کیا آپ کا بچہ سکول میں گواہی دینے کے لئے تیار ہے؟
کیا آپ کا بچہ سکول میں گواہی دینے کے لئے تیار ہے؟
یہ بہت ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پہلے سے تیار کریں کہ وہ سکول میں اپنے ایمان کے بارے میں گواہی کیسے دے سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں والدین کو چند مشورے دئے گئے ہیں۔ اِن مشوروں کی مدد سے والدین اپنے بچوں کو تیار کر سکتے ہیں تاکہ جب سکول میں بچوں سے اُن کے ایمان کے متعلق کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ مؤثر طریقے سے جواب دے سکیں۔ والدین خاندانی عبادت کے دوران اِن مشوروں پر عمل کرتے ہوئے بعض ایسی حالتوں کی مشق کر سکتے ہیں جن کا سکول میں بچوں کو سامنا ہو سکتا ہے۔
یہوواہ کے گواہوں کے بچوں سے سکول میں اکثر پوچھا جاتا ہے کہ وہ جھنڈے کو سلامی کیوں نہیں دیتے، جنمدن اور دیگر تہواروں کو کیوں نہیں مناتے؟ آپ کے خیال میں اگر کوئی آپ کے بچے سے ایسے سوال پوچھے تو وہ اِن کا کیسے جواب دے گا؟
بعض بچے یہ کہتے ہیں کہ ”مَیں اِن میں حصہ نہیں لیتا۔ کیونکہ میرا مذہب ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔“ ایسے بچے جو اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں، وہ واقعی تعریف کے قابل ہیں۔ تاہم بائبل میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ”جو کوئی تُم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اُس کو جواب دینے کے لئے ہر وقت مستعد رہو۔“ (۱-پطر ۳:۱۵) اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف یہی کہنا کافی نہیں ہے کہ ”مَیں اِن میں حصہ نہیں لیتا۔“ اگرچہ بعض لوگ ہمارے عقیدوں سے متفق نہیں ہوتے پھر بھی اکثر وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کوئی تہوار وغیرہ کیوں نہیں مناتے۔
بہت سے بچے جو یہوواہ کے گواہ ہیں، اُنہوں نے اپنے سکول میں پڑھنے والے بچوں کو بائبل میں درج واقعات کے بارے میں بتایا۔ اِن واقعات کی وضاحت کرنے کے لئے اُنہوں نے بائبل پر مبنی کتابوں اور رسالوں کو استعمال کِیا۔ بائبل کے اِن واقعات کی وضاحت کرنے سے وہ دوسرے بچوں کو یہ بتانے کے قابل ہوئے کہ وہ بعض کاموں میں حصہ کیوں نہیں لیتے۔ سکول میں بعض بچے بڑے دھیان سے بائبل کے واقعات کو سنتے ہیں جس سے کئی بائبل کے مطالعے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ بچے شاید پوری تفصیل سے کسی واقعے کو سننا مشکل پاتے ہیں۔ نیز بائبل کے بعض واقعات ایسے ہیں جو وضاحت کے بغیر سکول کے بچوں کو بالکل سمجھ نہیں آئیں گے۔ مثال کے طور پر جب ۱۱ سالہ لڑکی منہی کو اُس کی دوست نے اپنے جنمدن پر آنے کی دعوت دی تو اُس نے اپنی دوست سے کہا: ”بائبل میں کہیں بھی جنمدن منانے کو نہیں کہا گیا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایک جنمدن کے موقع پر یوحنا بپتسمہ دینے والے کو قتل کر دیا گیا تھا۔“ منہی نے کہا کہ اُس کی دوست کو یہ بات سمجھ نہ آئی۔
بعض اوقات جب ہم کسی طالبعلم کو کسی کتاب سے کوئی تصویر دکھاتے ہیں یا کوئی واقعہ پڑھ کر سناتے ہیں تو اِس سے بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ لیکن اگر سکول میں بچوں کو مذہبی کتابیں دینے یا دکھانے کی اجازت نہ ہو تو پھر کیا کِیا جا سکتا ہے؟ کیا اِس صورت میں بھی ہمارے بچے گواہی دینے کے لائق ہوں گے؟ آپ اپنے بچوں کو اپنے ایمان کے بارے میں مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لائق بنانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
پہلے سے تیاری کریں
کسی بھی صورتحال کے لئے پہلے سے تیاری کرنا فائدہمند ثابت ہو سکتا ہے۔ والدین سکول کے بچوں کا کردار ادا کرتے ہوئے کوئی سوال پوچھ سکتے ہیں اور بچے اُس کا جواب دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو شاباش دے سکتے ہیں اور پھر اُن کی مدد کر سکتے ۱-کر ۱۴:۹۔
ہیں تاکہ وہ اَور بہتر جواب دینے کے قابل ہو سکیں۔ مثال کے طور پر اپنے بچوں کو مشورہ دیں کہ وہ ویسی ہی زبان یا الفاظ استعمال کریں جو عام طور پر سکول میں بچے استعمال کرتے ہیں۔ ایک نو سالہ لڑکا جوشوعا بیان کرتا ہے کہ اُس کے سکول میں بچے ”ضمیر“ اور ”راستبازی“ جیسے الفاظ نہیں سمجھتے اِس لئے وہ اُن کے ساتھ بات کرتے وقت آسان الفاظ استعمال کرتا ہے۔—بعض بچے سوال پوچھتے ہیں لیکن اگر ہم لمبے جواب دیں تو اُن کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں دس سالہ لڑکی ہینوئل بیان کرتی ہے کہ ”سکول میں بچے باتچیت کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ لمبا چوڑا لیکچر سننا پسند نہیں کرتے۔“ لہٰذا اپنے سکول کے بچوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے پہلے اُن سے سوال پوچھیں اور پھر اُن کے جواب کو دھیان سے سنیں۔
بکس کے اندر کچھ موضوعات پر بچوں کے درمیان ہونے والی گفتگو درج ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے یہوواہ کے گواہ ہیں وہ دوسرے بچوں کو گواہی کیسے دے سکتے ہیں۔ اِس ساری گفتگو کو زبانی یاد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام بچے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مختلف حالات میں مختلف جواب دینا مناسب ہوتا ہے۔ اِس لئے جو بچے یہوواہ کے گواہ ہیں اُنہیں اِس گفتگو میں بیان کئے جانے والے اصولوں پر غور کرنا چاہئے تاکہ وہ بعد میں اِن پر اپنے الفاظ میں اور
حالات کے مطابق بات کر سکیں۔ اگر آپ کے بچے سکول جاتے ہیں تو آپ اُن کے ساتھ مل کر مشق بھی کر سکتے ہیں۔بچوں کی تربیت کرنے کے لئے بہت زیادہ وقت اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہوواہ کی خدمت کرنے والے والدین کو اپنے بچوں میں بائبل کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش پیدا کرنی چاہئے۔—است ۶:۷؛ ۲-تیم ۳:۱۴۔
بچوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی چند مثالیں جو بکس میں درج ہیں، اپنی خاندانی عبادت کے دوران اِن پر سوچبچار کریں۔ والدین کو یاد رکھنا چاہئے کہ بچے اِس گفتگو کو زبانی یاد نہ کریں۔ آپ بچوں کے ساتھ مختلف حالتوں کی مشق کر سکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ہر صورتحال میں آپ کوئی فرق جواب دیں اور دیکھیں کہ آپ کے بچے اُس کے مطابق اپنی گفتگو کو کیسے ڈھالتے ہیں۔ جب وہ یہ بتانے کی کوشش کریں کہ اُن کے ایمان کی بنیاد کیا ہے تو اُن کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ اُنہیں بڑی عقلمندی اور حالات کے مطابق باتچیت کرنی چاہئے۔ وقت کے ساتھساتھ آپ اپنے بچوں کو یہ سکھانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ وہ اپنے پڑوسیوں، سکول میں اُستادوں اور دوستوں کو اپنے ایمان کے بارے میں مؤثر طریقے سے جواب کیسے دے سکتے ہیں۔
[صفحہ ۲۸، ۲۹ پر بکس/تصویریں]
جنمدن منانا
ماریہ: کرسٹوفر، مَیں تمہیں اپنے جنمدن کی پارٹی پر آنے کی دعوت دینا چاہتی ہوں۔
کرسٹوفر: شکریہ ماریہ۔ لیکن ایک بات تو بتاؤ، تُم یہ پارٹی کیوں دے رہی ہو؟
ماریہ: ظاہر ہے، مَیں اپنا جنمدن منانے کے لئے پارٹی دے رہی ہوں۔ کیا تُم اپنا جنمدن نہیں مناتے؟
کرسٹوفر: نہیں، مَیں تو نہیں مناتا۔
ماریہ: کیوں نہیں مناتے؟ کیا تمہارا خاندان تمہارے پیدا ہونے پر خوش نہیں؟ میرا خاندان تو میرے پیدا ہونے پر بہت خوش ہے۔
کرسٹوفر: نہیں، ایسی بات نہیں۔ میرا خاندان میرے پیدا ہونے پر بہت خوش ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ مَیں ہر سال اپنا جنمدن مناؤں۔ بعض لوگ اپنے جنمدن پر خود کو بہت بڑا اور اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن کیا خدا سب سے اہم ہستی نہیں ہے؟ اور کیا ہمیں اُس کا شکریہ ادا نہیں کرنا چاہئے کہ اُس نے ہمیں زندگی دی ہے؟
ماریہ: کیا تُم یہ کہنا چاہتے ہو کہ مجھے اپنے جنمدن کی پارٹی نہیں دینی چاہئے؟
