مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح ہمارا رہنما

یسوع مسیح ہمارا رہنما

یسوع مسیح ہمارا رہنما

‏’‏تُم ہادی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔‏‘‏—‏متی ۲۳:‏۱۰‏۔‏

۱.‏ یہوواہ کے گواہ کس کو اپنا رہنما مانتے ہیں اور کیوں؟‏

مسیحی دُنیا کے چرچ انسانوں کو اپنا رہنما ماننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ رومن کیتھولک پوپ کی رہنمائی میں چلتے ہیں۔‏ دیگر مذاہب میں بھی انسان رہنمائی کرتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہ ایسے تمام مذاہب سے فرق ہیں۔‏ وہ کسی انسان کو اپنا رہنما نہیں مانتے۔‏ وہ اُس پیشینگوئی سے واقف ہیں جو یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کے بارے میں کی تھی:‏ ”‏دیکھو مَیں نے اُسے اُمتوں کے لئے گواہ مقرر کِیا بلکہ اُمتوں کا پیشوا اور فرمانروا۔‏“‏ (‏یسع ۵۵:‏۴‏)‏ دُنیابھر کے ممسوح مسیحی اور اُن کے ساتھ خدمت کرنے والی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ صرف یسوع کو اپنا رہنما مانتی ہیں کیونکہ یہوواہ نے اُسے مقرر کِیا ہے۔‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۶‏)‏ وہ یسوع مسیح کی اِس بات کو یاد رکھتے ہیں:‏ ’‏تُم ہادی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔‏‘‏—‏متی ۲۳:‏۱۰‏۔‏

ایک فرشتہ اسرائیلیوں کا رہنما

۲،‏ ۳.‏ خدا کے بیٹے نے اسرائیلی قوم کے سلسلے میں ایک اہم کردار کیسے ادا کِیا؟‏

۲ مسیحی کلیسیا قائم ہونے سے کئی سو سال پہلے یہوواہ خدا اپنی قوم اسرائیل کی رہنمائی ایک فرشتے کے ذریعے کرتا تھا۔‏ اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے چھڑانے کے بعد یہوواہ خدا نے اُنہیں بتایا:‏ ”‏دیکھ مَیں ایک فرشتہ تیرے آگے آگے بھیجتا ہُوں کہ راستہ میں تیرا نگہبان ہو اور تجھے اُس جگہ پہنچا دے جِسے مَیں نے تیار کِیا ہے۔‏ تُم اُس کے آگے ہوشیار رہنا اور اُس کی بات ماننا۔‏ اُسے ناراض نہ کرنا کیونکہ وہ تمہاری خطا نہیں بخشے گا اِس لئے کہ میرا نام اُس میں رہتا ہے۔‏“‏ (‏خر ۲۳:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ پاک صحائف سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ فرشتہ جس میں ’‏یہوواہ کا نام رہتا‘‏ تھا وہ خدا کا پہلوٹھا بیٹا تھا۔‏

