مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہر طرح کی مشکل کا مقابلہ کرنے کی طاقت

ہر طرح کی مشکل کا مقابلہ کرنے کی طاقت

ہر طرح کی مشکل کا مقابلہ کرنے کی طاقت

‏”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏—‏فل ۴:‏۱۳‏۔‏

۱.‏ یہوواہ کے لوگوں کو طرح‌طرح کی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟‏

آج‌کل یہوواہ کے لوگ طرح‌طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔‏ بعض اوقات ہمیں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ نیز اِس دُنیا کے خراب حالات کی وجہ سے بھی ہم پر مشکلات آتی ہیں۔‏ خدا کے کلام میں واضح کِیا گیا ہے کہ خدا کی خدمت کرنے والوں اور نہ کرنے والوں میں دُشمنی ہوگی۔‏ اِس وجہ سے بھی خدا کے لوگوں کو مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔‏ (‏پید ۳:‏۱۵‏)‏ تاہم شروع ہی سے یہوواہ خدا اپنے وفادار خادموں کو اذیت،‏ ہم‌عمروں کی طرف سے دباؤ اور ہر طرح کی مشکلات سے نمٹنے میں مدد دیتا رہا ہے۔‏ پاک رُوح کی مدد سے آج ہم بھی ایسی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل کر سکتے ہیں۔‏

اذیت کا مقابلہ کرنے کی طاقت

۲.‏ (‏الف)‏ شیطان ہمیں کیوں اذیت پہنچاتا ہے؟‏ (‏ب)‏ وہ کن طریقوں سے ہم پر حملہ کرتا ہے؟‏

۲ شیطان چاہتا ہے کہ وہ سچے مذہب کا نام‌ونشان مٹا دے۔‏ اِسی لئے وہ خدا کے لوگوں پر اذیت لاتا ہے۔‏ وہ اُنہیں راستی کی راہ پر چلنے سے ہٹانا چاہتا ہے اور مُنادی کے کام کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ شیطان خدا کے لوگوں پر مختلف طریقوں سے حملہ کرتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں بائبل میں بتایا گیا ہے کہ شیطان گرجنے والے شیر ببر اور افعی کی طرح خدا کے لوگوں پر حملہ کرتا ہے۔‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ بعض اوقات شیطان ہم پر کھلم‌کُھلا حملہ کرتا ہے اور کبھی‌کبھار چالاکی سے ہمیں گمراہ کرنا چاہتا ہے۔‏

۳.‏ شیطان ایک جنگلی شیر ببر اور افعی کی طرح ہم پر کیسے حملے کرتا ہے؟‏

۳ جس طرح ایک جنگلی شیرببر اپنے شکار پر کھلم‌کُھلا حملہ کرتا ہے اُسی طرح شیطان ہم پر کھلم‌کُھلا وار کرتا ہے۔‏ وہ ہم پر تشدد کراتا ہے؛‏ ہمیں قید میں ڈلواتا ہے یا پھر ہمارے مُنادی کے کام پر پابندی لگواتا ہے۔‏ (‏زبور ۹۴:‏۲۰‏)‏ یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ کتاب میں ایسے کئی تجربات بیان کئے جاتے ہیں جن میں یہوواہ کے گواہوں کو اِسی طرح اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‏ بہت سی جگہوں پر پادری اور سیاسی لیڈر،‏ لوگوں کے ہجوم کو اِس بات پر اُکساتے ہیں کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کو اذیت دیں۔‏ شیطان کے ایسے حملوں کی وجہ سے بعض نے یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دی ہے۔‏ تاہم شیطان نہ صرف جنگلی شیر ببر کی طرح بلکہ افعی کی طرح بھی حملہ کرتا ہے۔‏ جس طرح ایک افعی چھپ کر اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے اِسی طرح شیطان چالاکی سے ہماری سوچ کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہو جائے اور ہم خدا سے دُور ہو جائیں تاکہ وہ آسانی سے ہمیں کسی غلط کام پر اُکسا سکے۔‏ لیکن خدا کی پاک رُوح کی مدد سے ہم اِن دونوں طرح کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏

۴،‏ ۵.‏ ہم اذیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیسے ہو سکتے ہیں اور کیوں؟‏ مثال دیں۔‏

