مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏خدا کا آرام‘‏—‏اِس کا کیا مقصد ہے؟‏

‏’‏خدا کا آرام‘‏—‏اِس کا کیا مقصد ہے؟‏

‏’‏خدا کا آرام‘‏—‏اِس کا کیا مقصد ہے؟‏

‏”‏خدا کی اُمت کے لئے سبت کا آرام باقی ہے۔‏“‏—‏عبر ۴:‏۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ ہم پیدایش ۲:‏۳ سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

پیدایش کے پہلے باب سے ہم سیکھتے ہیں کہ خدا نے زمین کو انسانوں کے لئے چھ دنوں میں تیار کِیا۔‏ یہ دن ۲۴ گھنٹے کے نہیں تھے بلکہ ہر دن بڑی مُدت کا تھا۔‏ ہر دن کے آخر میں یہ کہا گیا:‏ ”‏اور شام ہوئی اور صبح ہوئی۔‏“‏ (‏پید ۱:‏۵،‏ ۸،‏ ۱۳،‏ ۱۹،‏ ۲۳،‏ ۳۱‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دن ختم ہو گیا تھا۔‏ لیکن ساتواں دن پہلے چھ دنوں سے فرق تھا۔‏ اِس دن کے بارے میں پیدایش ۲:‏۳ میں لکھا ہے کہ ”‏خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اُسے مُقدس ٹھہرایا کیونکہ اُس میں خدا ساری کائنات سے جِسے اُس نے پیدا کِیا اور بنایا فارغ ہوا۔‏“‏ بائبل کے ایک اَور ترجمے کے مطابق اِس آیت میں یہ لکھا ہے:‏ ”‏اُس دن میں خدا نے اُن سارے کاموں سے آرام کِیا جو اُس نے کائنات کو بنانے کے لئے کئے تھے۔‏“‏

۲ غور کریں کہ ساتویں دن کے سلسلے میں یہ نہیں کہا گیا کہ ”‏شام ہوئی اور صبح ہوئی۔‏“‏ اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جب موسیٰ نے ۱۵۱۳ قبل‌ازمسیح میں پیدایش کی کتاب لکھی تو ساتواں دن ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا اُس وقت بھی اپنے کاموں سے آرام کر رہا تھا۔‏ کیا خدا آج بھی آرام کر رہا ہے؟‏ اور اگر وہ آرام کر رہا ہے تو ہم اُس کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں۔‏

کیا خدا آج بھی آرام کر رہا ہے؟‏

۳.‏ یوحنا ۵:‏۱۶،‏ ۱۷ سے ہم یہ نتیجہ کیوں اخذ کر سکتے ہیں کہ یسوع مسیح کے زمانے میں ساتواں دن جاری تھا؟‏

۳ یسوع مسیح اور رسولوں کے زمانے میں بھی ساتواں دن جاری تھا۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ اِس کے دو ثبوت ہیں۔‏ پہلا ثبوت اُس بات سے ملتا ہے جو یسوع مسیح نے اپنے دُشمنوں سے کہی تھی۔‏ یسوع مسیح کے دُشمن اُن پر غصہ ہوئے کیونکہ وہ سبت کے دن بیماروں کو ٹھیک کرتے تھے۔‏ اُن کا خیال تھا کہ سبت کے دن بیماروں کو ٹھیک کرنا غلط ہے کیونکہ موسیٰ کی شریعت میں سبت کے دن کام کرنے سے منع کِیا گیا تھا۔‏ لیکن یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔‏“‏ (‏یوح ۵:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ یسوع مسیح یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ”‏مَیں اور میرا باپ ایک ہی طرح کا کام کر رہے ہیں۔‏ میرے باپ نے اپنے ہزاروں سال کے سبت کے دوران کام کِیا ہے اور وہ اب بھی کام کر رہا ہے۔‏ اِس لئے مَیں بھی سبت کے دن کام کر سکتا ہوں۔‏“‏ یسوع مسیح کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے زمانے میں ساتواں دن جاری تھا یعنی وہ دن ابھی جاری تھا جب خدا نے زمین پر چیزوں کو خلق کرنے سے آرام کِیا۔‏ لیکن اِس دن کے دوران بھی خدا زمین اور انسانوں کے متعلق اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے کام کر رہا تھا۔‏ *

۴.‏ پولس رسول نے جو کچھ کہا تھا اِس سے ہم یہ نتیجہ کیوں اخذ کر سکتے ہیں کہ اُن کے زمانے میں ساتواں دن جاری تھا؟‏

