مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا ہم روحوں کو دیکھ سکتے ہیں؟‏

کیا ہم روحوں کو دیکھ سکتے ہیں؟‏

کیا ہم روحوں کو دیکھ سکتے ہیں؟‏

ذرا آسمان کی طرف دیکھیں۔‏ آپ چاہے جتنی دیر بھی آسمان کو تکتے رہیں،‏ آپ کو کوئی نظر نہیں آئے گا۔‏ وہاں سے کسی کی آواز نہیں آئے گی۔‏ پھر بھی آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ذہین اور طاقتور روحیں موجود ہیں جن کے الگ‌الگ نام اور الگ‌الگ کام ہیں۔‏ کچھ ہمارا بھلا چاہتی ہیں اور کچھ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔‏

سچا خدا بھی رُوح ہے۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۴‏)‏ اُس کا نام یہوواہ ہے۔‏ یہ نام اُسے جھوٹے خداؤں سے بالکل فرق کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ بزرگ اور نہایت ستایش کے لائق ہے۔‏ وہ سب معبودوں سے زیادہ تعظیم کے لائق ہے۔‏ اِس لئے کہ اَور قوموں کے سب معبود محض بُت ہیں لیکن [‏یہوواہ]‏ نے آسمانوں کو بنایا۔‏ عظمت اور جلال اُس کے حضور میں ہیں۔‏ قدرت اور جمال اُس کے مقدِس میں۔‏“‏ *‏—‏زبور ۹۶:‏۴-‏۶‏۔‏

سچے خدا کا جلال

پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۱۸‏)‏ جس طرح جنم کے اندھے کو رنگوں کی کوئی سمجھ نہیں ہوتی ویسے ہی یہوواہ کی صورت اور جلال ہماری سمجھ سے باہر ہے۔‏ جس طرح ایک اُستاد اپنے طالبعلموں کو مشکل باتیں سمجھانے کے لئے ایسے الفاظ اور مثالیں استعمال کرتا ہے جن سے وہ واقف ہیں۔‏ اِسی طرح یہوواہ خدا بھی اپنے کلام کے ذریعے اَن‌دیکھی چیزوں کو ایسی مثالوں کے ذریعے ہمیں سمجھاتا ہے جن سے ہم واقف ہیں۔‏ خدا نے پُرانے زمانے کے خادموں کو رویا اور خواب دکھائے۔‏ اِن کا جائزہ لینے سے ہم آسمان پر رہنے والی ہستیوں اور وہاں ہونے والے واقعات کا تصور کر سکتے ہیں۔‏ نیز ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آسمان پر رہنے والی ہستیوں کا ہم سے کیا تعلق ہے؟‏

مثال کے طور پر حزقی‌ایل نبی نے ایک رویا میں دیکھا کہ یہوواہ کا جلال بالکل آگ،‏ جگمگاہٹ،‏ نیلم کے پتھر اور قوسِ‌قزح جیسا تھا۔‏ یوحنا رسول نے بھی ایک رویا میں دیکھا کہ یہوواہ تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ ”‏سنگِ‌یشب اور عقیق سا معلوم ہوتا ہے اور اُس تخت کے گِرد زُمرد کی سی ایک دھنک معلوم ہوتی ہے۔‏“‏ اِن بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا بےپناہ جلال کا مالک ہے۔‏ اُس کے حضور خوشی،‏ امن اور سکون ہے۔‏—‏مکاشفہ ۴:‏۲،‏ ۳؛‏ حزقی‌ایل ۱:‏۲۶-‏۲۸‏۔‏

دانی‌ایل نبی نے بھی ایک رویا میں دیکھا کہ ’‏لاکھوں لاکھ فرشتے یہوواہ کے حضور کھڑے تھے۔‏‘‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۰‏)‏ یہ کتنا خوبصورت اور حیرت‌انگیز نظارہ ہوگا!‏ اگر ہم رویا میں ایک فرشتے کو ہی دیکھ لیں تو ہم حیرت‌زدہ ہو جائیں گے لیکن ذرا سوچیں کہ اگر ہم ایک ہی وقت میں لاکھوں فرشتوں کو دیکھ لیں تو کیا ہوگا۔‏

