگرچہ پولس رسول کُلسّے کے تمام مسیحیوں سے واقف نہیں تھا توبھی اُس نے لکھا: ”ہم تمہارے حق میں ہمیشہ دُعا کرکے اپنے خداوند یسوؔع مسیح کے باپ یعنی خدا کا شکر کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ مسیح یسوؔع پر تمہارا ایمان ہے اور سب مُقدس لوگوں سے محبت رکھتے ہو۔“ (کل ۱:۳، ۴) پولس نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کے لئے بھی دُعا کی تھی۔ (۲-تھس ۱:۱۱، ۱۲) ایسی دُعاؤں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
۹ ممسوح مسیحیوں اور اُن کے ساتھ کام کرنے والی ’اَور بھی بھیڑوں‘ کے لئے دُعا کرنے سے ہم خدا کی تنظیم کے لئے اپنی حمایت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ (یوح ۱۰:۱۶) پولس رسول نے افسس کے مسیحیوں سے درخواست کی کہ وہ اُس کے لئے دُعا کریں ’تاکہ اُسے کلام کرنے کی توفیق ہو جس سے وہ خوشخبری کے بھید کو دلیری سے ظاہر کر سکے۔‘ (افس ۶:۱۷-۲۰) کیا ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے ایسے ہی دُعا کرتے ہیں؟
۱۰. دوسروں کے لئے دُعا کرنا ہم پر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟
۱۰ دوسروں کے لئے دُعا کرنا اُن کے بارے میں ہماری سوچ کو بدل سکتا ہے۔ مثلاً، اگر ہم کسی شخص کو پسند نہیں کرتے مگر اُس کے لئے دُعا کرتے ہیں تو اُس کے بارے میں ہمارے دل میں کوئی ناراضگی نہیں رہے گی۔ (۱-یوح ۴:۲۰، ۲۱) ایسی دُعائیں ہمارے اتحاد کو بڑھاتی اور ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ اِن دُعاؤں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے اندر مسیح جیسی محبت ہے جو پاک رُوح کے پھل میں شامل ہے۔ (یوح ۱۳:۳۴، ۳۵) کیا ہم خدا کی پاک رُوح کے لئے دُعا کرتے ہیں تاکہ ہم محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم اور پرہیزگاری جیسی خوبیاں ظاہر کر سکیں؟ (لو ۱۱:۱۳؛ گل ۵:۲۲، ۲۳) اگر ایسا ہے تو ہماری باتوں اور کاموں سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہم رُوح کے موافق زندگی گزار رہے ہیں۔—گلتیوں ۵:۱۶، ۲۵ کو پڑھیں۔
۱۱. دوسروں سے یہ کہنا کیوں مناسب ہے کہ وہ ہمارے لئے دُعا کریں؟
۱۱ اگر ہمارے بچے امتحانوں میں نقل کرنے کی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں تو ہمیں اُن کے لئے دُعا کرنی چاہئے۔ نیز، ہمیں اُنہیں صحائف میں ۲-کر ۱۳:۷) عاجزی کے ساتھ کی جانے والی دُعائیں یہوواہ خدا کو خوش کرتی اور اُس کی قُربت حاصل کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ (امثال ۱۵:۸ کو پڑھیں۔) پولس رسول کی طرح ہم بھی دوسروں سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے دُعا کریں۔ اُس نے لکھا: ”ہمارے واسطے دُعا کرو کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا دل صاف ہے اور ہم ہر بات میں نیکی [”دیانتداری،“ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن] کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔“—عبر ۱۳:۱۸۔
سے مدد فراہم کرنی چاہئے تاکہ وہ دیانتدار رہیں اور کوئی غلط کام نہ کریں۔ پولس رسول نے کرنتھس کے مسیحیوں کو بتایا: ”ہم خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ تُم کچھ بدی نہ کرو۔“ (ہماری دُعائیں اَور کیا ظاہر کرتی ہیں؟
۱۲. ہمیں کن باتوں کے بارے میں دُعا کرنی چاہئے؟
۱۲ کیا ہماری دُعاؤں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم یہوواہ کے ایک پُرجوش گواہ ہیں؟ کیا ہم اپنی دُعاؤں میں اُن باتوں کو خاص طور پر شامل کرتے ہیں جنہیں یسوع نے نمونے کی دُعا میں اہمیت دی تھی؟ اِس دُعا میں یسوع نے کہا: ”اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۶:۹، ۱۰) پس ہمیں بھی خدا سے یہ دُعا کرنی چاہئے کہ ہم اُس کی مرضی پوری کرنے اور اُس کی بادشاہت کی مُنادی کرنے کے قابل ہوں۔ نیز یہ کہ ہم خدا کی حکمرانی کی حمایت کریں اور اُس کے نام کو جلال دیں۔
