مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نرمی سے بات کریں اور صلح کو فروغ دیں

نرمی سے بات کریں اور صلح کو فروغ دیں

نرمی سے بات کریں اور صلح کو فروغ دیں

‏”‏ہمیشہ نرمی کے ساتھ بات کرو۔‏“‏—‏کل ۴:‏۶‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن

۱،‏ ۲.‏ جب ایک بھائی نے نرمی سے بات‌چیت کی تو اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

ایک بھائی گھرگھر منادی کر رہا تھا۔‏ اِس دوران وہ ایک شخص سے ملا جو اُس کی بات سُن کر غصے سے کانپنے لگا۔‏ اُس بھائی نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں نے اُس کے ساتھ بائبل پر بات‌چیت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ میری بات سننے کو بالکل تیار نہیں تھا۔‏ اُس کے بیوی بچوں نے بھی مجھے بُرابھلا کہنا شروع کر دیا۔‏ اِس لئے مَیں نے سوچا کہ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہئے۔‏ مَیں نے اُن سے کہا کہ مَیں آپ سے لڑائی جھگڑا کرنے کے لئے نہیں آیا۔‏ مَیں نے اُنہیں گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳ دکھائی جہاں محبت،‏ حلم،‏ پرہیزگاری اور اطمینان جیسی خوبیوں کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اِس کے بعد مَیں وہاں سے چلا آیا۔‏“‏

۲ اُس بھائی نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏مَیں نے گلی کی دوسری طرف کے گھروں میں مُنادی کرنا شروع کر دیا۔‏ تھوڑی دیر بعد مَیں نے دیکھا کہ وہ شخص اور اُس کے بیوی بچے اپنے گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔‏ اُنہوں نے مجھے بلایا۔‏ مَیں نے سوچا کہ اب پتہ نہیں وہ کیا کہیں گے۔‏ اُس آدمی نے اپنی بدتمیزی کے لئے مجھ سے معافی مانگی اور مجھے ٹھنڈا پانی پلایا۔‏ اُس نے میرے مضبوط ایمان کی تعریف بھی کی۔‏ ہمارے درمیان بڑی اچھی بات‌چیت ہوئی۔‏“‏

۳.‏ جب دوسرے ہم سے بُری طرح پیش آتے ہیں تو ہمیں اپنے غصے پر قابو کیوں رکھنا چاہئے؟‏

۳ آجکل دُنیا میں لوگوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے اِس لئے وہ جلد طیش میں آ جاتے ہیں۔‏ کبھی‌کبھار مُنادی کے کام میں ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے۔‏ ایسی صورت میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اُن سے ”‏نرم‌مزاجی اور احترام کے ساتھ“‏ پیش آئیں۔‏ (‏۱-‏پطر ۳:‏۱۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ جس بھائی کا اُوپر والے پیراگراف میں ذکر کِیا گیا ہے اگر وہ اُس شخص کی بدتمیزی پر خود بھی غصے میں آ جاتا تو شاید اُس شخص کا رویہ نہ بدلتا۔‏ اُس بھائی نے اپنے غصے کو قابو میں رکھا اور نرمی سے بات کی جس کے اچھے نتائج نکلے۔‏

نرمی سے بات کریں

۴.‏ نرمی کے ساتھ بات‌چیت کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

۴ پولس رسول نے یہ ہدایت دی:‏ ”‏ہمیشہ نرمی کے ساتھ بات کرو۔‏“‏ (‏کل ۴:‏۶‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ چاہے ہم ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں،‏ کلیسیا میں بہن‌بھائیوں کے ساتھ ہوں یا پھر اپنے گھروالوں کے ساتھ ہوں ہمیں اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔‏ جب ہم کُھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ہمیں نرمی سے ایسا کرنا چاہئے۔‏ ایسی بات‌چیت صلح اور اَمن کو فروغ دیتی ہے۔‏

