مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

گُناہ کے متعلق خدا کے کلام کی تعلیم

گُناہ کے متعلق خدا کے کلام کی تعلیم

گُناہ کے متعلق خدا کے کلام کی تعلیم

ذرا سوچیں!‏ اگر کسی کو بخار ہو تو کیا تھرمامیٹر توڑ دینے سے وہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اُسے بخار نہیں ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اِسی طرح آجکل گُناہ کے متعلق لوگوں کی سوچ بدل جانے کا مطلب یہ نہیں کہ گُناہ کے متعلق خدا کے کلام میں درج معیار بھی بدل گئے ہیں۔‏ دراصل خدا کا کلام گُناہ اور اِس کے اثرات کے بارے میں واضح تعلیم دیتا ہے۔‏ آئیں اِن پر غور کریں۔‏

ہم سب گُناہ کرتے ہیں

تقریباً دو ہزار سال پہلے یسوع مسیح کے ایک رسول پولس نے کہا:‏ ”‏جس نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۷:‏۱۹‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس رسول بھی اپنے اندر بسے ہوئے گُناہ کی وجہ سے بےبس تھا۔‏ اپنا جائزہ لینے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہماری حالت بھی ایسی ہی ہے۔‏ ہم خدا کے معیاروں پر چلنا تو چاہتے ہیں مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو پوری طرح خدا کے معیاروں پر چل سکے۔‏ اِس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم جان‌بوجھ کر خدا کے حکموں کو توڑتے ہیں بلکہ ہم پیدائشی طور پر گنہگار ہیں۔‏ اِس سلسلے میں پولس رسول نے مزید کہا:‏ ”‏پس اگر مَیں وہ کرتا ہوں جس کا اِرادہ نہیں کرتا تو اُس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔‏“‏—‏رومیوں ۷:‏۲۰‏۔‏

پس یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہم سب گُناہ کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏ اِسی لئے پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اِس حالت کو کیسے پہنچے؟‏ پولس رسول اِس کا جواب یوں دیتا ہے:‏ ”‏ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گُناہ کِیا۔‏“‏—‏رومیوں ۳:‏۲۳؛‏ ۵:‏۱۲‏۔‏

ہم دیکھ چکے ہیں کہ لوگ تو آدم اور حوا کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔‏ اِسی لئے وہ یہ بھی نہیں مانتے کہ آدم اور حوا کے گُناہ کی وجہ سے وہ خدا کی قربت سے محروم ہو گئے ہیں۔‏ مگر خدا کا کلام واضح کرتا ہے کہ حقیقت یہی ہے۔‏ یسوع مسیح نے بھی ایک مرتبہ لوگوں کو تعلیم دیتے وقت آدم اور حوا کا ذکر کِیا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آدم اور حوا کے وجود کو تسلیم کرتا تھا۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۷؛‏ ۲:‏۲۴؛‏ ۵:‏۲؛‏ متی ۱۹:‏۱-‏۵‏۔‏

خدا کے کلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ یسوع مسیح انسانوں کو گُناہ کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے زمین پر آیا تھا۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ خدا نے یسوع مسیح کے ذریعے انسان کو نجات دینے کا بندوبست کِیا۔‏ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لئے اِس بندوبست کو قبول کرنا ضروری ہے۔‏ لیکن اگر ہم گُناہ کے متعلق خدا کے کلام میں درج معیاروں کو ہی نہیں سمجھتے تو نجات کے بندوبست کو کیسے قبول کریں گے۔‏

یسوع کی قربانی گُناہ سے نجات دلاتی ہے

جب خدا نے آدم اور حوا کو خلق کِیا تو اُس نے یہ واضح کر دیا کہ آدم اور حوا اُس کی فرمانبرداری کرنے سے ہی ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔‏ آدم اور حوا خدا کی فرمانبرداری کرنے میں ناکام ہو گئے۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۵-‏۱۷؛‏ ۳:‏۶‏)‏ یوں وہ خدا کے گنہگار بن گئے اور اُس کی قربت سے محروم ہو گئے۔‏ گُناہ کی وجہ سے وہ بوڑھے ہونے لگے اور آخرکار مر گئے۔‏ لیکن اُن کے گُناہ کی سزا ہم کیوں بھگت رہے ہیں؟‏

