مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ“‏

‏”‏رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ“‏

‏”‏رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ“‏

‏”‏رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ .‏ .‏ .‏ اور جو پیاسا ہو وہ آئے اور جو کوئی چاہے آبِ‌حیات مُفت لے۔‏“‏—‏مکا ۲۲:‏۱۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہماری زندگی میں خدا کی بادشاہت کی کیا اہمیت ہونی چاہئے اور کیوں؟‏

ہماری زندگی میں خدا کی بادشاہی کیا اہمیت رکھتی ہے؟‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو تاکید کی تھی کہ وہ ’‏پہلے بادشاہی کی تلاش کریں۔‏‘‏ اُس نے اُنہیں یقین دلایا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو خدا اُن کی ضروریات پوری کرے گا۔‏ (‏متی ۶:‏۲۵-‏۳۳‏)‏ اپنی ایک تمثیل میں بھی یسوع مسیح نے کہا کہ خدا کی بادشاہی ایک قیمتی موتی کی مانند ہے جسے پانے کے لئے ایک سوداگر نے ”‏جو کچھ اُس کا تھا سب بیچ ڈالا اور اُسے مول لے لیا۔‏“‏ (‏متی ۱۳:‏۴۵،‏ ۴۶‏)‏ لہٰذا،‏ بادشاہت کی مُنادی اور شاگرد بنانے کے کام کو ہماری زندگی میں خاص اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔‏

۲ پچھلے دو مضامین میں ہم نے سیکھا تھا کہ دلیری کے ساتھ خدا کا کلام سنانے اور اِسے مہارت کے ساتھ استعمال کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خدا کی پاک رُوح کی ہدایت سے تعلیم دے رہے ہیں۔‏ پاک رُوح بِلاناغہ بادشاہت کی مُنادی کرنے کے سلسلے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔‏ اِس لئے آئیں پاک رُوح کے اہم کردار پر غور کریں۔‏

سب لوگوں کے لئے دعوت

۳.‏ تمام انسانوں کو کونسا پانی پینے کی دعوت دی جا رہی ہے؟‏

۳ رُوح‌اُلقدس کے ذریعے تمام انسانوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ ’‏آئیں‘‏ اور ایک خاص قسم کے پانی سے اپنی پیاس بجھائیں۔‏ ‏(‏مکاشفہ ۲۲:‏۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ یہ عام پانی نہیں جو زمین پر ہماری زندگی قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔‏ یہ بالکل فرق قسم کا پانی ہے جس کا ذکر یسوع مسیح نے سوخار کے کنویں پر ایک سامری عورت سے گفتگو کرتے ہوئے کِیا تھا۔‏ اِس موقع پر یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو مَیں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا۔‏“‏ (‏یوح ۴:‏۱۴‏)‏ تمام انسانوں کو یہی خاص پانی پینے کی دعوت دی جا رہی ہے جو ہمیشہ کی زندگی دیتا ہے۔‏

۴.‏ (‏ا)‏ زندگی کے پانی کی ضرورت کیوں پڑی؟‏ (‏ب)‏ زندگی کا پانی کس کی عکاسی کرتا ہے؟‏

