یہوواہ کی حکمرانی دُرست اور کامیاب!
یہوواہ کی حکمرانی دُرست اور کامیاب!
”حقتعالیٰ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے“—دان ۴:۱۷۔
۱، ۲. انسانی حکومت کے ناکام ہونے کی بعض وجوہات کیا ہیں؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی حکمرانی ناکام ہو چکی ہے۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانوں میں کامیابی سے حکومت کرنے کی حکمت ہی نہیں ہے۔ خاص طور پر آجکل انسانی حکمرانی کی ناکامی اَور بھی واضح ہو گئی ہے۔ کیونکہ زیادہتر حکمران ’خودغرض، زردوست، شیخی باز، مغرور، بدگو، سنگدل، تہمت لگانے والے، بےضبط، تُندمزاج، نیکی کے دُشمن، دغاباز اور گھمنڈ کرنے والے ہیں۔‘—۲-تیم ۳:۲-۴۔
۲ ہزاروں سال پہلے باغِعدن میں آدم اور حوا نے خدا کی حکمرانی کو رد کر دیا تھا۔ ایسا کرنے سے اُنہیں شاید یہ لگا ہو کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ شیطان کی حکمرانی کے تابع ہو گئے تھے۔ چھ ہزار سال سے انسان اِس ’دُنیا کے سردار‘ یعنی شیطان کے زیرِاثر حکومت کر رہے ہیں۔ مگر اب حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں۔ (یوح ۱۲:۳۱) موجودہ حالات کے بارے میں ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ ”پُرامن اور خوشحال دُنیا کی اُمید رکھنا بےکار ہے۔ . . . اِس دُنیا میں امن اور خوشحالی لانا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ایسا کرنے کی کوشش بھی اکثر تباہی، جنگ اور ظلم کا باعث بنتی ہے۔“ (دی آکسفورڈ ہیسٹری آف دی ٹوینٹیتھ سینچری) یہ بیان اِس سچ کی مزید حمایت کرتا ہے کہ انسانی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔
۳. اگر آدم اور حوا گُناہ نہ کرتے تو خدا کی حکمرانی کے تحت حالات کیسے ہوتے؟
۳ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے خدا کی حکمرانی اعما ۱۰:۳۴؛ ۱-یوح ۴:۸) یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر آدم اور حوا خدا کی حکمرانی کے تابع رہتے تو انسانوں کو اُن تمام مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو انسانی حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ خدا کی حکمرانی نے بڑی کامیابی سے ”ہر جاندار کی خواہش پوری“ کی ہوتی۔ (زبور ۱۴۵:۱۶) اِس حکمرانی کے تحت کوئی دُکھ اور تکلیف نہ ہوتی۔ (است ۳۲:۴) واقعی یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ انسانوں نے ایسی حکمرانی کو ٹھکرا دیا۔
کو ٹھکرا دیا۔ حالانکہ یہی حکمرانی انسانوں کو ابدی برکات دے سکتی تھی۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ آدم اور حوا کے وفادار رہنے کی صورت میں یہوواہ خدا نے زمین کا انتظام کیسے چلایا ہوتا۔ مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے محبت اور انصاف سے حکمرانی کی ہوتی۔ (۴. شیطان کو کس حد تک حکمرانی کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟
۴ یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا نے انسانوں کو اپنی مرضی سے حکومت کرنے کی اجازت دی۔ لیکن اُس نے اپنا حکمرانی کرنے کا حق کبھی بھی چھوڑا نہیں تھا۔ بابل کے طاقتور بادشاہ کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا تھا کہ ”حقتعالیٰ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے۔“ (دان ۴:۱۷) شیطان کو کچھ عرصے کے لئے ’اِس جہان کا خدا‘ بن بیٹھنے کی اجازت دینے کا مقصد یہ تھا کہ اُس کے اُٹھائے گئے تمام اعتراضات کا ٹھوس جواب دیا جا سکے۔ (۲-کر ۴:۴؛ ۱-یوح ۵:۱۹) اِس تمام عرصے کے دوران شیطان کبھی بھی یہوواہ خدا کی مقررہ حد سے باہر نہیں جا سکا۔ (۲-توا ۲۰:۶؛ ایوب ۱:۱۱، ۱۲؛ ۲:۳-۶ پر غور کریں۔) ہر زمانے میں ایسے لوگ ہو گزرے ہیں جو شیطان کی دُنیا میں رہنے کے باوجود خدا کے وفادار رہے۔ پس، اِن حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالآخر خدا ہی کی مرضی اُس کی بادشاہت کے ذریعے پوری ہو گی۔—متی ۶:۱۰۔
اسرائیل پر خدا کی حکمرانی
۵. اسرائیلیوں نے خدا سے کیا وعدہ کِیا تھا؟
۵ ہابل سے اسرائیلی قوم کے آغاز تک بہتیرے ایماندار لوگوں نے یہوواہ خدا کی عبادت اور فرمانبرداری کی ہے۔ (عبر ۱۱:۴-۲۲) موسیٰ کے زمانے میں یہوواہ خدا نے یعقوب یعنی اسرائیل کی اولاد کے ساتھ عہد باندھ کر اُنہیں اپنی قوم بنا لیا۔ سن ۱۵۱۳ قبلازمسیح میں اسرائیلیوں نے اپنے بالبچوں سمیت یہوواہ خدا کو اپنا حکمران تسلیم کِیا اور یہ وعدہ کِیا: ”جو کچھ [یہوواہ] نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔“—خر ۱۹:۸۔
۶، ۷. اسرائیلی قوم پر یہوواہ خدا کی حکمرانی کی بعض خصوصیات کیا تھیں؟
۶ یہوواہ خدا نے ایک خاص مقصد کے تحت اسرائیلیوں کو اپنی قوم بنایا تھا۔ (استثنا ۷:۷، ۸ کو پڑھیں۔) اِس مقصد کا تعلق صرف اسرائیلیوں کی بھلائی سے نہیں بلکہ خدا کے نام اور اُس کی حکمرانی کی بڑائی سے بھی تھا۔ اُنہیں یہ گواہی دینی تھی کہ وہی سچا خدا ہے۔ (یسع ۴۳:۱۰؛ ۴۴:۶-۸) اِس لئے یہوواہ خدا نے کہا: ”تُو [یہوواہ] اپنے خدا کی مُقدس قوم ہے اور [یہوواہ] نے تجھ کو رُویِزمین کی اَور سب قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ تُو اُس کی خاص قوم ٹھہرے۔“—است ۱۴:۲۔
۷ یہوواہ خدا نے ایک شفیق حکمران کے طور پر اِس بات کا خیال رکھا کہ اسرائیلی گنہگار انسان ہیں۔ پھربھی اُس نے اُنہیں پاک اور راست قانون دئے جن سے اُس کی خوبیاں ظاہر ہوئیں۔ مثال کے طور پر، موسیٰ کے ذریعے دئے گئے حکموں نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا پاک ہے اور اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ صبر اور معاف کرنے والا خدا ہے۔ یشوع کے زمانے میں بھی اسرائیلی قوم کو یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے سے امن اور بہت سی دیگر برکات حاصل ہوئیں۔ (یشو ۲۴:۲۱، ۲۲، ۳۱) یوں اسرائیلی قوم کے اِس دَور سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہوواہ خدا کی حکمرانی ہی دُرست اور کامیاب ہے۔
انسانی حکمرانی کا نقصان