پاک کلام میں فرشتوں کا ۳۰۰ مرتبہ ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اِن کے مختلف درجے ہیں جیسے کہ سرافیم اور کروبی۔‏ پاک کلام میں جن یونانی اور عبرانی لفظوں کا ترجمہ ”‏فرشتہ“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُن کا مطلب ”‏پیامبر“‏ یعنی پیغام پہنچانے والا ہے۔‏ فرشتے نہ صرف آپس میں بات‌چیت کرتے ہیں بلکہ ماضی میں اُنہوں نے انسانوں کے ساتھ بھی بات کی تھی۔‏ یہوواہ خدا نے انسان کو پیدا کرنے سے بہت عرصہ پہلے فرشتوں کو بنایا تھا۔‏ اِس لئے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ فرشتے پہلے انسان ہوتے تھے اور بعد میں وہ آسمان پر چلے گئے۔‏—‏ایوب ۳۸:‏۴-‏۷‏۔‏

دانی‌ایل نے رویا میں دیکھا کہ لاکھوں فرشتے ایک نہایت اہم موقعے کے لئے یہوواہ کے حضور آتے ہیں۔‏ دانی‌ایل نے دیکھا کہ ”‏ایک شخص آدم‌زاد کی مانند“‏ یہوواہ کے تخت کے پاس آیا اور ”‏سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمتیں اور اہلِ‌لغت اُس کی خدمت‌گذاری کریں۔‏“‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ ”‏آدم‌زاد“‏ کو تمام فرشتوں میں سب سے اہم مقام حاصل ہے۔‏ یہ دراصل یسوع مسیح ہے جو زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا اور اُسے تمام زمین پر حکمرانی کرنے کا اختیار دیا گیا۔‏ وہ جلد ہی تمام انسانی حکومتوں کو ختم کر دے گا۔‏ وہ بیماری،‏ غربت،‏ دُکھ‌تکلیف اور موت کا نام‌ونشان مٹا دے گا۔‏—‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏۔‏

جب یسوع مسیح کو بادشاہ بنایا گیا تو فرشتے بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ انسان کا بھلا چاہتے ہیں۔‏ مگر افسوس کی بات ہے کہ کچھ روحوں کو بالکل خوشی نہیں ہوئی تھی۔‏

خدا اور انسان کے دُشمن

جب خدا نے انسان کو خلق کِیا تو ایک فرشتے کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انسان اور دوسرے فرشتے اُس کی عبادت کریں۔‏ اِس خواہش نے اُسے خدا سے دُور کر دیا اور وہ شیطان بن گیا۔‏ شیطان کا مطلب ‏”‏مخالف“‏ ہے۔‏ شیطان سب سے زیادہ شریر ہستی ہے جبکہ یہوواہ سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ہے۔‏ لہٰذا اِس میں حیرانی کی بات نہیں کہ شیطان،‏ یہوواہ خدا کا سب سے بڑا دُشمن ہے۔‏ کچھ اَور فرشتے بھی شیطان کے ساتھ مل گئے جنہیں خدا کے کلام میں شیاطین کہا گیا ہے۔‏ وہ بھی انسان کے دُشمن بن گئے ہیں۔‏ آج‌کل دُنیا میں زیادہ‌تر ناانصافی،‏ بیماری،‏ غربت اور جنگیں اِنہی کی وجہ سے ہیں۔‏

آج‌کل بہت سے چرچ شیطان کے متعلق کوئی واضح تعلیم نہیں دیتے۔‏ لیکن پاک کلام میں ایوب کی کتاب کے اندر اِس باغی فرشتے کی سوچ اور کاموں کے متعلق صاف طور پر بیان کِیا گیا ہے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏ایک دن خدا کے بیٹے آئے کہ [‏یہوواہ]‏ کے حضور حاضر ہوں اور اُن کے درمیان شیطان بھی آیا۔‏“‏ اُس نے ایوب پر الزام لگایا کہ ایوب اِس لئے خدا کی خدمت کرتا ہے کیونکہ خدا نے اُسے بہت سی برکتیں دی ہیں۔‏ اپنے اِس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے شیطان،‏ ایوب پر بہت سی مصیبتیں لایا۔‏ مثال کے طور پر اُس نے ایوب کے جانوروں اور بچوں کو مار ڈالا۔‏ پھر اُس نے ایوب کو ایک ایسی بیماری میں مبتلا کر دیا جس میں ایوب کے پورے جسم پر دردناک پھوڑے نکل آئے۔‏ ایوب کو اتنی تکلیف دینے کے باوجود شیطان کامیاب نہ ہو سکا۔‏—‏ایوب ۱:‏۶-‏۱۹؛‏ ۲:‏۷‏۔‏