۴ اِس پانی کی ضرورت کیوں پڑی؟‏ اِس سوال کے جواب کے لئے ہمیں اُس وقت کو یاد کرنا ہوگا جب آدم اور حوا نے اپنے خالق یہوواہ خدا کا حکم توڑا جس کی سزا موت تھی۔‏ (‏پید ۲:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۳:‏۱-‏۶‏)‏ لہٰذا نافرمانی کے فوراً بعد یہوواہ خدا نے اُنہیں باغِ‌عدن سے نکال دیا تاکہ ”‏کہیں ایسا نہ ہو کہ [‏آدم]‏ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لیکر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔‏“‏ (‏پید ۳:‏۲۲‏)‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدم نے اپنی ساری اولاد یعنی باقی تمام انسانوں میں موت کو منتقل کر دیا۔‏ (‏روم ۵:‏۱۲‏)‏ مگر خدا جانتا تھا کہ آدم کی اولاد میں سے کچھ انسان فرمانبردار ثابت ہوں گے۔‏ اِس لئے اُس نے رحم دکھاتے ہوئے ایسے ہی فرمانبردار انسانوں کے لئے زندگی کا پانی فراہم کِیا۔‏ زندگی کا پانی دراصل یہوواہ خدا کی اُن تمام برکات کی عکاسی کرتا ہے جو وہ یسوع مسیح کے ذریعے فرمانبردار انسانوں کو عطا کرتا ہے۔‏ یہ پانی اُن انتظامات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی قربانی کے وسیلے سے انسانوں کو گُناہ اور موت سے چھڑا کر زمین پر ہمیشہ کی زندگی عطا کرنے کے لئے کئے ہیں۔‏—‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ یوح ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏یوح ۴:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۵.‏ کون لوگوں کو بلا رہا ہے کہ وہ ’‏آئیں‘‏ اور ”‏آبِ‌حیات مُفت“‏ لیں؟‏ وضاحت کریں۔‏

۵ کون لوگوں کو بلا رہا ہے کہ وہ ’‏آئیں‘‏ اور ”‏آبِ‌حیات مُفت“‏ لیں؟‏ مسیح کی ہزار سالہ بادشاہی کے دوران انسان زندگی کی تمام برکات اور انتظامات سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے قابل ہوں گے۔‏ بائبل اِن کی عکاسی ’‏بلور کی طرح چمکتے ہوئے آبِ‌حیات کے ایک دریا‘‏ کے طور پر کرتی ہے۔‏ یہ دریا ”‏خدا اور برّہ کے تخت“‏ سے نکلتا ہے۔‏ (‏مکا ۲۲:‏۱‏)‏ لہٰذا،‏ زندگی بخشنے والے اِس پانی کا سرچشمہ یہوواہ خدا ہی ہے!‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ یہوواہ خدا نے یہ پانی ’‏برّے‘‏ یعنی یسوع مسیح کے وسیلے سے فراہم کِیا ہے۔‏ (‏یوح ۱:‏۲۹‏)‏ یہ دریا کوئی اصلی دریا نہیں ہے بلکہ یہ اُن ذرائع کی طرف اشارہ کرتا ہے جنہیں یہوواہ خدا آدم کی نافرمانی سے ہونے والے نقصان کے اثرات کو مٹانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔‏ پس،‏ یہ بات دُرست ہے کہ یہوواہ ہی لوگوں کو بلا رہا ہے کہ وہ ’‏آئیں‘‏ اور ”‏آبِ‌حیات مُفت“‏ لیں۔‏

۶.‏ ’‏آبِ‌حیات کا دریا‘‏ کب بہنا شروع ہوا تھا؟‏

۶ ‏”‏آبِ‌حیات کا .‏ .‏ .‏ دریا“‏ یسوع مسیح کی ہزار سالہ بادشاہی کے دوران پورے زورشور سے بہے گا۔‏ مگر شاید آپ سوچیں کہ یہ دریا کب بہنا شروع ہوا؟‏ دراصل یہ دریا ”‏خداوند کے دن“‏ میں بہنے لگا جس کا آغاز ۱۹۱۴ میں ہوا جب ”‏برّہ“‏ یعنی یسوع مسیح کو آسمان پر بادشاہ بنایا گیا۔‏ (‏مکا ۱:‏۱۰‏)‏ لہٰذا،‏ یہوواہ کی کچھ برکات اور انتظامات سے فائدہ اُٹھانا ۱۹۱۴ کے بعد ہی ممکن ہوا۔‏ مثال کے طور پر،‏ خدا کے کلام بائبل کی زیادہ اور واضح سمجھ ۱۹۱۴ کے بعد حاصل ہوئی جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔‏ اِسی لئے بائبل کے پیغام کو زندگی‌بخش ”‏پانی“‏ سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ (‏افس ۵:‏۲۶‏)‏ اِس وقت یہ ”‏آبِ‌حیات“‏ پینے کی دعوت سب لوگوں کو دی جا رہی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ جو کوئی چاہے وہ بادشاہی کی خوشخبری قبول کرکے اِس زندگی‌بخش پانی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔‏ مگر خداوند کے دن میں یہ دعوت دوسروں تک کون پہنچا رہا ہے؟‏

