’خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‘
’خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‘
”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!“—روم ۱۱:۳۳۔
۱. بپتسمہیافتہ مسیحیوں کے لئے کونسا اعزاز سب سے اہم ہے؟
کیا آپ کو کبھی کوئی اعزاز ملا ہے؟ شاید آپ کو کلیسیا میں کوئی ذمہداری دی گئی ہو یا پھر شاید آپ نے ملازمت کی جگہ یا سکول میں کوئی اعزاز حاصل کِیا ہو۔ آپ کے خیال میں بپتسمہیافتہ مسیحیوں کے لئے کونسا اعزاز سب سے اہم ہے؟ سب سے اہم اعزاز یہ ہے کہ اُن کو یہوواہ خدا کی قربت حاصل ہے۔ اور جن لوگوں کو خدا کی قربت حاصل ہے، اُن کو ”خدا پہچانتا ہے۔“—۱-کر ۸:۳؛ گل ۴:۹۔
۲. مسیحیوں کے لئے یہ سب سے اہم اعزاز کیوں ہے کہ وہ خدا کو پہچانتے ہیں اور خدا اُن کو پہچانتا ہے؟
۲ مسیحیوں کے لئے یہ سب سے اہم اعزاز کیوں ہے کہ وہ خدا کو پہچانتے ہیں اور خدا اُن کو پہچانتا ہے؟ کیونکہ یہوواہ خدا کو کائنات میں سب سے اُونچا رُتبہ حاصل ہے اور وہ اُن لوگوں کی حفاظت کرتا ہے جن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ خدا کے نبی ناحوم نے لکھا: ”[یہوواہ] بھلا ہے اور مصیبت کے دن پناہگاہ ہے۔ وہ اپنے توکل کرنے والوں کو جانتا ہے۔“ (ناحوم ۱:۷؛ زبور ۱:۶) دراصل ہمیں صرف اُس صورت میں ہمیشہ کی زندگی مل سکتی ہے اگر ہم یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کو جاننے کی کوشش کریں۔—یوح ۱۷:۳۔
۳. خدا کو جاننے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۳ خدا کو جاننے میں کیا کچھ شامل ہے؟ ہمیں صرف یہی نہیں جاننا چاہئے کہ خدا کا نام کیا ہے بلکہ ہمیں اُس کے اِتنے قریب ہونا چاہئے جتنا کہ ہم ایک ۱-یوح ۲:۴) لیکن خدا کو جاننے میں ایک اَور بات بھی شامل ہے۔ ہمیں نہ صرف یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خدا نے کونسے کام کئے ہیں بلکہ یہ بھی کہ اُس نے یہ کام کیسے کئے اور کیوں کئے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اُس نے کس ارادے سے کوئی کام کِیا ہے۔ جس حد تک ہم خدا کے ارادوں سے واقف ہوں گے، اُسی حد تک ہمارے دل میں ’خدا کی حکمت‘ کے لئے قدر بڑھے گی۔—روم ۱۱:۳۳۔
دوست کے قریب ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ وہ کن کاموں کو پسند کرتا ہے اور اُسے کونسے کام ناپسند ہیں۔ جب ہم جان لیتے ہیں کہ خدا کے حکم کیا ہیں تو ہمیں اِن پر عمل بھی کرنا چاہئے۔ اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہم اُس کے کس قدر قریب ہیں۔ (یہوواہ خدا اپنے ارادوں کو پورا کرتا ہے
۴، ۵. (الف) بائبل میں لفظ ارادہ کا کیا مطلب ہے؟ (ب) مثال سے واضح کریں کہ ایک ارادے کو پورا کرنے کے لئے ایک سے زیادہ طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔
۴ بائبل میں یہوواہ خدا کے ”ازلی اِرادہ“ کا ذکر ہوا ہے۔ (افس ۳:۱۰، ۱۱) لیکن لفظ ارادہ کا کیا مطلب ہے؟ جب یہ لفظ بائبل میں استعمال ہوتا ہے تو اِس کا مطلب ایک ایسی منزل ہے جس کو حاصل کرنے کے ایک سے زیادہ طریقے ہیں۔
