مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے لوگوں کے درمیان تحفظ پائیں

خدا کے لوگوں کے درمیان تحفظ پائیں

خدا کے لوگوں کے درمیان تحفظ پائیں

‏”‏مَیں بڑے مجمع میں تیری شکرگذاری کروں گا۔‏“‏—‏زبور ۳۵:‏۱۸‏۔‏

۱-‏۳.‏ (‏ا)‏بعض مسیحی کیسے روحانی طور پر خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏خدا نے اپنے لوگوں کی حفاظت کے لئے کونسا بندوبست کِیا ہے؟‏

جوزف اور اُس کی بیوی اپنی چھٹیوں کے دوران سمندر پر گئے۔‏ وہ سمندر میں تیر رہے تھے اور مچھلیوں کو دیکھنے کے لئے ڈبکی بھی لگا رہے تھے۔‏ جب وہ کنارے سے تھوڑا آگے گئے تو پانی ایک دم گہرا ہو گیا۔‏ اِس پر جوزف کی بیوی نے کہا:‏ ”‏مجھے لگتا ہے کہ ہم کافی دُور آ گئے ہیں۔‏“‏ جوزف نے کہا:‏ ”‏فکر نہ کرو کچھ نہیں ہوگا۔‏“‏ لیکن چند لمحے بعد اُس نے غور کِیا کہ ’‏اچانک ساری مچھلیاں وہاں سے چلی گئیں۔‏‘‏ پھر اُسے پتہ چلا کہ اِس کی وجہ کیا ہے۔‏ ایک شارک اُس کی طرف آ رہی تھی۔‏ وہ اُس سے بچنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‏ لیکن جوزف سے ایک میٹر کے فاصلے پر شارک نے اپنا رُخ بدل لیا۔‏

۲ جوزف جو ایک مسیحی بزرگ ہے بیان کرتا ہے کہ ”‏اِس واقعے نے اِس بات کی اہمیت کو سمجھنے میں میری مدد کی کہ ہمیں کن کے ساتھ رفاقت رکھنی چاہئے۔‏“‏ اُس نے مزید کہا:‏ ”‏جس طرح ایک تیرنے والا کنارے کے نزدیک رہتا ہے اُسی طرح ہمیں کلیسیا کے نزدیک رہنا چاہئے۔‏“‏ اگر تیرنے والا شخص زیادہ گہرائی میں جائے گا تو یہ اُس کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔‏ اِسی طرح کلیسیا سے دُور ہونا ہمارے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔‏ ہمیں مال‌ودولت حاصل کرنے اور عیش‌وعشرت میں اتنا مگن نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم انجانے میں کلیسیا سے دُور ہو جائیں۔‏ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کلیسیا سے دُور ہو رہے ہیں تو فوری قدم اُٹھائیں۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ خدا کی قربت سے محروم ہو جائیں۔‏

۳ آجکل اِس دُنیا میں مسیحیوں کو بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏)‏ شیطان جانتا ہے کہ اُس کا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے اِس لئے وہ خدا کے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطر ۵:‏۸؛‏ مکا ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۷‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ خدا نے ہمارے لئے ایک ایسا بندوبست کِیا ہے جس میں ہم تحفظ پا سکتے ہیں۔‏ یہ بندوبست مسیحی کلیسیا ہے۔‏

۴،‏ ۵.‏ بہتیرے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں اور کیوں؟‏

۴ اِس دُنیا میں ہم بہت کم تحفظ پاتے ہیں۔‏ بہتیرے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں جُرم،‏ تشدد،‏ مہنگائی اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے خطرہ ہے۔‏ ہر شخص کو بڑھتی عمر اور بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ جن لوگوں کے پاس ملازمت،‏ گھر،‏ دولت اور اچھی صحت ہے وہ اکثر اِس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ کہیں یہ سب چیزیں اُن سے چھن نہ جائیں۔‏