‏’‏دُلہن کہتی ہے آ‘‏

۷.‏ (‏ا)‏ ”‏خداوند کے دن“‏ میں سب سے پہلے کس نے دوسروں کو ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت دینا شروع کی تھی؟‏ (‏ب)‏ یہ دعوت کن لوگوں کو دی جاتی ہے؟‏

۷ دُلہن سے مُراد رُوح سے مسح‌شُدہ مسیحی ہیں۔‏ سب سے پہلے اِنہی مسیحیوں نے دوسروں کو ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت دینا شروع کی تھی۔‏ مگر وہ یہ دعوت کن لوگوں کو دیتے ہیں؟‏ ظاہر ہے کہ یہ دعوت دُلہن یعنی ممسوح مسیحیوں کے لئے نہیں ہے۔‏ بلکہ وہ یہ دعوت اُن لوگوں کو دے رہے ہیں جو ”‏قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“‏ کے بعد زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏‏—‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏

۸.‏ وضاحت کریں کہ ممسوح مسیحی ۱۹۱۸ سے یہوواہ خدا کی دعوت دوسرے لوگوں تک کیسے پہنچا رہے ہیں؟‏

۸ یسوع مسیح کے ممسوح پیروکار ۱۹۱۸ سے لوگوں کو یہ دعوت دے رہے ہیں۔‏ اِس سال میں ایک تقریر پیش کی گئی جس کا عنوان تھا ”‏لاکھوں جو اب زندہ ہیں کبھی نہیں مریں گے۔‏“‏ اِس تقریر میں یہ اُمید پیش کی گئی کہ ہرمجدون کی جنگ کے بعد لاکھوں لوگ زمین پر زندگی حاصل کریں گے۔‏ پھر ۱۹۲۲ میں سیڈر پوائنٹ،‏ اوہائیو،‏ یوایس اے میں منعقد ہونے والے ایک کنونشن پر تمام حاضرین کو تاکید کی گئی کہ وہ ’‏بادشاہ اور اُس کی بادشاہت کا اشتہار دیں۔‏‘‏ اِس تاکید نے ممسوح مسیحیوں کے بقیے کی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ دعوت پہنچانے میں مدد کی۔‏ اِس کے بعد ۱۹۲۹ میں مارچ ۱۵ کے مینارِنگہبانی میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ”‏پُرفضل دعوت۔‏“‏ اِس مضمون کی مرکزی آیت مکاشفہ ۲۲:‏۱۷ تھی۔‏ اِس میں بیان کِیا گیا کہ ”‏وفادار بقیہ [‏حق‌تعالیٰ یہوواہ]‏ کے ساتھ ملکر لوگوں کو ’‏آنے‘‏ کی پُرفضل دعوت دے رہا ہے۔‏ یہ دعوت سچائی اور راستبازی پر چلنے کی خواہش رکھنے والے تمام لوگوں کے لئے ہے۔‏ یہ دعوت دینے کا وقت اب ہے۔‏“‏ اُس وقت سے لے کر آج تک دُلہن یعنی ممسوح مسیحی یہ دعوت دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔‏

‏”‏سننے والا بھی کہے آ“‏

۹،‏ ۱۰.‏’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت قبول کرنے والے لوگوں سے کیا توقع کی جاتی ہے؟‏