۵ آئیں، اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ ایک شخص کسی جگہ جانے کا ارادہ کرتا ہے۔ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے وہ بس، ٹرین، گاڑی وغیرہ میں سفر کر سکتا ہے اور مختلف راستے لے سکتا ہے۔ سفر کے دوران شاید اُسے طرحطرح کی رُکاوٹوں کا سامنا ہو۔ مثال کے طور پر شاید موسم خراب ہو، ٹریفک جام ہو یا سڑک بند ہو اور اِس لئے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے راستہ تبدیل کرنا پڑے۔ لیکن پھر بھی جب وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کا ارادہ پورا ہو جاتا ہے۔
۶. یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کی بغاوت کے باوجود اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے کیا کِیا؟
۶ جس طرح ایک مسافر کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کبھیکبھار راستہ تبدیل کرنا پڑتا ہے اِسی طرح یہوواہ خدا نے اپنے ازلی ارادے کو پورا کرنے کے لئے صورتحال کے مطابق مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اُس نے فرشتوں اور انسانوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ اگر اِس وجہ سے فرشتے یا انسان کوئی ایسا کام کریں جس سے خدا کے ارادے میں رُکاوٹ پیدا ہو تو یہوواہ خدا اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو بتایا کہ زمین کے لئے اُس کا کیا ارادہ ہے۔ اُس نے اُن سے کہا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔“ (پید ۱:۲۸) لیکن شیطان کے اُکسانے پر آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی۔ کیا خدا نے اِس وجہ سے اپنے ارادے کو ترک کر دیا؟ بالکل نہیں۔ یہوواہ خدا نے صورتحال کے مطابق دوسرا راستہ اختیار کِیا۔ اُس نے پیشینگوئی کی کہ ایک ”نسل“ یعنی مسیحا آئے گا جو شیطان کے کاموں کو مٹا دے گا۔—پید ۳:۱۵؛ عبر ۲:۱۴-۱۷؛ ۱-یوح ۳:۸۔
۷. خروج ۳:۱۴ سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۷ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، یہوواہ خدا اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے صورتحال کے مطابق دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہ اُس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو خدا نے اپنے بارے میں موسیٰ سے کہی تھی۔ جب یہوواہ خدا نے موسیٰ کو ایک کام دیا تو موسیٰ نے کئی رُکاوٹوں کا ذکر کِیا جو راہ میں کھڑی ہو سکتی تھیں۔ اِس پر یہوواہ خدا نے اُن کو یوں تسلی دی: ”مَیں جو ہُوں سو مَیں ہُوں۔ سو تُو بنیاِسرائیل سے یوں کہنا کہ مَیں جو ہُوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔“ (خر ۳:۱۴) خدا نے موسیٰ کو اپنے نام کا مطلب یاد دلایا۔ عبرانی زبان میں ”مَیں جو ہُوں سو مَیں ہُوں“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے ہر ارادے کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پولس رسول نے اِس بات کو رومیوں ۱۱ باب میں واضح کِیا جہاں اُنہوں نے زیتون کے ایک علامتی درخت کے بارے میں بتایا۔ اِس علامتی درخت پر غور کرنے سے ہم یہوواہ خدا کی حکمت کی اَور زیادہ قدر کرنے لگتے ہیں، چاہے ہم آسمان پر زندگی کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر۔
نسل کے سلسلے میں خدا کا ارادہ