۵ بہت سے لوگ نہ صرف تحفظ پانے بلکہ دلی سکون حاصل کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک عام نظریہ ہے کہ شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے سے خوشی حاصل ہوگی۔‏ تاہم،‏ بہت سے لوگوں کو یہ سب کرنے کے بعد بھی خوشی نہیں ملتی۔‏ اِس کے علاوہ،‏ بہتیرے لوگ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے چرچ جاتے ہیں۔‏ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ مذہبی رہنما بائبل کے اُصولوں پر عمل نہیں کرتے اور اُن کی تعلیمات بھی بائبل کے مطابق نہیں ہیں تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔‏ بالآخر اُنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کو خود ہی اپنے مسائل حل کرنے پڑیں گے۔‏ لہٰذا،‏ یہ کوئی حیران‌کُن بات نہیں کہ بہتیرے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏مسیحی کلیسیا کے ارکان مستقبل کے متعلق دُنیا کے لوگوں سے فرق نظریہ کیوں رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۶ مسیحی کلیسیا کے ارکان مستقبل کے متعلق دُنیا کے لوگوں سے فرق نظریہ رکھتے ہیں۔‏ اگرچہ ہمیں بھی دوسرے لوگوں کی طرح مختلف مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ہم نااُمید نہیں ہوتے۔‏ ‏(‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ملاکی ۳:‏۱۸ کو پڑھیں۔‏)‏ ایسا کیوں ہے؟‏ کیونکہ بائبل واضح کرتی ہے کہ انسانوں کے حالات اتنے بُرے کیوں ہیں اور اِس سلسلے میں خدا کیا کرے گا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ خدا کا کلام ہمیں اپنے مسائل سے نپٹنے کے لئے مدد بھی فراہم کرتا ہے۔‏ اِسی لئے ہم مستقبل کے بارے میں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔‏ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہم دُنیا کی سوچ اور طورطریقوں سے بچنے کے قابل ہوتے ہیں جو ہمارے لئے نقصان کا باعث ہیں۔‏ یوں مسیحی کلیسیا کے ارکان تحفظ اور دلی سکون پاتے ہیں۔‏—‏یسع ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ فل ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۷ اِس سلسلے میں آئیں بائبل سے چند مثالوں پر غور کریں۔‏ اِن سے ظاہر ہوگا کہ جو لوگ خدا کی خدمت کرتے تھے اُنہیں اُس کا تحفظ حاصل ہوا اور جن لوگوں نے خدا کی خدمت نہیں کی وہ اُس کی قربت سے محروم تھے۔‏ یہ مثالیں ہمیں اپنی سوچ اور کاموں کا جائزہ لینے میں مدد دیں گی۔‏ اِن سے ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ ہم کیسے بہتر طور پر اُن اصولوں کے مطابق چل سکتے ہیں جو خدا نے ہمارے تحفظ کے لئے بنائے ہیں۔‏—‏یسع ۳۰:‏۲۱‏۔‏

میرے قدم لڑکھڑانے والے تھے

۸.‏ شروع ہی سے یہوواہ کے خادموں کے لئے کیا کرنا لازمی تھا؟‏

۸ شروع ہی سے یہوواہ کے خادم ایسے لوگوں سے زیادہ رفاقت نہیں رکھتے جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔‏ یہوواہ خدا نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اُس کے لوگوں اور شیطان کے لوگوں میں دشمنی ہو گی۔‏ (‏پید ۳:‏۱۵‏)‏ بائبل کے اصولوں کے مطابق چلنے کی وجہ سے خدا کے لوگ اِس دُنیا کے لوگوں سے فرق ہیں۔‏ (‏یوح ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ ۱-‏یوح ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ لیکن خدا کا وفادار رہنا اُن کے لئے ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ یہاں تک کہ یہوواہ کے بعض خادم کبھی‌کبھی یہ سوچتے ہیں کہ آیا خدا کی خدمت کرنا دانشمندی کی بات ہے یا نہیں۔‏

۹.‏ زبورنویس آسف کس سوال کی وجہ سے پریشان تھا؟‏

۹ زبور ۷۳ کو تحریر کرنے والا آسف خدا کا ایک ایسا خادم تھا جس نے یہ سوچا کہ آیا خدا کی خدمت کرنا دانشمندی کی بات ہے یا نہیں۔‏ اُس نے یہ سوال کِیا کہ شریر کیوں کامیاب اور خوش نظر آتے ہیں جبکہ خدا کی خدمت کرنے والے بعض لوگوں کو دُکھ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟‏‏—‏زبور ۷۳:‏۱-‏۱۳ کو پڑھیں۔‏

۱۰.‏ آپ کو زبورنویس کے سوال پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏

۱۰ کیا آپ نے بھی کبھی زبورنویس آسف کی طرح محسوس کِیا ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو یہ نہ سوچیں کہ آپ کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔‏ خدا کے بہت سے خادم جن میں سے بعض نے اُس کا کلام تحریر کِیا اُنہوں نے بھی خود سے یہ سوال پوچھا کہ آیا خدا کی خدمت کرنا فائدہ‌مند ہے یا نہیں۔‏ (‏ایو ۲۱:‏۷-‏۱۳؛‏ زبور ۳۷:‏۱؛‏ یرم ۱۲:‏۱؛‏ حبق ۱:‏۱-‏۴،‏ ۱۳‏)‏ دراصل اِس سوال کا تعلق اُس اعتراض سے ہے جو شیطان نے باغِ‌عدن میں اُٹھایا تھا۔‏ اُس وقت شیطان نے اِس بات پر شک ڈالا کہ آیا یہوواہ خدا کی حکمرانی انسان کے لئے فائدہ‌مند ہے یا نہیں۔‏ (‏پید ۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ لہٰذا،‏ خدا کے تمام خادموں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا کی خدمت کرنا اُن کے لئے کیوں فائدہ‌مند ہے۔‏ اگر ہم اِس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں توپھر ہم نہ تو شریروں کی کامیابی پر حسد کریں گے اور نہ ہی اُن جیسی زندگی گزارنے کی خواہش کریں گے۔‏ یوں ہم حکمرانی کے معاملے میں شیطان کی نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی حمایت کر رہے ہوں گے۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏زبورنویس اپنی سوچ کو دُرست کرنے کے قابل کیسے ہوا اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏آپ یہ سمجھنے کے قابل کیسے ہوئے ہیں کہ خدا کی خدمت کرنا دانشمندی کی بات ہے؟‏

۱۱ زبورنویس آسف نے یہ تسلیم کِیا کہ وہ خدا کی خدمت کو چھوڑنے والا تھا۔‏ مگر وہ اپنی سوچ کو دُرست کرنے کے قابل کیسے ہوا؟‏ جب وہ ”‏خدا کے مقدِس“‏ یعنی ہیکل میں گیا تو اُس نے اُن لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھی جو خدا کی عبادت کو پہلا درجہ دیتے تھے۔‏ نیز،‏ اُس نے انسانوں کے لئے خدا کی مرضی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا۔‏ یوں زبورنویس واضح طور پر سمجھ گیا کہ بُرے لوگوں کا انجام کیا ہوگا۔‏ وہ جان گیا کہ غلط کام کرنے والے لوگ اُس شخص کی مانند ہیں جو ”‏پھسلنی جگہوں“‏ پر ہو۔‏ وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ ایسے تمام لوگ تباہ ہو جائیں گے جو یہوواہ خدا سے بےوفائی کرتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا کی خدمت کرنے والے لوگوں کو اُس کا تحفظ حاصل ہوگا۔‏ ‏(‏زبور ۷۳:‏۱۶-‏۱۹،‏ ۲۷،‏ ۲۸ کو پڑھیں۔‏)‏ یہ سچ ہے کہ آجکل بہتیرے لوگ خدا کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے لئے جیتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو اپنے بُرے کاموں کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ آپ نے خود اِس بات کی مثالیں دیکھی ہوں گی۔‏—‏گل ۶:‏۷-‏۹‏۔‏

۱۲ زبورنویس آسف کی مثال سے ہم اَور کیا سیکھتے ہیں؟‏ جب آسف ہیکل میں گیا تو خدا کے لوگوں کے درمیان رہ کر وہ اپنی سوچ کو دُرست کرنے کے قابل ہوا۔‏ اِسی طرح آجکل ہم کلیسیا کے اجلاسوں کے ذریعے بائبل پر مبنی تعلیمات اور اچھی راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔‏ اِسی وجہ سے خدا اپنے خادموں کو مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔‏ اِن اجلاسوں سے ہمیں حوصلہ‌افزائی اور سمجھداری سے کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔‏—‏یسع ۳۲:‏۱،‏ ۲؛‏ عبر ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

سوچ‌سمجھ کر دوستوں کا انتخاب کریں

۱۳-‏۱۵.‏ (‏ا)‏دینہ کے ساتھ جوکچھ ہوا ہم اُس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏کلیسیا کے بہن‌بھائیوں سے رفاقت رکھنا ہمارے لئے تحفظ کا باعث کیوں ہے؟‏

