آسمان کیسی جگہ ہے؟
آسمان کیسی جگہ ہے؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آسمان کے بارے میں جاننا ممکن نہیں۔ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ کیونکہ کبھی کسی نے آسمان سے آکر یہ نہیں بتایا کہ وہ کیسی جگہ ہے۔ لیکن ایسے لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ’مَیں آسمان سے اُترا ہُوں۔‘ (یوحنا ۶:۳۸) اُس نے بعض مذہبی رہنماؤں سے بھی کہا کہ ”تُم نیچے کے ہو۔ مَیں اُوپر کا ہُوں۔“ (یوحنا ۸:۲۳) تاہم، یسوع مسیح نے آسمان کے متعلق کیا بتایا؟
یسوع مسیح نے بتایا کہ آسمان یہوواہ خدا کی سکونتگاہ ہے۔ اُس نے کہا کہ ’میرا باپ آسمان پر ہے۔‘ (متی ۱۲:۵۰، کیتھولک ترجمہ) لیکن یسوع نے لفظ ”آسمان“ مختلف معنوں میں استعمال کِیا۔ مثال کے طور پر، اُس نے کہا ”آسمان کے پرندوں کو دیکھو۔“ (متی ۶:۲۶، کیتھولک ترجمہ) یہاں لفظ آسمان فضا کو ظاہر کرتا ہے جس میں پرندے اُڑتے ہیں۔ تاہم، یہوواہ خدا اِس فضا سے بھی کہیں دُور رہتا ہے۔ پاک کلام بیان کرتا ہے: ”وہ محیط زمین پر بیٹھا ہے . . . وہ آسمان کو پردہ کی مانند تانتا ہے اور اُس کو سکونت کے لئے خیمہ کی مانند پھیلاتا ہے۔“—یسعیاہ ۴۰:۲۲۔
کیا ہمارا باپ ”جو آسمان پر ہے“ ستاروں کے درمیان رہتا ہے؟ پاک کلام میں ستاروں اور سیاروں سے بھری خلا کو بھی ”آسمان“ کہا گیا ہے۔ جیسےکہ ایک زبور نویس نے لکھا: ”جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جن کو تُو نے مقرر کِیا غور کرتا ہُوں توپھر انسان کیا ہے کہ تُو اُسے یاد رکھے؟“—زبور ۸:۳، ۴۔
یہوواہ خدا ستاروں اور سیاروں سے بھرے آسمان میں نہیں رہتا۔ جس طرح ایک بڑھئی الماری تو بناتا ہے مگر اُس میں رہتا نہیں اُسی طرح یہوواہ خدا بھی ستاروں اور سیاروں سے بھرے آسمان میں نہیں رہتا جسے اُس نے خلق کِیا ہے۔ اِسی لئے جب سلیمان بادشاہ نے یروشلیم میں ہیکل کو یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کِیا تو اُس نے کہا: ”کیا خدا فیالحقیقت زمین پر سکونت کرے گا؟ دیکھ آسمان بلکہ آسمانوں کے آسمان میں بھی تُو سما نہیں سکتا تو یہ گھر تو کچھ بھی نہیں جِسے مَیں نے بنایا۔“ (۱-سلاطین ۸:۲۷) اگر یہوواہ خدا ستاروں اور سیاروں سے بھرے آسمان میں نہیں رہتا توپھر وہ کہاں رہتا ہے؟
یہ سچ ہے کہ انسان بڑیبڑی دوربینوں سے ستاروں اور سیاروں سے بھرے آسمان میں دُور تک جھانکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ بعض تو خلا کی سیر بھی کر آئے ہیں۔ لیکن پاک کلام کی یہ بات آج بھی دُرست ہے کہ ”خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔“ (یوحنا ۱:۱۸) اِس کی ایک خاص وجہ ہے جسے یسوع مسیح نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ”خدا رُوح ہے۔“—یوحنا ۴:۲۴۔
رُوح انسان سے بالکل فرق ہوتی ہے۔ رُوح کا خون، گوشت اور ہڈی سے بنا ہوا جسم نہیں ہوتا جسے دیکھا یا چھؤا جا سکے۔ اِس لئے جب یسوع نے یہ کہا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ ”آسمان“ میں رہتا تھا تو وہ دراصل یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہاں اُس کی زندگی زمین پر انسانی زندگی سے کہیں زیادہ جلالی تھی۔ (یوحنا ۱۷:۵؛ فلپیوں ۳:۲۰، ۲۱) یسوع اپنے باپ کے ساتھ جس روحانی عالم میں رہتا تھا خدا کا کلام اُسے ”آسمان“ کہتا ہے۔ یہ کیسی جگہ ہے اور یہاں کیا ہوتا ہے؟
خوشیبخش کام کی جگہ
خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ آسمان پر بہت زیادہ کام ہوتا ہے۔ یہاں لاکھوں لاکھ رُوحیں یعنی فرشتے رہتے ہیں۔ (دانیایل ۷:۹، ۱۰) یہ سب کے سب ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ مگر ہم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ جیسے ہماری کائنات میں تمام جاندار چیزیں ایک دوسرے سے بالکل فرق ہیں ویسے ہی آسمان پر رہنے والے فرشتے بھی ایک دوسرے سے بالکل فرق ہیں۔ اِس کے باوجود یہ لاکھوں فرشتے متحد ہو کر کام کرتے ہیں جبکہ زمین پر انسان آپس میں تعاون نہیں کرتے۔