۸، ۹. (الف) زیتون کے علامتی درخت پر غور کرنے سے پہلے ہمیں کن چار باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے؟ (ب) ہم کس سوال پر غور کریں گے اور اِس سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سمجھ جائیں گے؟
۸ اِس سے پہلے کہ ہم زیتون کے علامتی درخت پر غور کریں، ہمیں چار اہم باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا کہ ”تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔“ (پید ۲۲:۱۷، ۱۸) دوسری بات یہ ہے کہ خدا نے ابرہام کی اولاد یعنی بنیاسرائیل میں سے کچھ افراد کو ”کاہنوں کی ایک مملکت“ بننے کا موقع دیا۔ (خر ) تیسری بات یہ ہے کہ جب بنیاسرائیل نے یسوع مسیح کو رد کِیا تو یہوواہ خدا نے ”کاہنوں کی ایک مملکت“ کو وجود دینے کے لئے دوسرا راستہ اختیار کِیا۔ ( ۱۹:۵، ۶متی ۲۱:۴۳؛ روم ۹:۲۷-۲۹) چوتھی بات یہ ہے کہ ابرہام کی نسل سے مُراد پہلے تو یسوع مسیح ہیں لیکن اُن کے ساتھ اَور بھی لوگوں کو اِس نسل میں شریک ہونے کا اعزاز دیا گیا ہے۔—گل ۳:۱۶، ۲۹۔
۹ اِس کے علاوہ مکاشفہ کی کتاب میں ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص کا ذکر ہوا ہے جو یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر حکمرانی کریں گے۔ (مکا ۱۴:۱-۴) اِن اشخاص کو مکاشفہ کی کتاب میں ”بنیاِسرائیل“ بھی کہا گیا ہے۔ (مکا ۷:۴-۸) کیا اِس کا مطلب ہے کہ یہ ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص سب کے سب بنیاسرائیل یعنی یہودی قوم سے ہیں؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے سے ہم سمجھ جائیں گے کہ یہوواہ خدا اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے کیا کیا کر سکتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ رومیوں کے خط میں اِس سوال کا کیا جواب دیا گیا ہے۔
”کاہنوں کی ایک مملکت“
۱۰. خدا نے بنیاسرائیل کو کونسا اعزاز دیا؟
۱۰ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، شروع میں خدا نے بنیاسرائیل کو یہ اعزاز دیا کہ ”کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مُقدس قوم“ کے افراد صرف اُن میں سے چنے جائیں۔ (رومیوں ۹:۴، ۵ کو پڑھیں۔) لیکن اُس نسل کی آمد پر کیا ہوا جس کا وعدہ خدا نے کِیا تھا؟ کیا وہ ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص جو مسیح کے ساتھ ابرہام کی نسل میں شامل ہوں گے، سب کے سب بنیاسرائیل میں سے چنے گئے؟
۱۱، ۱۲. (الف) ’کاہنوں کی مملکت‘ کا چناؤ کب شروع ہوا؟ (ب) مسیحا کے آنے پر یہودی قوم کے زیادہتر افراد نے کیا کِیا؟ (ج) یہوواہ خدا نے اُن لوگوں کی تعداد کیسے پوری کی جنہیں ابرہام کی نسل میں شامل ہونا تھا؟
۱۱ رومیوں ۱۱:۷-۱۰ کو پڑھیں۔ پہلی صدی عیسوی میں یہودی قوم کے زیادہتر افراد نے یسوع مسیح کو قبول نہیں کِیا۔ اِس وجہ سے خدا نے اُن سے یہ اعزاز لے لیا کہ صرف اُن ہی سے ”کاہنوں کی ایک مملکت“ چنی جائے۔ البتہ چند ہزار یہودیوں نے یسوع مسیح کو قبول کِیا تھا۔ اِس لئے جب ۳۳ عیسوی کی عیدِپنتِکُست کے موقعے پر ’کاہنوں کی مملکت‘ کا چناؤ شروع ہوا تو یہ یہودی بھی اِس میں شامل ہونے کے لئے چنے گئے۔ لیکن اِن کی تعداد پوری یہودی قوم کی نسبت بہت کم تھی۔ اِس لئے پولس رسول نے کہا کہ اسرائیل کی پوری قوم میں سے صرف ”کچھ باقی ہیں“ جن کو خدا کا فضل حاصل ہے۔—روم ۱۱:۵۔
