مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

گُناہ کے متعلق سوچ میں تبدیلی کی وجوہات

گُناہ کے متعلق سوچ میں تبدیلی کی وجوہات

گُناہ کے متعلق سوچ میں تبدیلی کی وجوہات

‏”‏آج کے دَور میں لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے آدم اور حوا نے جو گُناہ کِیا اُس کی سزا ہم کیوں بھگتیں؟‏ آدم اور حوا کے گُناہ کی بات تو چھوڑئیے لوگوں کے ذہن سے تو گُناہ کا تصور ہی مٹ گیا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اُن کا خیال ہے کہ ایڈولف ہٹلر جیسے لوگوں نے گُناہ کئے ہوں گے مگر ہم تو بےگُناہ ہیں۔‏“‏—‏دی وال سٹریٹ جرنل۔‏

اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں میں گُناہ کا احساس مر چکا ہے۔‏ لیکن لوگوں کو لفظ گُناہ سے اتنی نفرت کیوں ہے؟‏ وہ اِس کے بارے میں سننا پسند کیوں نہیں کرتے؟‏ آخر لوگوں کی سوچ میں اتنی بڑی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟‏

خدا کے کلام کے مطابق دو قسم کے گناہ ہیں۔‏ پہلا گُناہ وہ جو ہمیں آدم اور حوا سے ورثے میں ملا ہے۔‏ دوسرا گُناہ وہ جو ہم جان‌بوجھ کر کرتے ہیں۔‏ آئیں دیکھیں کہ اِن کے بارے میں لوگوں کی سوچ میں تبدیلی کی وجوہات کیا ہیں۔‏

آدم اور حوا سے ملنے والے گُناہ کے متعلق عجیب تعلیم

خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ تمام انسانوں کو آدم اور حوا سے گُناہ ورثے میں ملا ہے۔‏ اِسی لئے ہم سب پیدائشی طور پر گنہگار ہیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر طرح کی ناراستی گُناہ“‏ ہے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۷‏۔‏

تاہم،‏ لوگ آدم اور حوا کے گُناہ کا ذمہ اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔‏ یہ بات اُن کی سمجھ سے باہر ہے کہ خدا اُنہیں ایسے گُناہ کی سزا کیوں دیتا ہے جو اُنہوں نے کِیا ہی نہیں۔‏ اِس سلسلے میں مذہب پر تحقیق کرنے والا ایک عالم بیان کرتا ہے:‏ ”‏اگر لوگوں کو گُناہ اور اِس کے اثرات کی سنگینی کے متعلق کچھ سکھایا بھی جاتا ہے تو وہ اِسے قبول نہیں کرتے۔‏ اور اگر بعض اِسے قبول کر بھی لیں تو وہ اِس پر عمل نہیں کرتے۔‏“‏

آدم اور حوا کی طرف سے ملنے والے گُناہ کو تسلیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مذہبی عالموں نے لوگوں کو اِس کے متعلق کچھ عجیب ہی تعلیم دی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کیتھولک چرچ کی تعلیم یہ تھی کہ شِیرخوار بچوں کا بپتسمہ ضرور ہونا چاہئے تاکہ اُن کے گُناہ دُھل جائیں۔‏ اگر کوئی شِیرخوار بچہ بپتسمہ لئے بغیر مر جاتا ہے تو اُس کے گُناہ معاف نہیں ہوتے۔‏ اِس لئے وہ کبھی بھی آسمان پر نہیں جا سکتا۔‏ سولہویں صدی میں کیتھولک رہنماؤں کی ایک مجلس نے اِس تعلیم سے انکار کرنے والے تمام لوگوں کو سزا کے لائق قرار دیا۔‏ مذہبی رہنما کیلون نے تو یہاں تک سکھایا کہ شِیرخوار بچے ’‏اپنی ماں کے پیٹ ہی سے دوزخ کی سزا کے لائق ہوتے ہیں۔‏ اِسی لئے خدا اُن سے نفرت کرتا ہے۔‏‘‏