۱۳، ۱۴. ہماری دُعاؤں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۱۳ ہماری دُعاؤں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سوچ اور خواہشات کیا ہیں۔ یہوواہ خدا ہماری شخصیت سے واقف ہے۔ امثال ۱۷:۳ کہتی ہے: ”چاندی کے لئے کٹھالی ہے اور سونے کے لئے بھٹی پر دلوں کو [یہوواہ] پرکھتا ہے۔“ جیہاں، خدا ہمارے دل کے ارادوں کو جانچتا ہے۔ (۱-سمو ۱۶:۷) وہ جانتا ہے کہ ہم اجلاسوں، مُنادی اور اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے متعلق کیا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اِس بات سے بھی باخبر ہے کہ ہم مسیح کے ”بھائیوں“ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ (متی ۲۵:۴۰) اُسے یہ معلوم ہے کہ آیا ہم خلوصدلی سے دُعا کرتے ہیں یا محض رٹے ہوئے الفاظ کو دُہراتے رہتے ہیں۔ یسوع نے کہا: ”دُعا کرتے وقت غیرقوموں کے لوگوں کی طرح بکبک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سنی جائے گی۔“—متی ۶:۷۔
۱۴ ہماری دُعاؤں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خدا پر کتنا بھروسا رکھتے ہیں۔ داؤد نے کہا: ”[یہوواہ] میری پناہ رہا ہے اور دشمن سے بچنے کے لئے اُونچا بُرج۔ مَیں ہمیشہ تیرے خیمہ میں رہوں گا۔ مَیں تیرے پروں کے سایہ میں پناہ لوں گا۔“ (زبور ۶۱:۳، ۴) جب خدا ’اپنے خیمہ کو ہم پر تانتا ہے‘ تو ہمیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ (مکا ۷:۱۵) واقعی اِس اعتماد کے ساتھ یہوواہ سے دُعا کرنا کتنا تسلیبخش ہے کہ وہ ہمارے ایمان کی ہر آزمائش میں ’ہماری طرف‘ ہے!—زبور ۱۱۸:۵-۹ کو پڑھیں۔
۱۵، ۱۶. اگر ہم کلیسیا میں کوئی شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دُعا کیسے ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۱۵ جب ہم یہوواہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں جانچے تو نیکنیتی کے ساتھ اُس کی خدمت کرنے میں ہماری مدد ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم کلیسیا میں کوئی خاص شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اِس کے پیچھے ہمارا مقصد کیا ہے؟ کیا ہم بادشاہت اور کلیسیا کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں؟ یا کیا ہم ”بڑا بننا“ اور دوسروں پر ’حکومت چلانا‘ چاہتے ہیں؟ یہوواہ کے لوگوں کے درمیان ایسا (۳-یوحنا ۹، ۱۰؛ لوقا ۲۲:۲۴-۲۷ کو پڑھیں۔) اگر ہماری نیت غلط ہے تو ہمیں دُعا میں یہوواہ کے سامنے دیانتداری سے اِس کا اقرار کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے یہوواہ خدا ہمیں اپنی نیت کو دُرست کرنے میں مدد دے گا۔
نہیں ہونا چاہئے۔۱۶ مسیحی بیویاں شاید یہ چاہتی ہوں کہ اُن کے شوہر کلیسیا میں خادم یا بزرگ کے طور پر خدمت انجام دیں۔ جب وہ اِس کے لئے دُعا کرتی ہیں تو پھر اُنہیں اپنی دُعا کے مطابق عمل کرتے ہوئے کلیسیا میں ایک اچھی مثال بھی قائم کرنی چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ ایک شخص کے خاندان کا چالچلن اِس بات پر اثرانداز ہو سکتا ہے کہ کلیسیا میں بہنبھائی اُس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
دوسروں کے سامنے دُعا کرتے وقت
۱۷. دُعا کے لئے تنہائی کیوں فائدہمند ہوتی ہے؟
۱۷ یسوع اکثر الگ جا کر اپنے باپ سے دُعا کِیا کرتا تھا۔ (متی ۱۴:۱۳؛ لو ۵:۱۶؛ ۶:۱۲) ہمیں بھی دُعا کے لئے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم پُرسکون ماحول میں دُعا کرتے ہیں تو ہم ایسے فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے جو یہوواہ کو خوش کرنے اور روحانی طور پر مضبوط رہنے میں ہماری مدد کریں گے۔ لیکن یسوع نے دوسروں کے سامنے بھی دُعائیں کی تھیں۔ اِس لئے اِس بات پر غور کرنا اچھا ہوگا کہ ہم دوسروں کے سامنے مناسب انداز میں دُعا کیسے کر سکتے ہیں۔
۱۸. دوسروں کے سامنے دُعا کرتے وقت بھائیوں کو کن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟
۱۸ ہمارے اجلاسوں پر روحانی طور پر پُختہ بھائی دُعا میں کلیسیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ (۱-تیم ۲:۸) دُعا کے آخر میں کلیسیا کے تمام ارکان ”آمین“ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ”ایسا ہی ہو۔“ لیکن اِس کے لئے اُنہیں دُعا میں کہی گئی باتوں کے ساتھ پورے دل سے متفق بھی ہونا چاہئے۔ یسوع نے جو دُعا سکھائی اُس میں کوئی قابلِاعتراض بات نہیں تھی۔ (لو ۱۱:۲-۴) اُس نے اپنے سامعین میں سے ہر ایک کی ضروریات یا مسائل کا ذکر نہیں کِیا تھا۔ لہٰذا، ذاتی مشکلات کا ذکر دوسروں کے سامنے نہیں بلکہ ذاتی دُعاؤں میں ہی کِیا جانا چاہئے۔ جب ہم کلیسیا میں دُعا کرتے ہیں تو ہمیں ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرنا چاہئے جو بزرگوں کے علاوہ کسی اَور کے علم میں نہیں ہونی چاہئیں۔
۱۹. ہم دُعا کے دوران دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۹ جب کوئی بھائی دُعا میں کلیسیا کی نمائندگی کرتا ہے تو حاضرین کو ’خدا سے ڈرنا‘ یعنی اُس کے لئے احترام ظاہر کرنا چاہئے۔ (۱-پطر ۲:۱۷) بعض کام ایسے ہیں جو مسیحی اجلاسوں پر مناسب نہیں ہوتے۔ (واعظ ۳:۱) مثال کے طور پر، بعض لوگوں کی عادت ہے کہ وہ دُعا کے دوران ایکدوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ یہ کچھ بہنبھائیوں اور نئے آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنے ماحول کے مطابق بعض شادیشُدہ جوڑے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایکدوسرے کی کمر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں تو یہ دوسروں کو ناگوار لگ سکتا ہے۔ شاید وہ سوچیں کہ یہ جوڑا یہوواہ خدا کی تعظیم کی بجائے ایکدوسرے کے لئے اپنے جذبات پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ پس آئیں یہوواہ خدا کے لئے احترام دکھاتے ہوئے ’سب کچھ اُس کے جلال کے لئے کریں‘ اور دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔—۱-کر ۱۰:۳۱، ۳۲؛ ۲-کر ۶:۳۔
کن باتوں کے لئے دُعا کریں؟
۲۰. رومیوں ۸:۲۶، ۲۷ کی وضاحت کریں۔
۲۰ پولس رسول نے لکھا: ”ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کس چیز کے لئے دُعا کریں لیکن [پاک] رُوح خود ایسی آہیں بھربھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے کہ لفظوں میں اُن کا بیان نہیں ہو سکتا۔ اور [خدا] جو ہمارے دِلوں کو پرکھتا ہے رُوح کی نیت کو جانتا ہے۔“ (روم ۸:۲۶، ۲۷، نیو اُردو بائبل ورشن۔) بعضاوقات شاید ہم یہ نہیں جانتے کہ اپنی ذاتی دُعاؤں میں کیا مانگیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہماری ضروریات سے واقف ہے اِس لئے اُس نے اپنی پاک رُوح کے ذریعے بائبل میں بہت سی دُعائیں درج کرائی ہیں۔ وہ اِن دُعاؤں کو گویا ہماری دُعائیں خیال کرتا ہے اور اُن کا جواب بھی دیتا ہے۔ جیہاں، جب رُوح ہماری خاطر ”شفاعت“ کرتی ہے تو یہوواہ ہماری اُن دُعاؤں کا بھی جواب دیتا ہے جن کا اظہار کرنا ہم مشکل پاتے ہیں۔ لیکن خدا کے کلام کا علم حاصل کرنے سے ہم بہتر طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمیں دُعا میں کیا مانگنا چاہئے۔
۲۱. اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۲۱ ہماری دُعاؤں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم یہوواہ کے کتنے قریب ہیں اور اُس کے پاک کلام کو کتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ (یعقو ۴:۸) اگلے مضمون میں ہم بائبل میں درج بعض دُعاؤں پر غور کریں گے۔ ہم اِس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ یہ دُعائیں ہماری دُعاؤں پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہیں۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
• یہوواہ سے دُعا کرتے وقت ہمیں کون سی خوبی ظاہر کرنی چاہئے؟
• ہمیں اپنے بہنبھائیوں کے لئے کیوں دُعا کرنی چاہئے؟
• ہماری دُعائیں ہماری سوچ اور خواہشات کے بارے میں کیا ظاہر کر سکتی ہیں؟
• ہم کلیسیا میں کی جانے والی دُعا کے دوران دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
کیا آپ باقاعدگی سے خدا کی حمد اور شکرگزاری کرتے ہیں؟
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
کلیسیا میں دُعا کے دوران ہمیں یہوواہ کے لئے احترام دکھانا چاہئے