۴ اِس بات کا دوسرا ثبوت کیا ہے کہ ساتواں دن یسوع مسیح اور رسولوں کے زمانے میں بھی جاری تھا؟‏ دوسرا ثبوت اُس خط سے ملتا ہے جو پولس رسول نے عبرانیوں کے نام لکھا تھا اور جس میں اُنہوں نے خدا کے آرام کا ذکر کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے عبرانیوں کے چوتھے باب میں پیدایش ۲:‏۲ کے الفاظ دہرائے۔‏ لیکن اِس سے پہلے اُنہوں نے لکھا کہ ”‏ہم جو ایمان لائے اُس آرام میں داخل ہوتے ہیں۔‏“‏ (‏عبر ۴:‏۳،‏ ۴،‏ ۶،‏ ۹‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس رسول کے زمانے میں بھی ساتواں دن جاری تھا۔‏ یہ دن کب ختم ہوگا؟‏

۵.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے ساتویں دن کے لئے کیا طے کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ زمین کے لئے خدا کا ارادہ کب پورا ہوگا؟‏

۵ یہ جاننے کے لئے کہ ساتواں دن کب ختم ہوگا،‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا نے اِس دن کو ایک خاص کام کے لئے مخصوص کِیا تھا۔‏ پیدایش ۲:‏۳ میں لکھا ہے کہ ”‏خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اُسے مُقدس ٹھہرایا۔‏“‏ یہوواہ خدا نے اِس دن کو اِس لئے مُقدس ٹھہرایا کیونکہ اُس نے طے کِیا تھا کہ وہ اِس دن زمین کے لئے اپنے ارادے کو پورا کرے گا۔‏ زمین کے لئے خدا کا ارادہ یہ ہے کہ اِس پر ایسے لوگ آباد ہوں جو خدا کے فرمانبردار ہوں اور جو زمین کی دیکھ‌بھال کریں۔‏ (‏پید ۱:‏۲۸‏)‏ اِس ارادے کو پورا کرنے کے لئے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح جو کہ ’‏سبت کے مالک ہیں‘‏ ’‏اب تک کام کر رہے ہیں۔‏‘‏ (‏متی ۱۲:‏۸‏)‏ لہٰذا ساتواں دن اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک خدا زمین کے لئے اپنا ارادہ پورا نہ کر لے۔‏ یہ کب ہوگا؟‏ یہ یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر میں ہوگا۔‏

‏’‏اُن کی طرح نافرمانی نہ کریں‘‏

۶.‏ (‏الف)‏ کون لوگ خدا کے آرام میں داخل نہیں ہوئے؟‏ (‏ب)‏ عبرانیوں ۴:‏۱۱ میں پولس رسول کے الفاظ سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

۶ خدا نے آدم اور حوا کو بتایا کہ وہ زمین کے لئے کیا ارادہ رکھتا ہے۔‏ لیکن اُنہوں نے اُس کی مرضی کے خلاف کام کِیا۔‏ آدم اور حوا کے بعد بھی کروڑوں لوگوں نے خدا کی نافرمانی کی۔‏ یہاں تک کہ بنی‌اسرائیل جو خدا کی قوم تھے،‏ اُنہوں نے بھی باربار خدا کا کہنا نہیں مانا۔‏ پولس رسول نے اپنے زمانے کے مسیحیوں کو آگاہ کِیا کہ وہ بھی بنی‌اسرائیل کی طرح خدا کی نافرمانی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏پس آؤ ہم اُس آرام میں داخل ہونے کی کوشش کریں تاکہ اُن کی طرح نافرمانی کرکے کوئی شخص گِر نہ پڑے۔‏“‏ (‏عبر ۴:‏۱۱‏)‏ پولس رسول کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں،‏ وہ خدا کے آرام میں داخل نہیں ہوں گے۔‏ کیا اِس کا مطلب ہے کہ اگر ہم کسی نہ کسی طریقے سے خدا کی مرضی کے خلاف کام کرتے ہیں تو ہم بھی اُس کے آرام میں داخل نہیں ہوں گے؟‏ اِس سوال کا جواب حاصل کرنا بہت اہم ہے اور ہم بعد میں اِس پر غور کریں گے۔‏ لیکن آئیں،‏ پہلے یہ دیکھیں کہ بنی‌اسرائیل میں سے کچھ لوگ خدا کے آرام میں کیوں داخل نہیں ہوئے۔‏