۳ پاک کلام سے ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ زمین پر آنے سے پہلے خدا کے بیٹے کا نام میکائیل تھا۔‏ دانی‌ایل کی کتاب میں میکائیل کو اسرائیلی قوم کا ”‏موکل [‏”‏شہزادہ‏“‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏دان ۱۰:‏۲۱‏)‏ شاگرد یہوداہ نے ظاہر کِیا کہ میکائیل دانی‌ایل کے زمانے سے بھی پہلے اسرائیلیوں کی رہنمائی کرتا تھا۔‏ یہوداہ نے بیان کِیا:‏ ”‏مقرب فرشتہ میکاؔئیل نے موسیٰؔ کی لاش کی بابت اِبلیس سے بحث‌وتکرار کرتے وقت لعن‌طعن کے ساتھ اُس پر نالش کرنے کی جرأت نہ کی بلکہ یہ کہا کہ [‏یہوواہ]‏ تجھے ملامت کرے۔‏“‏ (‏یہوداہ ۹‏)‏ شیطان موسیٰ کی لاش کیوں لینا چاہتا تھا؟‏ شیطان موسیٰ کی لاش شاید اِس لئے لینا چاہتا تھا تاکہ وہ اسرائیلیوں کو موسیٰ کی لاش کی پرستش کرنے پر اُکسائے۔‏ مگر میکائیل نے شیطان کے اِس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔‏ اِس کے کچھ عرصے بعد جب اسرائیلی یریحو کا محاصرہ کرنے والے تھے تو اُس وقت یقیناً ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لشکر کے سردار“‏ میکائیل نے ہی یشوع کو دکھائی دے کر اُسے یہ تسلی دی تھی کہ یہوواہ اُس کے ساتھ ہے۔‏ ‏(‏یشوع ۵:‏۱۳-‏۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ ایک مرتبہ جب یہوواہ کا ایک فرشتہ دانی‌ایل کے لئے ایک اہم پیغام لے کر آ رہا تھا تو ایک بدرُوح نے اُسے راستے میں روک لیا۔‏ اُس وقت بھی مقرب فرشتہ میکائیل ہی اُس فرشتے کی مدد کرنے کے لئے آیا تھا۔‏—‏دان ۱۰:‏۵-‏۷،‏ ۱۲-‏۱۴‏۔‏

ایک رہنما کی آمد جس کا انتظار تھا

۴.‏ مسیحا کے آنے کے متعلق کونسی پیشینگوئی کی گئی تھی؟‏

۴ یہوواہ خدا نے ایک مرتبہ جبرائیل فرشتے کو دانی‌ایل کے پاس بھیجا۔‏ وہ یہوواہ کی طرف سے یہ پیغام لایا تھا کہ ”‏ممسوح فرمانروا“‏ کب آئے گا۔‏ (‏دان ۹:‏۲۱-‏۲۵‏)‏ * پیشینگوئی کے عین مطابق،‏ ۲۹ عیسوی کے موسمِ‌خزاں میں یسوع مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ لیا۔‏ اُس وقت یسوع پر روحُ‌القدس نازل ہوئی اور یوں وہ مسیحا بن گیا۔‏ (‏متی ۳:‏۱۳-‏۱۷؛‏ یوح ۱:‏۲۹-‏۳۴؛‏ گل ۴:‏۴‏)‏ مسیحا کے طور پر وہ ایک ایسا رہنما ثابت ہوا جس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔‏

۵.‏ یسوع مسیح زمین پر اپنی خدمت کے دوران ”‏ممسوح فرمانروا“‏ کیسے ثابت ہوا؟‏

۵ یسوع مسیح نے زمین پر اپنی خدمت کے آغاز سے یہ ثابت کِیا کہ وہ ”‏ممسوح فرمانروا“‏ ہے۔‏ مُنادی کا کام شروع کرنے کے فوراً بعد ہی وہ لوگوں کو اپنے پیچھے آنے کی دعوت دینے لگا اور اُس نے پہلا معجزہ بھی کِیا۔‏ (‏یوح ۱:‏۳۵–‏۲:‏۱۱‏)‏ جب یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے کے لئے پورے اسرائیل کا سفر کِیا تو یسوع کے شاگرد اُس کے ساتھ تھے۔‏ (‏لو ۸:‏۱‏)‏ یسوع مسیح نے مُنادی کے کام میں نہ صرف پیشوائی کی بلکہ اپنے شاگردوں کو اِس کی تربیت بھی دی۔‏ (‏لو ۹:‏۱-‏۶‏)‏ آجکل کلیسیا کے بزرگوں کو یسوع مسیح کی اِس مثال پر عمل کرنا چاہئے۔‏