۴ اذیتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں خود کو پہلے سے تیار کرنا چاہئے۔‏ تاہم تیار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پہلے سے ہی یہ سوچ لیں کہ ہم پر کونسی اذیتیں آئیں گی۔‏ دراصل ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں ہم پر کس طرح کی اذیت آ سکتی ہے۔‏ اِس لئے ہمیں پہلے سے ایسی باتوں کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہئے جن کا شاید ہمیں سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔‏ پھر ہم اذیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیسے ہو سکتے ہیں؟‏ ہم بائبل میں درج خدا کے وفادار خادموں کی مثالوں پر غور کر سکتے ہیں۔‏ نیز ہم یسوع مسیح کی تعلیمات اور اُس کی مثال پر غور کر سکتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے بہت سے بہن‌بھائیوں کے دل میں یہوواہ کے لئے محبت اَور گہری ہو گئی جس سے وہ ڈٹ کر اذیت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے۔‏

۵ اِس سلسلے میں آئیں ملاوی میں رہنے والی دو یہوواہ کی گواہ بہنوں کی مثال پر غور کریں۔‏ کسی سیاسی پارٹی کا ممبر بننے پر مجبور کرنے کے لئے لوگوں کے ہجوم نے اِن بہنوں کو ماراپیٹا،‏ اُن کے کپڑے اُتار دئے اور اُنہیں یہ دھمکی دی کہ وہ اُن کی عزت لوٹ لیں گے۔‏ اِن لوگوں نے بہنوں سے یہ جھوٹ بولا کہ بیت‌ایل خاندان کے بعض اراکین بھی اِس پارٹی کے ممبر بن گئے ہیں۔‏ اِن بہنوں نے اُن لوگوں سے کہا کہ ”‏ہم کسی انسان کی نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی خدمت کرتی ہیں۔‏ اِس لئے اگر بیت‌ایل میں رہنے والے بھائی اِس پارٹی کے ممبر بن بھی جائیں تو ہمیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‏ چاہے آپ ہمیں مار ہی کیوں نہ دیں،‏ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے۔‏“‏ اِن بہنوں کی دلیری کی وجہ سے لوگوں نے اُنہیں چھوڑ دیا۔‏

۶،‏ ۷.‏ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو اذیت کا مقابلہ کرنے کی طاقت کیسے دیتا ہے؟‏

۶ پولس رسول نے بیان کِیا کہ تھسلنیکے کے مسیحیوں نے ”‏بڑی مصیبت میں“‏ بھی سچائی کا پیغام ”‏روحُ‌القدس کی خوشی کے ساتھ“‏ قبول کِیا۔‏ (‏۱-‏تھس ۱:‏۶‏)‏ اِس آیت کے مطابق اذیت کا مقابلہ کرنے والے بہت سے مسیحیوں نے یہ بیان کِیا کہ مشکل سے مشکل اذیت سہتے وقت اُنہیں اطمینان حاصل ہوا۔‏ اطمینان خدا کی رُوح کے پھل میں شامل ہے۔‏ (‏گل ۵:‏۲۲‏)‏ اِس اطمینان نے اُن کے دلوں اور خیالوں کو محفوظ رکھا۔‏ بِلاشُبہ یہوواہ خدا پاک رُوح کے ذریعے اپنے خادموں کو حکمت اور طاقت بخشتا ہے تاکہ وہ اذیت کا مقابلہ کر سکیں۔‏ *

۷ بہت سے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہوواہ کے لوگ اتنی سخت اذیت کے باوجود اپنی راستی پر قائم رہتے ہیں۔‏ اُنہیں لگتا ہے کہ یہوواہ کے گواہوں کے پاس یقیناً کوئی ایسی طاقت ہے جو انسانوں کی طاقت سے کہیں بڑھ کر ہے۔‏ پطرس رسول نے ہمیں یقین دلایا کہ ”‏اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تُم مبارک ہو کیونکہ جلال کا رُوح یعنی خدا کا رُوح تُم پر سایہ کرتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطر ۴:‏۱۴‏)‏ لہٰذا اگر خدا کے اصولوں پر چلنے کی وجہ سے ہمیں اذیت دی جاتی ہے تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔‏ (‏متی ۵:‏۱۰-‏۱۲؛‏ یوح ۱۵:‏۲۰‏)‏ جب ہم یہ جان جاتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہے تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔‏

ہم‌عمروں کی طرف سے دباؤ کا مقابلہ کرنے کی طاقت

۸.‏ (‏الف)‏ یشوع اور کالب اپنے ہم‌عمروں کی طرف سے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ (‏ب)‏ ہم یشوع اور کالب کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ اذیت کے علاوہ شیطان اَور طریقوں سے بھی ہمیں اپنی راستی سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر مسیحیوں کو اپنے ہم‌عمروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ لیکن یہوواہ کی رُوح ہمیں طاقت بخشتی ہے تاکہ ہم اپنے اِردگرد کے لوگوں کی سوچ سے متاثر نہ ہوں۔‏ لہٰذا جب لوگ ہمارے بارے میں جھوٹ بولتے،‏ ہمارا مذاق اُڑاتے اور ہمیں اپنے جیسے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو خدا کی پاک رُوح کی مدد سے ہم راستی پر قائم رہتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ یشوع اور کالب کو اتنی دلیری کہاں سے ملی کہ وہ دیگر دس جاسوسوں سے فرق رائے رکھنے کے قابل ہوئے؟‏ خدا کی پاک رُوح نے اُن کی مدد کی تاکہ وہ دیگر جاسوسوں کی سوچ سے متاثر نہ ہوں۔‏‏—‏گنتی ۱۳:‏۳۰؛‏ ۱۴:‏۶-‏۱۰،‏ ۲۴ کو پڑھیں۔‏

۹.‏ مسیحیوں کو دُنیا کے لوگوں سے کیوں فرق نظر آنا چاہئے؟‏

۹ رسولوں کے زمانے میں زیادہ‌تر لوگ مذہبی رہنماؤں کو سچے مذہب کی تعلیم دینے والے خیال کرتے تھے۔‏ لیکن پاک رُوح نے رسولوں کو دلیری بخشی کہ وہ آدمیوں کی نسبت خدا کا حکم مانیں۔‏ (‏اعما ۴:‏۲۱،‏ ۳۱؛‏ ۵:‏۲۹،‏ ۳۲‏)‏ آج‌کل بھی بہت سے لوگ اکثر وہی کام کرتے ہیں جو لوگوں کی اکثریت کرتی ہے۔‏ تاہم سچے مسیحیوں کو پاک رُوح کے ذریعے ہمت ملتی ہے کہ وہ خدا کے حکم ماننے کی خاطر دوسروں سے فرق نظر آنے سے نہ ڈریں۔‏ (‏۲-‏تیم ۱:‏۷‏)‏ آئیں ایک ایسی صورتحال پر غور کریں جس میں ہمیں اپنے ہم‌عمروں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔‏

۱۰.‏ بعض مسیحیوں کو کس دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏

۱۰ فرض کریں کہ ایک نوجوان کو پتہ چلتا ہے کہ اُس کے کسی دوست نے بائبل کے اصولوں کے خلاف کوئی کام کِیا ہے۔‏ وہ سوچتا ہے کہ اگر مَیں کلیسیا کے بزرگوں کو اپنے دوست کی غلطی کے بارے میں بتاؤں گا تو مَیں اُس سے بےوفائی کر رہا ہوں گا۔‏ اِس لئے وہ کلیسیا کے بزرگوں کو اِس معاملے کے بارے میں نہیں بتاتا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے میں اُس کے دوست کی بھلائی ہے۔‏ نیز شاید غلطی کرنے والا نوجوان اپنے گُناہ کو چھپانے کے لئے اپنے دوست پر دباؤ ڈالے۔‏ نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ تمام عمر کے لوگوں کو اپنے دوست یا پھر خاندان کے کسی فرد کی غلطی کے بارے میں کلیسیا کے بزرگوں کو بتانا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ لہٰذا مسیحی اِس طرح کے دباؤ کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ اگر کلیسیا میں کوئی بہن یا بھائی اپنے گُناہ کو چھپانے کے لئے آپ پر دباؤ ڈالتا ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے اور کیوں؟‏

