مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏یہوواہ کی عقل کو کس نے جانا؟‏‘‏

‏’‏یہوواہ کی عقل کو کس نے جانا؟‏‘‏

‏’‏یہوواہ کی عقل کو کس نے جانا؟‏‘‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی عقل کو کس نے جانا کہ اُس کو تعلیم دے سکے؟‏ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔‏“‏—‏۱-‏کر ۲:‏۱۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ بہت سے لوگوں کو کس مشکل کا سامنا ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں اپنی اور یہوواہ کی سوچ کے متعلق کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

یہ سچ ہے کہ کسی دوسرے انسان کی سوچ کو جاننا آسان نہیں ہوتا۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ کی نئی‌نئی شادی ہوئی ہے تو آپ کو بعض معاملات میں اپنے جیون ساتھی کی سوچ کو سمجھنا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مردوں اور عورتوں کے سوچنے اور بات کرنے کا انداز ایک دوسرے سے بہت فرق ہوتا ہے۔‏ بعض ثقافتوں میں تو مرد اور عورتیں فرق‌فرق بولی بولتے ہیں۔‏ نیز اگر کسی شخص کی زبان اور ثقافت آپ سے فرق ہے تو اُس کی سوچ اور طورطریقے بھی آپ سے فرق ہوں گے۔‏ پھر بھی اگر ہم کوشش کریں تو ہم کسی حد تک لوگوں کی سوچ اور خیالات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏

۲ پس اگر انسان کی سوچ کو سمجھنا مشکل ہے تو یہوواہ خدا کی سوچ کو سمجھنا اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے نبی یسعیاہ کے ذریعے اسرائیلیوں کو بتایا:‏ ”‏میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں۔‏“‏ پھر یہوواہ نے اُنہیں یہ بات سمجھانے کے لئے ایک مثال استعمال کی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔‏“‏—‏یسع ۵۵:‏۸،‏ ۹‏۔‏

۳.‏ ہم کن دو طریقوں سے یہوواہ کے قریب جا سکتے ہیں؟‏

۳ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں یہوواہ خدا کی سوچ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم یہوواہ کے ہر خیال اور منصوبے کو نہیں جان سکتے۔‏ اِس کے باوجود بائبل میں لکھا ہے کہ ’‏راست‌باز یہوواہ کے محرمِ‌راز‘‏ بن سکتے ہیں یعنی وہ خدا کے اتنے قریب جا سکتے ہیں کہ وہ اُس کی سوچ کو جان سکتے ہیں۔‏ ‏(‏زبور ۲۵:‏۱۴؛‏ امثال ۳:‏۳۲ کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا کے قریب جانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم بائبل میں درج اُس کے کاموں پر سوچ‌بچار کریں۔‏ (‏زبور ۲۸:‏۵‏)‏ اِس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ”‏مسیح کی عقل“‏ کو جانیں کیونکہ مسیح ”‏اندیکھے خدا کی صورت“‏ ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۲:‏۱۶؛‏ کل ۱:‏۱۵‏)‏ جب ہم بائبل کو پڑھتے اور اِس پر سوچ‌بچار کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کی سوچ اور خوبیوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔‏

یہوواہ کو انسانی معیاروں سے پرکھنا غلط ہے

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ ہمیں کونسی غلطی نہیں کرنی چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اسرائیلی کس غلط سوچ کا شکار ہو گئے؟‏

۴ ہمیں کبھی بھی خدا کے کاموں اور فیصلوں کو انسانی اصولوں اور معیاروں کے مطابق نہیں پرکھنا چاہئے۔‏ مگر اسرائیلی قوم یہ غلطی کر رہی تھی۔‏ اِس لئے یہوواہ نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُو نے گمان کِیا کہ مَیں بالکل تجھ ہی سا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۵۰:‏۲۱‏)‏ کوئی ۱۷۵ سال پہلے ایک عالم نے بھی ایسی ہی بات کہی:‏ ”‏بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا پر بھی وہی قانون لاگو ہوتے ہیں جو انسانوں پر ہوتے ہیں۔‏ اِسی لئے وہ خدا کے کاموں اور فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں۔‏“‏