۵.‏ کُھل کر بات‌چیت کرنے کا مطلب کیا نہیں ہے؟‏ مثال دے کر واضح کریں۔‏

۵ کُھل کر بات‌چیت کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم جو دل میں آئے وہ فوراً ہی کہہ دیں۔‏ یہ خاص طور پر اُس وقت اہم ہے جب ہم غصے میں ہوں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھنا کمزوری کی علامت ہے۔‏ ‏(‏امثال ۲۵:‏۲۸؛‏ ۲۹:‏۱۱ کو پڑھیں۔‏)‏ ذرا موسیٰ کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ زمین کے ”‏سب آدمیوں سے زیادہ حلیم“‏ تھا۔‏ لیکن ایک موقعے پر اسرائیلی قوم کی بغاوت کی وجہ سے وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔‏ موسیٰ اِس قدر طیش میں آ گیا تھا کہ اُس نے خدا کی بڑائی نہیں کی۔‏ موسیٰ نے کُھل کر اپنے جذبات کا اظہار کِیا تھا لیکن یہوواہ خدا اُس سے خوش نہ تھا۔‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موسیٰ ۴۰ سال تک اسرائیلی قوم کی راہنمائی کرنے کے باوجود اُنہیں اُس ملک میں نہ لے جا سکا جس کا وعدہ یہوواہ خدا نے کِیا تھا۔‏—‏گن ۱۲:‏۳؛‏ ۲۰:‏۱۰،‏ ۱۲؛‏ زبور ۱۰۶:‏۳۲‏۔‏

۶.‏ سوچ‌سمجھ کر اور دوسروں کا لحاظ رکھ کر بولنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۶ ہمیں سوچ‌سمجھ کر اور دوسروں کا لحاظ رکھ کر بولنا چاہئے۔‏ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۰:‏۱۹؛‏ ۱۷:‏۲۷‏)‏ سوچ‌سمجھ کر بولنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار نہ کریں بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بات کرتے وقت ”‏نرمی“‏ اختیار کریں۔‏ ہمیں اپنی باتوں سے دوسروں کو زخمی کرنے کی بجائے اُن کا حوصلہ بڑھانا چاہئے۔‏‏—‏امثال ۱۲:‏۱۸؛‏ ۱۸:‏۲۱ کو پڑھیں۔‏

‏”‏چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے“‏

۷.‏ (‏ا)‏ہمیں کن باتوں سے گریز کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ہمیں اِن باتوں سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟‏

۷ ہمیں ملازمت کی جگہ پر اور منادی کے کام میں لوگوں کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہئے۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ ہمیں کلیسیا میں بہن‌بھائیوں اور اپنے گھروالوں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آنا چاہئے۔‏ اگر ہم دوسروں کے جذبات کی پرواہ کئے بغیر اُن پر غصہ نکالنا شروع کر دیں گے تو اِس سے اُن کی اور ہماری ذہنی اور جسمانی صحت پر بُرا اثر پڑے گا۔‏ (‏امثا ۱۸:‏۶،‏ ۷‏)‏ گالی‌گلوچ کرنا،‏ دوسروں سے نفرت کرنا،‏ اُن سے حقارت سے پیش آنا اور طیش میں آنا غلط ہے اِس لئے ہمیں ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔‏ (‏کل ۳:‏۸؛‏ یعقو ۱:‏۲۰‏)‏ ایسی باتوں کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔‏ اِس کے علاوہ ہم یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو بیٹھیں گے۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدرعدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور جو اُس کو احمق کہے گا وہ آتشِ‌جہنم کا سزاوار ہوگا۔‏“‏—‏متی ۵:‏۲۲‏۔‏

۸.‏ ہمیں کب کُھل کر بات کرنی چاہئے اور ہمیں ایسا کیسے کرنا چاہئے؟‏

۸ اگر ایک بہن یا بھائی نے کچھ ایسا کِیا ہو یا کچھ ایسا کہا ہو جو آپ کو اچھا نہیں لگا تو اپنے دل میں اُس کے خلاف نفرت پیدا نہ ہونے دیں۔‏ (‏امثا ۱۹:‏۱۱‏)‏ بعض صورتوں میں شاید یہ بہتر ہو کہ بات کو دل میں رکھنے کی بجائے اِسے کہہ دیں۔‏ اگر کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے تو پہلے اپنے جذبات پر قابو پائیں اور پھر مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدام اُٹھائیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏“‏ ‏(‏افسیوں ۴:‏۲۶،‏ ۲۷،‏ ۳۱،‏ ۳۲ کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا اُس بہن یا بھائی سے کُھل کر بات کریں لیکن نرمی سے ایسا کریں۔‏ یاد رکھیں کہ آپ اپنے بھائی سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔‏—‏احبا ۱۹:‏۱۷؛‏ متی ۱۸:‏۱۵‏۔‏