۱۲ تو پھر یہوواہ خدا نے اُن لوگوں کی تعداد کیسے پوری کی جنہیں ابرہام کی نسل میں شامل ہونا تھا؟ اِس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا: ”یہ بات نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو گیا۔ اِس لئے کہ جو اؔسرائیل کی اولاد [یعنی یہودی قوم سے] ہیں وہ سب اسرائیلی نہیں۔ اور نہ اؔبرہام کی نسل [یعنی اولاد] ہونے کے سبب سے سب فرزند ٹھہرے . . . یعنی جسمانی فرزند خدا کے فرزند نہیں بلکہ وعدہ کے فرزند نسل گنے جاتے ہیں۔“ (روم ۹:۶-۸) اِس سے ایک اہم بات ظاہر ہوتی ہے: یہ لازمی نہیں تھا کہ نسل میں شریک ہونے والے افراد جسمانی طور پر ابرہام کی اولاد میں سے ہوں۔
زیتون کا درخت
۱۳. یہ چیزیں کس کی علامت ہیں: (الف) زیتون کا درخت؟ (ب) جڑ؟ (ج) تنا؟ (د) شاخیں؟
۱۳ پولس رسول نے آگے چل کر ابرہام کی نسل میں شریک ہونے والے * (روم ۱۱:۲۱) یہ درخت خدا کے اُس ارادے کی تکمیل کی علامت ہے جو اُس نے ابرہام سے عہد باندھتے وقت کِیا تھا۔ اِس درخت کی جڑ پاک ہے اور یہوواہ خدا کی علامت ہے کیونکہ اُس نے روحانی اسرائیل کو وجود دیا ہے۔ (یسع ۱۰:۲۰؛ روم ۱۱:۱۶) درخت کا تنا یسوع مسیح کی علامت ہے جو ابرہام کی نسل ہیں۔ درخت کی شاخیں اُن اشخاص کی علامت ہیں جو یسوع مسیح کے ساتھ ابرہام کی نسل میں شامل ہوں گے۔
لوگوں کو زیتون کے درخت کی شاخوں سے تشبیہ دی۔۱۴، ۱۵. (الف) کون اُن شاخوں کی طرح ہیں جو زیتون کے درخت سے ”توڑی گئیں“؟ (ب) زیتون کے درخت پر کن کو پیوند کِیا گیا؟
۱۴ بنیاسرائیل کے جن افراد نے یسوع مسیح کو قبول نہیں کِیا، وہ اُن شاخوں کی طرح ہیں جو زیتون کے درخت سے ”توڑی گئیں۔“ (روم ۱۱:۱۷) اِس طرح اُنہوں نے ابرہام کی نسل میں شریک ہونے کا اعزاز کھو دیا۔ لیکن اُن کی جگہ کس نے لی؟ اِس سوال کا جواب جان کر بنیاسرائیل کو دھچکا لگتا کیونکہ وہ اِس بات پر بڑا فخر کرتے تھے کہ وہ ابرہام کی اولاد تھے۔ لیکن یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اُن کو پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ اگر یہوواہ خدا چاہے تو وہ پتھروں سے بھی ابرہام کے لئے اولاد پیدا کر سکتا ہے۔—لو ۳:۸۔
۱۵ یہوواہ خدا نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے کیا کِیا؟ پولس رسول نے کہا کہ خدا نے زیتون کے درخت سے شاخیں توڑ کر اُن کی جگہ جنگلی زیتون کی ڈالیاں پیوند کیں۔ (رومیوں ۱۱:۱۷، ۱۸ کو پڑھیں۔) یوں ایسے ممسوح مسیحی جو غیرقوموں سے تھے، زیتون کے علامتی درخت پر پیوند کئے گئے۔ اِس طرح وہ ابرہام کی نسل میں شریک ہو گئے۔ پہلے وہ جنگلی زیتون کی ڈالیوں کی طرح تھے یعنی اُنہیں ابرہام کی نسل میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل نہیں تھا۔ لیکن پھر یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ اعزاز بخشا۔—روم ۲:۲۸، ۲۹۔
۱۶. پطرس رسول کی وضاحت کے مطابق روحانی اسرائیل کیسے وجود میں آیا؟
۱۶ پطرس رسول نے اِس بات کی وضاحت کی۔ اُنہوں نے ممسوح مسیحیوں ۱-پطر ۲:۷-۱۰۔
کو مخاطب کِیا جن میں غیرقوموں کے لوگ بھی شامل تھے۔ پطرس رسول نے اُن سے کہا: ”[یسوع مسیح] تُم ایمان لانے والوں کے لئے تو . . . قیمتی ہے مگر ایمان نہ لانے والوں کے لئے جس پتھر کو معماروں نے رد کِیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔“ ذرا دیکھیں کہ پطرس رسول نے اِن مسیحیوں سے اَور کیا کہا: ”تُم ایک برگزیدہ نسل۔ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔ مُقدس قوم اور ایسی اُمت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“ پھر پطرس رسول نے اِس بات کی وضاحت کی کہ روحانی اسرائیل کیسے وجود میں آیا: ”پہلے تُم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خدا کی اُمت ہو۔ تُم پر رحمت نہ ہوئی تھی مگر اب تُم پر رحمت ہوئی۔“—۱۷. یہوواہ خدا نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے جو کچھ کِیا تھا، وہ ”اصل کے برخلاف“ کیوں تھا؟
۱۷ پولس رسول نے لکھا کہ یہوواہ خدا نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے جو کچھ کِیا تھا، وہ ”اصل کے برخلاف“ یعنی غیرمعمولی تھا۔ (روم ۱۱:۲۴) پولس رسول نے ایسا کیوں کہا؟ کیونکہ عام طور پر جنگلی درخت کی ڈالیاں دوسرے درختوں پر پیوند نہیں کی جاتیں۔ لیکن پہلی صدی عیسوی میں کچھ کسان ایسا کرتے تھے۔ * اِسی طرح یہوواہ خدا نے بھی ایک غیرمعمولی کام کِیا۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ غیرقوموں کے لوگ اچھا پھل لانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ لیکن یہوواہ خدا نے اِنہی لوگوں کو ”اُس قوم“ میں شامل کِیا جو بادشاہت کے پھل لائے گی۔ (متی ۲۱:۴۳) سن ۳۶ سے غیرقوموں کے لوگوں کو زیتون کے علامتی درخت پر پیوند کِیا جانے لگا۔ سب سے پہلا شخص جسے یہ اعزاز حاصل ہوا، وہ کُرنیلیس تھا۔—اعما ۱۰:۴۴-۴۸۔ *
۱۸. سن ۳۶ کے بعد بھی یہودیوں کو کونسا موقع دیا گیا؟
۱۸ کیا اِس کا مطلب ہے کہ ۳۶ء کے بعد کوئی بھی یہودی ابرہام کی نسل میں شریک نہیں ہو سکتا تھا؟ جینہیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”[یہودی] بھی اگر بےایمان نہ رہیں تو پیوند کئے جائیں گے کیونکہ خدا اُنہیں پیوند کرکے بحال کرنے پر قادر ہے۔ اِس لئے کہ جب تُو زیتون کے اُس درخت سے کٹ کر جس کی اصل جنگلی ہے اصل کے برخلاف اچھے زیتون میں پیوند ہو گیا تو وہ جو اصل ڈالیاں ہیں اپنے زیتون میں ضرور ہی پیوند ہو جائیں گی۔“—روم ۱۱:۲۳، ۲۴۔
”تمام اؔسرائیل نجات پائے گا“
۱۹، ۲۰. جب ”خدا کے اؔسرائیل“ کے متعلق یہوواہ خدا کا ارادہ پورا ہوگا تو اِس کے کونسے نتائج ہوں گے؟
۱۹ ”خدا کے اؔسرائیل“ کے متعلق یہوواہ خدا کا ارادہ شاندار طریقے سے پورا ہو رہا ہے۔ (گل ۶:۱۶) پولس رسول کے یہ الفاظ ضرور پورے ہوں گے کہ ”تمام اؔسرائیل نجات پائے گا۔“ (روم ۱۱:۲۶) وہ وقت آنے والا ہے جب ”تمام اؔسرائیل“ یعنی ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص آسمان میں بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر خدمت کریں گے۔ یہوواہ خدا کو اپنا ارادہ پورا کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