۵ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہوواہ کے فیصلے ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق ہوں۔‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری سوچ محدود ہو سکتی ہے یعنی کبھی‌کبھار ہم بعض معاملات کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھتے ہیں۔‏ اِسی لئے جب ہم بائبل میں یہوواہ کے بعض فیصلوں اور کاموں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو شاید ہمیں لگتا ہے کہ یہ دُرست نہیں۔‏ اسرائیلی لوگ بھی یہی سوچنے لگے کہ خدا کے بعض کام اور فیصلے صحیح نہیں۔‏ غور کریں کہ یہوواہ خدا نے اُن سے کیا کہا:‏ ”‏تُم کہتے ہو کہ [‏یہوواہ]‏ کی روِش راست نہیں۔‏ اَے بنی‌اسرائیل سنو تو۔‏ کیا میری روِش راست نہیں؟‏ کیا تمہاری روِش ناراست نہیں؟‏“‏—‏حز ۱۸:‏۲۵‏۔‏

۶.‏ ایوب کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت کیوں تھی اور ہم اُس کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۶ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ہماری اپنی سوچ محدود یا غلط ہو سکتی ہے تو ہم یہوواہ خدا کے فیصلوں اور کاموں کو انسانی اصولوں کے مطابق پرکھنے کی غلطی نہیں کریں گے۔‏ آئیں اِس سلسلے میں ایوب کی مثال پر غور کریں۔‏ اچانک ایوب پر بہت سی مصیبتیں آن پڑیں۔‏ اِن مصیبتوں کی وجہ سے وہ بہت غمگین ہو گیا۔‏ وہ خود کو راستباز ٹھہرانے لگا۔‏ اُس نے یہ نہ سوچا کہ اُس کی آزمائشوں کا تعلق دیگر اہم معاملات سے بھی ہو سکتا ہے۔‏ ایوب کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت تھی۔‏ یہوواہ نے بڑے پیار سے ایوب کی اصلاح کی۔‏ یہوواہ نے ایوب سے ۷۰ سے زیادہ سوال پوچھے۔‏ ایوب اُن میں سے کسی کا بھی جواب نہ دے سکا۔‏ اِس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ ایوب کی سوچ کتنی محدود تھی۔‏ ایوب نے بڑی خاکساری سے اِس حقیقت کو تسلیم کِیا اور اپنی سوچ کو درست کِیا۔‏‏—‏ایوب ۴۲:‏۱-‏۶ کو پڑھیں۔‏

‏”‏مسیح کی عقل“‏ کو جانیں

۷.‏ یسوع مسیح کی زندگی کا جائزہ لینے سے ہم یہوواہ خدا کی سوچ کو سمجھنے کے قابل کیوں ہو جاتے ہیں؟‏

۷ یسوع مسیح نے اپنے باپ کی ہر خوبی کو اَپنایا۔‏ اُس نے اپنے باپ کی مثال پر پوری طرح عمل کِیا۔‏ (‏یوح ۱۴:‏۹‏)‏ اِس لئے جب ہم یسوع مسیح کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کی سوچ کو سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ (‏روم ۱۵:‏۵؛‏ فل ۲:‏۵‏)‏ آئیں اِس سلسلے میں یسوع مسیح کی زندگی کے دو واقعات پر غور کریں۔‏

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ یوحنا ۶:‏۱-‏۵ کے مطابق کس صورتحال میں یسوع نے فلپس سے سوال پوچھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے یہ سوال کیوں پوچھا؟‏