۹ ‏’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت قبول کرنے والے لوگوں سے کیا توقع کی جاتی ہے؟‏ اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی یہ دعوت دیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یکم اگست ۱۹۳۲ کے مینارِنگہبانی میں صفحہ ۲۳۲ پر یہ بیان کِیا گیا:‏ ”‏ممسوح اشخاص کو بادشاہی کی خوشخبری سنانے میں حصہ لینے کے لئے سب کی حوصلہ‌افزائی کرنی چاہئے۔‏ خداوند کا پیغام سنانے کے لئے اُن کا ممسوح ہونا ضروری نہیں ہے۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے لئے یہ بڑی خوشی اور تسلی کی بات ہے کہ اُنہیں ایسے لوگوں تک زندگی کا پانی لے جانے کا شرف بخشا گیا ہے جو ہرمجدون سے بچ کر زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏“‏

۱۰ ‏’‏سننے والوں‘‏ یعنی اِس دعوت کو قبول کرنے والوں کی ذمہ‌داری کو مزید واضح کرتے ہوئے ۱۵ اگست ۱۹۳۴ کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۲۴۹ پر بیان کِیا گیا:‏ ”‏یہوناداب جماعت (‏بڑی بِھیڑ)‏ کے لوگوں کو یاہو جماعت یعنی ممسوح مسیحیوں کے ساتھ مل کر بادشاہت کے پیغام کا اعلان کرنا چاہئے۔‏ اگرچہ وہ یہوواہ کے ممسوح گواہ نہیں ہیں توبھی اِس کام میں ممسوح مسیحیوں کی مدد کرنا اُن کے لئے ضروری ہے۔‏“‏ اِس کے بعد ۱۹۳۵ میں ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کی شناخت واضح ہوگئی جس کا ذکر مکاشفہ ۷:‏۹-‏۱۷ میں کِیا گیا ہے۔‏ اِس سے خدا کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کا کام اَور بھی تیز ہو گیا ہے۔‏ اُس وقت سے بہتیرے لوگوں نے اِس دعوت کو قبول کِیا ہے جس سے بڑی بِھیڑ کی تعداد بڑھتےبڑھتے اب ۷۰ لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔‏ بڑی بِھیڑ کے لوگ اِس دعوت کو خوشی سے قبول کرکے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔‏ پھر وہ پانی میں بپتسمہ لے کر دوسرے لوگوں کو یہ دعوت دینے میں ممسوح مسیحیوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں کہ وہ ’‏آئیں اور آبِ‌حیات مُفت لیں۔‏‘‏

‏’‏رُوح کہتی ہے آ‘‏

۱۱.‏ پہلی صدی میں مُنادی کرنے کے لئے روحُ‌القدس نے کیسے مدد کی تھی؟‏

۱۱ ایک مرتبہ ناصرۃ کے عبادت خانے میں تعلیم دیتے وقت یسوع نے یسعیاہ نبی کی کتاب کھولی اور اِس بیان کو پڑھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا رُوح مجھ پر ہے۔‏ اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کِیا۔‏ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سناؤں۔‏ کچلے ہوؤں کو آزاد کروں۔‏ اور [‏یہوواہ]‏ کے سالِ‌مقبول کی مُنادی کروں۔‏“‏ پھر اُس نے اِس بیان کا اطلاق اپنے اُوپر کرتے ہوئے کہا کہ ”‏آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا۔‏“‏ (‏لو ۴:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ آسمان پر جانے سے پہلے بھی یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏جب روحُ‌القدس تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے اور .‏ .‏ .‏ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوگے۔‏“‏ (‏اعما ۱:‏۸‏)‏ یسوع مسیح کی اِن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی صدی میں روحُ‌القدس نے مُنادی کا کام انجام دینے میں واقعی نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔‏

۱۲.‏ آجکل روحُ‌القدس دوسروں تک یہ دعوت پہنچانے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟‏

۱۲ آجکل روحُ‌القدس دوسروں تک یہ دعوت پہنچانے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟‏ روحُ‌القدس یہوواہ کی طاقت ہے جسے وہ دُلہن جماعت یعنی ممسوح مسیحیوں کے دل‌ودماغ کھولنے کے لئے استعمال کرتا ہے تاکہ وہ اُس کے کلام بائبل کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔‏ روحُ‌القدس اُن کے اندر اِس بات کی شدید خواہش پیدا کرتی ہے کہ وہ زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھنے والے لوگوں تک یہ دعوت پہنچائیں اور اُنہیں بائبل کی سچائیاں سکھائیں۔‏ روحُ‌القدس اُن لوگوں پر بھی گہرا اثر کرتی ہے جو اِس دعوت کو قبول کرکے یسوع مسیح کے شاگرد بنتے ہیں۔‏ پاک رُوح کی مدد سے وہ دوسروں کو یہ دعوت دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ ”‏روحُ‌القدس کے نام سے“‏ بپتسمہ لینے کی وجہ سے وہ رُوح کی ہدایت پر چلتے ہیں اور اِس کی مدد پر بھروسا رکھتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ یہ بات بھی قابلِ‌غور ہے کہ ممسوح مسیحی اور بڑی بِھیڑ جس پیغام کی مُنادی کرتے ہیں وہ بائبل پر مبنی ہے۔‏ بائبل چونکہ خدا کی رُوح کے زیرِہدایت لکھی گئی ہے اِس لئے یہ بات واضح ہے کہ روحُ‌القدس یہ دعوت دینے میں ہماری راہنمائی کرتی ہے۔‏ پس،‏ دوسروں تک یہ دعوت پہنچانے میں رُوح کے کردار کو سمجھنے کے بعد ہمارے اندر اِس کام میں زیادہ حصہ لینے کی خواہش پیدا ہونی چاہئے۔‏

‏”‏رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ“‏

۱۳.‏ اِس بیان سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ ”‏رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ“‏؟‏

۱۳ ‏”‏رُوح اور دُلہن“‏ نے صرف ایک دفعہ لوگوں کو ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت دے کر یہ کام بند نہیں کر دیا بلکہ وہ اُنہیں مسلسل یہ دعوت دیتی ہیں۔‏ اصلی زبان میں بھی مکاشفہ ۲۲:‏۱۷ مسلسل دعوت دینے کا خیال پیش کرتی ہے۔‏ اِسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نیو ورلڈ ٹرانسلیشن اِس آیت کا ترجمہ یوں کرتی ہے:‏ ”‏رُوح اور دُلہن مسلسل دعوت دیتی ہیں کہ آ۔‏“‏ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خدا کی دعوت کو باقاعدگی سے دوسروں تک پہنچاتے رہنا چاہئے۔‏ بڑی بِھیڑ کے بارے میں بیان کِیا گیا ہے کہ وہ ’‏یہوواہ کے مقدِس میں دن رات خدمت کرتی ہے۔‏‘‏ (‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۵‏)‏ ’‏دن رات خدمت‘‏ کرنے سے کیا مُراد ہے؟‏ ‏(‏لوقا ۲:‏۳۶،‏ ۳۷؛‏ اعمال ۲۰:‏۳۱؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۸ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سوال کا جواب ہمیں حنّاہ اور پولس رسول کی مثال سے ملتا ہے۔‏ اِن دونوں کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’‏دن رات خدمت‘‏ کرنے کا مطلب ہمیشہ وفاداری اور خلوصدلی کے ساتھ خدا کی خدمت کرنا ہے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ دانی‌ایل نے کیسے ظاہر کِیا کہ باقاعدگی کے ساتھ خدا کی عبادت کرنے سے زیادہ اہم اَور کچھ نہیں ہے؟‏