۱۳ یعقوب کی بیٹی دینہ کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ دُنیا کے لوگوں سے دوستی رکھنے کی وجہ سے مصیبت میں پھنس گئی۔‏ پیدایش کی کتاب بتاتی ہے کہ دینہ اُن کنعانی لڑکیوں کو ملنے جایا کرتی تھی جو اُس کے علاقے میں رہتی تھیں۔‏ کنعانی یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے تھے۔‏ یہ بات قابلِ‌غور ہے کہ بعد میں کنعان کا ملک بت‌پرستی،‏ بداخلاقی،‏ اور تشدد سے بھر گیا۔‏ (‏خر ۲۳:‏۲۳؛‏ احبا ۱۸:‏۲-‏۲۵؛‏ است ۱۸:‏۹-‏۱۲‏)‏ یاد کریں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے دینہ کو کتنے بُرے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔‏

۱۴ اُسی علاقے میں ایک شخص سکم رہتا تھا۔‏ یہ شخص ”‏اپنے باپ کے سارے گھرانے میں سب سے معزز تھا۔‏“‏ اُس نے دینہ کو ”‏دیکھا اور اُسے لے جا کر اُس کے ساتھ مباشرت کی اور اُسے ذلیل کِیا۔‏“‏ (‏پید ۳۴:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۹‏)‏ کتنی افسوسناک بات!‏ دینہ نے تو سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اُس کے ساتھ ایسا ہو جائے گا۔‏ وہ شاید اِس علاقے کے نوجوانوں سے بس دوستی کرنا چاہتی تھی۔‏ دینہ کا خیال تھا کہ اُسے اِن سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‏ لیکن یہ اُس کی بھول تھی۔‏

۱۵ ہم دینہ کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کرتے ہیں جو یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے تو وہ ہم پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۳۳‏)‏ اِس کے برعکس اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں جو بائبل کی تعلیمات پر ایمان رکھتے،‏ اِس میں درج اُصولوں پر چلتے اور یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو یہ ہمارے لئے تحفظ کا باعث ہے۔‏ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنا ہمیں سمجھداری سے کام کرنے میں مدد دے گا۔‏—‏امثا ۱۳:‏۲۰‏۔‏

‏’‏تُم دُھل گئے اور پاک ہوئے‘‏

۱۶.‏ پولس رسول نے کرنتھس کے بعض مسیحیوں کے بارے میں کیا کہا؟‏

۱۶ مسیحی کلیسیا کے ذریعے بہت سے اشخاص کی بُرے کاموں کو ترک کر نے میں مدد ہوئی ہے۔‏ کرنتھس کی کلیسیا کے نام اپنے پہلے خط میں پولس رسول نے ایسے مسیحیوں کا ذکر کِیا جو خدا کے معیاروں پر چلنے کے لئے خود میں تبدیلیاں لائے تھے۔‏ اِن میں بعض پہلے حرامکار،‏ بُت‌پرست،‏ زناکار،‏ ہم‌جنس پرست،‏ چور،‏ شرابی اَور دیگر بُرے کاموں میں ملوث تھے۔‏ لیکن پولس رسول نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ دُھل گئے اور پاک ہوئے۔‏“‏‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱ کو پڑھیں۔‏

۱۷.‏ بائبل کے معیاروں کے مطابق چلنا لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالتا ہے؟‏

۱۷ ایسے لوگ جو یہوواہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ اُس کی رہنمائی پر نہیں چلتے۔‏ اِن میں سے بعض خود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‏ دیگر اپنے اِردگرد کے لوگوں جیسے طورطریقے اَپنا لیتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۱۴‏)‏ جب لوگ خدا کے کلام کی رہنمائی پر بھروسا رکھتے اور اِس پر عمل کرتے ہیں تو یہ اُن کی زندگیاں بدل ڈالتا ہے۔‏ (‏کل ۳:‏۵-‏۱۰؛‏ عبر ۴:‏۱۲‏)‏ آجکل کلیسیا میں بہتیرے ایسے بہن‌بھائی ہیں جو یہوواہ خدا کے معیاروں کو سیکھنے اور اِن پر چلنے سے پہلے وہ کام کِیا کرتے تھے جن سے بائبل سختی سے منع کرتی ہے۔‏ لیکن وہ اُس وقت خوش اور مطمئن نہیں تھے۔‏ مگر جب وہ خدا کے لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھنے اور خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے لگے تب اُنہیں دلی سکون حاصل ہوا۔‏