کرسٹوفر: یہ تو تمہاری مرضی ہے۔ لیکن ذرا سوچو کہ لوگ اپنے جنمدن پر بہت سے تحفے ملنے پر خوش ہوتے ہیں لیکن بائبل میں لکھا ہے کہ لینے والے کی نسبت دینے والے کو زیادہ خوشی ملتی ہے۔ اپنے جنمدن پر سب سے اہم بننے کی بجائے ہمیں خدا کا شکر کرنا اور دوسروں کی مدد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
ماریہ: مَیں نے تو کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔ اِس کا مطلب ہے کہ تمہارے امیابو تمہیں تحفے نہیں دیتے۔
کرسٹوفر: کیوں نہیں دیتے؟ ضرور دیتے ہیں۔ لیکن اُنہیں اِس کے لئے میرے جنمدن کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ وہ جب بھی چاہتے ہیں، مجھے کوئی نہ کوئی تحفہ دے دیتے ہیں۔ ماریہ، مجھے یقین ہے کہ تُم ضرور جاننا چاہو گی کہ جنمدن منانے کا آغاز کب ہوا۔
ماریہ: مَیں ضرور جاننا چاہوں گی۔
کرسٹوفر: اچھا، کل میں تمہیں بتاؤں گا کہ اِس کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔
جھنڈے کو سلامی دینا
انیلا: سارہ، تُم جھنڈے کو سلامی کیوں نہیں دیتی؟
سارہ: انیلا، پہلے آپ بتاؤ کہ آپ جھنڈے کو سلامی کیوں دیتی ہو؟
انیلا: اِس لئے کہ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے۔
سارہ: تُم اپنی امی سے بھی تو محبت کرتی ہو۔ مگر کیا تُم اُنہیں بھی سلامی دیتی ہو؟
انیلا: ہاں تُم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ دراصل مَیں جھنڈے کو اِس لئے سلامی دیتی ہوں کیونکہ مَیں اِس کا احترام کرتی ہوں۔ کیا تُم جھنڈے کا احترام نہیں کرتی؟
سارہ: مَیں کرتی ہوں۔ مگر کیا ہم ہر اُس شخص کو سلامی دیتے ہیں جس کا ہم احترام کرتے ہیں؟
انیلا: یہ بات بھی سچ ہے۔ کیونکہ مَیں اپنے اُستادوں کا احترام کرتی ہوں مگر مَیں اُنہیں سلامی تو نہیں دیتی۔ ویسے سچ کہوں تو مجھے خود بھی نہیں پتہ کہ مَیں جھنڈے کو سلامی کیوں دیتی ہوں۔
سارہ: انیلا، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جھنڈا ملک کی علامت ہوتا ہے۔ اور جھنڈے کو سلامی دینے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ مگر مَیں ایسا نہیں سوچتی۔ مَیں اپنے ملک کی خاطر جان نہیں دوں گی۔ کیونکہ مجھے زندگی دینے والا خدا ہے اور میری زندگی اُسی کی امانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں جھنڈے کا احترام تو کرتی ہوں مگر اِسے سلامی نہیں دیتی۔
انیلا: ہاں، اب مجھے سمجھ میں آ گیا ہے۔
سارہ: مجھے بھی تمہیں یہ سب بتا کر بہت خوشی ہوئی۔ اور ہاں، اگر تُم جاننا چاہتی ہو کہ مَیں بعض کاموں میں کیوں حصہ نہیں لیتی تو تُم مجھ سے وہ بھی پوچھ سکتی ہو۔ مَیں تمہیں بائبل میں درج ایک واقعے کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ بابل کے ملک کے بادشاہ نے لوگوں کو ایک مورت کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن بعض نے اُس مورت کو سجدہ کرنے کی بجائے موت کو گلے لگانا پسند کِیا۔
انیلا: کیا واقعی؟ مگر اُن کے ساتھ کیا ہوا؟
سارہ: اِس کے بارے میں مَیں تمہیں بریک میں بتاؤں گی۔
سکول میں الیکشن
جاوید: حامد، تمہارے خیال میں ہماری کلاس کا لیڈر کون ہوگا؟
حامد: کوئی بھی ہو۔ مَیں کسی کی طرف نہیں ہوں۔
جاوید: مگر کیوں؟
حامد: کیونکہ مَیں نے اپنا لیڈر چن لیا ہے۔ ایک مسیحی کے طور پر مَیں نے وعدہ کِیا ہے کہ مَیں صرف یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلوں گا۔ اِس لئے مجھے کسی اَور لیڈر کا انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں پتہ ہے کہ مَیں نے یسوع مسیح کو ہی اپنا لیڈر کیوں منتخب کِیا ہے؟
جاوید: مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تُم کسے اپنا لیڈر چنتے ہو۔
حامد: ویسے اگر تُم کبھی جاننا چاہو تو مجھے تمہیں بتا کر خوشی ہوگی۔
[تصویر]
”کرسٹوفر، مَیں تمہیں اپنے جنمدن کی پارٹی پر آنے کی دعوت دینا چاہتی ہوں“
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
”تُم جھنڈے کو سلامی کیوں نہیں دیتی؟“