۶.‏ یسوع مسیح ایک اچھا چرواہا اور رہنما کیسے ثابت ہوا؟‏

۶ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ وہ ایک چرواہے کی طرح اپنے لوگوں کی رہنمائی کرے گا۔‏ اِس سلسلے میں مشرقی ممالک کے چرواہوں کی مثال پر غور کریں۔‏ ایک مصنف ڈبلیو.‏ ایم.‏ تھامسن نے اپنی کتاب دی لینڈ اینڈ دی بُک میں اُن کے متعلق یوں لکھا:‏ ”‏چرواہا اپنی بھیڑوں کو راستہ دکھانے کے لئے اُن کے آگے آگے چلتا ہے۔‏ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس کی بھیڑیں اِس راستے پر چل سکیں گی یا نہیں۔‏ نیز،‏ اِس راستے میں کوئی خطرہ تو نہیں ہوگا۔‏ وہ عصا سے اپنے گلّے کی رہنمائی کرتا ہے اور اُسے سرسبز چراگاہوں میں لے جاتا ہے۔‏ وہ دُشمنوں سے اُن کی حفاظت کرتا ہے۔‏“‏ یسوع مسیح نے بھی خود کو ایک چرواہے سے تشبِیہ دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏اچھا چرواہا مَیں ہوں۔‏ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے۔‏ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھےپیچھے چلتی ہیں۔‏“‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۱،‏ ۲۷‏)‏ اپنے کہنے کے مطابق یسوع مسیح نے واقعی اپنی بھیڑوں کے لئے جان قربان کر دی۔‏ مگر یہوواہ خدا نے یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کِیا اور اُسے ”‏مالک [‏”‏فرمانروا“‏‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏]‏ اور مُنجی ٹھہرا کر .‏ .‏ .‏ سربلند کِیا۔‏“‏—‏اعما ۵:‏۳۱؛‏ عبر ۱۳:‏۲۰‏۔‏

کلیسیا کا نگہبان

۷.‏ یسوع مسیح کلیسیا کی رہنمائی کیسے کر رہا ہے؟‏

۷ مُردوں میں سے زندہ ہو کر آسمان پر جانے سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ بتایا کہ ”‏آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مجھے دیا گیا ہے۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۸‏)‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو اختیار دیا کہ وہ اپنے شاگردوں کو روحُ‌القدس بخشے۔‏ (‏یوح ۱۵:‏۲۶‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع مسیح نے ۳۳ عیسوی میں پنتِکُست کے موقع پر اپنے ابتدائی شاگردوں پر روحُ‌القدس نازل کی۔‏ (‏اعما ۲:‏۳۳‏)‏ اِس واقعے کے ساتھ ہی مسیحی کلیسیا کا آغاز ہوا۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کو یہ اختیار بخشا کہ وہ آسمان سے اِس کلیسیا کی رہنمائی کرے۔‏ ‏(‏افسیوں ۱:‏۲۲؛‏ کلسیوں ۱:‏۱۳،‏ ۱۸ کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح روحُ‌القدس کے ذریعے کلیسیا کی رہنمائی کرتا ہے۔‏ اِس کام میں فرشتے بھی اُس کی مدد کرتے ہیں جو ’‏اُس کے تابع کئے گئے ہیں۔‏‘‏—‏۱-‏پطر ۳:‏۲۲‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے پہلی صدی میں اپنے شاگردوں کی رہنمائی کیسے کی تھی؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح آجکل اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کیسے کر رہا ہے؟‏