۹.‏ کسی مسئلے پر دوسروں سے بات کرنے سے پہلے اپنے جذبات پر قابو پانا کیوں ضروری ہے؟‏

۹ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱،‏ ۷‏)‏ اِس میں یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۵:‏۲۸‏)‏ اِن آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مسئلے پر بات کرنے کے لئے ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا چاہئے۔‏ اگر آپ بہت زیادہ غصے میں دوسرے شخص سے بات کریں گے تو معاملہ اَور زیادہ بگڑ سکتا ہے۔‏ لیکن اگر آپ بہت زیادہ وقت کے بعد مسئلے پر بات کریں گے تو یہ بھی مناسب نہیں ہوگا۔‏

نرمی اختیار کرنے کے فائدے

۱۰.‏ ہم دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں؟‏

۱۰ دوسروں سے بات کرتے وقت نرمی اختیار کرنے سے ہم صلح کو فروغ دیتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری آتی ہے۔‏ اور جب دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو ہمارے لئے اُن سے کُھل کر بات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‏ اگر ہم دوسروں سے مہربانی سے پیش آئیں گے،‏ اُن کی مدد کریں گے،‏ اُنہیں تحفہ دیں گے اور اُن کی مہمان‌نوازی کریں گے تو اُن کے ساتھ ہماری دوستی بڑھے گی اور ہم اُن سے کُھل کر بات کر پائیں گے۔‏ اِس طرح ہم اُن کے سر پر ”‏آگ کے انگاروں کا ڈھیر“‏ لگا رہے ہوں گے۔‏ اِس کے نتیجے میں اُن کی اچھی خوبیاں ظاہر ہونے لگیں گی اور ہم اُن سے کُھل کر بات کر سکیں گے۔‏—‏روم ۱۲:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۱۱.‏ یعقو ب نے اپنے بھائی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا کِیا اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۱۱ ذرا یعقوب کی مثال پر غور کریں۔‏ اُس کا جڑواں بھائی عیسو اُس پر اتنا غصہ ہوا کہ یعقوب اُس سے ڈر کر بھاگ گیا۔‏ کئی سال کے بعد یعقوب واپس اپنے مُلک آ رہا تھا۔‏ وہ راستے میں ہی تھا کہ اُسے خبر ملی کہ عیسو ۴۰۰ آدمیوں کے ساتھ اُس سے ملنے کے لئے آ رہا ہے۔‏ یعقوب نے یہوواہ خدا سے مدد کے لئے دُعا کی۔‏ اُس نے عیسو کو تحفے میں بہت سے مویشی بھیجے۔‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسو کا دل موم ہو گیا اور جب دونوں بھائی ملے تو عیسو نے یعقوب کو گلے سے لگا لیا۔‏—‏پید ۲۷:‏۴۱-‏۴۴؛‏ ۳۲:‏۶،‏ ۱۱،‏ ۱۳-‏۱۵؛‏ ۳۳:‏۴،‏ ۱۰‏۔‏

اپنی باتوں سے دوسروں کا حوصلہ بڑھائیں

۱۲.‏ ہمیں اپنے بہن‌بھائیوں کے ساتھ نرمی سے بات‌چیت کیوں کرنی چاہئے؟‏

۱۲ مسیحیوں کے طور پر ہم خدا کی خدمت کرتے ہیں اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‏ مگر اِس کے ساتھ‌ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں اچھی رائے قائم کریں۔‏ جب ہم اپنے بہن‌بھائیوں کے ساتھ نرمی سے بات‌چیت کرتے ہیں تو اُن کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔‏ لیکن اگر ہم دوسروں پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو ہم اُن کے دل کے بوجھ کو مزید بڑھاتے ہیں۔‏ ہماری وجہ سے شاید وہ یہ سوچنے لگیں کہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو دی ہے۔‏ اِس لئے ہمیں دوسروں کے ساتھ ایسی بات‌چیت کرنی چاہئے جس سے اُن کا حوصلہ بڑھے۔‏ پولس رسول نے کہا تھا کہ ”‏تمہارے مُنہ سے کوئی بُری بات نہ نکلے بلکہ اچھی بات ہی نکلے جو مفید ہو تاکہ سننے والوں کو بھی اُس سے برکت ملے۔‏“‏—‏افس ۴:‏۲۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏جب بزرگ کسی بہن یا بھائی کی اصلاح کرتے ہیں تو اُنہیں کس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏جب بزرگ دوسرے بزرگوں یا برانچ دفتر کو خط لکھتے ہیں تو اُنہیں کس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟‏

۱۳ کلیسیا کے بزرگوں کو چاہئے کہ وہ ”‏نرمی کے ساتھ“‏ گلّہ کی نگہبانی کریں۔‏ (‏۱-‏تھس ۲:‏۷،‏ ۸‏)‏ جب بزرگ کسی بہن یا بھائی کی اصلاح کرتے ہیں تو اُنہیں نرمی سے ایسا کرنا چاہئے۔‏ اُنہیں ”‏سب کے ساتھ نرمی“‏ سے پیش آنا چاہئے،‏ ایسے لوگوں کے ساتھ بھی جو اصلاح کو قبول نہیں کرتے۔‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ بزرگوں کو اُس وقت بھی نرمی ظاہر کرنی چاہئے جب وہ دوسرے بزرگوں یا برانچ دفتر کو خط لکھتے ہیں۔‏ اُنہیں متی ۷:‏۱۲ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ دوسروں کا لحاظ رکھنا چاہئے اور شفقت سے پیش آنا چاہئے۔‏

گھروالوں سے نرمی سے پیش آئیں

۱۴.‏ (‏ا)‏پولس رسول نے شوہروں کو کیا ہدایت دی؟‏ (‏ب)‏اُس نے یہ ہدایت کیوں دی؟‏

۱۴ شاید ہمیں اِس بات کا احساس نہ ہو کہ ہمارے الفاظ اور چہرے کے تاثرات وغیرہ دوسروں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بعض آدمی یہ نہیں سوچتے کہ اُن کے الفاظ کا ایک عورت پر کیا اثر ہوگا۔‏ ایک بہن نے کہا:‏ ”‏جب میرے شوہر غصے میں مجھ پر چلاتے ہیں تو مَیں بہت ڈر جاتی ہوں۔‏“‏ غصے میں کہے ہوئے الفاظ کا اثر مردوں کی نسبت عورتوں پر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ الفاظ کا اثر عورتوں کے دل میں زیادہ دیر تک رہتا ہے۔‏ (‏لو ۲:‏۱۹‏)‏ یہ خاص طور پر اُس صورت میں سچ ہوتا ہے جب ایک ایسا شخص ایک عورت سے تلخی سے بات کرے جس سے وہ پیار کرتی ہے اور جس کا وہ احترام کرتی ہے۔‏ پولس رسول نے شوہروں کو یہ ہدایت دی:‏ ”‏اپنی بیویوں سے محبت رکھو اور اُن سے تلخ‌مزاجی نہ کرو۔‏“‏—‏کل ۳:‏۱۹‏۔‏

۱۵.‏ تمثیل دے کر واضح کریں کہ ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے کیوں پیش آنا چاہئے؟‏

۱۵ ایک شادی‌شُدہ بھائی بتاتے ہیں کہ ایک شوہر کو اپنی بیوی کو ”‏نازک‌ظرف“‏ کیوں سمجھنا چاہئے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏جب آپ کوئی نازک اور قیمتی گلدان اُٹھاتے ہیں تو آپ اِس کو بہت احتیاط سے اُٹھاتے ہیں تاکہ یہ ٹوٹ نہ جائے۔‏ اگر یہ ٹوٹ جائے اور آپ اِسے دوبارہ جوڑنے کی کوشش کریں تو وہ جڑ تو جاتا ہے لیکن جوڑنے کا نشان باقی رہتا ہے۔‏ اِسی طرح جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے بات کرتا ہے تو اُس کے الفاظ بیوی کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔‏ اِس سے اُن کے رشتے میں دراڑ پڑ سکتی ہے۔‏“‏‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۷ کو پڑھیں۔‏

