پہلا عقیدہ: انسان کی موت کے بعد رُوح زندہ رہتی ہے
پہلا عقیدہ: انسان کی موت کے بعد رُوح زندہ رہتی ہے
اِس جھوٹ کا آغاز کہاں سے ہوا؟ دی نیو انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا (۱۹۸۸) کی گیارھویں جِلد کے صفحہ ۲۵ پر بیان کِیا گیا ہے کہ یونانی لوگ یہ مانتے تھے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اُس میں رُوح ڈالی جاتی ہے جو کبھی نہیں مرتی۔ ابتدائی مسیحی عالموں نے بھی اِس عقیدے کو اَپنا لیا تھا۔
بائبل کی تعلیم کیا ہے؟ ”وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ اُسی دن اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔“—زبور ۱۴۶:۴۔
کیا انسان میں ”رُوح“ ہوتی ہے جو جسم کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے؟ بائبل بتاتی ہے کہ خدا نے انسانوں اور جانوروں کو ایک ایسی قوت سے نوازا ہے جو سانس لینے سے قائم رہتی ہے۔ یہی قوت زندگی کو برقرار رکھتی ہے۔ تاہم، جب انسان یا جانور سانس لینا بند کر دیتا ہے تو زندگی کو قائم رکھنے والی یہ قوت بھی ختم ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ پھر اُسے کسی بھی چیز کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔—پیدایش ۳:۱۹؛ واعظ ۳:۱۹-۲۱؛ ۹:۵۔
اِس عقیدے کی وجہ سے کہ انسان کی موت کے بعد رُوح زندہ رہتی ہے کچھ سوال پیدا ہوئے: انسان کے مرنے کے بعد رُوح کہاں جاتی ہے؟ جب بُرے لوگ مرتے ہیں تو اُن کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟ پس، موت کے بعد رُوح کے زندہ رہنے کا عقیدہ اَپنا کر مسیحی ایک اَور جھوٹے عقیدے کا شکار ہو گئے کہ بُرے لوگ دوزخ میں عذاب اُٹھاتے ہیں۔
بائبل کی اِن آیات پر غور کریں: پیدائش ۲:۷؛ اعمال ۳:۲۳
سچ یہ ہے:
موت کے بعد انسان کا کوئی وجود نہیں رہتا