مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ سیدھی راہ پر چلتے رہیں گے؟‏

کیا آپ سیدھی راہ پر چلتے رہیں گے؟‏

کیا آپ سیدھی راہ پر چلتے رہیں گے؟‏

‏”‏راہ یہی ہے اِس پر چل۔‏“‏—‏یسع ۳۰:‏۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ شیطان نے کیا کرنے کی ٹھان لی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم شیطان کی چالوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

فرض کریں کہ آپ کسی جگہ سفر کر رہے ہیں۔‏ راستے میں ایک ایسا سائن‌بورڈ آتا ہے جو غلط سمت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔‏ اِس کے مطابق چلنا آپ کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔‏ لیکن آپ کے دوست نے آپ کو اِس سائن‌بورڈ سے آگاہ کِیا ہے۔‏ اُس نے آپ کو بتایا ہے کہ ایک بُرے شخص نے اِس کو لگایا ہے تاکہ لوگ سیدھے راستے سے بھٹک جائیں۔‏ بِلاشُبہ آپ اپنے دوست کی بات پر دھیان دیں گے۔‏

۲ اُس بُرے شخص کی طرح شیطان نے بھی ہمیں گمراہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔‏ (‏مکا ۱۲:‏۹‏)‏ پچھلے مضمون میں ہم نے کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں بات کی تھی جن کی ہم پیروی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ اِن چیزوں کے پیچھے شیطان کا ہاتھ ہے۔‏ وہ اِن کے ذریعے ہمیں خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکساتا ہے تاکہ ہم اُس راستے کو چھوڑ دیں جس کی منزل ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏ (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا تھا کہ یہوواہ خدا ہمارا دوست ہے اور وہ ہمیں شیطان کی چالوں سے آگاہ کرتا ہے۔‏ جب ہم بائبل پڑھتے ہیں تو یہ ایسا ہے کہ جیسے یہوواہ خدا ہمارے پیچھے کھڑا ہو اور ہم سے کہہ رہا ہو:‏ ”‏راہ یہی ہے اِس پر چل۔‏“‏ (‏یسع ۳۰:‏۲۱‏)‏ آئیں،‏ اب تین اَور ایسی چیزوں پر بات کرتے ہیں جن کے ذریعے شیطان ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ بائبل میں اِن چیزوں سے بچنے کے لئے کونسی ہدایتیں دی گئی ہیں۔‏ اِن ہدایات کا مطالعہ کرنے سے ہمارے دل میں اِن پر عمل کرنے کا عزم اَور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔‏

‏’‏جھوٹے اُستادوں‘‏ کی پیروی نہ کریں

۳،‏ ۴.‏ (‏الف)‏ جھوٹے اُستاد خشک کنوؤں کی طرح کیوں ہیں؟‏ (‏ب)‏ جھوٹے اُستاد کہاں سے آتے ہیں؟‏ (‏ج)‏ جھوٹے اُستاد کیا چاہتے ہیں؟‏

۳ فرض کریں کہ آپ سفر کر رہے ہیں،‏ سخت گرمی ہے اور آپ کو بہت پیاس لگی ہے۔‏ کچھ فاصلے پر آپ کو ایک کنواں نظر آتا ہے۔‏ آپ پانی پینے کے لئے کنویں کی طرف جانے لگتے ہیں۔‏ لیکن جب آپ وہاں پہنچتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ کنواں بالکل خشک ہے۔‏ آپ بہت مایوس ہوتے ہیں۔‏ ایک لحاظ سے بائبل میں پائی جانے والی سچائیاں پانی کی طرح ہیں اور جھوٹے اُستاد خشک کنوؤں کی طرح ہیں۔‏ جو لوگ یہ سوچ کر جھوٹے اُستادوں کے پاس جاتے ہیں کہ وہ اُن کو خدا کے بارے میں سچائیاں سکھائیں گے،‏ اُنہیں مایوسی ہوتی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے ہمیں پولس رسول اور پطرس رسول کے ذریعے جھوٹے اُستادوں سے خبردار کِیا۔‏ ‏(‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۱-‏۳ کو پڑھیں۔‏)‏ ہم جھوٹے اُستادوں کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟‏ پولس رسول اور پطرس رسول نے ہمیں بتایا کہ جھوٹے اُستاد کہاں سے آتے ہیں اور یہ لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہیں۔‏