یہوواہ خدا نے چند وجوہات کی بِنا پر شیطان کو ابھی تک ہلاک نہیں کِیا۔‏ لیکن وہ جلد ہی ایسا کرنے والا ہے۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے شیطان کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔‏ اِس کتاب میں ایک ایسے اہم واقعے کو بیان کِیا گیا ہے جسے انسان نہیں دیکھ پائے تھے۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ ”‏آسمان پر لڑائی ہوئی۔‏ میکاؔئیل [‏مُردوں میں سے جی اُٹھنے والا یسوع مسیح]‏ اور اُس کے فرشتے اژدہا [‏شیطان]‏ سے لڑنے کو نکلے اور اژدہا اور اُس کے فرشتے اُن سے لڑے۔‏ لیکن غالب نہ آئے اور اِس کے بعد آسمان پر اُن کے لئے جگہ نہ رہی۔‏ اور وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پُرانا سانپ جو اِبلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے زمین پر گِرا دیا گیا اور اُس کے فرشتے بھی اُس کے ساتھ گِرا دئے گئے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹‏۔‏

غور کریں کہ شیطان ”‏سارے جہان کو گمراہ“‏ کر رہا ہے۔‏ وہ جھوٹی تعلیم کو فروغ دینے سے لوگوں کو یہوواہ اور اُس کے پاک کلام سے دُور کر رہا ہے۔‏ اِن جھوٹی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد روحوں کے جہان میں چلا جاتا ہے۔‏ لوگ اِس تعلیم کو مختلف طریقوں سے مانتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر افریقہ اور ایشیا میں بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد وہ ایک ایسی دُنیا میں چلے جاتے ہیں جہاں اُن کے باپ‌دادا کی روحیں رہتی ہیں۔‏ اعراف اور دوزخ کی تعلیم بھی اِسی نظریے پر مبنی ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔‏

کیا انسان مرنے کے بعد آسمان پر جاتا ہے؟‏

آج‌کل لاکھوں لوگ یہ مانتے ہیں کہ نیک لوگ آسمان پر جاتے ہیں۔‏ کیا یہ نظریہ درست ہے؟‏ یہ بات سچ ہے کہ نیک لوگ آسمان پر جائیں گے لیکن سبھی نہیں۔‏ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ آسمان پر جانے والوں کی تعداد صرف ایک لاکھ ۴۴ ہزار ہے۔‏ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ”‏دُنیا میں سے خرید“‏ لیا گیا ہے۔‏ اِنہیں آسمان پر ”‏کاہن“‏ اور بادشاہ بنایا جائے گا اور یہ ساری ”‏زمین پر بادشاہی“‏ کریں گے۔‏ (‏مکاشفہ ۵:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۱۴:‏۱،‏ ۳‏)‏ یہ لوگ آدم‌زاد یعنی یسوع مسیح کے ساتھ مل کر خدا کی آسمانی حکومت کو تشکیل دیں گے۔‏ یہ حکومت شیطان اور اُس کے شیاطین کو ختم کرکے زمین کو فردوس بنا دے گی۔‏ پھر بہت سے مُردوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا جنہیں فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع ملے گا۔‏—‏لوقا ۲۳:‏۴۳‏۔‏

ہم نے سیکھ لیا کہ روحیں موجود ہیں۔‏ اِن میں سب سے عظیم یہوواہ خدا ہے جو ہم سب کا خالق ہے۔‏ لاکھوں فرشتے وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ شیطان اور دیگر باغی فرشتے خدا کے دُشمن ہیں اور انسانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔‏ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ کچھ انسانوں کو دُنیا میں سے ”‏خرید“‏ لیا گیا ہے یعنی چن لیا گیا ہے تاکہ وہ آسمان پر یسوع مسیح کے ساتھ مل کر حکمرانی کریں۔‏ اِن تمام باتوں کے پیشِ‌نظر آئیں اب ہم یہ دیکھیں کہ ہمیں اِن میں سے کس سے بات کرنی چاہئے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 بائبل کے عبرانی متن کے مطابق،‏ اِن آیات میں خداوند کی بجائے نام یہوواہ استعمال ہوا ہے۔‏