۸، ۹. (ا) اسرائیلیوں کی مانگ کیوں غلط تھی؟ (ب) اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
۸ اکثر اسرائیلی یہوواہ خدا سے دُور ہو جاتے اور اُس کا تحفظ کھو بیٹھتے تھے۔ بالآخر اُنہوں نے سموئیل نبی کے ذریعے ایک انسانی بادشاہ کی مانگ کی۔ اِس پر یہوواہ خدا نے سموئیل کو حکم دیا کہ وہ اُن کی یہ مانگ پوری کر دے۔ مگر اُنہیں یہ بھی بتا دے کہ ”اُنہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ مَیں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔“ (۱-سمو ۸:۷) اگرچہ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو اپنے لئے کسی انسان کو بادشاہ چننے کی اجازت دے دی توبھی اُس نے اُنہیں آگاہ کر دیا کہ انسانی حکمرانی سے اُنہیں بہت نقصان ہوگا۔—۱-سموئیل ۸:۹-۱۸ کو پڑھیں۔
۹ یہوواہ خدا کی آگاہی بالکل سچ ثابت ہوئی۔ اسرائیلی کسی انسان کو اپنا بادشاہ بنانے کی وجہ سے واقعی بہت مشکلات میں پڑ گئے۔ خاص طور پر جب وہ بادشاہ یہوواہ کا وفادار ثابت نہ ہوتا تو اُنہیں اَور بھی زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا۔ اسرائیلیوں کی اِس مثال کے پیشِنظر یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ صدیوں کے دوران خدا سے ناواقف انسانوں کی حکمرانی زمین پر اچھے حالات لانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ بعض سیاستدان خدا کے نام پر امن اور سلامتی لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر خدا بھلا ایسے لوگوں کی کوششوں کو برکت کیسے دے سکتا ہے جو اُس کی حکمرانی کو نہیں مانتے۔—زبور ۲:۱۰-۱۲۔
خدا کی حکمرانی کے تحت ایک نئی قوم
۱۰. یہوواہ خدا نے اسرائیل کو کیوں رد کر دیا؟
۱۰ اسرائیلی قوم یہوواہ خدا کی وفادار نہ رہی۔ اُنہوں نے خدا کے بھیجے ہوئے مسیحا کو رد کر دیا۔ اِس وجہ سے یہوواہ خدا نے بھی اُنہیں رد کرکے اُن کی جگہ کچھ لوگوں کو اپنی نئی قوم بنانے کا ارادہ کر لیا۔ لہٰذا، سن ۳۳ عیسوی میں مسیحی کلیسیا وجود میں آئی جو یہوواہ کے ممسوح خادموں پر مشتمل تھی۔ یہ کلیسیا اب خدا کی حکمرانی کے تحت چلنے والی نئی قوم تھی جسے پولس نے ’خدا کا اسرائیل‘ کہا۔—گل ۶:۱۶۔
۱۱، ۱۲. اسرائیلی قوم اور ”خدا کے اؔسرائیل“ میں نگہبانی کے حوالے سے کونسی مشابہت پائی جاتی ہے؟
۱۱ اسرائیلی قوم اور ’خدا کے نئے اسرائیل‘ میں کچھ فرق بھی ہیں اور کچھ مشابہتیں بھی۔ فرق یہ ہے کہ مسیحی کلیسیا میں کوئی انسان بادشاہ نہیں ہے۔ نیز، مسیحیوں کو اپنے گُناہوں کے لئے جانور قربان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مشابہت یہ ہے کہ اسرائیلی قوم میں بھی بزرگ مقرر کئے جاتے تھے اور مسیحی کلیسیا میں بھی بزرگ مقرر کرنے کا انتظام موجود ہے۔ (خر ۱۹:۳-۸) مسیحی بزرگ گلّے پر حکومت نہیں جتاتے۔ بلکہ وہ بڑی شفقت سے کلیسیا کی دیکھبھال کرتے اور دلی شوق سے خدمت میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ کلیسیا کے ہر فرد کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آتے ہیں۔—۲-کر ۱:۲۴؛ ۱-پطر ۵:۲، ۳۔