۴ پولس رسول نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں سے کہا:‏ ”‏خود تُم میں سے ایسے آدمی اُٹھیں گے جو اُلٹی‌اُلٹی باتیں کہیں گے۔‏“‏ اور پطرس رسول نے کئی کلیسیاؤں کو یہ لکھا:‏ ”‏تُم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر جھوٹے اُستاد کلیسیاؤں میں سے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔‏ یہ جھوٹے اُستاد ایسے لوگ ہیں جو خدا کی راہ سے برگشتہ ہیں۔‏ * مگر جھوٹے اُستاد چاہتے کیا ہیں؟‏ پولس رسول نے کہا کہ جب جھوٹے اُستاد یہوواہ خدا کی تنظیم کو چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ’‏شاگردوں کو اپنی طرف کھینچنے‘‏ کی کوشش کرتے ہیں۔‏ غور کریں کہ وہ اَور لوگوں کو اپنا شاگرد بنانے کی بجائے یسوع مسیح کے شاگردوں کو اپنا شاگرد بنانا چاہتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ یہ اُستاد بھیڑیوں کی طرح شاگردوں کو پھاڑ کھانا چاہتے ہیں۔‏ وہ بہن‌بھائیوں کے ایمان کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور اُن کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔‏—‏متی ۷:‏۱۵؛‏ ۲-‏تیم ۲:‏۱۸‏۔‏

۵.‏ جھوٹے اُستاد لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟‏

۵ جھوٹے اُستاد بڑی چالاکی سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔‏ وہ ”‏پوشیدہ طور پر“‏ یعنی چوری‌چھپے کلیسیا میں اپنی سوچ کو متعارف کراتے ہیں بالکل جیسے سمگلر چوری‌چھپے اپنا مال ملک میں لاتے ہیں۔‏ جھوٹے اُستاد ”‏باتیں بنا کر“‏ خدا کے خادموں کو گمراہ کرتے ہیں۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ اِتنی مہارت سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سامنے والے شخص کو اُن کی بات پر یقین ہونے لگتا ہے بالکل جیسے مجرم اِتنی مہارت سے جعلی کاغذات تیار کرتے ہیں کہ وہ نقلی نہیں لگتے۔‏ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جھوٹی باتوں کا قائل کرنا چاہتے ہیں۔‏ پطرس رسول نے کہا کہ جھوٹے اُستاد ’‏صحیفوں کے معنوں کی کھینچ‌تان کرتے ہیں‘‏ یعنی وہ بائبل کے صحیفوں کی ایسے وضاحت کرتے ہیں کہ لوگ اُن کے غلط نظریات کو ماننے لگیں۔‏ (‏۲-‏پطر ۲:‏۱،‏ ۳؛‏ ۳:‏۱۶‏)‏ جھوٹے اُستادوں کو ہماری کوئی فکر نہیں ہے۔‏ اگر ہم اُن کی پیروی کرنے لگیں گے تو ہم اُس راستے کو چھوڑ دیں گے جس کی منزل ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏

۶.‏ بائبل میں جھوٹے اُستادوں کے سلسلے میں کونسی ہدایت دی گئی ہے؟‏

۶ ہم جھوٹے اُستادوں کے دھوکے میں آنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ بائبل میں اِس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔‏ ‏(‏رومیوں ۱۶:‏۱۷؛‏ ۲-‏یوحنا ۹-‏۱۱ کو پڑھیں۔‏)‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ’‏اُن سے کنارہ کرو۔‏‘‏ ایک اَور ترجمے میں لکھا ہے کہ ’‏اُن سے دُور رہو۔‏‘‏ فرض کریں کہ ایک ڈاکٹر آپ سے کہتا ہے:‏ ”‏فلاں شخص سے دُور رہیں کیونکہ اُس کو ایک ایسی بیماری ہے جو آپ کو بھی لگ سکتی ہے۔‏“‏ ڈاکٹر جانتا ہے کہ یہ بیماری جان‌لیوا ہے۔‏ بِلاشُبہ آپ اُس کی واضح ہدایت پر عمل کریں گے۔‏ اِسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ جھوٹے اُستادوں کو ”‏بحث اور لفظی تکرار کرنے کا مرض ہے“‏ اور وہ اپنی تعلیمات کے ذریعے دوسروں کو بھی اِس مرض میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیم ۶:‏۳،‏ ۴‏)‏ اُس ڈاکٹر کی طرح یہوواہ خدا بھی ہمیں واضح ہدایات دیتا ہے۔‏ وہ ہمیں جھوٹے اُستادوں سے دُور رہنے کو کہتا ہے۔‏ ہمیں اُس کی ہدایت پر عمل کرنے کا پکا عزم کرنا چاہئے۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏الف)‏ ہم جھوٹے اُستادوں سے کیسے دُور رہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ نے جھوٹے اُستادوں سے دُور رہنے کا عزم کیوں کِیا ہے؟‏