‏”‏یہ لوگ میرے آرام میں داخل نہ ہوں گے“‏

۷.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو کس مقصد کے لئے مصریوں کی غلامی سے چھڑایا؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اسرائیل صرف کس صورت میں خدا کی قوم ہو سکتے تھے؟‏

۷ سن ۱۵۱۳ قبل‌ازمسیح میں خدا نے اپنے خادم موسیٰ کو بتایا کہ وہ بنی‌اسرائیل کے سلسلے میں کونسا ارادہ رکھتا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں اُترا ہوں کہ اُن کو مصریوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں اور اُس مُلک سے نکال کر اُن کو ایک اچھے اور وسیع مُلک میں جہاں دُودھ اور شہد بہتا ہے .‏ .‏ .‏ پہنچاؤں۔‏“‏ (‏خر ۳:‏۸‏)‏ خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا تھا کہ وہ بنی‌اسرائیل کو اپنی خاص ملکیت بنائے گا۔‏ اور اُس نے اِس مقصد کے لئے بنی‌اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے چھڑایا۔‏ (‏پید ۲۲:‏۱۷‏)‏ خدا نے بنی‌اسرائیل کو شریعت دی۔‏ وہ لوگ اِس میں پائے جانے والے قوانین پر عمل کرنے سے خدا کی قربت میں رہ سکتے تھے۔‏ (‏یسع ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اُس نے بنی‌اسرائیل سے کہا:‏ ”‏اب اگر تُم پوری طرح میری فرمان‌برداری کرو اور میرے عہد پر چلو تو تمام قوموں میں سے تُم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے حالانکہ ساری زمین میری ہے۔‏“‏ (‏خر ۱۹:‏۵،‏ ۶‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ لہٰذا بنی‌اسرائیل صرف اُس صورت میں خدا کی قوم ہو سکتے تھے اگر وہ اُس کے حکموں پر عمل کرتے۔‏

۸.‏ اگر بنی‌اسرائیل خدا کا کہنا مانتے تو اُن کو کونسی برکات حاصل ہوتیں؟‏

۸ اگر بنی‌اسرائیل خدا کا کہنا مانتے تو اُن کو کونسی برکات حاصل ہوتیں؟‏ یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا کہ اگر وہ اُس کے فرمانبردار رہیں گے تو وہ اُن کے کھیتوں،‏ تاکستانوں اور مویشیوں کو برکت دے گا اور اُن کو دُشمنوں سے بچائے گا۔‏ ‏(‏۱-‏سلاطین ۱۰:‏۲۳-‏۲۷ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر بنی‌اسرائیل خدا کے فرمانبردار رہتے تو دوسری قومیں اُن پر حکومت نہیں جتاتیں۔‏ اِس طرح وہ یسوع مسیح کے زمانے میں رومی سلطنت کے جُوئے تلے نہ ہوتے۔‏ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ بنی‌اسرائیل دوسری قوموں کے لئے مثال قائم کریں۔‏ وہ چاہتا تھا کہ لوگ اِس قوم کو دیکھ کر سمجھ جائیں کہ جو لوگ سچے خدا کے فرمانبردار ہیں،‏ وہ اُس سے برکتیں پاتے ہیں۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏الف)‏ مصر واپس لوٹنے کی خواہش رکھنے سے بنی‌اسرائیل نے کیا ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ اگر بنی‌اسرائیل مصر واپس لوٹ جاتے تو وہ کیا نہیں کر پاتے؟‏