۱۱ ایک صورتحال پر غور کریں۔‏ ایک نوجوان بھائی جاوید کو پتہ چلتا ہے کہ اُس کی کلیسیا کے ایک دوست عامر کو گندی تصویریں دیکھنے کی عادت ہے۔‏ جاوید،‏ عامر سے کہتا ہے کہ وہ اُس کے بارے میں بہت فکرمند ہے۔‏ لیکن عامر اُس کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔‏ جاوید اپنے دوست کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ بزرگوں سے اِس مسئلے کے بارے میں بات کرے۔‏ لیکن عامر اُس سے کہتا ہے کہ ”‏اگر تُم واقعی میرے سچے دوست ہو تو تُم بزرگوں کو بالکل نہیں بتاؤ گے۔‏“‏ کیا جاوید اپنے دوست کو کھو دینے کے ڈر سے بزرگوں سے بات نہیں کرے گا؟‏ شاید جاوید سوچے کہ اگر عامر نے بزرگوں کے سامنے اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیا تو بزرگ ہم میں سے کس کی بات پر یقین کریں گے؟‏ لیکن بات تو یہ ہے کہ اگر جاوید چپ رہے گا تو عامر اپنی اِس عادت کو نہیں چھوڑ پائے گا۔‏ اِس وجہ سے عامر یہوواہ خدا کی قربت سے محروم ہونے کے خطرے میں پڑ جائے گا۔‏ اچھا ہوگا کہ جاوید بائبل کی اِس آیت کو یاد کرے کہ ”‏انسان کا ڈر پھندا ہے لیکن جو کوئی [‏یہوواہ]‏ پر توکل کرتا ہے محفوظ رہے گا۔‏“‏ (‏امثا ۲۹:‏۲۵‏)‏ تو پھر جاوید کیا کر سکتا ہے؟‏ وہ دوبارہ عامر سے اِس مسئلے پر بات کر سکتا ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے دلیری کی ضرورت ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اِس مرتبہ عامر اِس مسئلے پر بات کرنے کے لئے راضی ہو جائے۔‏ جاوید کو چاہئے کہ وہ پھر عامر کو بزرگوں سے بات کرنے کے لئے کہے۔‏ جاوید اُس سے کہہ سکتا ہے کہ ”‏اگر تُم بزرگوں سے بات نہیں کرو گے تو مَیں خود اُنہیں اِس مسئلے کے بارے میں بتا دوں گا۔‏“‏—‏احبا ۵:‏۱‏۔‏

۱۲ ہو سکتا ہے کہ آپ نے بھی اپنے کسی دوست کی مدد کرنے کی کوشش کی ہو۔‏ شاید وہ شروع میں تو آپ کی کوشش کے لئے قدر ظاہر نہ کرے۔‏ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ ممکن ہے کہ وہ اِس بات کو سمجھے کہ آپ نے جو کچھ بھی کِیا اِس میں اُسی کی بھلائی تھی۔‏ اگر غلطی کرنے والا شخص بزرگوں کی طرف سے دی جانے والی اصلاح کو قبول کرتا ہے تو بعد میں وہ آپ کی دلیری اور وفاداری کے لئے ہمیشہ آپ کا شکرگزار ہوگا۔‏ تاہم اگر وہ آپ سے اِس وجہ سے ناراض رہتا ہے کہ آپ نے بزرگوں کو اُس کی غلطی کے بارے میں بتایا ہے تو کیا وہ واقعی آپ کا سچا دوست ہے؟‏ ہمیں چاہئے کہ ہم ہمیشہ یہوواہ خدا کو خوش کریں کیونکہ وہ ہمارا سب سے اچھا دوست ہے۔‏ اگر ہم ہمیشہ یہوواہ کے وفادار رہتے ہیں تو ہمارے بہن‌بھائی جو یہوواہ سے محبت رکھتے ہیں،‏ وہ ہماری وفاداری کی قدر کریں گے۔‏ یوں وہ ہمارے سچے دوست بن جائیں گے۔‏ ہمیں کبھی بھی شیطان کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ کلیسیا کو ناپاک کرے۔‏ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم خدا کی پاک رُوح کو رنجیدہ کر رہے ہوں گے۔‏ اِس کے برعکس ہمیں خدا کی پاک رُوح کی رہنمائی میں چلتے ہوئے کلیسیا کو ہمیشہ پاک صاف رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏—‏افس ۴:‏۲۷،‏ ۳۰‏۔‏

ہر طرح کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کی طاقت

۱۳.‏ (‏الف)‏ یہوواہ کے لوگوں کو کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ایسی مصیبتیں اتنی عام کیوں ہیں؟‏

۱۳ مصیبتیں طرح‌طرح کی ہو سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر مالی مسائل،‏ بےروزگاری،‏ قدرتی آفات،‏ کسی عزیز کی وفات،‏ صحت کے مسائل وغیرہ۔‏ چونکہ ہم ’‏بُرے دنوں‘‏ میں رہ رہے ہیں اِس لئے ہم کسی نہ کسی مصیبت کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱‏)‏ تاہم جب ہم کسی مصیبت میں پڑ جاتے ہیں تو ہمیں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ پاک رُوح ہمیں ہر طرح کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہے۔‏