۸ یسوع مسیح نے روحُ‌القدس کے ذریعے ”‏آدمیوں کے روپ میں تحفے“‏ بھی دئے ہیں۔‏ اُس نے ”‏بعض کو چرواہا اور اُستاد بنا کر“‏ کلیسیا کو دے دیا ہے۔‏ (‏افس ۴:‏۸،‏ ۱۱‏)‏ اِس لئے پولس رسول نے کلیسیا کے نگہبانوں کو یہ نصیحت کی:‏ ”‏اپنی اور اُس سارے گلّہ کی خبرداری کرو جس کا روحُ‌القدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلّہ‌بانی کرو۔‏“‏ (‏اعما ۲۰:‏۲۸‏)‏ جب کلیسیا کا آغاز ہوا تو اُس وقت تمام نگہبان ممسوح مسیحی تھے۔‏ یروشلیم میں رسول اور بزرگ گورننگ‌باڈی کے طور پر خدمت کرتے تھے۔‏ یسوع مسیح اِسی گورننگ‌باڈی کے ذریعے اپنے تمام ممسوح ’‏بھائیوں‘‏ کی رہنمائی کرتا تھا۔‏ (‏عبر ۲:‏۱۱؛‏ اعما ۱۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ اِس آخری زمانے میں کچھ ممسوح بھائیوں پر مشتمل گورننگ‌باڈی ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی نمائندگی کرتی ہے۔‏ یسوع مسیح نے ’‏اپنا سارا مال‘‏ اِس نوکر جماعت کے سپرد کِیا ہے۔‏ یسوع مسیح کے مال میں اُس کے سچے پیروکار اور یہوواہ کی تنظیم کے تمام اثاثے شامل ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ ممسوح مسیحی اور زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گورننگ‌باڈی کی رہنمائی کو قبول کرنے سے دراصل وہ یسوع مسیح کی رہنمائی کو قبول کرتے ہیں۔‏

مسیح نے مُنادی کے کام کا آغاز کِیا

۹،‏ ۱۰.‏ یسوع مسیح کی رہنمائی کے تحت مختلف قوموں میں بادشاہت کی خوشخبری کیسے سنائی گئی؟‏

۹ جب سے مُنادی کے کام کا آغاز ہوا تب ہی سے یسوع مسیح اِس کی نگرانی کر رہا ہے۔‏ اُس نے اِس بات کا تعیّن کِیا کہ پہلے اسرائیلی قوم کو خوشخبری سننے کا موقع ملے گا۔‏ اپنی خدمت کے دوران اُس نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی کہ ”‏غیرقوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔‏ بلکہ اؔسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‏ اور چلتے چلتے یہ مُنادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۵-‏۷‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع مسیح کے شاگردوں نے خاص طور پر ۳۳ عیسوی میں پنتِکُست کے بعد بڑے جوش سے یہودیوں اور نومُریدوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنائی۔‏—‏اعما ۲:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۰،‏ ۱۱؛‏ ۵:‏۴۲؛‏ ۶:‏۷‏۔‏

۱۰ اِس کے بعد یسوع مسیح نے روحُ‌القدس کے ذریعے سامریوں اور غیرقوم لوگوں کو اپنے شاگرد بننے کا موقع دیا۔‏ (‏اعما ۸:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۴-‏۱۷؛‏ ۱۰:‏۱۹-‏۲۲،‏ ۴۴،‏ ۴۵‏)‏ یسوع مسیح چاہتا تھا کہ غیرقوموں میں زیادہ سے زیادہ خوشخبری سنائی جائے۔‏ اِس سلسلے میں اُس نے ترسس کے ساؤل کو اپنا شاگرد بننے کا موقع دیا۔‏ اُس کی مدد کرنے کے لئے یسوع مسیح نے اپنے شاگرد حننیاہ کو یہ ہدایت کی:‏ ”‏اُٹھ۔‏ اُس کوچہ میں جا جو سیدھا کہلاتا ہے اور یہوؔداہ کے گھر میں ساؔؤل نام ترسی کو پوچھ لے .‏ .‏ .‏ تُو جا کیونکہ یہ قوموں بادشاہوں اور بنی‌اسرائیل پر میرا نام ظاہر کرنے کا میرا چُنا ہوا وسیلہ ہے۔‏“‏ (‏اعما ۹:‏۳-‏۶،‏ ۱۰،‏ ۱۱،‏ ۱۵‏)‏ اِس طرح ترسس کا ساؤل مسیحی بن گیا اور پولس رسول کہلانے لگا۔‏—‏۱-‏تیم ۲:‏۷‏۔‏

۱۱.‏ یسوع مسیح نے روحُ‌القدس کے ذریعے مُنادی کے کام کو کیسے بڑھایا؟‏

۱۱ غیرقوموں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے کام کو بڑھانے کے لئے پولس رسول نے روحُ‌القدس کی ہدایت سے ایشیائے کوچک اور یورپ کا دورہ کِیا۔‏ اعمال کی کتاب میں لکھا ہے:‏ ”‏جب وہ [‏انطاکیہ کی کلیسیا کے نبی اور اُستاد]‏ [‏یہوواہ]‏ کی عبادت کر رہے اور روزے رکھ رہے تھے تو روحُ‌القدس نے کہا میرے لئے برؔنباس اور ساؔؤل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے مَیں نے اُن کو بلایا ہے۔‏ تب اُنہوں نے روزہ رکھ کر اور دُعا کرکے اور اُن پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں رخصت کِیا۔‏“‏ (‏اعما ۱۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ یسوع مسیح نے ترسس کے ساؤل کو خود بلایا تھا تاکہ وہ قوموں پر اُس کا نام ظاہر کرنے کے لئے اُس کا ”‏چُنا ہوا وسیلہ“‏ بنے۔‏ یوں،‏ یسوع مسیح کی رہنمائی کے تحت غیرقوموں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے کام میں اضافہ ہوا۔‏ پولس رسول کے دوسرے دورے کے دوران یہ بات اَور بھی واضح ہو گئی کہ یسوع مسیح روحُ‌القدس کے ذریعے مُنادی کے کام کی رہنمائی کر رہا ہے۔‏ اعمال کی کتاب میں درج ہے کہ ”‏یسوؔع کے رُوح“‏ نے پولس رسول اور اُس کے ساتھیوں کی رہنمائی کی۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ یسوع مسیح نے روحُ‌القدس کے ذریعے اُن پر واضح کِیا کہ اُنہیں کب اور کہاں کہاں جا کر مُنادی کرنی ہے۔‏ نیز،‏ ایک رویا میں اُنہیں یہ بتایا گیا کہ وہ یورپ کے علاقے میں مُنادی کریں۔‏—‏اعمال ۱۶:‏۶-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏

یسوع کلیسیا کی رہنمائی جاری رکھتا ہے

۱۲،‏ ۱۳.‏ مکاشفہ کی کتاب سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح ہر کلیسیا کی اندرونی صورتحال سے واقف ہے؟‏

۱۲ یسوع مسیح پہلی صدی میں تمام کلیسیاؤں کی اندورنی صورتحال سے واقف تھا۔‏ ہمیں اِس بات کا اشارہ مکاشفہ کی کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب سے ملتا ہے جن میں یسوع مسیح نے ایشیائےکوچک کی سات کلیسیاؤں کے نام پیغام دئے۔‏ (‏مکا ۱:‏۱۱‏)‏ اِن پیغامات کے مطابق یسوع مسیح کو معلوم تھا کہ اِن کلیسیاؤں میں کیا کیا مسائل ہیں اور اِن میں ترقی ہو رہی ہے یا نہیں۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوع نہ صرف اِن سات کلیسیاؤں سے بلکہ دیگر کلیسیاؤں سے بھی بخوبی واقف تھا۔‏‏—‏مکاشفہ ۲:‏۲۳ کو پڑھیں۔‏

۱۳ یسوع مسیح نے صبر اور وفاداری ظاہر کرنے والی کلیسیاؤں کو شاباش دی۔‏ یسوع مسیح نے اُنہیں اِس بات کے لئے داد دی کہ اُنہوں نے اُس کے کلام پر عمل کِیا اور جھوٹے اُستادوں کو رد کِیا ہے۔‏ (‏مکا ۲:‏۲،‏ ۹،‏ ۱۳،‏ ۱۹؛‏ ۳:‏۸‏)‏ اِس کے برعکس،‏ بعض کلیسیائیں یسوع مسیح سے پہلے جیسی محبت نہیں کرتی تھیں۔‏ اُن میں بُت‌پرستی،‏ حرامکاری اور تفرقے تھے جس کی وجہ سے یسوع مسیح نے اُنہیں سخت ملامت کی۔‏ (‏مکا ۲:‏۴،‏ ۱۴،‏ ۱۵،‏ ۲۰؛‏ ۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ پس،‏ کیا بعض کلیسیاؤں کو ملامت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یسوع مسیح ایک شفیق نگہبان نہیں تھا؟‏ بِلاشُبہ یسوع مسیح ایک شفیق نگہبان ہے اِس لئے اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں جن‌جن کو عزیز رکھتا ہوں اُن سب کو ملامت اور تنبیہ کرتا ہوں۔‏ پس سرگرم ہو اور توبہ کر۔‏“‏ (‏مکا ۳:‏۱۹‏)‏ اگرچہ یسوع مسیح آسمان پر تھا توبھی وہ روحُ‌القدس کے ذریعے زمین پر کلیسیاؤں کی رہنمائی کرتا تھا۔‏ اِن کلیسیاؤں کے نام پیغام کے اختتام پر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جس کے کان ہوں وہ سنے کہ رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔‏“‏—‏مکا ۳:‏۲۲‏۔‏