۱۴ دانی‌ایل نبی کی مثال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی عبادت باقاعدگی سے کرنا بہت ضروری ہے۔‏ ‏(‏دانی‌ایل ۶:‏۴-‏۱۰،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ وہ ’‏حسبِ‌معمول دن میں تین مرتبہ‘‏ یہوواہ خدا سے دُعا کِیا کرتا تھا۔‏ لیکن ایک مرتبہ دارا بادشاہ نے حکم دیا کہ سب لوگ تیس دن تک اُس کے سوا کسی اَور معبود سے درخواست نہیں کریں گے اور جو ایسا کرے گا اُسے شیروں کے غار میں پھینک دیا جائے گا۔‏ دانی‌ایل نے اِس سزا کی کوئی پرواہ نہ کی۔‏ وہ تیس دن کے لئے بھی اپنے معمول سے نہ ہٹا۔‏ یوں دانی‌ایل نے یہ ثابت کر دیا کہ باقاعدگی کے ساتھ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے سے زیادہ اہم اَور کچھ نہیں ہے۔‏—‏متی ۵:‏۱۶‏۔‏

۱۵ دانی‌ایل کو واقعی شیروں کے غار میں پھینک دیا گیا۔‏ اگلی صبح بادشاہ شیروں کے غار کے پاس آیا اور بولا:‏ ”‏اَے دانیؔ‌ایل زندہ خدا کے بندے کیا تیرا خدا جس کی تُو ہمیشہ عبادت کرتا ہے قادر ہوا کہ تجھے شیروں سے چھڑائے؟‏“‏ تب دانی‌ایل نے بادشاہ سے کہا:‏ ”‏اَے بادشاہ ابد تک جیتا رہ۔‏ میرے خدا نے اپنے فرشتہ کو بھیجا اور شیروں کے مُنہ بند کر دئے اور اُنہوں نے مجھے ضرر نہیں پہنچایا کیونکہ مَیں اُس کے حضور بےگُناہ ثابت ہوا اور تیرے حضور بھی اَے بادشاہ مَیں نے خطا نہیں کی۔‏“‏ یہوواہ خدا نے دانی‌ایل کو ”‏ہمیشہ“‏ وفاداری سے خدمت کرنے کی وجہ سے برکت بخشی۔‏—‏دان ۶:‏۱۹-‏۲۲‏۔‏

۱۶.‏ باقاعدگی سے مُنادی کرنے کے سلسلے میں ہم دانی‌ایل کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۶ دانی‌ایل نے خدا کی عبادت کے معمول سے ہٹنے کی بجائے مرنا پسند کِیا۔‏ کیا ہم بھی ایسا ہی جذبہ رکھتے ہیں؟‏ کیا ہم بھی بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں ہمیشہ حصہ لینے کے لئے مختلف قربانیاں دینے کو تیار رہتے ہیں؟‏ ہمارا ایک بھی مہینہ ایسا نہیں گزرنا چاہئے جس میں ہم دوسروں کو خدا کا پیغام نہ سنائیں بلکہ ہمیں ہر ہفتے مُنادی میں حصہ لینے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔‏ اگر ہم بڑھاپے یا کسی بیماری کے باعث مہینے میں صرف ۱۵ منٹ کے لئے ہی خوشخبری کی گواہی دے سکتے ہیں تو ہمیں اِس کی رپورٹ ضرور ڈالنی چاہئے۔‏ یہ کیوں اہم ہے؟‏ کیونکہ ہم رُوح اور دُلہن کے ساتھ مل کر لوگوں کو مسلسل یہ دعوت دینا چاہتے ہیں کہ وہ ’‏آئیں اور آبِ‌حیات مُفت لیں۔‏‘‏ پس،‏ ہمیں بادشاہت کا پیغام سنانے میں باقاعدگی سے حصہ لینے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔‏

۱۷.‏ ہمیں یہوواہ خدا کی دعوت کو دوسروں تک پہنچانے کے کونسے موقعے ہاتھ سے نہیں جانے دینے چاہئیں؟‏