۸ یہ ۳۲ء کی فسح کا واقعہ ہے۔‏ یسوع کے شاگرد ابھی تھوڑی دیر پہلے گلیل میں مُنادی کر کے واپس لوٹے تھے۔‏ وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔‏ اِس لئے یسوع اُنہیں گلیل کی جھیل کے شمال مشرقی کنارے پر کسی ویران جگہ لے گیا۔‏ لیکن ہزاروں لوگ وہاں بھی اُن کے پیچھے پیچھے آ پہنچے۔‏ یسوع مسیح نے اِس بھیڑ کو بہت سی باتوں کی تعلیم دی اور بیماروں کو شفا بھی دی۔‏ لیکن ایک مسئلہ بھی تھا۔‏ مسئلہ یہ تھا کہ اِس ویرانے میں اتنے زیادہ لوگوں کے لئے کھانا کہاں سے آئے گا؟‏ یسوع مسیح نے فلپس کو اپنے پاس بلایا جو اِسی علاقے کا رہنے والا تھا۔‏ اُس نے فلپس سے پوچھا:‏ ”‏ہم اِن کے کھانے کے لئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟‏“‏—‏یوح ۶:‏۱-‏۵‏۔‏

۹ یسوع مسیح نے فلپس سے یہ سوال کیوں کیا؟‏ کیا یسوع مسیح کو اِس مسئلے کا حل معلوم نہیں تھا؟‏ ایسی بات نہیں تھی۔‏ توپھر یسوع مسیح کے ذہن میں کیا تھا؟‏ یوحنا رسول بھی اِس موقعے پر موجود تھا۔‏ اُس نے اپنی انجیل میں بتایا کہ یسوع نے فلپس کو ”‏آزمانے کے لئے یہ کہا کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ مَیں کیا کروں گا۔‏“‏ (‏یوح ۶:‏۶‏)‏ یسوع مسیح دراصل اپنے شاگردوں کے ایمان کو پرکھنا چاہتا تھا۔‏ یسوع مسیح نے یہ سوال پوچھنے سے اُنہیں موقع دیا کہ وہ اُس پر اپنے ایمان کا اظہار کریں۔‏ مگر اُنہوں نے یہ موقع گنوا دیا۔‏ اِس سے ثابت ہو گیا کہ اُن کی سوچ بہت ہی محدود تھی۔‏ ‏(‏یوحنا ۶:‏۷-‏۹ کو پڑھیں۔‏)‏ پھر یسوع مسیح نے وہ کام کِیا جو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھا۔‏ اُس نے ایک معجزہ کِیا اور ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا۔‏—‏یوح ۶:‏۱۰-‏۱۳‏۔‏

۱۰-‏۱۲.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے فوراً یونانی عورت کی بیٹی کو شفا کیوں نہیں دی تھی؟‏ (‏ب)‏ اب ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۱۰ اب آئیں دوسرے واقعے پر غور کرتے ہیں۔‏ یسوع مسیح ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلانے کا معجزہ کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کے ساتھ شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے اسرائیل کی حدود کے پار صور اور صیدا کے علاقے میں چلا گیا۔‏ وہاں اُنہیں ایک یونانی عورت ملی جس نے یسوع سے یہ درخواست کی کہ وہ اُس کی بیٹی کو شفا دے۔‏ پہلے تو یسوع نے اُس عورت کی بات پر کوئی دھیان نہ دیا۔‏ لیکن جب وہ بہت اصرار کرنے لگی تو یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏پہلے لڑکوں کو سیر ہونے دے کیونکہ لڑکوں کی روٹی لیکر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں۔‏“‏—‏مر ۷:‏۲۴-‏۲۷؛‏ متی ۱۵:‏۲۱-‏۲۶‏۔‏