۲۰ پیشینگوئی کے عین مطابق ابرہام کی ”نسل“ یعنی یسوع مسیح اور ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص کے ذریعے ”زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔“ (پید ۲۲:۱۸) یوں خدا کے تمام خادم اِس بندوبست سے فائدہ حاصل کریں گے۔ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے اپنے ازلی ارادے کو کیسے پورا کِیا تو ہم ”خدا کی دولت اور حکمت اور علم“ سے حیران رہ جاتے ہیں۔—روم ۱۱:۳۳۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 پولس رسول نے زیتون کے درخت کو بنیاسرائیل کی علامت کے طور پر استعمال نہیں کِیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ بنیاسرائیل میں بادشاہ بھی تھے اور کاہن بھی۔ لیکن وہ ”کاہنوں کی ایک مملکت“ یعنی کاہنوں کی بادشاہت نہیں بنے کیونکہ موسیٰ کی شریعت کے مطابق اسرائیل کے بادشاہ، کاہن نہیں بن سکتے تھے۔ اِس لئے زیتون کا درخت بنیاسرائیل کی علامت نہیں ہو سکتا۔ پولس رسول نے زیتون کے درخت کو یہ ظاہر کرنے کے لئے استعمال کِیا کہ خدا کا یہ ارادہ کہ ”کاہنوں کی ایک مملکت“ وجود میں آئے، روحانی اسرائیل کے ذریعے کیسے پورا ہوا۔
^ پیراگراف 17 بکس ”جنگلی زیتون کی ڈالیوں کو کیوں پیوند کِیا جاتا تھا؟“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 17 یہ روحانی اسرائیل کے وجود میں آنے کے ساڑھے تین سال بعد کی بات ہے۔ اِن ساڑھے تین سال کے دوران بھی صرف یہودی قوم کو روحانی اسرائیل میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا۔ یہ اُس پیشینگوئی کی تکمیل تھی جو دانیایل نبی نے ۷۰ سال کے ہفتوں کے بارے میں کی تھی۔—دان ۹:۲۷۔
کیا آپ کویاد ہے؟
• یہوواہ خدا نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے جو کچھ کِیا، اِس سے ہمیں اُس کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
• رومیوں ۱۱ باب میں یہ چیزیں کس کی علامت ہیں؟
زیتون کا درخت
اِس کی جڑ
اِس کا تنا
اِس کی شاخیں
• جنگلی زیتون کے درخت کی ڈالیاں پیوند کرنا ”اصل کے برخلاف“ کیوں تھا؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۴ پر بکس/تصویر]
جنگلی زیتون کی ڈالیوں کو کیوں پیوند کِیا جاتا تھا؟
▪ لوسیس یونیس مودیراتس کولومیلا ایک رومی فوجی اور کسان تھے۔ وہ پہلی صدی عیسوی میں رہتے تھے۔ اُنہوں نے دیہی زندگی اور کاشتکاری کے بارے میں ۱۲ کتابیں لکھیں۔
اپنی پانچویں کتاب میں اُنہوں نے اِس قدیم کہاوت کا ذکر کِیا: ”جو زیتون کے باغ کو جوتتا ہے، وہ اُس سے پھل کی فرمائش کرتا ہے؛ جو زیتون کے باغ میں کھاد ڈالتا ہے، وہ اُس سے پھل کی التجا کرتا ہے؛ جو زیتون کے درختوں کی چھانٹی کرتا ہے، وہ اُن کو پھل لانے پر مجبور کرتا ہے۔“
پھر اُنہوں نے ایسے درختوں کا ذکر کِیا جو ویسے تو ہرےبھرے ہوتے ہیں لیکن اُن پر پھل نہیں لگتا۔ اُنہوں نے اِن درختوں سے پھل حاصل کرنے کی یہ ترکیب بتائی: ”اِن میں ایک گہرا سوراخ کریں اور سوراخ میں جنگلی زیتون کی ڈالی لگا کر اِسے مضبوطی سے باندھ دیں۔ اِس کے نتیجے میں درخت پھل دینے لگے گا۔“
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
کیا آپ سمجھ گئے ہیں کہ زیتون کا درخت اور اِس کے مختلف حصے کس بات کی علامت ہیں؟
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
جنگلی زیتون کی ڈالیوں کو کیوں پیوند کِیا جاتا تھا؟