۱۶.‏ ایک بیوی اپنے گھرانے پر اچھا اثر کیسے ڈال سکتی ہے؟‏

۱۶ ایک آدمی کو بھی دوسروں اور خاص طور پر اپنی بیوی کے الفاظ سے یا تو ٹھیس پہنچ سکتی ہے یا پھر اُس کا حوصلہ بڑھ سکتا ہے۔‏ ایک ”‏دانشمند بیوی“‏ کا شوہر یہ ”‏اعتماد“‏ رکھ سکتا ہے کہ وہ اُس کے احساسات کا لحاظ رکھے گی۔‏ (‏امثا ۱۹:‏۱۴؛‏ ۳۱:‏۱۱‏)‏ واقعی ایک بیوی اپنے گھرانے پر یا تو اچھا یا پھر بُرا اثر ڈالتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں بائبل یوں بیان کرتی ہے کہ ”‏دانا عورت اپنا گھر بناتی ہے پر احمق اُسے اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کرتی ہے۔‏“‏—‏امثا ۱۴:‏۱‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏بچوں کو والدین سے کیسے بات کرنی چاہئے؟‏ (‏ب)‏والدین کو بچوں سے کیسے بات کرنی چاہئے اور کیوں؟‏

۱۷ والدین اور بچوں کو ایک دوسرے سے نرمی سے بات کرنی چاہئے۔‏ (‏متی ۱۵:‏۴‏)‏ جب والدین بچوں کے ساتھ بات کرتے ہیں تو اُن کو بچوں کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے۔‏ اُنہیں اپنے بچوں کو ’‏دِق نہیں کرنا‘‏ چاہئے یعنی اُن کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آنا چاہئے۔‏ (‏کل ۳:‏۲۱‏)‏ اِس کے علاوہ والدین کو اپنے بچوں کو ’‏غصہ نہیں دلانا‘‏ چاہئے۔‏ (‏افس ۶:‏۴‏)‏ اگر والدین یا کلیسیا کے بزرگوں کو بچوں کی تنبیہ کرنی پڑے تو تب بھی اُن کو بچوں سے نرمی سے پیش آنا چاہئے۔‏ جب ہم بچوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں تو اُن کے لئے تنبیہ قبول کرنا قدراً آسان ہو جاتا ہے۔‏ اور اِس طرح وہ یہوواہ خدا کی قربت میں بھی رہتے ہیں۔‏ ہمیں اُن کو یہ احساس نہیں دلانا چاہئے کہ اُن میں کبھی بہتری نہیں آ سکتی ورنہ وہ خود میں بہتری لانے کی کوشش کرنا ہی چھوڑ دیں گے۔‏ یاد رکھیں کہ بچے شاید ہمارے کہے ہوئے الفاظ کو یاد نہ رکھیں لیکن وہ ہمارے کہنے کے انداز کو ضرور یاد رکھیں گے۔‏

ہم غصے کو ختم کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۸.‏ آپ اپنے دل سے غصہ ختم کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ غصے پر قابو پانے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہمارے چہرے کے تاثرات سے غصہ ظاہر نہ ہو۔‏ اگر ہم گاڑی کی بریک دباتے ہیں اور اِس کے ساتھ‌ساتھ ایکسی‌لیٹر پر بھی دباؤ ڈالتے ہیں تو گاڑی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔‏ اسی طرح جب ہم اندر ہی اندر غصے سے کھول رہے ہوتے ہیں اور بظاہر اسے دبائے رکھتے ہیں تو یہ ہماری صحت کے لئے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔‏ اپنے دل میں غصہ دبا کر رکھنے اور بعد میں ایک دم بھڑک اُٹھنے سے گریز کریں۔‏ اگر کسی نے آپ کو ٹھیس پہنچائی ہے اور آپ کے دل میں غصہ پیدا ہو رہا ہے تو یہوواہ خدا سے مدد کے لئے دُعا کریں تاکہ آپ کے دل میں غصہ نہ رہے۔‏ ایسا کرنے سے آپ نئی انسانیت کو اپنا رہے ہوں گے۔‏‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲؛‏ افسیوں ۴:‏۲۳،‏ ۲۴ کو پڑھیں۔‏

۱۹.‏ اگر آپ کو یا پھر کسی اَور کو غصہ آ رہا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ معاملہ مزید نہ بگڑ جائے؟‏