۱۱ یسوع مسیح نے پہلے اِس عورت کی بیٹی کو شفا دینے سے انکار کیوں کِیا؟‏ ہو سکتا ہے کہ جس طرح یسوع نے فلپس کو آزمایا اُسی طرح وہ اِس عورت کو بھی اپنے ایمان کا اظہار کرنے کا موقع دے رہا تھا۔‏ لگتا ہے کہ یہ عورت یسوع مسیح سے مدد مانگنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہی تھی۔‏ اِس سے ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ یسوع مسیح اُس سے نرم لہجے میں بات کر رہا تھا۔‏ بائبل کے بعض ترجموں کے مطابق یسوع مسیح نے یہاں ”‏کتوں“‏ کی بجائے پِلّوں کا لفظ استعمال کِیا۔‏ اِس عورت کی قوم کے لوگوں کو کتوں سے نہیں بلکہ پیارےپیارے پِلّوں سے تشبِیہ دینے سے یسوع نے ظاہر کِیا کہ وہ اُن سے بھی محبت رکھتا ہے۔‏ اِس معاملے میں ہم یسوع مسیح کو ایک باپ سے تشبِیہ دے سکتے ہیں۔‏ جب ایک بچہ اپنے باپ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو بعض اوقات باپ فوراً یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ بچے کی بات مان لے گا۔‏ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بچہ جو چیز مانگ رہا ہے وہ اُس کی نظر میں کتنی اہم ہے۔‏ اِسی طرح شاید یسوع مسیح بھی یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اُس عورت کا ایمان کتنا مضبوط ہے۔‏ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو جب یسوع مسیح کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ مضبوط ایمان سے مانگ رہی ہے تو یسوع مسیح نے اُس کی بیٹی کو شفا دی۔‏‏—‏مرقس ۷:‏۲۸-‏۳۰ کو پڑھیں۔‏

۱۲ اِن دو واقعات پر غور کرنے سے ہم ”‏مسیح کی عقل“‏ کے متعلق بہت کچھ جاننے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ اب آئیں دیکھیں کہ یہ واقعات کسی حد تک یہوواہ خدا کی سوچ کو جاننے میں ہماری مدد کیسے کرتے ہیں۔‏

موسیٰ کو اپنا ایمان ظاہر کرنے کا موقع ملا

۱۳.‏ یسوع مسیح کی سوچ کو سمجھ لینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۳ بائبل میں درج بعض باتوں کو سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ لیکن جب ہم یسوع مسیح کی سوچ کو جان لیتے ہیں تو ہم ایسی مشکل باتوں کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر غور کریں کہ جب اسرائیلی سونے کے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے تو یہوواہ نے موسیٰ سے کیا کہا:‏ ”‏مَیں اِس قوم کو دیکھتا ہُوں کہ یہ گردن‌کش قوم ہے۔‏ اِس لئے تُو مجھے اب چھوڑ دے کہ میرا غضب ان پر بھڑکے اور مَیں اُن کو بھسم کر دُوں اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔‏“‏—‏خر ۳۲:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۴.‏ موسیٰ نے یہوواہ کی بات کے جواب میں کیا کہا؟‏

۱۴ اِس کے جواب میں ”‏موسیٰؔ نے [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے آگے مِنت کرکے کہا اَے [‏یہوواہ]‏ کیوں تیرا غضب اپنے لوگوں پر بھڑکتا ہے جن کو تُو قوتِ‌عظیم اور دستِ‌قوی سے ملکِ‌مصرؔ سے نکالکر لایا ہے؟‏ مصری لوگ یہ کیوں کہنے پائیں کہ وہ اُن کو بُرائی کے لئے نکال لے گیا تاکہ اُن کو پہاڑوں میں مار ڈالے اور اُن کو رویِ‌زمین پر سے فنا کر دے؟‏ سو تُو اپنے قہروغصب سے باز رہ اور اپنے لوگوں سے اِس بُرائی کرنے کے خیال کو چھوڑ دے۔‏ تُو اپنے بندوں اؔبرہام اور اِضحاؔق اور یعقوؔب کو یاد کر جن سے تُو نے اپنی ہی قسم کھا کر یہ کہا تھا کہ مَیں تمہاری نسل کو آسمان کے تاروں کی مانند بڑھاؤں گا اور یہ سارا مُلک جس کا مَیں نے ذکر کِیا ہے تمہاری نسل کو بخشوں گا کہ وہ سدا اُس کے مالک رہیں۔‏ تب [‏یہوواہ]‏ نے اُس بُرائی کے خیال کو چھوڑ دیا جو اُس نے کہا تھا کہ اپنے لوگوں سے کرے گا۔‏“‏—‏خر ۳۲:‏۱۱-‏۱۴‏۔‏ *

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ کو کیا موقع دیا؟‏ (‏ب)‏ اِس کا کیا مطلب ہے کہ’‏یہوواہ نے اُس بُرائی کے خیال کو چھوڑ دیا‘‏؟‏