۷ ہم جھوٹے اُستادوں سے کیسے دُور رہتے ہیں؟‏ ہم نہ تو اُنہیں اپنے گھر بلاتے ہیں اور نہ ہی اُن سے بات کرتے ہیں۔‏ ہم اُن کی کتابوں کو نہیں پڑھتے اور ٹی‌وی پر اُن کے انٹرویو یا پروگرام نہیں دیکھتے۔‏ ہم انٹرنیٹ پر اُن کی تحریروں کو نہیں پڑھتے اور نہ ہی اِن پر بلاگ لکھتے ہیں۔‏ ہم اُن سے کیوں دُور رہنا چاہتے ہیں؟‏ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم ”‏سچائی کے خدا“‏ سے محبت رکھتے ہیں۔‏ اِس لئے ہم کوئی ایسی بات نہیں سننا چاہتے جو بائبل کی سچی تعلیمات سے ہٹ کر ہو۔‏ (‏زبور ۳۱:‏۵؛‏ یوح ۱۷:‏۱۷‏)‏ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمیں اُس تنظیم سے محبت ہے جس کے ذریعے یہوواہ خدا ہمیں بائبل کی سچائیاں سکھاتا ہے۔‏ ہم نے یہوواہ خدا کی تنظیم ہی کے ذریعے خدا کے نام اور اِس کے مطلب کے بارے میں سیکھا۔‏ ہم نے سیکھا کہ زمین کے لئے خدا کا مقصد کیا ہے اور مرنے پر کیا ہوتا ہے۔‏ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏ کیا آپ کو یاد ہے کہ جب آپ نے پہلی بار اِن سچائیوں کے بارے میں سیکھا تھا تو آپ کتنے خوش ہوئے تھے؟‏ لہٰذا اِس بات کا پکا عزم کریں کہ آپ جھوٹے اُستادوں سے دُور رہیں گے اور کبھی بھی اُن کے دھوکے میں آکر اُس تنظیم کو نہیں چھوڑیں گے جس کے ذریعے آپ نے سچائی سیکھی تھی۔‏—‏یوح ۶:‏۶۶-‏۶۹‏۔‏

۸ جھوٹے اُستاد چاہے کچھ بھی کہیں،‏ ہم اُن کی پیروی نہیں کریں گے۔‏ ہم ایسے لوگوں کی باتوں کو نہیں سنیں گے جو خشک کنوؤں کی طرح ہیں۔‏ جو لوگ اِن کی باتوں پر دھیان دیتے ہیں،‏ اُنہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‏ ہم نے ٹھان لیا ہے کہ ہم یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہیں گے۔‏ یہوواہ خدا کی تنظیم نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کِیا بلکہ ہمارے لئے بائبل میں سے سچائی کے صاف‌شفاف پانی کو کثرت سے مہیا کِیا ہے۔‏—‏یسع ۵۵:‏۱-‏۳؛‏ متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏۔‏