اِس کا جواب واضح ہے۔‏ گنہگار والدین گُناہ سے پاک اولاد پیدا نہیں کر سکتے۔‏ اِس لئے آدم اور حوا کی اولاد بھی گُناہ کی حالت میں پیدا ہوئی جس میں ہم سب بھی شامل ہیں۔‏ پولس رسول نے بیان کِیا کہ ”‏گُناہ کی مزدوری موت ہے۔‏“‏ لہٰذا،‏ گُناہ کا ورثہ پانے کی وجہ سے ہم بھی مرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ لیکن ہمارے پاس موت سے نجات حاصل کرنے کی اُمید ہے۔‏ پولس رسول نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا کی وفاداری کرنے والے لوگ یسوع مسیح کی قربانی کی بدولت آدم اور حوا کے گُناہ کے اثرات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔‏ * (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ آپ اِس بخشش کے لئے اپنی شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں

پولس رسول نے خدا کے الہام سے لکھا:‏ ”‏مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے اِس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ .‏ .‏ .‏ ایک سب کے واسطے مؤا .‏ .‏ .‏۔‏ اور وہ اِس لئے سب کے واسطے مؤا کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اُس کے لئے جو اُن کے واسطے مؤا اور پھر جی اُٹھا۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یسوع مسیح کی قربانی ہمیں گُناہ اور موت سے نجات دے سکتی ہے تو ہم اِس بخشش کے لئے شکرگزاری ظاہر کرنا چاہیں گے۔‏ اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کے اُصولوں اور معیاروں کا علم حاصل کریں اور اُن کے مطابق زندگی گزاریں۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳،‏ ۱۷‏۔‏

جان‌بوجھ کر گُناہ کرنے سے ہم خدا کی قربت کھو بیٹھتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں بادشاہ داؤد کی مثال پر غور کریں۔‏ اُس نے بت‌سبع کے ساتھ زنا کِیا اور اُس کے شوہر کو مروا ڈالا۔‏ جب داؤد کو احساس ہوا کہ اُس نے بہت سنگین گُناہ کِیا ہے تو وہ نہایت پشیمان ہوا۔‏ اُس کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس نے خدا کے خلاف گُناہ کرکے اُسے دُکھ پہنچایا تھا۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے یہوواہ خدا کے سامنے اپنے گُناہ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں نے فقط تیرا ہی گُناہ کِیا ہے اور وہ کام کِیا ہے جو تیری نظر میں بُرا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۵۱:‏۴‏)‏ اِسی طرح،‏ جب یوسف کو زناکاری کی آزمائش کا سامنا ہوا تو اُس نے اپنے ضمیر کی آواز سنی اور کہا:‏ ”‏بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟‏“‏—‏پیدایش ۳۹:‏۹‏۔‏

پس گُناہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد شرمندگی کے احساس یا سزا کے خوف کا نام نہیں ہے۔‏ دراصل گُناہ خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی ہے۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم جنسی تعلقات،‏ دیانتداری اور عبادت کے سلسلے میں خدا کے اُصولوں کو توڑتے ہیں تو ہم خدا کے گنہگار ٹھہرتے ہیں۔‏ اگر ہم جان‌بوجھ کر گُناہ کرتے ہیں تو ہم خدا کی قربت سے محروم ہو جاتے اور اُس کے دُشمن بن جاتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ اِس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا نہایت اہم ہے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۴،‏ ۸‏۔‏

پس ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ گُناہ کے متعلق خدا کے کلام میں درج معیاروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‏ بس انسانوں کی سوچ بدل گئی ہے۔‏ اُنہوں نے گُناہ کے متعلق فرق‌فرق نظریات اَپنا لئے ہیں تاکہ کسی طرح اِس کی سنگینی کو کم کِیا جا سکے۔‏ اِس سلسلے میں بعض کا تو ضمیر ہی مر گیا ہے۔‏ لیکن جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں اُنہیں ایسی سوچ سے بچنا چاہئے۔‏ ہم سیکھ چکے ہیں کہ گُناہ کا انجام صرف شرمندگی نہیں بلکہ موت ہے۔‏

تاہم،‏ اگر ہم اپنے گُناہوں سے توبہ کرکے آئندہ اِن سے دُور رہنے کا عزم کرتے ہیں تو ہم یسوع کی قربانی کے وسیلے سے معافی اور نجات حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ پولس رسول کی یہ بات نہایت اطمینان‌بخش ہے:‏ ”‏مبارک وہ ہیں جن کی بدکاریاں معاف ہوئیں اور جن کے گُناہ ڈھانکے گئے۔‏ مبارک وہ شخص ہے جس کے گُناہ [‏یہوواہ]‏ محسوب نہ کرے گا۔‏“‏—‏رومیوں ۴:‏۷،‏ ۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 یسوع مسیح کی قربانی خدا کے فرمانبردار لوگوں کو نجات کیسے دلاتی ہے؟‏ اِس سلسلے میں کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے صفحہ ۴۷-‏۵۴ کو دیکھیں۔‏ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر بکس/‏تصویر]‏