۱۴.‏ ایوب کیسے مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوا؟‏

۱۴ ایوب کو ایک کے بعد ایک مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اُس کے بعض مویشی ہلاک ہو گئے اور باقی چوری ہو گئے؛‏ اُس کے بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؛‏ اُس کے دوست بھی اُس کا ساتھ چھوڑ گئے؛‏ وہ ایک دردناک بیماری میں مبتلا ہو گیا اور اُس کی بیوی نے بھی وقتی طور پر یہوواہ پر بھروسا کرنا چھوڑ دیا۔‏ (‏ایو ۱:‏۱۳-‏۱۹؛‏ ۲:‏۷-‏۹‏)‏ تاہم الیہو،‏ ایوب کا اچھا دوست ثابت ہوا۔‏ الیہو نے ایوب کو یہ پیغام دیا کہ ”‏چپ‌چاپ کھڑا رہ اور خدا کے حیرت‌انگیز کاموں پر غور کر۔‏“‏ (‏ایو ۳۷:‏۱۴‏)‏ یہوواہ خدا نے خود بھی ایوب کو اِس طرح کی نصیحت کی۔‏ ایوب کیسے مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوا؟‏ اُس نے اُن شاندار کاموں پر غور کِیا جو یہوواہ نے اپنی پاک رُوح کے ذریعے کئے تھے۔‏ (‏ایو ۳۸:‏۱-‏۴۱؛‏ ۴۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ شاید ہم بھی ایسے موقعوں کو یاد کر سکتے ہیں جب یہوواہ ہمارا سہارا بنا۔‏ جب ہم اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ نہ صرف ماضی میں بلکہ آج بھی یہوواہ خدا ہماری مدد کرتا ہے تو ہم مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏

۱۵.‏ پولس رسول کو مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت کیسے ملی؟‏

۱۵ پولس رسول نے بھی اپنے ایمان کی خاطر بہت سی ایسی مصیبتیں سہیں جن میں اُس کی زندگی خطرے میں تھی۔‏ (‏۲-‏کر ۱۱:‏۲۳-‏۲۸‏)‏ پولس رسول کس وجہ سے مصیبتوں میں حد سے زیادہ پریشان نہ ہوا؟‏ اُس نے دُعا کرنے سے یہوواہ خدا پر بھروسا ظاہر کِیا۔‏ آئیں اِس بات کی ایک مثال پر غور کریں۔‏ پولس رسول قید میں تھا اور سمجھتا تھا کہ شاید اُسے قتل کر دیا جائے گا۔‏ اِن کٹھن حالات میں اُس نے لکھا:‏ ”‏خداوند میرا مددگار تھا اور اُس نے مجھے طاقت بخشی تاکہ میری معرفت پیغام کی پوری مُنادی ہو جائے اور سب غیرقومیں سُن لیں اور مَیں شیر کے مُنہ سے چھڑایا گیا۔‏“‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۱۷‏)‏ پولس رسول نے محسوس کِیا کہ یہوواہ نے اُس کی مدد کی تھی۔‏ اِس لئے وہ ساتھی مسیحیوں کو یہ یقین دلا سکتا تھا کہ اُنہیں ”‏کسی بات کی فکر“‏ کرنے کی ضرورت نہیں۔‏‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷،‏ ۱۳ کو پڑھیں۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ مثال سے واضح کریں کہ آج‌کل یہوواہ خدا مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے لوگوں کی مدد کیسے کرتا ہے؟‏