‏’‏گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہ کریں‘‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏الف)‏ پولس رسول نے تیمتھیس کو کس بات سے آگاہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول ۱-‏تیمتھیس ۱:‏۴ میں کیسی کہانیوں کی بات کر رہے تھے؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۹ فرض کریں کہ کسی نے سڑک پر ایک سائن‌بورڈ کو موڑ دیا ہے اور اب اُس پر بنا تیر غلط سمت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔‏ اِس صورت میں ہم غلط راستے پر چلنے کے خطرے میں ہوں گے۔‏ عام طور پر یہ آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ سائن‌بورڈ غلط سمت کی طرف اشارہ کر رہا ہے لیکن کبھی‌کبھی اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔‏ اِسی طرح ایک بات کے بارے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کہ آیا یہ سچی ہے یا پھر شیطان کی جھوٹی بات ہے۔‏ اگر ہم چوکس نہیں رہیں گے تو ہم آسانی سے شیطان کی جھوٹی باتوں میں آ جائیں گے۔‏ پولس رسول نے ہمیں اِن جھوٹی باتوں سے آگاہ کِیا۔‏ اُنہوں نے اِن باتوں کو ”‏کہانیوں“‏ کا نام دیا۔‏ ‏(‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۳،‏ ۴ کو پڑھیں۔‏)‏ یہ کیسی کہانیاں ہیں اور ہم اِن پر توجہ دینے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اگر ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِن سوالوں کے جواب جاننے کی ضرورت ہے۔‏

۱۰ پولس رسول نے تیمتھیس کے نام اپنے پہلے خط میں اِن کہانیوں سے آگاہ کِیا۔‏ تیمتھیس کلیسیا کے ایک بزرگ تھے۔‏ پولس رسول نے اُن سے کہا کہ وہ کلیسیا کو جھوٹی تعلیمات سے پاک رکھیں اور بہن‌بھائیوں کی مدد کریں تاکہ وہ یہوواہ خدا کے وفادار رہیں۔‏ (‏۱-‏تیم ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ جس لفظ کا ترجمہ ۱-‏تیمتھیس ۱:‏۴ میں ”‏کہانیوں“‏ کِیا گیا ہے،‏ یونانی زبان میں اِس کا مطلب جھوٹی یا من‌گھڑت کہانی ہے۔‏ ایک لغت کے مطابق اِس لفظ کا مطلب ایک ایسی مذہبی داستان ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‏ ‏(‏دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا)‏ پولس رسول شاید ایسی پُرانی داستانوں کا سوچ رہے تھے جن کے ذریعے جھوٹے عقیدوں کو فروغ دیا جاتا تھا۔‏ * پولس رسول نے کہا کہ ایسی کہانیوں پر دھیان دینا خطرناک ہے کیونکہ یہ ’‏تکرار کا باعث ہوتی ہیں۔‏‘‏ جو لوگ اِن جھوٹی کہانیوں پر دھیان دیتے ہیں،‏ اُن کے ذہن میں ایسی باتوں کے بارے میں سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا تعلق حقیقت سے نہیں ہے۔‏ پھر وہ اِن سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔‏ شیطان مذہبی داستانوں اور جھوٹے عقیدوں کو استعمال کرتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ بائبل کی تعلیمات سے ہٹ جائے۔‏ اِس لئے پولس رسول نے آگاہ کِیا کہ جھوٹی کہانیوں پر توجہ نہ دیں۔‏