پس چرچ کی ایسی عجیب تعلیم کی وجہ سے لوگ آدم اور حوا سے ملنے والے گُناہ کو تسلیم نہیں کرتے۔‏ بہت سے لوگ بچوں کو ننھے فرشتے سمجھتے ہیں۔‏ اِس لئے اُن کا خیال ہے کہ بچوں کو آدم اور حوا سے ملنے والے گُناہ کی وجہ سے دوزخ کی سزا کے لائق قرار دینا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔‏ دراصل بعض مذہبی رہنما خود بھی اِس بات کو مانتے ہیں کہ بچوں کو ایسی سخت سزا دینا سنگدلی ہے۔‏ اُن کے خیال میں اِس بات کا فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ جس بچے کا بپتسمہ نہیں ہوا اُس کے ساتھ کیا ہوگا۔‏ کیتھولک چرچ کئی صدیوں تک یہی سکھاتا رہا کہ جن بچوں کا بپتسمہ نہیں ہوتا اُن کی روحیں آسمان پر جانے کی بجائے ایسی جگہ میں رہتی ہیں جو اعراف کہلاتی ہے۔‏ تاہم،‏ یہ تعلیم چرچ کے باضابطہ عقیدے میں شامل نہیں ہو سکی۔‏ *

ایک اَور وجہ بھی ہے جس کی بِنا پر لوگ آدم اور حوا کی طرف سے ملنے والے گُناہ کو تسلیم نہیں کرتے۔‏ دراصل اُنیسویں صدی کے مذہبی عالموں اور سائنسدانوں نے لوگوں کے ذہن میں بائبل کے بارے میں شک پیدا کر دیا تھا۔‏ اُن کا کہنا تھا کہ بائبل تاریخی لحاظ سے دُرست نہیں۔‏ مثال کے طور پر ڈارون نے ارتقا کا نظریہ پیش کِیا۔‏ اِس نظریے کی وجہ سے بہت سے لوگ آدم اور حوا کو محض کسی داستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔‏ اِس کے نتیجے میں لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بائبل خدا کا کلام نہیں بلکہ یہ انسانی خیالات اور روایات پر مبنی کتاب ہے۔‏

اب ذرا سوچیں کہ جب لوگ آدم اور حوا کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو وہ یہ کیسے تسلیم کریں گے کہ آدم اور حوا نے کبھی کوئی گُناہ بھی کِیا تھا۔‏ اور جو یہ مانتے ہیں کہ اُنہیں آدم اور حوا سے گُناہ کا ورثہ ملا ہے وہ اِسے گُناہ کرنے کا بہانہ سمجھتے ہیں۔‏

پس،‏ لوگوں کے ذہن سے اگر آدم اور حوا سے ملنے والے گُناہ کا تصور مٹ گیا ہے توپھر اُن گُناہوں کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے جو ہم جان‌بوجھ کر کرتے ہیں؟‏ کیا خدا ایسے لوگوں سے ناراض ہوتا ہے جو جان‌بوجھ کر گُناہ کرتے ہیں؟‏

گُناہ کے متعلق مذہب کی بےاثر تعلیم

حرص،‏ قتل،‏ زناکاری اور چوری وغیرہ ایسے گُناہ ہیں جو لوگ کسی مقصد کے تحت جان‌بوجھ کر کرتے ہیں۔‏ زیادہ‌تر مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ ایسے گُناہوں سے توبہ نہیں کرتے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ تک تڑپتے رہیں گے۔‏ *

دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لئے بھی مختلف طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر کیتھولک چرچ یہ سکھاتا ہے کہ فادر کو گُناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔‏ اِس لئے لوگوں کو فادر کے سامنے اپنے گُناہوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔‏ تاہم،‏ اب زیادہ‌تر کیتھولک اپنے گُناہوں کی معافی کے لئے فادر کے سامنے اعتراف اور توبہ کرنے کو اہم خیال نہیں کرتے۔‏ اِس سلسلے میں ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا کہ اٹلی میں ۶۰ فیصد کیتھولک اب اعتراف کے لئے نہیں جاتے۔‏

اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گُناہ اور اِس کے سنگین نتائج کے بارے میں مذاہب کی تعلیم لوگوں کو گُناہ سے باز رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔‏ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اب گُناہ کو گُناہ نہیں سمجھتے۔‏ مثال کے طور پر بعض کا خیال ہے کہ اگر ایک جوان لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں اور اِس سے کسی اَور کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی تو اِس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔‏

دراصل لوگوں میں ایسی سوچ اِس لئے پائی جاتی ہے کیونکہ گُناہ کے متعلق سکھائی جانے والی تعلیم اُن کے دل کو نہیں چھوتی۔‏ کئی لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ محبت کرنے والا خدا گنہگاروں کو ہمیشہ تک دوزخ کی آگ میں جلنے کے لئے بھلا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔‏ اِن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں میں گُناہ کا احساس کیوں مر گیا ہے۔‏ مگر اَور بھی ایسی وجوہات ہیں جن کی بِنا پر گُناہ کے متعلق لوگوں کی سوچ بدل گئی ہے۔‏ آئیں اِن وجوہات پر غور کریں۔‏