۱۸.‏ ہم ایک نوجوان بہن کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۸ اِس کے برعکس ایسے لوگ جنہوں نے مسیحی کلیسیا کو چھوڑ دیا اُنہیں اپنے اِس فیصلے پر پچھتانا پڑا۔‏ ایک بہن جس کا نام تانیہ ہے بتاتی ہے کہ ”‏مَیں بچپن سے اپنے رشتےداروں کے ساتھ اجلاسوں پر جاتی تھی۔‏“‏ لیکن جب وہ سولہ سال کی ہوئی تو اُس نے”‏دُنیا کی رنگ‌رلیوں“‏ میں پڑ کر اجلاسوں پر آنا چھوڑ دیا۔‏ اِس فیصلے کی وجہ سے اُسے سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔‏ وہ شادی کے بغیر ہی حاملہ ہو گئی اور اُس نے اپنا بچہ ضائع کروا دیا۔‏ مگر اب وہ کہتی ہے:‏ ”‏تین سال کلیسیا سے دُور رہ کر مَیں جن تکلیفوں سے گزری ہوں اُنہیں مَیں بھلا نہیں سکتی۔‏ ایک بات جو آج بھی میرے لئے اذیت کا باعث بنتی ہے وہ یہ کہ مَیں نے اپنے بچے کو مار ڈالا۔‏ مَیں اُن تمام نوجوانوں کو جن کی یہ خواہش ہے کہ وہ دُنیا کا مزہ لوٹیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ’‏ایسی بھول نہ کریں!‏‘‏ شروع‌شروع میں تو شاید آپ کو دُنیا کی رنگ‌رلیوں میں بہت مزہ آئے مگر اِس کے نتائج تکلیف‌دہ ہوں گے۔‏ دُنیا میں دُکھوں اور پریشانیوں کے سوا اَور کچھ نہیں۔‏ مَیں اِس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہوں کیونکہ مَیں اِن سب حالات سے گزر چکی ہوں۔‏ یہوواہ کی تنظیم کو کبھی نہ چھوڑیں کیونکہ یہیں آپ خوشی اور تحفظ پا سکتے ہیں۔‏“‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہم مسیحی کلیسیا میں کس لحاظ سے محفوظ رہتے ہیں؟‏

۱۹ ذرا سوچیں کہ اگر آپ کلیسیا کو چھوڑ دیں تو آپ کے ساتھ کیا ہوگا۔‏ بہتیرے بہن‌بھائی تو اُس وقت کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے جو اُنہوں نے سچائی قبول کرنے سے پہلے دُنیا میں گزرا تھا۔‏ (‏یوح ۶:‏۶۸،‏ ۶۹‏)‏ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے ساتھ رفاقت رکھنے سے آپ اُن تکلیفوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں جن کا آج دُنیا میں لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ اپنے بہن‌بھائیوں کے ساتھ رفاقت رکھنا اور باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونا ہمیں خدا کے اصولوں کو یاد رکھنے اور اِن کے مطابق زندگی بسر کرنے میں مدد دے گا۔‏ واقعی،‏ زبورنویس کی طرح ہمارے پاس بھی ’‏بڑے مجمع میں یہوواہ کی شکرگزاری‘‏ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏—‏زبور ۳۵:‏۱۸‏۔‏

۲۰ سچ ہے کہ تمام مسیحیوں کو بعض‌اوقات ایسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے اُن کے لئے یہوواہ خدا کا وفادار رہنا آسان نہیں ہوتا۔‏ اُس وقت اُنہیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سمجھداری سے کام لے سکیں۔‏ اِس سلسلے میں ہم اپنے بہن‌بھائیوں کی مدد کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ اگلے مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ ہم کیسے اپنے بہن‌بھائیوں کے لئے ’‏تسلی اور ترقی‘‏ کا باعث بن سکتے ہیں۔‏—‏۱-‏تھس ۵:‏۱۱‏۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہم زبورنویس آسف کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

‏• دینہ کے ساتھ جوکچھ ہوا ہم اُس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

‏• ہم مسیحی کلیسیا میں کس لحاظ سے محفوظ رہتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

جس طرح ایک تیرنے والا کنارے کے نزدیک رہتا ہے اُسی طرح ہمیں کلیسیا کے نزدیک رہنا چاہئے