۱۲ ’خدا کا اسرائیل‘ اور اُن کا ساتھ دینے والی ”اَور بھی بھیڑیں“ جب اسرائیلی قوم کے ساتھ خدا کے برتاؤ پر غور کرتی ہیں تو یہوواہ یوح ۱۰:۱۶) مثال کے طور پر، اسرائیلی بادشاہ اپنے لوگوں پر بہت اثر رکھتے تھے جس سے اُنہیں یا تو فائدہ ہوتا تھا یا پھر نقصان۔ اِس سے مسیحی کلیسیا میں نگہبانی کرنے والے یہ سیکھتے ہیں کہ اُنہیں اُن قدیم بادشاہوں کی طرح حکومت نہیں جتانی بلکہ ہمیشہ ایمان کی ایک اچھی مثال قائم کرنی ہے۔—عبر ۱۳:۷۔
اور اُس کی حکمرانی کے لئے اُن کی قدر اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔ (آجکل یہوواہ خدا کی حکمرانی
۱۳. سن ۱۹۱۴ میں کونسا اہم واقعہ پیش آیا؟
۱۳ آجکل مسیحی یہ مُنادی کرتے ہیں کہ انسانی حکمرانی کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ یہوواہ خدا نے ۱۹۱۴ میں اپنے بیٹے یسوع مسیح کو آسمان پر بادشاہ بنایا۔ اُس وقت یہوواہ خدا نے یسوع کو یہ اختیار بخشا کہ وہ ’فتح کرتا ہوا نکلے تاکہ اَور بھی فتح کرے۔‘ (مکا ۶:۲) یہوواہ خدا نے اپنے اِس بادشاہ کو حکم دیا کہ ”تُو اپنے دُشمنوں میں حکمرانی کر۔“ (زبور ۱۱۰:۲) لیکن افسوس کی بات ہے کہ قومیں یہوواہ خدا کی حکمرانی کو ماننے سے انکار کرتی ہیں۔ وہ اپنے کاموں سے ظاہر کرتی ہیں کہ گویا ”کوئی [یہوواہ] نہیں“ ہے۔—زبور ۱۴:۱۔
۱۴، ۱۵. (ا) یہوواہ خدا آجکل ہم پر کیسے حکمرانی کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں ہم اپنا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟ (ب) آجکل یہوواہ خدا کی حکمرانی کیسے بہترین اور کامیاب ثابت ہوتی ہے؟
۱۴ ”خدا کے اؔسرائیل“ میں سے کچھ ممسوح ارکان ابھی بھی زمین پر موجود ہیں اور مسیح کے بھائیوں بلکہ ’مسیح کے ایلچیوں‘ کی حیثیت سے خدمت کر رہے ہیں۔ (۲-کر ۵:۲۰) اُنہیں دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔ اُنہیں ممسوح اور زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے خواہشمند لاکھوں لوگوں کو روحانی خوراک فراہم کرنے کی ذمہداری دی گئی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ مکا ۷:۹-۱۵) یہوواہ خدا اِس انتظام کو خوب برکت دے رہا ہے جس سے آجکل اُس کے سچے خادموں کی خوشی اور علم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
۱۵ اِس سلسلے میں ہم سب کو خود سے کچھ سوال پوچھنے چاہئیں: ’کیا مَیں کلیسیا میں اپنی ذمہداریوں کو سمجھتا ہوں؟ کیا مَیں یہوواہ خدا کی حکمرانی کی پوری حمایت کرتا ہوں؟ کیا مجھے یہوواہ خدا کی بادشاہت کی رعایا بننے پر ناز ہے؟ کیا مَیں خدا کی بادشاہت کی مُنادی میں حصہ لینے کی پوری کوشش کرتا ہوں؟‘ اجتماعی طور پر ہم خوشی سے گورننگ باڈی (عبرانیوں ۱۳:۱۷ کو پڑھیں۔) ایسی تابعداری قومی اور نسلی اختلافات سے بھری اِس دُنیا میں مسیحی بہنبھائیوں کو متحد کر دیتی ہے۔ یہ امن اور راستی کو فروغ دیتی ہے جس سے یہوواہ خدا کو جلال ملتا ہے۔ کیا یہ اِس بات کا ثبوت نہیں کہ یہوواہ خدا کی حکمرانی ہی بہترین اور کامیاب ہے!