۱۶ ایک بہن جس کا نام رخسانہ ہے،‏ پائنیر کے طور پر خدمت کر رہی ہے۔‏ اُس کا ذاتی تجربہ ہے کہ یہوواہ اپنے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔‏ رخسانہ نے بڑے اجتماع پر حاضر ہونے کے لئے اپنے آجر سے چھٹی مانگی۔‏ لیکن اُس نے بڑے غصے سے رخسانہ کو جواب دیا کہ اگر اُس نے چھٹی کی تو وہ اُسے نوکری سے نکال دے گا۔‏ رخسانہ پھر بھی بڑے اجتماع پر حاضر ہوئی۔‏ اُس نے یہوواہ سے دُعا کی کہ اُس کا آجر اُسے نوکری سے نہ نکالے۔‏ دُعا کرنے کے بعد اُسے بہت سکون ملا۔‏ لیکن پیر کو جب وہ نوکری پر گئی تو اُس کے آجر نے اُسے نوکری سے نکال دیا۔‏ اپنی نوکری کھو دینے کی وجہ سے رخسانہ بہت پریشان ہو گئی۔‏ اگرچہ اُسے اِس نوکری سے کم پیسے ملتے تھے تو بھی وہ اِن پیسوں سے اپنے خاندان کی مدد کرتی تھی۔‏ اُس نے پھر یہوواہ خدا سے دُعا کی۔‏ اُس نے سوچا کہ جس طرح یہوواہ نے بڑے اجتماع کے ذریعے اُس کی روحانی ضروریات کو پورا کِیا ہے اِسی طرح وہ اُس کی دیگر ضروریات کو بھی ضرور پورا کرے گا۔‏ جب وہ اپنے گھر جا رہی تھی تو اُس نے ایک اشتہار،‏ ”‏ضرورت ہے“‏ دیکھا۔‏ اِس اشتہار کے مطابق ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو سلائی مشین کا کام کرنے میں ماہر ہوں۔‏ اُس نے اِس نوکری کے لئے درخواست دی۔‏ اگرچہ مینیجر نے دیکھا کہ رخسانہ کو اِس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے تو بھی اُس نے رخسانہ کو یہ نوکری دے دی۔‏ رخسانہ کو اِس نوکری سے جو تنخواہ ملتی تھی وہ اُس کی پہلی نوکری کی نسبت دُگنی تھی۔‏ رخسانہ نے محسوس کِیا کہ یہوواہ نے اُس کی دُعا سنی ہے۔‏ سب سے بڑی برکت اُسے یہ ملی کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے کئی لوگوں کو گواہی دینے کے قابل ہوئی۔‏ اِس کے نتیجے میں مینیجر اور دیگر چار لوگوں نے پیغام کو قبول کِیا اور بپتسمہ لے لیا۔‏

۱۷ ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات ہماری دُعاؤں کا جواب ہمیں فوراً نہ ملے یا وہ ہماری توقعات کے مطابق نہ ہو۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ کسی دُعا کا جواب دینے کے لئے بہترین طریقہ اور وقت کونسا ہے۔‏ شاید ہم یہ تو نہ سمجھیں کہ یہوواہ خدا نے ہماری توقعات کے مطابق ہمیں دُعا کا جواب نہیں دیا۔‏ پھر بھی ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے وفادار لوگوں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔‏—‏عبر ۶:‏۱۰‏۔‏

مشکلات اور آزمائشوں میں مدد

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏الف)‏ ہم مشکلات کا سامنا کرنے کی توقع کیوں کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ یسوع مسیح نے واضح کِیا تھا کہ دُنیا ہم سے عداوت رکھے گی۔‏ (‏یوح ۱۵:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ ہمیں آزمائشوں،‏ مایوسی،‏ اذیت اور ہم‌عمروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ لیکن پاک رُوح کی مدد سے ہم ہر اُس مشکل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں جو ہمیں خدا کی خدمت کرنے سے روک سکتی ہے۔‏ یہوواہ ہمیں کسی ایسی آزمائش میں پڑنے نہیں دے گا جسے ہمارے لئے برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔‏ (‏۱-‏کر ۱۰:‏۱۳‏)‏ وہ ہمیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔‏ (‏عبر ۱۳:‏۵‏)‏ اگر ہم خدا کی رُوح کی ہدایت سے لکھے گئے کلام پر عمل کریں گے تو ہم محفوظ رہیں گے۔‏ اِس کے علاوہ جب ہم مصیبت میں ہوتے ہیں تو پاک رُوح بہن‌بھائیوں میں یہ جذبہ پیدا کرتی ہے کہ وہ ہماری مدد کریں۔‏

۱۹ پس آئیں دُعا اور بائبل کا مطالعہ کرنے سے پاک رُوح کو حاصل کرتے رہیں۔‏ نیز یہ عزم کریں کہ ہم ’‏خدا کے جلال کی قدرت کے موافق ہر طرح کی قوت سے قوی ہوتے جائیں تاکہ خوشی کے ساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل‘‏ کرتے رہیں۔‏—‏کل ۱:‏۱۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 مئی ۱،‏ ۲۰۰۱ کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۱۶ اور جولائی ۱۹۹۳ کے جاگو!‏ کے صفحہ ۲۲ اور ۲۳کو دیکھیں۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہم اذیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

‏• اگر کلیسیا میں کوئی بہن یا بھائی اپنے گُناہ کو چھپانے کے لئے آپ پر دباؤ ڈالتا ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟‏

‏• کسی بھی طرح کی مصیبت کا سامنا کرتے وقت ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

ہم یشوع اور کالب کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

اگر آپ کے کسی دوست نے کوئی سنگین غلطی کی ہے تو آپ اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