۱۵ کیا اِن آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ یہوواہ کی اصلاح کر رہا تھا؟‏ ہرگز نہیں!‏ یہوواہ موسیٰ کو یہ نہیں بتا رہا تھا کہ اُس کا فیصلہ کیا ہے بلکہ وہ اُسے یہ سمجھا رہا تھا کہ وہ کیا کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ جس طرح یسوع نے فلپس اور یونانی عورت کو آزمایا اُسی طرح یہوواہ بھی موسیٰ کو آزما رہا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ کو یہ ذمہ‌داری سونپی تھی کہ وہ اُس کے حضور اسرائیلیوں کی نمائندگی کرے۔‏ اِس لئے یہوواہ نے موسیٰ کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دیا۔‏ * کیا موسیٰ نے یہوواہ خدا کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اسرائیلیوں کو بھول جائے اور موسیٰ کی اولاد کو ہی ایک بڑی قوم بنا دے؟‏

۱۶ موسیٰ کا جواب اِس بات پر اُس کے ایمان کا ثبوت تھا کہ یہوواہ کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔‏ موسیٰ کو اپنے فائدے کی ذرا بھی فکر نہیں تھی۔‏ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ یہوواہ کے نام کی بڑائی ہو اور کسی بھی صورت میں اُس کی بدنامی نہ ہو۔‏ یوں موسیٰ نے ثابت کِیا کہ وہ اِس معاملے میں ”‏[‏یہوواہ]‏ کی عقل“‏ کو جانتا تھا۔‏ (‏۱-‏کر ۲:‏۱۶‏)‏ پس یہوواہ نے کیا کِیا؟‏ چونکہ یہوواہ خدا نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کِیا تھا اِس لئے لکھا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اُس بُرائی کے خیال کو چھوڑ دیا۔‏“‏ اگرچہ یہوواہ پوری اسرائیلی قوم کو سزا دینے کا حق رکھتا تھا پھر بھی اُس نے ایسا نہ کِیا۔‏

ابرہام کو اپنا ایمان ظاہر کرنے کا موقع ملا

۱۷.‏ یہوواہ خدا ایک موقعے پر ابرہام کے ساتھ تحمل سے کیسے پیش آیا؟‏

۱۷ ایک اَور واقعے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو اپنا ایمان اور بھروسا ظاہر کرنے کا موقع دیتا ہے۔‏ آئیں اِس واقعے پر غور کریں۔‏ یہوواہ خدا نے سدوم کے شہر کو تباہ کرنے کا فیصلہ کِیا اور ابرہام کو بتایا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔‏ ابرہام نے اِس معاملے میں یہوواہ خدا سے آٹھ سوال پوچھے مگر یہوواہ نے بڑے تحمل سے اُس کی بات سنی۔‏ اُس نے یہوواہ سے کہا کہ ”‏ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں۔‏ یہ تجھ سے بعید ہے۔‏ کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟‏“‏—‏پید ۱۸:‏۲۲-‏۳۳‏۔‏

۱۸.‏ یہوواہ جس طرح ابرہام کے ساتھ پیش آیا اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۸ اِس واقعے سے ہم یہوواہ کی سوچ کے متعلق کیا جاننے کے قابل ہوتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا کو صحیح فیصلہ کرنے کے لئے ابرہام کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی۔‏ یہوواہ خدا اُسے پہلے ہی یہ بتا سکتا تھا کہ اُس نے سدوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیوں کِیا۔‏ لیکن یہوواہ نے ابرہام کو سوال پوچھنے کا موقع دیا تاکہ وہ اُس کے فیصلے اور سوچ کو سمجھ جائے۔‏ نیز ابرہام کو یہوواہ کے رحم اور انصاف کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔‏ واقعی یہوواہ نے ثابت کِیا کہ ابرہام اُس کا دوست ہے۔‏—‏یسع ۴۱:‏۸؛‏ یعقو ۲:‏۲۳‏۔‏