۹ یہوواہ خدا زمین کے سلسلے میں جو ارادہ رکھتا تھا،‏ اِسے پورا کرنے کے لئے وہ بنی‌اسرائیل کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔‏ یہ ایک بہت بڑا شرف تھا۔‏ بنی‌اسرائیل کو خدا کی طرف سے بہت سی برکتیں ملتیں اور زمین کی سب قومیں اُن کے ذریعے برکت پاتیں۔‏ (‏پید ۲۲:‏۱۸‏)‏ لیکن زیادہ‌تر اسرائیلیوں نے اِس شرف کی قدر نہیں کی کہ وہ خدا کی خاص ملکیت بن سکیں اور دوسری قوموں کے لئے اچھی مثال قائم کر سکیں۔‏ وہ مصر واپس لوٹنا چاہتے تھے۔‏ ‏(‏گنتی ۱۴:‏۲-‏۴ کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن اگر وہ مصر لوٹ جاتے تو وہ یہوواہ خدا کی عبادت کے بعض پہلوؤں کو پورا نہیں کر پاتے اور دوسری قوموں کے لئے مثال بھی قائم نہیں کر پاتے۔‏ بنی‌اسرائیل دوبارہ سے مصریوں کے غلام بن جاتے جس کی وجہ سے وہ خدا کی شریعت پر عمل نہیں کر پاتے اور اپنے گُناہوں کی معافی حاصل نہیں کر پاتے۔‏ جب بنی‌اسرائیل نے کہا کہ وہ مصر کو لوٹنا چاہتے ہیں تو وہ صرف اپنے فائدے کا سوچ رہے تھے۔‏ اُنہیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ وہ خدا کی مرضی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔‏ اِس لئے یہوواہ خدا نے اِن باغی اسرائیلیوں پر یہ فیصلہ سنایا:‏ ”‏مَیں اُس پُشت سے ناراض ہوا اور کہا کہ اِن کے دل ہمیشہ گمراہ ہوتے رہتے ہیں اور اِنہوں نے میری راہوں کو نہیں پہچانا۔‏ چُنانچہ مَیں نے اپنے غضب میں قسم کھائی کہ یہ میرے آرام میں داخل نہ ہونے پائیں گے۔‏“‏—‏عبر ۳:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ زبور ۹۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۱۰ مصر واپس لوٹنے کی خواہش رکھنے سے بنی‌اسرائیل نے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا کی برکتوں کی قدر نہیں کرتے۔‏ اِس کی بجائے وہ اُن کھیروں اور خربوزوں کو اور پیاز اور لہسن کو یاد کرنے لگے جو وہ مصر میں کھایا کرتے تھے۔‏ (‏گن ۱۱:‏۵‏)‏ وہ عیسو کی طرح تھے جس نے پہلوٹھے ہونے کے حق کی قدر نہیں کی اور اِسے ایک وقت کی روٹی کے لئے بیچ ڈالا۔‏—‏پید ۲۵:‏۳۰-‏۳۲؛‏ عبر ۱۲:‏۱۶‏۔‏

۱۱.‏ کیا یہوواہ خدا نے اُس ارادے کو ترک کر دیا جو اُس نے بنی‌اسرائیل کے سلسلے میں کِیا تھا؟‏

۱۱ اگرچہ جو اسرائیلی مصر سے چھڑائے گئے تھے،‏ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے تو بھی یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کے سلسلے میں اپنے ارادے کو ترک نہیں کِیا۔‏ اِن باغی اسرائیلیوں کی اولاد اُن سے زیادہ فرمانبردار تھی۔‏ اِس نے خدا کے حکم پر عمل کِیا اور اُس ملک پر قبضہ جما لیا جس کا وعدہ خدا نے ابرہام سے کِیا تھا۔‏ یشوع ۲۴:‏۳۱ میں لکھا ہے:‏ ”‏اسرائیلی [‏یہوواہ]‏ کی پرستش یشوؔع کے جیتے جی اور اُن بزرگوں کے جیتے جی کرتے رہے جو یشوؔع کے بعد زندہ رہے اور [‏یہوواہ]‏ کے سب کاموں سے جو اُس نے اسرائیلیوں کے لئے کئے واقف تھے۔‏“‏

۱۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ مسیحی آج بھی خدا کے آرام میں داخل ہو سکتے ہیں؟‏

۱۲ لیکن یشوع کے زمانے کے بعد جو پُشت پیدا ہوئی وہ ”‏نہ [‏یہوواہ]‏ کو اور نہ اُس کام کو جو اُس نے اؔسرائیل کے لئے کِیا جانتی تھی۔‏“‏ اِس لئے اُنہوں نے ”‏[‏یہوواہ]‏ کے آگے بدی کی اور [‏وہ]‏ بعلیم کی پرستش کرنے لگے۔‏“‏ (‏قضا ۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ چونکہ بنی‌اسرائیل نے نافرمانی کی اِس لئے وہ خدا سے دُور ہو گئے۔‏ لہٰذا اُنہیں اُس ملک میں بھی آرام حاصل نہیں ہوا جس کا وعدہ خدا نے اُن سے کِیا تھا۔‏ پولس رسول نے بنی‌اسرائیل کے سلسلے میں لکھا:‏ ”‏اگر یشوؔع نے اُنہیں آرام میں داخل کِیا ہوتا تو [‏خدا]‏ اُس کے بعد دوسرے دن کا ذکر نہ کرتا۔‏“‏ پھر پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏پس خدا کی اُمت کے لئے سبت کا آرام باقی ہے۔‏“‏ (‏عبر ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ جب پولس رسول نے ”‏خدا کی اُمت“‏ کا ذکر کِیا تو وہ مسیحیوں کی بات کر رہے تھے۔‏ ”‏خدا کی اُمت“‏ میں ایسے مسیحی شامل تھے جو یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور مسیحی بننے سے پہلے موسیٰ کی شریعت پر عمل کرتے تھے اور اِس میں غیرقوموں کے مسیحی بھی شامل تھے جنہوں نے کبھی موسیٰ کی شریعت پر عمل نہیں کِیا تھا۔‏ پولس رسول کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی آج بھی خدا کے آرام میں داخل ہو سکتے ہیں۔‏