ایک بڑی تبدیلی

کافی عرصے تک کیتھولک چرچ یہ سکھاتا رہا کہ جن شِیرخوار بچوں کا بپتسمہ نہیں ہوتا اُن کی روحیں آسمان پر جانے کی بجائے ایسی جگہ جاتی ہیں جو اعراف کہلاتی ہے۔‏ شروع ہی سے اعراف کا عقیدہ کیتھولک چرچ جانے والے زیادہ‌تر لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل تھا۔‏ تاہم،‏ کیتھولک چرچ کی کتابوں میں اب یہ عقیدہ نظر نہیں آتا۔‏ دراصل ۲۰۰۷ میں کیتھولک چرچ نے اِس عقیدے کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا اور ایک دستاویز میں یوں بیان کِیا:‏ ”‏چند مذہبی وجوہات کی بِنا پر یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ جن شِیرخوار بچوں کا بپتسمہ نہیں ہوتا وہ بھی آسمان پر خدا کے پاس جا سکتے ہیں۔‏“‏

مگر کیتھولک چرچ نے اتنی بڑی تبدیلی کیوں کی؟‏ ایک فرانسیسی عالم کے مطابق اِس بڑی تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ ”‏چرچ اُس نقصان سے بچ جائے جو کئی صدیوں سے اِس عقیدے کی وجہ سے ہو رہا تھا۔‏ اِس عقیدے کو بنانے کا مقصد صرف لوگوں کو ڈرانا تھا تاکہ وہ جلدازجلد اپنے بچوں کا بپتسمہ کرائیں۔‏“‏

اِس عقیدے کی ابتدا کیسے ہوئی؟‏ بارہویں صدی میں کیتھولک چرچ کے رہنما برزخ کے عقیدے پر غور کر رہے تھے۔‏ اِس عقیدے کے مطابق برزخ ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان کی رُوح کو آسمان پر جانے سے پہلے پاک کِیا جاتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ کیتھولک چرچ کی تعلیم یہ تھی کہ مرنے کے بعد رُوح زندہ رہتی ہے۔‏ مگر سوال یہ پیدا ہوا کہ اُن شِیرخوار بچوں کی رُوحیں کہاں جاتی ہیں جن کا بپتسمہ نہیں ہوا اور جو دوزخ میں جانے کے سزاوار بھی نہیں ہیں۔‏ کیتھولک رہنماؤں نے وضاحت پیش کی کہ ایسے شِیرخوار بچوں کی رُوحیں اعراف میں جاتی ہیں۔‏ یوں اعراف کے عقیدے کی ابتدا ہوئی۔‏

تاہم،‏ خدا کا کلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مرنے کے بعد انسان کی رُوح زندہ رہتی ہے۔‏ اِس کے برعکس خدا کا کلام واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی بھی جہان میں زندہ نہیں رہتا بلکہ وہ ”‏نیست‌ونابود“‏ ہو جاتا ہے۔‏ (‏اعمال ۳:‏۲۳؛‏ حزقی‌ایل ۱۸:‏۴‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعراف کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ خدا کا کلام یہ بھی بتاتا ہے کہ مُردے گہری نیند میں ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔‏—‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰؛‏ یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴‏۔‏

خدا کا کلام یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سچے مسیحیوں کی اولاد خدا کی نظر میں پاک ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۱۴‏)‏ لیکن ذرا سوچیں!‏ اگر بچوں کی نجات کے لئے بپتسمہ ضروری ہوتا تو خدا کے کلام کی یہ بات بالکل بےمعنی ہوتی۔‏

اعراف کا عقیدہ دراصل خدا کی توہین ہے۔‏ یہ شفیق اور رحم‌دل خدا کو ایک ایسے ظالم حکمران کے طور پر پیش کرتا ہے جو ننھے بچوں کو بھی سخت سزا دیتا ہے۔‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴؛‏ متی ۵:‏۴۵؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ پس،‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ خلوص دل لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ خدا کا کلام اِس کی تعلیم نہیں دیتا۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویریں]‏

ہم خدا کے اُصولوں پر عمل کرنے سے اُس کی قربت حاصل کر سکتے ہیں