کی ہدایات پر عمل کرتے اور کلیسیائی بزرگوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اِس طرح ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے خدا کی حکمرانی کو دل سے قبول کر لیا ہے۔یہوواہ کی حکمرانی فتح پاتی ہے
۱۶. ہر انسان کو اب کونسا فیصلہ کرنا ہے؟
۱۶ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب باغِعدن میں اُٹھنے والے مسائل ہمیشہ کے لئے حل ہو جائیں گے۔ پس فیصلہ کرنے کا وقت اب ہے۔ ہر انسان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ یہوواہ خدا کی حکمرانی کو قبول کرے گا یاپھر انسانی حکمرانی کا غلام بنا رہے گا۔ اِس اہم فیصلے میں خلوصدل لوگوں کی مدد کرنے کا شرف یہوواہ خدا نے ہمیں دیا ہے۔ جلد ہی ہرمجدون کی جنگ میں یہوواہ خدا کی حکومت شیطان کے زیرِاثر انسانی حکومتوں کو نیست کرے گی اور ابد تک قائم رہے گی۔ (دان ۲:۴۴؛ مکا ۱۶:۱۶) ساری زمین پر پھر خدا ہی کی بادشاہت ہوگی۔ یہوواہ خدا کی حکمرانی ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہو جائے گی۔—مکاشفہ ۲۱:۳-۵ کو پڑھیں۔
۱۷. کونسے حقائق خلوصدل لوگوں کی صحیح فیصلہ کرنے میں مدد کریں گے؟
۱۷ جن لوگوں نے ابھی تک یہوواہ کی حکمرانی کی حمایت کا فیصلہ نہیں کِیا اُنہیں سنجیدگی سے اُن برکات پر غور کرنا چاہئے جو خدا کی حکمرانی انسان کے لئے لائے گی۔ انسانی حکمرانی جُرم اور دہشتگردی جیسے مسائل حل نہیں کر سکی۔ لیکن خدا کی حکمرانی اِس زمین کو تمام شریر اور بدکار لوگوں سے پاک کر دے گی۔ (زبور ۳۷:۱، ۲، ۹) انسانی حکمرانی نے تو صدیوں سے جنگ کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر خدا کی حکمرانی ”زمین کی انتہا تک جنگ موقوف“ کرائے گی۔ (زبور ۴۶:۹) خدا کی حکمرانی کے تحت انسان اور جانور بھی مل کر رہیں گے۔ (یسع ۱۱:۶-۹) سیاسی حکمرانوں نے انسان کو غربت اور بھوک کے سوا کچھ نہیں دیا لیکن خدا کی حکمرانی اِن مسائل کو بھی ختم کر دے گی۔ (یسع ۶۵:۲۱) بعض حکمران مخلص کوششوں کے باوجود بیماری اور موت کو ختم نہیں کر پائے مگر خدا کی حکمرانی میں بیمار اور بوڑھے لوگ تندرست اور جوان ہو جائیں گے۔ (ایو ۳۳:۲۵؛ یسع ۳۵:۵، ۶) زمین ایک فردوس بن جائے گی جس میں مُردے بھی زندہ کئے جائیں گے۔—لو ۲۳:۴۳؛ اعما ۲۴:۱۵۔
۱۸. ہم یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کی حکمرانی ہی دُرست اور کامیاب ہے؟
۱۸ شیطان نے آدم اور حوا کو خدا کے خلاف بھڑکا کر جتنا نقصان کِیا تھا خدا کی حکمرانی اُس سے کہیں زیادہ فائدہ پہنچائے گی۔ شیطان تو ۶ ہزار سال سے انسانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے لیکن خدا کی حکمرانی صرف ایک ہزار سال میں اُس کے تمام اثرات کو مٹا دے گی۔ خدا کی حکمرانی کے دُرست اور کامیاب ہونے کا اِس سے بڑا ثبوت کوئی اَور نہیں ہو سکتا! ہم خدا کے گواہ ہیں اور دلوجان سے اُسے اپنا حکمران تسلیم کرتے ہیں۔ پس، ہمیں ہر دن اور ہر گھڑی یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ہم یہوواہ کے پرستار اور اُس کی بادشاہت کے سرگرم حمایتی ہیں۔ اُس کے گواہ کہلانا ہمارے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔ توپھر آئیں سب کو یہ بتانے میں کبھی کوتاہی نہ برتیں کہ یہوواہ خدا کی حکمرانی ہی ہر لحاظ سے دُرست اور کامیاب ہے۔
اِن صحائف سے ہم خدا کی حکمرانی کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟
• استثنا ۷:۷، ۸
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۹ پر تصویریں]
یہوواہ خدا نے حکومت کرنے کا حق کبھی بھی نہیں چھوڑا
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
یہوواہ خدا کی حکمرانی کے لئے تابعداری پوری دُنیا میں اُس کے خادموں کو متحد کرتی ہے