۱۱.‏ (‏الف)‏ شیطان جھوٹے مذاہب کے ذریعے لوگوں کو کیسے گمراہ کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں یہوواہ خدا کی کس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۱ بعض ایسی جھوٹی کہانیاں کیا ہیں جن سے ہم گمراہ ہو سکتے ہیں؟‏ ہر اُس مذہبی تعلیم کو جھوٹی کہانی کہا جا سکتا ہے جو ہمیں ”‏حق کی طرف سے پھیر“‏ سکتی ہے یعنی جس کی وجہ سے ہمارا دھیان سچی تعلیمات سے ہٹ سکتا ہے۔‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ شیطان بڑا چالاک ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ وہ ”‏اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہم‌شکل بنا لیتا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱۱:‏۱۴‏)‏ شیطان جھوٹے مذاہب کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر مسیحی مذاہب دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یسوع مسیح کی پیروی کر رہے ہیں۔‏ لیکن اِن میں سے زیادہ‌تر ایسا نہیں کر رہے کیونکہ وہ لوگوں کو تثلیث اور دوزخ کے عقیدوں کی تعلیم دیتے ہیں۔‏ وہ یہ بھی سکھاتے ہیں کہ مرنے پر انسان کسی اَور روپ میں زندہ رہتا ہے۔‏ یہ سب جھوٹی تعلیمات ہیں۔‏ بہت سے مسیحیوں کا خیال ہے کہ کرسمس اور ایسٹر جیسے تہوار منانے سے وہ خدا کو خوش کرتے ہیں۔‏ لیکن اِن تہواروں کے رسم‌ورواج کی جڑ جھوٹے مذاہب ہیں۔‏ یہوواہ خدا ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ جھوٹے مذاہب ”‏میں سے نکل کر الگ رہو اور ناپاک چیز کو نہ چھوؤ۔‏“‏ اگر ہم اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو ہم جھوٹی کہانیوں سے گمراہ نہیں ہوں گے۔‏—‏۲-‏کر ۶:‏۱۴-‏۱۷‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏الف)‏ شیطان جن جھوٹی باتوں کو فروغ دیتا ہے،‏ اُن کی تین مثالیں دیں۔‏ (‏ب)‏ اِن جھوٹے نظریات کے سلسلے میں بائبل کی تعلیم کیا ہے؟‏ (‏ج)‏ اگر ہم شیطان کی جھوٹی باتوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۲ شیطان ہمیں اَور بھی جھوٹی باتوں کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے تین پر غور کریں۔‏ ایک جھوٹا نظریہ یہ ہے:‏ ”‏جو دل میں آئے کرو؛‏ اپنے لئے اچھے اور بُرے کے معیار خود قائم کرو۔‏“‏ اِس نظریے کو ٹی‌وی،‏ فلموں،‏ رسالوں،‏ اخباروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔‏ چونکہ یہ بات ہر وقت ہمارے کانوں میں پڑتی رہتی ہے اِس لئے یہ ہماری سوچ پر اثر کر سکتی ہے۔‏ اِس طرح ہم دُنیا کے طور طریقے اپنانے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔‏ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اِس قابل نہیں کہ اچھے اور بُرے کے معیار قائم کریں۔‏ اِس سلسلے میں ہمیں یہوواہ خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔‏ (‏یرم ۱۰:‏۲۳‏)‏ دوسرا جھوٹا نظریہ یہ ہے:‏ ”‏خدا کبھی زمین کے حالات نہیں بدلے گا۔‏“‏ اِس سوچ کی وجہ سے لوگ صرف اپنے آج کے بارے میں سوچتے ہیں اور اُن کا دھیان مزے کرنے پر رہتا ہے۔‏ اُنہیں نہ تو اپنے مستقبل کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اگر ہم ایسی سوچ کو اپناتے ہیں تو ہم خدا کی خدمت میں ”‏بیکار اور بےپھل“‏ ہو جائیں گے۔‏ (‏۲-‏پطر ۱:‏۸‏)‏ حقیقت تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا جلد ہی دُنیا کے حالات کو بدل دے گا۔‏ ہمیں اپنی زندگی کو ایسے گزارنا چاہئے جس سے ظاہر ہو کہ ہمیں اِس بات پر پورا یقین ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۴‏)‏ تیسرا جھوٹا نظریہ یہ ہے:‏ ”‏خدا کو آپ کی فکر نہیں۔‏“‏ شیطان ہمیں یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی محبت کے لائق نہیں ہیں۔‏ اگر ہم شیطان کے اِس جھوٹ پر یقین کر لیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہم اِتنے دل‌برداشتہ ہو جائیں کہ ہم یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں۔‏ حقیقت تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا اپنے ہر خادم کی قدر کرتا ہے اور اُسے اپنے ہر خادم سے بہت پیار ہے۔‏—‏متی ۱۰:‏۲۹-‏۳۱‏۔‏

۱۳ ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم شیطان کی جھوٹی باتوں کا یقین نہ کریں۔‏ کبھی‌کبھار ایسے لگتا ہے کہ لوگ جو کچھ کہتے اور سوچتے ہیں،‏ وہ سچ ہے۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ شیطان اوّل درجے کا دھوکےباز ہے اور وہ ایسی ہی باتوں کے ذریعے ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ شیطان چاہتا ہے کہ ہم ”‏گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی“‏ کرنے لگیں۔‏ لیکن ہم شیطان کے جال میں نہیں پھنسنا چاہتے ہیں اور اِس لئے ہم یہوواہ خدا کی ہدایات پر دھیان دیتے ہیں۔‏—‏۲-‏پطر ۱:‏۱۶‏۔‏

‏’‏شیطان کی پیروی نہ کریں‘‏

۱۴.‏ (‏الف)‏ پولس رسول نے کچھ جوان بیواؤں کو کیا ہدایت دی؟‏ (‏ب)‏ ہم سب کو پولس رسول کی ہدایت پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏

۱۴ فرض کریں کہ ایک سائن‌بورڈ پر لکھا ہو کہ ”‏شیطان کی پیروی کرنے کے لئے اُلٹے ہاتھ جائیں۔‏“‏ ظاہری بات ہے کہ کوئی مسیحی اِس راستے پر نہیں جائے گا۔‏ لیکن پولس رسول نے آگاہ کِیا کہ مسیحی بھی ’‏شیطان کی پیروی‘‏ کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ ‏(‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱۱-‏۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ یہ سچ ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ لکھا،‏ وہ اُن کے زمانے کی کچھ جوان مسیحی بیواؤں کے بارے میں تھا۔‏ لیکن ہم سب اُن کی باتوں سے سیکھ سکتے ہیں۔‏ اِن بیواؤں کو تو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ شیطان کی پیروی کر رہی ہیں۔‏ لیکن اُن کے کاموں اور بات‌چیت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ”‏شیطان کی پیرو“‏ ہیں۔‏ ہم انجانے میں شیطان کی پیروی کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ پولس رسول نے اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہا جو دوسروں کے پیٹھ پیچھے بُرائیاں کرتے ہیں۔‏

۱۵.‏ (‏الف)‏ شیطان کیا چاہتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول کے مطابق شیطان کن باتوں کے ذریعے ہم سے اپنی مرضی کرانے کی کوشش کرتا ہے؟‏

۱۵ شیطان نہیں چاہتا کہ ہم اپنے ایمان کے بارے میں بات کریں۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کو خوشخبری سنانا بند کر دیں۔‏ (‏مکا ۱۲:‏۱۷‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنا وقت ایسے کاموں میں صرف کریں جو فضول ہیں اور جن سے خدا کے خادموں میں جھگڑے پیدا ہوں۔‏ پولس رسول نے ایسی باتوں کا ذکر کِیا جن کے ذریعے شیطان ہم سے اپنی مرضی کراتا ہے۔‏ پولس رسول نے کہا کہ کچھ جوان بیوائیں ’‏گھرگھر پھر کر بیکار رہتی ہیں۔‏‘‏ یہ بیوائیں اپنا زیادہ‌تر وقت دوستوں کے گھر آنے جانے میں اور فضول باتوں میں لگاتی تھیں۔‏ ہمیں ایسی عادت میں پڑنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم اپنا بہت سا وقت ایسے ای‌میل اور ایس‌ایم‌ایس پڑھنے اور بھیجنے میں لگا دیتے ہیں جن میں غیرضروری یہاں تک کہ جھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔‏ یوں ہم اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔‏ پولس رسول نے اِن بیواؤں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ وہ ”‏بک‌بک کرتی رہتی“‏ ہیں۔‏ کچھ لوگوں کو اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے اور کبھی‌کبھی وہ دوسروں کے بارے میں بُری باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔‏ یوں وہ غیبت کرنے کے خطرے میں پڑ جاتے ہیں یعنی وہ دوسروں کے بارے میں افواہیں پھیلانے اور اُن کی بدنامی کرنے کے خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے لوگوں میں اکثر لڑائی‌جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔‏ (‏امثا ۲۶:‏۲۰‏)‏ جو لوگ دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں کرتے ہیں،‏ وہ ابلیس کی طرح ہیں۔‏ * پولس رسول نے اِن بیواؤں کے بارے میں مزید کہا کہ وہ ”‏اَوروں کے کام میں دخل بھی دیتی ہیں۔‏“‏ یہ بیوائیں ہر معاملے میں دوسروں کو بتاتی تھیں کہ اُنہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔‏ لیکن کسی کو بھی ایسا کرنے کا حق نہیں۔‏ اگر ہم بھی اُن کاموں میں مشغول رہیں گے جو یہ بیوائیں کر رہی تھیں تو ہماری توجہ خدا کی خدمت سے ہٹ جائے گی یہاں تک کہ شاید ہم خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنا بند کر دیں۔‏ اِس صورت میں ہم شیطان کی پیروی کر رہے ہوں گے۔‏ یاد رکھیں کہ اگر ہم شیطان کی طرف ہیں تو ہم یہوواہ خدا کے خلاف ہیں۔‏ یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم کس کی طرف ہوں گے۔‏—‏متی ۱۲:‏۳۰‏۔‏

۱۶.‏ اگر ہم ’‏شیطان کی پیروی‘‏ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کن مشوروں پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۶ اگر ہم بائبل کی ہدایت پر دھیان دیں گے تو ہم شیطان کی پیروی نہیں کریں گے۔‏ پولس رسول نے اِس سلسلے میں ہمیں کچھ مشورے دئے۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ”‏خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۵۸‏)‏ اگر ہم دل لگا کر یہوواہ خدا کی خدمت کریں گے تو پھر ہمارے پاس ایسے غیرضروری کاموں کے لئے وقت نہیں بچے گا جو ہمارے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ پولس رسول نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ”‏تمہارے مُنہ سے .‏ .‏ .‏ اچھی بات ہی نکلے جو مفید ہو۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۲۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ نہ تو خود دوسروں کی پیٹھ پیچھے بُرائیاں کریں اور نہ ہی اُن لوگوں کی باتوں پر دھیان دیں جو ایسا کرتے ہیں۔‏ * اپنے بہن‌بھائیوں پر شک نہ کریں۔‏ اُن کا احترام کریں۔‏ اِس طرح آپ ہمیشہ اُن کے بارے میں اچھی باتیں کہیں گے۔‏ پولس رسول نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ”‏ہر ایک شخص چپ‌چاپ اپنے کام میں لگا رہے۔‏“‏ (‏۱-‏تھس ۴:‏۱۱‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ایک دوسرے سے بات‌چیت نہیں کرنی چاہئے۔‏ ہمیں ایک دوسرے کے حال احوال میں دلچسپی لینی چاہئے۔‏ لیکن ہمیں اپنی حد پار نہیں کرنی چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں بہن‌بھائی شاید بات کرنا نہ چاہیں۔‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم بہن‌بھائیوں کے لئے فیصلہ کریں۔‏ کچھ معاملوں میں ہر ایک کو خود ہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ کیا کرے گا۔‏—‏گل ۶:‏۵‏۔‏

۱۷.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا ہمیں ایسی چیزوں سے کیوں آگاہ کرتا ہے جو ہمارے لئے خطرناک ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہئے؟‏

۱۷ یہوواہ خدا نے ہمیں اُن چیزوں سے آگاہ کِیا ہے جن کی پیروی کرنا ہمارے لئے خطرناک ہے۔‏ ہم اِن آگاہیوں کے لئے یہوواہ خدا کے بڑے شکر گزار ہیں۔‏ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہمیں اِس لئے اِن چیزوں سے آگاہ کرتا ہے کیونکہ وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔‏ وہ نہیں چاہتا کہ شیطان ہمیں دھوکا دے اور ہمیں تکلیف پہنچائے۔‏ یہ سچ ہے کہ جس راستے پر یہوواہ خدا ہمیں چلنے کو کہتا ہے،‏ وہ آسان نہیں۔‏ لیکن اِسی راستے پر چلنے سے ہمیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔‏ (‏متی ۷:‏۱۴‏)‏ لہٰذا جب یہوواہ خدا ہم سے کہتا ہے کہ ”‏راہ یہی ہے اِس پر چل“‏ تو ہمیں عزم کرنا چاہئے کہ ہم اُس کی رہنمائی کے مطابق چلیں گے۔‏—‏یسع ۳۰:‏۲۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 خدا کی راہ سے برگشتہ ہونے کا مطلب ہے:‏ سچے خدا اور اُس کی تنظیم سے بغاوت کرنا اور سچی تعلیمات سے پھر جانا۔‏

^ پیراگراف 10 مثال کے طور پر پولس رسول کے زمانے میں طوبیاہ نامی کتاب دستیاب تھی۔‏ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بھی الہامی کتاب ہے اور اِسے بائبل میں شامل ہونا چاہئے۔‏ یہ کتاب تیسری صدی قبل‌ازمسیح میں لکھی گئی تھی۔‏ اِس میں بہت سے جھوٹے عقیدے ہیں اور ایسی باتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کا تعلق جادوٹونے سے ہے۔‏ اِس کتاب میں انہونی باتوں کو اِس طرح سے پیش کِیا گیا ہے جیسے کہ یہ سچ‌مچ واقع ہوئی ہوں۔‏