معاشرتی معیاروں کا خون

پچھلی چند صدیوں میں ہونے والی جنگوں اور مذہبی اور نسلی لڑائیوں نے لوگوں کی زندگی اور سوچ پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔‏ اِسی لئے لوگوں کے نزدیک اُن کی پُرانی روایات اور معیاروں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔‏ وہ سوچتے ہیں کہ ’‏کیا اِس جدید ٹیکنالوجی کی دُنیا میں ایسی روایات اور معیاروں کے مطابق چلنا عقلمندی ہوگا جنہیں صدیوں پہلے بنایا گیا تھا؟‏‘‏ بہت سے عالم کہتے ہیں کہ یہ واقعی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔‏ اُن کا خیال ہے کہ پُرانی روایات کو چھوڑ کر لوگوں کو نئی تعلیم دی جانی چاہئے تاکہ وہ زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔‏

اِس سوچ نے لوگوں کو خدا سے دُور کر دیا ہے۔‏ بہت سے ملکوں میں اب کم ہی لوگ عبادت کے لئے جاتے ہیں۔‏ ایسے لوگوں کی تعداد میں دن‌بدن اضافہ ہو رہا ہے جو خدا پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔‏ بعض تو مذہبی عقیدوں کو فضول سمجھتے ہیں۔‏ وہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی خدا نہیں ہے اور انسان محض ارتقا کے ذریعے وجود میں آیا ہے تو پھر گُناہ کا تصور بالکل بےمعنی ہے۔‏

آجکل لوگ جنس کے معاملے میں بہت آزاد خیال ہو گئے ہیں۔‏ خاص طور پر حمل کو روکنے والی جدید دوائیوں کی وجہ سے لوگ بےدھڑک جنسی کام کرتے ہیں۔‏ اِس سے مذہبی اور معاشرتی معیاروں کا خون ہو گیا ہے۔‏ یوں ایک نئی نسل سامنے آئی ہے جس میں اخلاقیات اور گُناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔‏ ایک مصنف کے مطابق ”‏آج کی دُنیا میں لوگوں کے سر پر جنس کا جنون سوار ہے۔‏“‏

لوگوں کی من‌پسند تعلیم دینے کا انجام

امریکہ میں رہنے والے مذہبی رہنماؤں کے متعلق نیوزویک رسالہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مذہبی رہنما لوگوں کی پسند کی باتیں کرتے ہیں۔‏ اُنہیں ڈر ہے کہ اُن کے رکن کسی اَور مذہب میں نہ چلے جائیں۔‏“‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی اُنہیں گُناہوں سے توبہ کرنے اور اپنے اندر اچھی خوبیاں پیدا کرنے کی نصیحت کرے۔‏ اِس سلسلے میں شیکاگو سن ٹائمز اخبار بیان کرتا ہے کہ زیادہ‌تر مذہبی رہنما اب ”‏خدا کے کلام کی باتیں چھوڑ کر لوگوں کا دل بہلانے اور خوش کرنے والی باتیں کرتے ہیں۔‏“‏

اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر مذہب خدا کے بارے میں اپنے ہی نظریات پیش کرتا ہے۔‏ مذہبی رہنما بھی خدا کے حکم ماننے کی اہمیت کو واضح کرنے کی بجائے ایسی باتوں پر زور دیتے ہیں جو لوگ پسند کرتے ہیں۔‏ وہ صرف لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔‏ یہی وجہ ہے کہ آجکل مذہب تو موجود ہیں مگر اُن کی تعلیم میں کوئی دم نہیں۔‏ اِس بات کو ایک اخبار دی وال سٹریٹ جرنل یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏ایک وقت تھا جب خدا کے معیاروں کی پابندی کو مذہب کی بنیاد سمجھا جاتا تھا مگر اب مذہبی رہنماؤں کی تعلیم یہ ہے کہ صرف رحم دل ہونا اور دوسروں کا لحاظ رکھنا ہی کافی ہے۔‏“‏