۱۴-‏۱۶.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے کیسے دلیری کے ساتھ یہوواہ کے لوگوں کی رہنمائی کی؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کے اِس وعدے کا کیا نتیجہ نکلا ہے کہ وہ ’‏دُنیا کے آخر تک ہمیشہ اپنے شاگردوں کے ساتھ رہے گا‘‏؟‏ (‏ج)‏ ہم اگلے مضمون میں کس بات پر غور کریں گے؟‏

۱۴ ہم نے یہ سیکھ لیا ہے کہ مقرب فرشتے میکائیل یعنی یسوع مسیح نے دلیری کے ساتھ اسرائیلی قوم کی رہنمائی کی۔‏ اِس کے بعد یسوع مسیح نے دلیری اور شفقت کے ساتھ ایک چرواہے کے طور پر اپنے ابتدائی شاگردوں کی رہنمائی کی۔‏ زمین پر اپنی خدمت کے دوران اُس نے مُنادی کے کام میں پیشوائی کی۔‏ پھر مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد بھی اُس نے مختلف علاقوں اور قوموں میں بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے لئے اپنے شاگردوں کی مدد کی۔‏

۱۵ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا کہ روحُ‌القدس کے ذریعے ساری زمین پر مُنادی کا کام کِیا جائے گا۔‏ آسمان پر جانے سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏جب روحُ‌القدس تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے اور یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوگے۔‏“‏ (‏اعما ۱:‏۸؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏‏)‏ لہٰذا،‏ پہلی صدی میں یسوع مسیح کی زیرِہدایت ساری دُنیا میں بادشاہت کی گواہی دی گئی۔‏—‏کل ۱:‏۲۳‏۔‏

۱۶ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ مُنادی کا کام آخری زمانے کے دوران بھی جاری رہے گا۔‏ جب یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کا حکم دیا تو اُس نے یہ وعدہ بھی کِیا کہ ”‏مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہُوں۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ یسوع مسیح نے ۱۹۱۴ ء میں بادشاہ بننے کے بعد مزید ایسے کام کئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ”‏ساتھ“‏ ہے اور اُن کی رہنمائی کر رہا ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ وہ ۱۹۱۴ ء سے کونسے کام کر رہا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 اِس پیشینگوئی کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں!‏ کے باب ۱۱کو دیکھیں۔‏

اپنی یاد تازہ کریں

‏• خدا کے بیٹے نے اسرائیلی قوم کی رہنمائی کیسے کی؟‏

‏• یسوع مسیح زمین پر اپنی کلیسیا کی رہنمائی کیسے کرتا ہے؟‏

‏• یسوع مسیح نے مُنادی کے کام کی رہنمائی کیسے کی ہے؟‏

‏• کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح ہر کلیسیا کی اندرونی صورتحال سے واقف ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

‏”‏مَیں ایک فرشتہ تیرے آگے آگے بھیجتا ہُوں“‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ماضی کی طرح آج بھی یسوع ’‏آدمیوں کے روپ میں تحفوں‘‏ کے ذریعے اپنی بھیڑوں کی رہنمائی کر رہا ہے