آسمان پر کیا کام ہوتا ہے؟ پاک کلام اِس سلسلے میں بیان کرتا ہے: ”اَے [یہوواہ] کے فرشتو! اُس کو مبارک کہو۔ تُم جو زور میں بڑھ کر ہو اور اُس کے کلام کی آواز سُن کر اُس پر عمل کرتے ہو۔ اَے [یہوواہ] کے لشکرو! سب اُس کو مبارک کہو۔ تُم جو اُس کے خادم ہو اور اُس کی مرضی بجا لاتے ہو۔“ (زبور ۱۰۳:۲۰، ۲۱) یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ آسمان پر بہت زیادہ کام ہوتا ہے جس سے یقیناً یہوواہ کے ہر فرشتے کو اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہو گی۔
فرشتے تو زمین خلق ہونے سے بھی بہت پہلے بڑی خوشی کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرتے تھے۔ پاک کلام بتاتا ہے کہ جب یہوواہ نے زمین کی بنیاد ڈالی تو فرشتے یعنی خدا کے بیٹے ”ملکر گاتے“ اور ”خوشی سے للکارتے تھے۔“ (ایوب ۳۸:۴، ۷) خدا نے اپنے اِنہی بیٹوں میں سے ایک کو خاص شرف بخشا کہ وہ تمام چیزیں پیدا کرنے میں اُس کے ساتھ کام کرے۔ (کلسیوں ۱:۱۵-۱۷) آسمان پر ایسے خوشیبخش کام کے متعلق جان کر اب آپ کے ذہن میں آسمان اور انسان کے حوالے سے کچھ سوال پیدا ہو رہے ہوں گے۔
کیا خدا چاہتا تھا کہ انسان آسمان پر جائے؟
خدا کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ زمین کے خلق کئے جانے سے بھی پہلے فرشتے آسمان پر خدا کی خدمت کر رہے تھے۔ لہٰذا، آدم اور حوا آسمان کو آبادی سے آراستہ کرنے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے تھے۔ اِس کی بجائے خدا نے اُن سے کہا کہ ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔“ (پیدایش ۱:۲۸؛ اعمال ۱۷:۲۶) زمین پر پیدا ہونے والے تمام جانداروں میں سے صرف آدم ہی خدا کو سمجھنے اور وفاداری سے اُس کی خدمت کرنے کے لائق تھا۔ وہ تمام انسانوں کا باپ ٹھہرا جن کا گھر زمین تھی۔ اِسی لئے پاک کلام بڑے صاف الفاظ میں بیان کرتا ہے: ”آسمان تو [یہوواہ] کا آسمان ہے لیکن زمین اُس نے بنیآدم کو دی ہے۔“—زبور ۱۱۵:۱۶۔
کوئی بھی انسان مرنا نہیں چاہتا کیونکہ انسان کو مرنے کے لئے پیدا ہی نہیں کِیا گیا تھا۔ یہوواہ خدا نے آدم کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اگر اُس نے نافرمانی کی تو اُسے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا، اگر وہ فرمانبردار رہتا تو کبھی نہ مرتا۔—پیدایش ۲:۱۷؛ رومیوں ۵:۱۲۔
پس، اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ خدا نے آدم سے آسمان پر جانے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ زمین کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں لوگوں کو آزمایا جائے کہ آیا وہ آسمان پر رہنے کے لائق ہیں یا نہیں۔ انسان کو ہمیشہ تک زمین پر رہنے کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔ یہی خدا کا مقصد تھا جو یقیناً پورا ہوگا۔ خدا کا کلام وعدہ کرتا ہے کہ ”صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“ (زبور ۳۷:۲۹) اِن تمام حقائق کی روشنی میں ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟ ہم سمجھ گئے ہیں کہ خدا کا شروع ہی سے یہ ارادہ نہیں تھا کہ انسان آسمان پر جائے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر یسوع نے اپنے رسولوں سے یہ وعدہ کیوں کِیا تھا کہ وہ آسمان پر جائیں گے؟ کیا یسوع کے اِس وعدے کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیک لوگ آسمان پر جائیں گے؟ آئیں اِن سوالوں کے جواب خدا کے پاک کلام سے حاصل کریں۔