ہم نے کیا سیکھا؟‏

۱۹.‏ ہم ایوب کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ ہم نے یہ سیکھ لیا ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا کے کلام سے اُس کی سوچ کے بارے میں سیکھنا چاہئے۔‏ ہمیں یہوواہ کے فیصلوں اور کاموں کو کبھی بھی انسانی اصولوں اور معیاروں کے مطابق نہیں پرکھنا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں ایوب نے کہا:‏ ”‏[‏خدا]‏ میری طرح آدمی نہیں کہ مَیں اُسے جواب دوں اور ہم عدالت میں باہم حاضر ہوں۔‏“‏ (‏ایو ۹:‏۳۲‏)‏ ایوب کی طرح جب ہم بھی کسی حد تک یہوواہ کی سوچ کو جان جاتے ہیں تو یہ تسلیم کرنے کے قابل ہوتے ہیں:‏ ”‏دیکھو!‏ یہ تو اُس کی راہوں کے فقط کنارے ہیں اور اُس کی کیسی دھیمی آواز ہم سنتے ہیں!‏ پر کون اُس کی قدرت کی گرج کو سمجھ سکتا ہے؟‏“‏—‏ایو ۲۶:‏۱۴‏۔‏

۲۰.‏ اگر بائبل پڑھتے وقت ہمیں کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۲۰ اگر بائبل پڑھتے وقت ہمیں یہوواہ کے فیصلوں اور کاموں کے متعلق کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ اگر تحقیق کرنے کے بعد بھی ہمیں وہ بات سمجھ نہیں آتی تو ہمیں اِس صورتحال کو یہوواہ خدا پر اپنا ایمان ظاہر کرنے کا موقع خیال کرنا چاہئے۔‏ ہمیں خاکساری سے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم یہوواہ کے ہر کام اور فیصلے کو نہیں سمجھ سکتے۔‏ (‏واعظ ۱۱:‏۵‏)‏ پس ہم پولس رسول کی اِس بات سے متفق ہیں:‏ ”‏واہ!‏ خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!‏ اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!‏ [‏یہوواہ]‏ کی عقل کو کس نے جانا؟‏ یا کون اُس کا صلاح‌کار ہوا؟‏ یا کس نے پہلے اُسے کچھ دیا ہے جس کا بدلہ اُسے دیا جائے؟‏ کیونکہ اُسی کی طرف سے اور اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کے لئے سب چیزیں ہیں۔‏ اُس کی تمجید ابد تک ہوتی رہے۔‏ آمین۔‏“‏—‏روم ۱۱:‏۳۳-‏۳۶‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 14 یہوواہ اور موسیٰ کے درمیان یہی گفتگو گنتی ۱۴:‏۱۱-‏۲۰ میں بھی درج ہے۔‏

^ پیراگراف 15 بعض عالموں کے مطابق خروج ۳۲:‏۱۰ میں درج الفاظ ”‏تُو مجھے اب چھوڑ دے“‏ ایک عبرانی محاورہ ہے جو موقع دینے کے معنی پیش کرتا ہے۔‏ اگر یہ بات درست ہے تو یہاں یہوواہ نے موسیٰ کو اِس معاملے کے ’‏بیچ میں آنے‘‏ یعنی اسرائیلیوں کے حق میں بولنے کا موقع دیا۔‏ (‏زبور ۱۰۶:‏۲۳؛‏ حز ۲۲:‏۳۰‏)‏ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو،‏ موسیٰ نے یہوواہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• ہمیں یہوواہ خدا کے فیصلوں اور کاموں کو انسانی اصولوں کے مطابق کیوں نہیں پرکھنا چاہئے؟‏

‏• یسوع مسیح کی زندگی پر غور کرنے سے ہم یہوواہ خدا کے قریب کیسے جا سکتے ہیں؟‏

‏• ہم ابرہام اور موسیٰ کے ساتھ یہوواہ خدا کی گفتگو سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

یہوواہ جس طرح موسیٰ اور ابرہام کے ساتھ پیش آیا اُس سے ہم یہوواہ خدا کی سوچ کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟‏