غربت کو ختم کرنے کی کوششیں
غربت کو ختم کرنے کی کوششیں
امیر ملکوں نے تو اپنے لئے غربت کا خاتمہ کر لیا ہے لیکن غربت کے عالمگیر مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ عام طور پر امیر یہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنا روپیہپیسہ کسی اَور کو دیں یا پھر اُن کا مرتبہ کم ہو۔ سلیمان بادشاہ نے لکھا: ”مَیں نے . . . مظلوموں کے آنسوؤں کو دیکھا اور اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا اور اُن پر ظلم کرنے والے زبردست تھے پر اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔“—واعظ ۴:۱۔
کیا اثرورسوخ والے لوگ دُنیا سے غربت ختم کر سکتے ہیں؟ سلیمان بادشاہ نے لکھا: ”دیکھو یہ سب کچھ بطلان اور ہوا کی چران ہے۔ وہ جو ٹیڑھا ہے سیدھا نہیں ہو سکتا۔“ (واعظ ۱:۱۴، ۱۵) آئیں، دیکھیں کہ یہ الفاظ اُن کوششوں کے سلسلے میں کیسے سچ ثابت ہوئے ہیں جو غربت کو ختم کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔
غربت کو ختم کرنے کے سلسلے میں مختلف نظریات
انیسویں صدی میں کئی قوموں نے صنعت اور تجارت کے ذریعے آہستہآہستہ بہت زیادہ دولت اکٹھی کر لی۔ کچھ بااثر لوگوں نے غربت کے مسئلے کو حل کرنے پر بھی توجہ دی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کیا قدرتی وسائل کو اِس طرح تقسیم کِیا جا سکتا ہے کہ سب لوگ اِن سے فائدہ حاصل کر سکیں؟
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اشتراکی نظام (سوشلزم) یا اشتمالی نظام (کمیونزم) کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ قائم ہو سکتا ہے جس میں ہر طبقے کے لوگوں کے پاس ایک جتنی دولت ہو۔ ظاہر ہے کہ امیر لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ لیکن بہت سے لوگوں کو یہ نظریہ پسند آیا کہ ہر شخص کو اُس کی صلاحیت اور ضرورت کے مطابق حصہ ملنا چاہئے۔ کئی لوگوں کو اُمید تھی کہ
سب قومیں اشتراکی نظام کو اپنا لیں گی تاکہ دُنیا ایک ایسی جگہ بن جائے جہاں پر ہر کوئی خوشحال زندگی گزار سکے۔ چند امیر قوموں نے اشتراکی نظام کے کچھ پہلوؤں کو اپنا لیا اور فلاحوبہبود کے ایسے نظام قائم کئے جن کے تحت ”گود سے گور تک“ ہر شہری کی دیکھبھال کی جائے۔ یہ قومیں دعویٰ کرتی ہیں کہ اُنہوں نے اپنے ملکوں سے غربت دُور کر لی ہے۔لیکن اشتراکی نظام کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ قائم نہیں ہو سکا جس میں خودغرضی نہ ہو۔ توقع یہ تھی کہ شہری اپنے فائدے کی بجائے معاشرے کے فائدے کے لئے کام کریں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ بعض لوگوں نے غریبوں کو دی جانے والی سہولتوں پر اعتراض کِیا کیونکہ اُنہوں نے دیکھا تھا کہ اِن سہولتوں کی وجہ سے کچھ غریب لوگوں نے کام کرنا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ اِس سلسلے میں پاک صحیفوں کے یہ الفاظ سچ ثابت ہوئے ہیں: ”زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔ . . . خدا نے انسان کو راست بنایا پر اُنہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کیں۔“—واعظ ۷:۲۰، ۲۹۔
غربت کو ختم کرنے کے لئے ایک اَور نظریے پر بھی اُمید لگائی گئی۔ اِس نظریے کو امریکن ڈریم کہا جاتا ہے۔ امریکن ڈریم سے مُراد ایک ایسی جگہ کا خواب ہے جہاں ہر شخص محنت کرکے خوشحال زندگی گزار سکے۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکہ کی کامیابی کی وجہ جمہوریت، آزادانہ کاروبار اور تجارت جیسی پالیسیاں تھیں۔ اِس لئے پوری دُنیا میں بہت سے ملکوں نے بھی اِنہی پالیسیوں پر عمل کِیا۔ لیکن سب قومیں امریکن ڈریم پر عمل نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ شمالی امریکہ صرف اِن پالیسیوں کے ذریعے امیر نہیں بنا تھا۔ شمالی امریکہ کے پاس بڑےبڑے قدرتی وسائل ہیں اور اِسے بینالاقوامی تجارتی راستوں تک رسائی بھی حاصل ہے۔ اِس کے علاوہ دُنیا کے معاشی نظام میں مقابلہبازی کے نتیجے میں کچھ ملک تو امیر ہو جاتے ہیں اور کچھ ملکوں کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن کیا امیر ملکوں کو غریب ملکوں کی مدد کرنے کے لئے آمادہ کِیا جا سکتا ہے؟
مارشل پلان—غربت کو ختم کرنے کی ایک اَور کوشش
دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کا معاشی نظام درہمبرہم ہو گیا تھا۔ بہت سے لوگوں کو خوف تھا کہ وہ بھوکے مر جائیں گے۔ یورپ میں اشتراکی نظام مقبول ہو رہا تھا جس کی وجہ سے امریکی حکومت پریشان تھی۔ اِس لئے امریکہ نے اُن ملکوں کو چار سال تک بہت زیادہ رقم دی جنہوں نے امریکی پالیسیوں کو اپنایا تھا تاکہ وہ اپنے صنعتی اور زرعی نظام کو بحال کر سکیں۔ یورپ کی بحالی کے اِس پروگرام کو مارشل پلان کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام بڑا کامیاب رہا۔ مغربی یورپ میں امریکہ کا اثرورسوخ بڑھ گیا اور غربت بڑی حد تک کم ہو گئی۔ کیا مارشل پلان کے ذریعے پوری دُنیا سے غربت کو ختم کِیا جا سکتا تھا؟
مارشل پلان کی کامیابی کی وجہ سے امریکہ نے دُنیابھر کے غریب ملکوں کو امداد پیش کی تاکہ وہ اپنے زرعی اور آمدورفت کے نظام کو بہتر بنا سکیں اور اپنے شہریوں کو صحت اور تعلیم کی بہتر سہولتیں فراہم کر سکیں۔ امریکہ نے تسلیم کِیا کہ دوسرے ملکوں کی مدد کرنے میں اُس کا اپنا فائدہ ہے۔ کچھ دوسرے ملکوں نے بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے غیرملکی امداد کی پیشکش کی۔ اِن ملکوں نے مارشل پلان سے کئی گُنا زیادہ رقم دی لیکن ۶۰ سال بعد بھی وہ غربت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ سچ ہے کہ کچھ غریب ملک، خاص طور پر مشرقی ایشیا کے ملک، بہت امیر بن گئے۔ کچھ ملکوں میں بچوں کی شرحاموات میں کمی ہوئی اور پہلے کی نسبت زیادہ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ملک انتہائی غربت کا شکار رہے۔
غیرملکی امداد ناکام کیوں ثابت ہوئی ہے؟
امیر ملکوں کو جنگ کے بعد واپس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا آسان تھا لیکن غریب ملکوں کو غربت کی دَلدل سے نکالنا کافی مشکل ثابت ہوا۔ یورپ میں صنعت، تجارت اور ذرائع آمدورفت پہلے سے موجود تھے۔ ضرورت صرف اِس بات کی تھی کہ معاشی نظام کو بحال کِیا جائے۔ لیکن غریب ملکوں میں کاروبار کے زیادہ موقعے نہیں تھے اور قدرتی وسائل بھی کم تھے۔
اِن ملکوں کو تجارتی راستوں تک رسائی بھی نہیں تھی۔ اِس لئے جب وہاں غیرملکی امداد کے ذریعے سڑکیں، سکول اور ہسپتال بنائے گئے تو پھر بھی لوگ انتہائی غریب ہی رہے۔غربت کے چکر سے نکلنا خاصا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر بیماری، غربت لاتی ہے اور غربت، بیماری لاتی ہے۔ جن بچوں کو مناسب خوراک نہیں ملتی، وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اِتنے کمزور ہو سکتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر اپنے بچوں کی دیکھبھال نہیں کر سکتے۔ اِس کے علاوہ جب امیر ملک غریب ملکوں کو کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں امداد کے طور پر دیتے ہیں تو مقامی کسانوں اور دُکانداروں کا کاروبار ختم ہو جاتا ہے۔ اور اِس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ غریب ملکوں کو پیسے دینے سے ایک اَور چکر شروع ہو سکتا ہے۔ امداد میں آسانی سے ہیراپھیری کی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے اور غربت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دراصل غیرملکی امداد سے غربت کی بنیادی وجہ ختم نہیں ہوتی اِس لئے یہ غربت کو ختم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
غربت کی وجہ
انتہائی غربت کی ذمہدار وہ قومیں، حکومتیں اور لوگ ہیں جو صرف اپنا فائدہ چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر امیر ملکوں کی حکومتیں دُنیا سے غربت ختم کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوتی ہیں اور اُنہیں اپنے ووٹروں کو خوش کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا وہ غریب ملکوں کے کسانوں کو اپنی چیزیں امیر ملکوں میں بیچنے نہیں دیتیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کے اپنے ملک کے کسانوں کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ امیر ملکوں کے حکمران اپنے کسانوں کو پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ عالمی منڈی میں غریب ملکوں کے کسانوں سے زیادہ کامیاب رہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ غربت کی بنیادی وجہ انسانوں کی خودغرضی ہے۔ سلیمان بادشاہ کے یہ الفاظ واقعی سچ ہیں: ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“—واعظ ۸:۹۔
کیا غربت کا مسئلہ کبھی حل ہو سکے گا؟ کیا کوئی حکومت انسان کی فطرت کو بدل سکے گی؟
[صفحہ ۶ پر بکس]
موسیٰ کی شریعت میں غریبوں کے فائدے کے لئے کچھ اصول
یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو کچھ ایسے اصول دئے تھے جن پر عمل کرکے وہ غربت کے مسئلے سے نپٹ سکتے تھے۔ شریعت کے مطابق لاویوں کے قبیلے کے سوا ہر خاندان کو ورثے میں زمین ملی تھی۔ چونکہ زمین کو ہمیشہ کے لئے بیچا نہیں جا سکتا تھا اِس لئے خاندان کی وراثت محفوظ رہتی تھی۔ ہر ۵۰ سال کے بعد زمین اُس کے اصلی مالک یا خاندان کو واپس مل جاتی تھی۔ (احبار ۲۵:۱۰، ۲۳) اگر کسی بیماری یا مصیبت کی وجہ سے ایک شخص کو اپنی زمین بیچنی پڑتی تھی تو یوبلی کے سال میں اُسے یہ زمین بِلامعاوضہ واپس مل جاتی تھی۔ اِس طرح کوئی بھی خاندان غربت کی دَلدل میں نہیں دھنستا تھا۔
خدا کی شریعت میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ اگر ایک شخص پر کوئی مصیبت آن پڑے تو وہ خود کو غلام کے طور پر بیچ سکتا تھا۔ اُس کے مالک کو رقم پہلے سے ادا کرنی پڑتی تھی تاکہ وہ شخص اپنے قرضے چُکا سکے۔ اگر وہ شخص سات سال کے اندراندر خود کو آزاد کرانے کے لئے قیمت ادا نہیں کر پاتا تو مالک کو اُسے آزاد کرنا تھا اور اُسے بیج اور مویشی بھی دینے تھے تاکہ وہ پھر سے کھیتیباڑی کر سکے۔ اِس کے علاوہ اگر ایک غریب آدمی کسی شخص سے پیسے اُدھار لیتا تھا تو شریعت کے مطابق اُس شخص کو اُن پیسوں پر سُود نہیں لینا تھا۔ بنیاِسرائیل کو شریعت میں یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ وہ اپنے کھیتوں کے کناروں سے فصل نہ کاٹیں تاکہ غریب لوگ اِسے جمع کر سکیں۔ اِس طرح کسی بھی اسرائیلی کو دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا تھا۔—استثنا ۱۵:۱-۱۴؛ احبار ۲۳:۲۲۔
تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ کچھ اسرائیلی غربت کا شکار ہو گئے۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ اسرائیلیوں نے یہوواہ خدا کی شریعت کی پابندی نہیں کی تھی۔ اِس کے نتیجے میں کچھ لوگ تو بہت زیادہ زمینوں کے مالک بن گئے جبکہ باقی لوگ اپنی زمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بنیاِسرائیل کے درمیان غربت پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ بعض اسرائیلیوں نے خدا کی شریعت کو نظرانداز کر دیا تھا اور دوسروں کی بجائے بس اپنے فائدے کا سوچنے لگے تھے۔—متی ۲۲:۳۷-۴۰۔