۱۹ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ کوئی آپ کو غصہ دلا رہا ہے تو یہ بہتر ہوگا کہ آپ وہاں سے چلے جائیں تاکہ آپ اپنے احساسات پر قابو پا سکیں۔‏ (‏امثا ۱۷:‏۱۴‏)‏ اگر آپ کسی سے بات کر رہے ہیں اور وہ آپ پر غصہ کرنے لگے تو اُس کے ساتھ نرمی سے بات کرنے کی کوشش کریں۔‏ یاد رکھیں کہ ”‏نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضب‌انگیز ہیں۔‏“‏ (‏امثا ۱۵:‏۱‏)‏ اگر آپ غصے میں جواب دیں گے تو یہ جلتی پر تیل ڈالنے کے برابر ہوگا اور معاملہ مزید بگڑ جائے گا۔‏ (‏امثا ۲۶:‏۲۱‏)‏ اگر آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو بھی ’‏بولنے میں دھیمے ہوں اور غصہ کرنے میں جلدی نہ کریں۔‏‘‏ (‏یعقو ۱:‏۱۹‏،‏ نیو اردو بائبل ورشن‏)‏ یہوواہ خدا کی پاک روح کے لئے دُعا کریں تاکہ آپ اچھی باتیں کہیں نہ کہ بُری۔‏

دل سے معاف کریں

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏کس بات کو سمجھنے سے ہم دوسروں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہوں گے؟‏ (‏ب)‏ہمیں دوسروں کو معاف کرنے کو تیار کیوں ہونا چاہئے؟‏

۲۰ یہ سچ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنی زبان کو پوری طرح قابو میں نہیں رکھ سکتا۔‏ (‏یعقو ۳:‏۲‏)‏ کبھی کبھار ہمارے گھر والے یا پھر کلیسیا میں بہن‌بھائی کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے ہمیں ٹھیس پہنچتی ہے۔‏ فوراً غصے میں آنے کی بجائے ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کہا ہے۔‏ ‏(‏واعظ ۷:‏۸،‏ ۹ کو پڑھیں۔‏)‏ کیا وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں؟‏ کیا اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟‏ یا کیا وہ کسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں؟‏

۲۱ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسی باتوں کو دوسروں پر غصہ نکالنے کا بہانہ بنایا جائے۔‏ جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ کسی شخص نے ایسی بات کیوں کہی ہے یا ایسا کام کیوں کِیا ہے تو ہمارے لئے اُسے معاف کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔‏ ہم بھی ایسی باتیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن سے دوسروں کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمیں معاف کر دیں۔‏ (‏واعظ ۷:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہمیں معاف کر دے تو ہمیں بھی دوسروں کو معاف کرنا چاہئے۔‏ (‏متی ۶:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ ۱۸:‏۲۱،‏ ۲۲،‏ ۳۵‏)‏ اِس لئے اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ہمیں دوسروں سے معافی مانگنی چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں دوسروں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔‏ اِس طرح ہم اپنے گھر اور کلیسیا میں محبت کو فروغ دے رہے ہوں گے۔‏ یاد رکھیں کہ محبت ”‏کمال کا پٹکا“‏ ہے۔‏—‏کل ۳:‏۱۴‏۔‏

۲۲.‏ بائبل میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کرنے کے کون سے اچھے نتائج نکلیں گے؟‏

۲۲ اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے۔‏ اِس لئے ہم پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور شاید ہمیں اتحاد برقرار رکھنا مشکل لگے۔‏ لیکن اگر ہم بائبل میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کریں گے تو ہم اچھی باتیں کہیں گے نہ کہ بُری باتیں۔‏ ہم کلیسیا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ اَمن اور صلح سے رہیں گے۔‏ اور اِس طرح ہم دوسروں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کریں گے۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• کسی مسئلے پر بات کرنے کے لئے کچھ دیر انتظار کرنا کیوں فائدہ‌مند ہوتا ہے؟‏

‏• گھر والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ ”‏نرمی“‏ سے کیوں بات کرنی چاہئے؟‏

‏• ہم اپنی باتوں سے دوسروں کو ٹھیس پہنچانے سے کیسے گریز کر سکتے ہیں؟‏

‏• کس بات کو سمجھنے سے ہمیں دوسروں کو معاف کرنا زیادہ آسان لگے گا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویریں]‏

کسی مسئلے پر بات کرنے سے پہلے اپنے جذبات پر قابو پائیں

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے بات کرنی چاہئے