اِن تمام حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ صرف اُسی مذہب کو پسند کرتے ہیں جو اُن کی مرضی کے مطابق تعلیم دیتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں اخبار دی وال سٹریٹ جرنل مزید بیان کرتا ہے کہ جو لوگ ایسا نظریہ رکھتے ہیں وہ ”‏کوئی بھی ایسا مذہب اختیار کر سکتے ہیں جس میں اصولوں اور قوانین کی پابندی پر اصرار نہیں کِیا جاتا۔‏“‏ نیز،‏ ایسے مذاہب بھی اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ جو شخص اُن کا رکن بننا چاہتا ہے وہ ”‏کس طرح کی زندگی گزار رہا ہے۔‏“‏

یہ ساری باتیں پڑھ کر آپ کے ذہن میں شاید وہ الفاظ آتے ہوں جو یسوع کے ایک رسول پولس نے لکھے تھے۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏ایسا وقت آئے گا کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی‌اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لیں گے۔‏ اور اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر“‏ لیں گے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏۔‏

جب مذہبی رہنما لوگوں کی من‌پسند تعلیم دیتے ہیں تو دراصل وہ اُنہیں بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔‏ کیونکہ وہ لوگوں کو گُناہ اور اِس کے سنگین نتائج کے متعلق خدا کے کلام سے صحیح تعلیم نہیں دیتے۔‏ اِس کے برعکس یسوع مسیح اور اُس کے رسولوں نے لوگوں کو خاص طور پر یہ سکھایا کہ اُنہیں اپنے گُناہوں سے توبہ کرنی چاہئے تاکہ وہ خدا سے معافی حاصل کر سکیں۔‏ اِس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے برائےمہربانی اگلا مضمون پڑھئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 خدا کا کلام اعراف کے عقیدے کی تعلیم نہیں دیتا۔‏ اِس عقیدے کی وجہ سے لوگ سخت اُلجھن کا شکار ہو گئے۔‏ شاید اِسی لئے اعراف کے عقیدے کو کیتھولک چرچ کے باضابطہ عقیدوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔‏ صفحہ ۱۰ پر بکس ”‏ایک بڑی تبدیلی“‏ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 14 خدا کا کلام دوزخ کے عقیدے کی تعلیم نہیں دیتا۔‏ مزید معلومات کے لئے کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے باب ۶،‏ ”‏مرنے پر کیا واقع ہوتا ہے؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر عبارت]‏

لوگوں کی من‌پسند تعلیم دینے کا انجام بہت بُرا ہوا ہے

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

‏”‏اب ہماری آنکھیں کُھل گئی ہیں“‏

▪ ”‏آجکل سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ خود کو گنہگار ہی نہیں سمجھتے۔‏ اِس لئے وہ معافی کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔‏ وہ کہتے ہیں کہ وہ وقت گیا جب ہم گُناہ کا لفظ سُن کر ڈر جاتے تھے۔‏ مگر اب ہماری آنکھیں کُھل گئی ہیں۔‏ اگر مذہب گُناہ کے متعلق کوئی وضاحت پیش کرتا بھی ہے تو ہمیں اِس سے کوئی مطلب نہیں۔‏“‏‏—‏مذہبی عالم جان اے.‏ سٹڈیبیکر۔‏

▪ ”‏لوگ ایک دوسرے سے اعلیٰ معیاروں کی توقع کرتے ہیں۔‏ مگر جب کسی معیار پر پورا نہیں اتر پاتے تو یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ آخر ہم سب انسان ہیں کہاں تک معیاروں اور اُصولوں کی پابندی کریں گے۔‏ وہ اپنے پڑوسیوں کے چند ایک حقوق پورے کرکے ہی مطمئن ہو جاتے ہیں اور گُناہ کے احساس کو دبا دیتے ہیں۔‏“‏‏—‏بیپٹسٹ سیمنری کا صدر،‏ البرٹ مولر۔‏

▪ ”‏جن کاموں کو پہلے گُناہ سمجھا جاتا تھا آج وہی کام لوگ بڑے فخر سے کرتے ہیں۔‏ والدین سوچتے ہیں کہ تکبر بچوں کے اندر ترقی کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔‏ حسد کرنے والا شخص میڈیا کی زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے۔‏ جس چیز کے اشتہار میں جنس کو نمایاں کِیا جائے وہ زیادہ بکتی ہے۔‏ اگر کوئی آپ کو دُکھ پہنچائے تو اُس پر غصہ کرنا بالکل جائز ہے۔‏ آجکل تو لوگ کاہل ہونے پر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔‏“‏‏—‏نینسی گبز،‏ ٹائم میگزین۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

آجکل بہت سے لوگ آدم اور حوا کو محض کسی داستان کا حصہ سمجھتے ہیں