کچھ مسیحی خدا کے آرام میں داخل نہیں ہو پائے

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏الف)‏ یسوع مسیح کی موت سے پہلے اسرائیلیوں کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت تھی؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول کے زمانے میں مسیحیوں کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا تھا؟‏

۱۳ پولس رسول نے اِس لئے عبرانیوں کے نام خط لکھا کیونکہ بعض مسیحی جو یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے،‏ خدا کی مرضی کے خلاف کام کر رہے تھے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏پس جب خدا کا یہ وعدہ کہ ہم اُس کے آرام میں داخل ہو سکتے ہیں،‏ آج تک باقی ہے تو ہمیں خبردار رہنا چاہئے۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ تُم میں سے کوئی اُس میں داخل ہونے سے محروم رہ جائے۔‏“‏ ‏(‏عبرانیوں ۴:‏۱‏،‏ ”‏نیو اُردو بائبل ورشن“‏)‏ یہ مسیحی کیا کر رہے تھے؟‏ وہ موسیٰ کی شریعت کے کچھ قوانین کی پابندی کر رہے تھے۔‏ یہ سچ ہے کہ تقریباً ۱۵۰۰ سال تک خدا کی قوم کو موسیٰ کی شریعت کی پابندی کرنی پڑی تاکہ اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہو۔‏ لیکن یسوع مسیح کی موت کے بعد اُنہیں شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔‏ اِس کے باوجود بعض مسیحیوں کا خیال تھا کہ اُنہیں ابھی بھی شریعت کے کچھ حکموں پر عمل کرنا چاہئے۔‏ *

۱۴ پولس رسول نے یہودی قوم سے تعلق رکھنے والے اِن مسیحیوں کو سمجھایا کہ ہمارے سردارکاہن یسوع مسیح بےداغ ہیں اور اِس لئے وہ باقی تمام سردارکاہنوں سے افضل ہیں۔‏ پولس رسول نے یہ بھی کہا کہ نیا عہد اُس عہد سے کہیں بہتر ہے جو بنی‌اسرائیل کے ساتھ باندھا گیا تھا۔‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ یہوواہ خدا کی روحانی ہیکل اُس ہیکل سے ”‏بزرگتر اور کامل‌تر“‏ ہے ’‏جو ہاتھوں کی بنی ہوئی ہے۔‏‘‏ (‏عبر ۷:‏۲۶-‏۲۸؛‏ ۸:‏۷-‏۱۰؛‏ ۹:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ پھر پولس رسول نے بتایا کہ مسیحی خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔‏ اِس کو واضح کرنے کے لئے اُنہوں نے موسیٰ کی شریعت میں درج سبت کی مثال دی۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏اِس سبب سے خدا کی اُمت کے واسطے سبت کا آرام باقی ہے کیونکہ جو اُس کے آرام میں داخل ہوا اُس نے بھی اپنے کاموں سے آرام کِیا جیسا خدا نے اپنے کاموں سے۔‏“‏ (‏عبر ۴:‏۸-‏۱۰‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ یہودی قوم سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ ”‏اپنے کاموں سے“‏ یعنی موسیٰ کی شریعت کی پابندی کرنے سے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔‏ دراصل خدا کی خوشنودی ایک بخشش ہے۔‏ یہ بخشش ۳۳ء کی عیدِپنتِکُست سے صرف اُن لوگوں کو مل رہی ہے جو یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں۔‏

۱۵.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے ہمیں اُس کا کہنا ماننا چاہئے؟‏