^ پیراگراف 15 جس لفظ کا ترجمہ ابلیس کِیا گیا ہے،‏ یونانی زبان میں اِس کا اشارہ ایک ایسے شخص کی طرف ہے جو جان‌بُوجھ کر دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں کرتا ہے تاکہ اُن کی بدنامی ہو۔‏ جس فرشتے نے سب سے پہلے جھوٹ بولا،‏ اُسے ابلیس کہا گیا۔‏—‏یوح ۸:‏۴۴؛‏ مکا ۱۲:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

^ پیراگراف 16 بکس ”‏پہلے تولو پھر بولو“‏ کو دیکھیں۔‏

آپ کا کیا جواب ہوگا؟‏

اِن صحیفوں میں جن چیزوں سے آگاہ کِیا گیا ہے،‏ آپ اِن کی پیروی کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• ۲-‏پطرس ۲:‏۱-‏۳

‏• ۱-‏تیمتھیس ۱:‏۳،‏ ۴

‏• ۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱۱-‏۱۵

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر بکس/‏تصویریں]‏

پہلے تولو پھر بولو

دوسروں کی پیٹھ پیچھے اُن کی بُرائی کرنے سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔‏ یہ سبق ہمیں یہودیوں کی ایک پُرانی کہانی سے ملتا ہے۔‏ آئیں،‏ اِس کہانی کو سنیں۔‏

ایک گاؤں میں ایک بہت ہی دانش‌مند آدمی رہتا تھا۔‏ اِسی گاؤں میں ایک اَور آدمی رہتا تھا جس نے اُس دانش‌مند آدمی کے بارے میں بہت سی جھوٹی باتیں پھیلائی تھیں۔‏ کچھ عرصے بعد اِس آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُس نے جا کر دانش‌مند آدمی سے معافی مانگی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہوں۔‏ مَیں کیا کروں تاکہ آپ مجھے معاف کر دیں؟‏“‏ دانش‌مند آدمی نے اُس سے کہا:‏ ”‏آپ ایک کام کر سکتے ہو،‏ ایک ایسا تکیہ لو جس میں پَر بھرے ہوں،‏ اُس کو پھاڑ دو اور پَروں کو بکھیر دو۔‏“‏ اِس آدمی کو پتہ نہیں تھا کہ دانش‌مند آدمی نے اُسے ایسا کرنے کو کیوں کہا۔‏ لیکن اُس نے جا کر ویسا ہی کِیا۔‏

پھر وہ دانش‌مند آدمی کے پاس گیا اور پوچھا:‏ ”‏اب تو آپ نے مجھے معاف کر دیا ہوگا؟‏“‏

دانش‌مند آدمی نے کہا:‏ ”‏پہلے جا کر سارے پَروں کو اکٹھا کرو۔‏“‏

اُس آدمی نے کہا:‏ ”‏یہ تو بہت مشکل ہے۔‏ پَر تو ہوا میں اُڑ گئے۔‏ اب مَیں اُن کو کہاں‌کہاں تلاش کروں؟‏“‏

دانش‌مند آدمی نے اُس سے کہا:‏ ”‏جس طرح پَر چاروں طرف بکھر گئے ہیں اُسی طرح آپ کی جھوٹی باتیں بھی چاروں طرف پھیل گئی ہیں۔‏ جس طرح آپ پَروں کو اکٹھا نہیں کر سکتے اُسی طرح آپ لوگوں کے ذہن سے وہ جھوٹی باتیں نہیں نکال سکتے جو آپ نے میرے بارے میں کہی ہیں۔‏“‏

اِس کہانی کا سبق یہ ہے:‏ جب ایک بات ہمارے مُنہ سے نکل جاتی ہے تو پھر ہمارا اُس پر اختیار نہیں رہتا۔‏ اگر ہم اپنی بات کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو بعض اوقات ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔‏ اِس لئے کسی کی بُرائی کرنے سے پہلے یاد رکھیں کہ ہماری باتیں پَروں کی طرح ہیں جو ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کئی مسیحی کس طرح جھوٹے اُستادوں کو اپنے گھر آنے دیتے ہیں؟‏