۱۷ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھنے والے لوگوں کو ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت دینا بہت بڑا شرف ہے۔‏ لیکن ہم اِس شرف کے لئے کیسے قدر دکھا سکتے ہیں؟‏ اِس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر موقع پر یہوواہ خدا کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کے لئے تیار رہیں۔‏ پس خواہ ہم خریداری کر رہے ہوں،‏ سفر میں ہوں،‏ کہیں چھٹیاں منانے کے لئے گئے ہوں،‏ کام کی جگہ پر ہوں یا سکول میں ہوں،‏ ہمیں زندگی‌بخش پیغام سنانے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔‏ اگر حکومت ہمارے مُنادی کے کام پر پابندی لگاتی ہے تو ہم سمجھداری کے ساتھ اِسے جاری رکھ سکتے ہیں۔‏ شاید ہم ایک علاقے میں تھوڑی دیر کے لئے گھرگھر مُنادی کرنے کے بعد کسی دوسرے علاقے میں جا سکتے ہیں یاپھر موقعے کی مناسبت سے گواہی دینے کے لئے تیار رہ سکتے ہیں۔‏

مسلسل دعوت دیں

۱۸،‏ ۱۹.‏ آپ یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ خدا کے ساتھ کام کرنا آپ کے لئے ایک بہت بڑا شرف ہے؟‏

۱۸ رُوح اور دُلہن کو اب یہ دعوت دیتے ہوئے ۹۰ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ جو کوئی پیاسا ہو وہ ’‏آئے اور آبِ‌حیات مُفت لے۔‏‘‏ کیا آپ نے اُن کی اِس دعوت کو قبول کِیا ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ دوسروں کو یہ دعوت دیں۔‏

۱۹ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ یہوواہ خدا کی طرف سے لوگوں کو یہ دعوت کب تک دی جائے گی۔‏ لیکن دوسروں کو یہ دعوت دینے سے کہ وہ ’‏آئیں اور آبِ‌حیات مُفت لیں‘‏ ہم خدا کے ساتھ کام کرنے والے ضرور بن جاتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۳:‏۶،‏ ۹‏)‏ واقعی،‏ یہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا شرف ہے!‏ ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ اِس شرف کی قدر کریں اور باقاعدگی کے ساتھ مُنادی میں حصہ لیتے ہوئے ’‏خدا کے لئے حمد کی قربانی ہر وقت چڑھاتے‘‏ رہیں۔‏ (‏عبر ۱۳:‏۱۵‏)‏ پس،‏ زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھنے والوں کے لئے دُلہن جماعت یعنی ممسوح مسیحیوں کے ساتھ ملکر دوسروں کو مسلسل یہ دعوت دینا بہت ضروری ہے کہ وہ ’‏آئیں اور آبِ‌حیات مُفت لیں۔‏‘‏ دُعا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اِس دعوت کو سنیں اور قبول کریں!‏

آپ نے کیا سیکھا؟‏

‏• ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت کن لوگوں کو دی جا رہی ہے؟‏

‏• یہ کہنا کیوں دُرست ہوگا کہ یہوواہ خدا ہی لوگوں کو ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت دے رہا ہے؟‏

‏• دوسرے لوگوں تک یہ دعوت پہنچانے میں روحُ‌القدس کیا کردار ادا کرتی ہے؟‏

‏• ہمیں مُنادی میں باقاعدگی سے حصہ لینے کی پوری کوشش کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر چارٹ/‏تصویر]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

مسلسل دعوت

۱۹۱۴

۱۰۰،‏۵ مبشر

۱۹۱۸

لاکھوں لوگ زمین پر فردوس میں زندگی حاصل کریں گے

۱۹۲۲

‏”‏بادشاہ اور اُس کی بادشاہت کا اشتہار دو،‏ اشتہار دو،‏ اشتہار دو“‏

۱۹۲۹

ممسوح مسیحیوں کا وفادار بقیہ کہتا ہے ”‏آ“‏

۱۹۳۲

ممسوح مسیحیوں کے علاوہ دوسروں کو بھی ’‏آنے اور آبِ‌حیات مُفت لینے‘‏ کی دعوت دی گئی

۱۹۳۴

یہوناداب جماعت کو مُنادی کرنے کی دعوت دی گئی

۱۹۳۵

‏”‏بڑی بِھیڑ“‏ کی شناخت ہوئی

۲۰۰۹

۷۳ لاکھ ۱۳ ہزار ۱۷۳ مبشر