۱۵ موسیٰ کے زمانے میں بنی‌اسرائیل میں سے کچھ لوگ اُس ملک میں کیوں نہیں داخل ہوئے جس کا وعدہ خدا نے ابرہام سے کِیا تھا؟‏ کیونکہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کا کہنا نہیں مانا تھا۔‏ پولس رسول کے زمانے میں کچھ مسیحی خدا کے آرام میں کیوں نہیں داخل ہوئے؟‏ کیونکہ اُنہوں نے بھی خدا کا کہنا نہیں مانا۔‏ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ یسوع مسیح کی موت کے بعد اُس کے خادم موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔‏ لیکن اِن مسیحیوں نے اِس بات کو قبول نہیں کِیا۔‏

ہم خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏الف)‏ ہم خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۱۶ آج‌کل ہم میں سے کوئی اِس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ مسیحیوں کو نجات حاصل کرنے کے لئے موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں پولس رسول نے بڑی واضح ہدایت دی۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏تُم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں۔‏ خدا کی بخشش ہے۔‏ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔‏“‏ (‏افس ۲:‏۸،‏ ۹‏)‏ لہٰذا سوال یہ ہے کہ آج‌کل مسیحی خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا نے اپنے آرام کے دن کو ایک خاص کام کے لئے مخصوص کِیا تھا۔‏ اُس نے طے کِیا تھا کہ اِس دن وہ زمین اور انسانوں کے لئے اپنے ارادے کو پورا کرے گا۔‏ یہوواہ خدا نے اپنی تنظیم کے ذریعے ہمیں اپنے ارادوں سے آگاہ کِیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ ہم سے کونسی توقعات رکھتا ہے۔‏ لہٰذا خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے ہمیں اُس کا کہنا ماننا ہوگا اور اُس کی تنظیم کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔‏

۱۷ لیکن اگر ہم عقل‌مند اور دیانت‌دار نوکر جماعت کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہیں یا پھر اگر ہم صرف اُن ہدایات پر عمل کرتے ہیں جو ہماری نظر میں اہم ہیں تو ہم خدا کی مرضی کے خلاف کام کر رہے ہوں گے۔‏ اِس صورت میں ہم خدا کے دوست نہیں ہوں گے۔‏ اگلے مضمون میں ہم کچھ ایسی صورتحال کے بارے میں بات کریں گے جن میں ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے فرمانبردار ہیں۔‏ اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے تو ہمارے کاموں سے ظاہر ہوگا کہ آیا ہم خدا کے آرام میں داخل ہو گئے ہیں یا نہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 موسیٰ کی شریعت کے مطابق کاہنوں اور لاویوں کو سبت کے دن ہیکل میں کام کرنے کی اجازت تھی۔‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو ہمارے سردارکاہن کے طور پر مقرر کِیا ہے۔‏ اِس لئے یسوع مسیح سبت کے دن وہ کام کر سکتے تھے جو خدا نے اُن کو کرنے کو کہے تھے۔‏—‏متی ۱۲:‏۵،‏ ۶‏۔‏

^ پیراگراف 13 ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آیا یہودی قوم سے تعلق رکھنے والے کچھ مسیحی ۳۳ء کی عیدِپنتِکُست کے بعد بھی یومِ‌کفارہ پر قربانیاں چڑھا رہے تھے یا نہیں۔‏ اگر وہ ایسا کر رہے تھے تو وہ یسوع مسیح کی قربانی کی ناشکری کر رہے تھے۔‏ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ بعض مسیحی ۳۳ء کے بعد بھی موسیٰ کی شریعت کی کچھ روایتوں پر عمل کر رہے تھے۔‏—‏گل ۴:‏۹-‏۱۱‏۔‏

اِن سوالوں پر سوچ‌بچار کریں:‏

‏• یہوواہ خدا نے ساتویں دن کو کس خاص کام کے لئے مخصوص کِیا تھا؟‏

‏• ہم کیسے جانتے ہیں کہ ساتواں دن ابھی تک جاری ہے؟‏

‏• موسیٰ کے زمانے کے کچھ اسرائیلی اور پولس رسول کے زمانے کے کچھ مسیحی خدا کے آرام میں کیوں داخل نہیں ہو پائے؟‏

‏• ہم خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر عبارت]‏

خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے ہمیں اُس کا کہنا ماننا ہوگا اور اُس کی تنظیم کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷،‏ ۲۶ پر تصویریں]‏

ہمیں خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟‏