مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ یہوواہ خدا کی رہنمائی کو قبول کریں گے؟‏

کیا آپ یہوواہ خدا کی رہنمائی کو قبول کریں گے؟‏

کیا آپ یہوواہ خدا کی رہنمائی کو قبول کریں گے؟‏

‏”‏ہر جھوٹی راہ سے مجھے نفرت ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۲۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ جب آپ کا دوست آپ کو راستہ بتاتا ہے تو آپ کس قسم کی آگاہیوں کے لئے شکرگزار ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ہمیں کس بات سے آگاہ کرتا ہے؟‏ (‏ج)‏ یہوواہ خدا ہمیں یہ آگاہیاں کیوں دیتا ہے؟‏

فرض کریں کہ آپ کسی جگہ سفر کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو وہاں جانے کا راستہ پتہ نہیں ہے۔‏ اِس لئے آپ اپنے ایک دوست سے پوچھتے ہیں جسے راستہ پتہ ہے۔‏ وہ آپ کو راستہ بتانے کے ساتھ‌ساتھ کچھ آگاہیاں بھی دیتا ہے تاکہ آپ راستے سے بھٹک نہ جائیں۔‏ مثال کے طور پر وہ آپ کو ایک سائن‌بورڈ سے آگاہ کرتا ہے جس پر لکھی ہوئی ہدایت واضح نہیں ہے۔‏ بہت سے لوگ اِس سائن‌بورڈ کی وجہ سے اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔‏ بِلاشُبہ آپ اپنے دوست کا شکریہ ادا کریں گے اور اُس کی بات پر عمل بھی کریں گے۔‏ دراصل ہم ایک ایسا سفر کر رہے ہیں جس کی منزل ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏ یہوواہ خدا ہمارا دوست ہے اور وہ اِس سفر پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔‏ اُس کی رہنمائی پر عمل کرنے سے ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ وہ ہمیں اُن چیزوں سے بھی آگاہ کرتا ہے جن کی وجہ سے ہم سیدھی راہ سے بھٹکنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏—‏است ۵:‏۳۲؛‏ یسع ۳۰:‏۲۱‏۔‏

۲ اِس مضمون میں اور اگلے مضمون میں ہم کچھ ایسی چیزوں پر بات کریں گے جو ہمیں سیدھی راہ سے بھٹکا سکتی ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہمیں اِس لئے خطروں سے آگاہ کرتا ہے کیونکہ وہ ہمارا دوست ہے اور ہم سے محبت رکھتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں۔‏ جب لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں اور یہوواہ خدا کی عبادت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو اُس کو بہت دُکھ ہوتا ہے۔‏ (‏حز ۳۳:‏۱۱‏)‏ اِس مضمون میں ہم تین ایسی چیزوں پر بات کریں گے جو ہمارے لئے خطرے کا باعث ہو سکتی ہیں۔‏ (‏۱)‏ دوسرے لوگ،‏ (‏۲)‏ ہماری خواہشیں اور (‏۳)‏ باطل چیزیں۔‏ ہمیں اِن چیزوں کے بارے میں سیکھنا چاہئے اور یہ بھی سیکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہماری رہنمائی کیسے کرتا ہے تاکہ ہمیں اِن سے خطرہ نہ ہو۔‏ جس شخص نے زبور ۱۱۹ لکھا تھا،‏ وہ اِن خطروں سے واقف تھا۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏ہر جھوٹی راہ سے مجھے نفرت ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۲۸‏)‏ وہ ہر اُس چیز سے نفرت کرتا تھا جو اُسے خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسا سکتی تھی۔‏ کیا آپ کو بھی ایسی چیزوں سے نفرت ہے؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم ”‏ہر جھوٹی راہ“‏ سے دُور رہنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏’‏بِھیڑ کی پیروی نہ کریں‘‏

۳.‏ (‏الف)‏ ہمیں صرف اِس لئے ایک راستہ کیوں نہیں اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اِس پر بہت سے لوگ چل رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خروج ۲۳:‏۲ میں کونسا اہم اصول پایا جاتا ہے؟‏

۳ فرض کریں کہ سفر کے دوران آپ اچانک ایک چوراہے پر پہنچتے ہیں اور آپ کو معلوم نہیں کہ اب کہاں جائیں۔‏ آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایک راستے پر چل رہے ہیں۔‏ شاید آپ سوچیں کہ ”‏مَیں بھی اِن کے پیچھے چلتا ہوں۔‏“‏ لیکن اگر ہم صرف اِس وجہ سے ایک راہ پر چل دیتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اِس پر سفر کر رہے ہیں تو یہ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ شاید اُن کی منزل کوئی اَور ہو یا پھر وہ بھی آپ کی طرح راستہ بھول گئے ہوں۔‏ اِس مثال کو ذہن میں رکھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے ایک قانون کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو کونسا اصول سکھانا چاہتا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے یہ قانون اُن لوگوں کو دیا تھا جو کسی مقدمے میں جج یا گواہ ہوتے تھے۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں آگاہ کِیا کہ وہ ”‏بِھیڑ کی پیروی“‏ نہ کریں اور لوگوں کو خوش کرنے کے لئے غلط فیصلے نہ سنائیں۔‏ ‏(‏خروج ۲۳:‏۲ کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن یہ اصول کہ ”‏بِھیڑ کی پیروی نہ کرنا،‏“‏ صرف ججوں اور گواہوں ہی کے لئے نہیں تھا۔‏

۴،‏ ۵.‏ (‏الف)‏ یشوع اور کالب کو کس مشکل صورتحال کا سامنا تھا؟‏ (‏ب)‏ یشوع اور کالب نے بِھیڑ کی پیروی کیوں نہیں کی؟‏

۴ بہت سی ایسی صورتحال ہیں جن میں ہم ”‏بِھیڑ کی پیروی“‏ کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال اچانک پیدا ہو سکتی ہیں۔‏ اُس وقت شاید ہمارے لئے بہت ہی مشکل ہو کہ ہم باقی لوگوں جیسا کام نہ کریں۔‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ دیکھیں کہ یشوع اور کالب کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ وہ دس اَور آدمیوں کے ساتھ اُس ملک کا جائزہ لینے کے لئے گئے جس کا وعدہ یہوواہ خدا نے ابرہام سے کِیا تھا۔‏ جب وہ لوٹے تو اُن دس آدمیوں نے اُس ملک کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں کہ بنی‌اسرائیل کے دل دہل گئے۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے کہا کہ اُس ملک کے لوگ ”‏جباروں کی نسل سے ہیں“‏ اور بڑے زورآور ہیں۔‏ (‏پید ۶:‏۴‏)‏ لیکن یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ جباروں کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اور وہ سب کے سب سینکڑوں سال پہلے نوح کے طوفان میں مارے گئے تھے۔‏ بنی‌اسرائیل کا ایمان کمزور تھا اِس لئے وہ اُن دس آدمیوں کی باتوں میں آ گئے۔‏ جس شخص کا ایمان کمزور ہوتا ہے،‏ وہ خدا پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتا ہے اور جھوٹی باتوں کا یقین کرنے لگتا ہے۔‏ زیادہ‌تر اسرائیلی سوچنے لگے کہ اُنہیں اُس ملک میں نہیں جانا چاہئے جس میں جانے کا حکم یہوواہ خدا نے دیا تھا۔‏ یشوع اور کالب نے اِس مشکل صورتحال میں کیا کِیا؟‏—‏گن ۱۳:‏۲۵-‏۳۳‏۔‏

۵ اُنہوں نے ’‏بِھیڑ کی پیروی نہیں کی۔‏‘‏ اِن دونوں نے بنی‌اسرائیل کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ اُس ملک میں داخل ہوں جس کا وعدہ یہوواہ خدا نے کِیا ہے۔‏ لیکن بنی‌اسرائیل کو یشوع اور کالب کی باتیں بہت بُری لگیں اور وہ اُن کو قتل کرنا چاہتے تھے۔‏ پھر بھی یشوع اور کالب نے بڑی دلیری سے وہی کِیا جو یہوواہ خدا کو پسند تھا۔‏ وہ اِس لئے اِتنے دلیر تھے کیونکہ وہ یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏ جو شخص یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتا ہے،‏ وہ دوسروں کی جھوٹی باتوں کا یقین کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کا یقین کرتا ہے۔‏ اِس کے بہت سال بعد بھی یشوع اور کالب نے سب لوگوں کو بتایا کہ یہوواہ خدا ہمیشہ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا پر اُن کا ایمان ڈانواڈول نہیں ہوا تھا۔‏ ‏(‏یشوع ۱۴:‏۶،‏ ۸؛‏ ۲۳:‏۲،‏ ۱۴ کو پڑھیں۔‏)‏ یشوع اور کالب یہوواہ خدا سے محبت کرتے تھے اور اُس پر بھروسا رکھتے تھے۔‏ وہ لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے تھے جس سے یہوواہ خدا کو دُکھ ہو۔‏ اِس لئے اُنہوں نے ’‏بِھیڑ کی پیروی نہیں کی۔‏‘‏ وہ ہم سب کے لئے ایک عمدہ مثال ہیں۔‏—‏گن ۱۴:‏۱-‏۱۰‏۔‏

۶.‏ ہم کن معاملوں میں بِھیڑ کی پیروی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟‏

۶ کیا کبھی‌کبھار آپ کا بھی دل چاہتا ہے کہ آپ ”‏بِھیڑ کی پیروی“‏ کریں؟‏ یہوواہ خدا نے اچھے اور بُرے کے سلسلے میں معیار قائم کئے ہیں۔‏ لیکن زیادہ‌تر لوگ یہوواہ خدا کا احترام نہیں کرتے اور اِن معیاروں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔‏ وہ اپنی من‌مانی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی اُن کی باتوں کا یقین کریں۔‏ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ ایسے ٹی‌وی پروگرام اور فلمیں دیکھنے اور ویڈیو گیمز کھیلنے میں کوئی حرج نہیں جن میں بےحیائی،‏ ظلم‌وتشدد اور جادوٹونا دکھایا جاتا ہے۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏)‏ آپ اِس بات کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں کہ کونسی تفریح آپ اور آپ کے گھر والوں کے لئے مناسب ہے؟‏ کیا آپ ایک تفریح کو محض اِس لئے اچھا خیال کرتے ہیں کیونکہ لوگ اِسے اچھا سمجھتے ہیں؟‏ اگر آپ لوگوں کی باتوں میں آکر کوئی فیصلہ کریں گے تو آپ بِھیڑ کی پیروی کر رہے ہوں گے۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏الف)‏ ہم ”‏نیک‌وبد میں امتیاز“‏ کرنے کی صلاحیت کو تیز کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں یہ توقع کیوں نہیں کرنی چاہئے کہ لوگ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ (‏ج)‏ ہمارے نوجوان کونسی اچھی مثال قائم کر رہے ہیں؟‏

۷ یہوواہ خدا نے ہمیں ”‏نیک‌وبد میں امتیاز“‏ کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔‏ اِس صلاحیت کی بِنا پر ہم ایک معاملے کے بارے میں سوچ‌بچار کر سکتے ہیں اور پھر کوئی نہ کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ہم اِس صلاحیت کو جس حد تک کام میں لائیں گے،‏ اِسی حد تک یہ تیز ہوتی جائے گی۔‏ (‏عبر ۵:‏۱۴‏)‏ کیا ہم وہی کرتے ہیں جو لوگ کرتے ہیں؟‏ کیا ہم اکثر چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ اگر ایسا ہے تو ہم نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کو تیز نہیں کر رہے ہوں گے۔‏ بہت سے معاملوں میں ہمیں اپنے ضمیر کو کام میں لانا پڑتا ہے اور خود یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آیا ایک کام صحیح ہے یا غلط۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ کے خادموں کو اِس بات کی توقع نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی اُن کو ایسی فلموں،‏ کتابوں اور انٹرنیٹ سائٹس کی فہرست دے جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہیں۔‏ اِس طرح تو ہمیں جلد ہی نئی فہرست کی ضرورت پڑے گی کیونکہ آئے دن نئی‌نئی فلمیں اور سائٹس بنتی ہیں اور کتابیں شائع ہوتی ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۷:‏۳۱‏)‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کو استعمال کریں۔‏ اِس لئے ہم لوگوں سے توقع نہیں کرتے کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے بلکہ ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ کسی بھی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے ہم دیکھیں کہ اُس کے کلام میں اِس کے بارے میں کیا لکھا ہے،‏ پھر اُس کی رہنمائی کے لئے دُعا کریں اور اِس کے بعد ایسا فیصلہ کریں جو اُسے پسند ہے۔‏—‏افس ۵:‏۱۰‏۔‏

۸ جب ہم بائبل کے مطابق کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو لوگوں کو اکثر بُرا لگتا ہے۔‏ مثال کے طور پر سکول میں ہمارے نوجوانوں کو بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ دوسرے نوجوان سارا وقت اُن پر یہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اُن جیسے کام کریں۔‏ (‏۱-‏پطر ۴:‏۴‏)‏ لیکن ہمارے بہت سے نوجوان بِھیڑ کی پیروی نہیں کرتے۔‏ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ آج بھی ہر عمر کے مسیحی خدا پر اُتنا ہی مضبوط ایمان رکھتے ہیں جتنا کہ یشوع اور کالب رکھتے تھے۔‏

‏’‏اپنے دل اور آنکھوں کی پیروی نہ کریں‘‏

۹.‏ (‏الف)‏ سفر کرتے وقت ہمیں ہر اُس راستے پر کیوں نہیں چل دینا چاہئے جو ہمیں اچھا لگتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو گنتی ۱۵:‏۳۷-‏۳۹ میں درج حکم کیوں دیا؟‏

۹ آئیں،‏ اب دوسری چیز پر بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم سیدھی راہ سے بھٹکنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ اِس کا تعلق ہماری خواہشوں سے ہے۔‏ فرض کریں کہ کسی جگہ پر سفر کرنے کے لئے آپ اپنے دوست کو ساتھ لے جاتے ہیں کیونکہ اُس کو وہاں کا راستہ پتہ ہے۔‏ لیکن اگر آپ اُس کی بات نہیں سنیں گے اور ہر اُس راستے پر چل دیں گے جو آپ کو اچھا لگتا ہے تو کیا آپ اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اِس مثال کو ذہن میں رکھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے ایک اَور قانون کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو کونسا اصول سکھانا چاہتا تھا۔‏ ‏(‏گنتی ۱۵:‏۳۷-‏۳۹ کو پڑھیں۔‏)‏ آج‌کل بہت سے لوگ نہیں سمجھتے کہ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو یہ حکم کیوں دیا تھا کہ وہ اپنے کُرتوں کے کناروں پر جھالر لگائیں اور ہر جھالر کے اُوپر آسمانی رنگ کا ڈورا ٹانکیں۔‏ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے یہ حکم کیوں دیا تھا؟‏ اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بنی‌اسرائیل اپنے اِردگِرد کی قوموں کے لوگوں سے مختلف نظر آئیں۔‏ اگر بنی‌اسرائیل یہوواہ خدا کو خوش کرنا چاہتے تھے تو اُن کے لئے ضروری تھا کہ وہ خدا کے حکموں پر عمل کریں اور دوسری قوموں سے مختلف ہوں۔‏ (‏احبا ۱۸:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ لیکن یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو یہ حکم ایک اَور وجہ سے بھی دیا تھا۔‏ آئیں،‏ اِس پر غور کریں کیونکہ اِس کا تعلق اُس دوسری چیز سے ہے جس کی وجہ سے ہم سیدھی راہ سے بھٹک سکتے ہیں۔‏

۱۰.‏ یہوواہ خدا نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ انسانوں کے دل کو اچھی طرح جانتا ہے؟‏

۱۰ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو یہ حکم اِس لئے بھی دیا تاکہ ’‏وہ اپنے دل اور آنکھوں کی خواہشوں کی پیروی میں زِناکاری نہ کرتے پھریں جیسا کہ وہ کرتے آئے تھے۔‏‘‏ یہوواہ خدا انسانوں کے دل کو اچھی طرح جانتا ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ ہمارا دل کتنی آسانی سے اُن چیزوں کی خواہش کرنے لگتا ہے جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‏ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارا دل دھوکےباز ہے اور ہمیں غلط کام کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ اِس لئے وہ ہمیں یہ آگاہی دیتا ہے:‏ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟‏“‏ (‏یرم ۱۷:‏۹‏)‏ اور اِسی وجہ سے یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ اپنے دل اور آنکھوں کی پیروی نہ کریں۔‏ یہوواہ خدا کو معلوم تھا کہ بنی‌اسرائیل کے دل میں اپنے اِردگِرد کی قوموں کے لوگوں کی طرح بننے کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے۔‏ شاید وہ اُن کے لباس کے انداز کو اپنانا چاہیں اور پھر اُن کی سوچ اپنانے لگیں اور اُن جیسے کام بھی کرنے لگیں۔‏—‏امثا ۱۳:‏۲۰‏۔‏

۱۱.‏ ہم کس معاملے میں اپنے دل اور آنکھوں کی پیروی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہمارا دل بھی دھوکےباز ہے اور اُن چیزوں کی خواہش کرتا ہے جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‏ اِس دور میں غلط خواہشوں کو پورا کرنا اَور بھی آسان ہو گیا ہے۔‏ ہم کن معاملوں میں گنتی ۱۵:‏۳۹ میں پائے جانے والے اصول پر عمل کر سکتے ہیں؟‏ ہم لباس کے معاملے میں اپنے دل اور آنکھوں کی پیروی کرنے کے خطرے میں ہو سکتے ہیں۔‏ بہت سے لوگ اپنے لباس کے انداز سے دوسروں کے دل میں غلط خواہشیں اُبھارنا چاہتے ہیں۔‏ ہم دیکھتے ہیں کہ سکول میں،‏ ملازمت کی جگہ پر اور آس‌پڑوس میں اکثر لوگ حیادار کپڑے نہیں پہنتے۔‏ چونکہ ہم ہر وقت لوگوں کو ایسے لباس میں دیکھتے ہیں اِس لئے ہمارے دل میں بھی اُن جیسا نظر آنے کی خواہش بڑھ سکتی ہے۔‏ پھر شاید ہم اُن کے لباس کے انداز کو اپنانے لگیں اور ایسے کپڑے پہننے لگیں جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہوں۔‏—‏روم ۱۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏الف)‏ ہم اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کے سلسلے میں ایوب اور بادشاہ داؤد کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب ہم اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہماری وجہ سے دوسروں کے دل میں غلط خواہشیں نہ اُبھریں تو اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

۱۲ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھیں۔‏ ہمیں اپنی آنکھوں کو بُری چیزوں پر نظر کرنے سے باز رکھنا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں ایوب نے اچھی مثال قائم کی۔‏ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے عہد کِیا تھا کہ وہ کسی عورت کو بُری نیت سے نہیں دیکھیں گے۔‏ (‏ایو ۳۱:‏۱‏)‏ بادشاہ داؤد نے بھی کچھ ایسا ہی عزم کِیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں کسی خباثت کو مدِنظر نہیں رکھوں گا۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۱:‏۳‏)‏ ہمیں بھی یہ ٹھان لینا چاہئے کہ ہم کسی ”‏خباثت“‏ پر نظر نہیں ڈالیں گے۔‏ خباثت سے مُراد ہر وہ چیز ہے جو ہمیں یہوواہ خدا کی قربت سے محروم کر سکتی ہے۔‏ اِس میں ایسی چیزیں شامل ہیں جو ہمارے دل میں غلط خواہشیں پیدا کرتی ہیں اور ہمیں بُرائی کرنے پر اُکساتی ہیں۔‏

۱۳ اگر ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس سے دوسروں کے دل میں غلط خواہشیں اُبھرتی ہیں تو ہم اُن کے لئے ”‏خباثت“‏ بن جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ہمارے لباس کے انداز سے دوسروں کے دل میں بُری خواہشیں اُبھرتی ہیں تو ہم اُن کے لئے خباثت بن جاتے ہیں۔‏ اِس لئے ہمیں بائبل کی ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ مسیحیوں کو ”‏حیادار لباس“‏ پہننا چاہئے اور ’‏شرم کے ساتھ اپنے آپ کو سنوارنا چاہئے۔‏‘‏ (‏۱-‏تیم ۲:‏۹‏)‏ جب ہم اپنے آپ کو شرم سے سنوارتے ہیں تو ہم اپنی پسند کرنے کی بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھتے ہیں۔‏ ہم اپنی خوشی کرنے کی خاطر دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہیں بنتے۔‏ (‏روم ۱۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہماری کلیسیاؤں میں بہت سے جوان لوگ لباس کے سلسلے میں اچھی مثال قائم کر رہے ہیں۔‏ ہمیں اِس بات پر فخر ہے کہ وہ اپنے دل اور آنکھوں کی پیروی کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏

‏’‏باطل چیزوں کی پیروی نہ کریں‘‏

۱۴.‏ سموئیل نبی نے بنی‌اسرائیل کو ”‏باطل چیزوں“‏ کے سلسلے میں کونسی آگاہی دی؟‏

۱۴ فرض کریں کہ آپ کو سفر کے دوران ایک بڑے ریگستان سے گزرنا پڑے۔‏ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ آگے پانی ہے۔‏ لیکن اصل میں وہاں پانی نہیں ہے۔‏ اگر آپ اِس پانی تک پہنچنے کے لئے سڑک کو چھوڑ دیں گے تو کیا ہو سکتا ہے؟‏ شاید آپ راستہ بھول جائیں اور دھوپ اور پیاس کے مارے مر جائیں۔‏ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ باطل چیزوں پر بھروسا رکھنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔‏ یہ ایسی چیزیں ہیں جو دیکھنے میں تو فائدہ‌مند نظر آتی ہیں لیکن مصیبت میں بچا نہیں سکتیں۔‏ ایک موقعے پر یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو اِس خطرے سے آگاہ کِیا۔‏ بنی‌اسرائیل نے دیکھا کہ اُن کے اِردگِرد کی قوموں کے بادشاہ ہیں۔‏ اِس لئے وہ بھی کسی انسان کو اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔‏ یہ ایک سنگین گُناہ تھا کیونکہ وہ یہوواہ خدا کو اپنے بادشاہ کے طور پر رد کر رہے تھے۔‏ یہوواہ خدا نے اِس کی اجازت تو دے دی کہ اُن پر ایک انسان بادشاہی کرے۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ اُس نے اپنے نبی سموئیل کے ذریعے اُنہیں ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کرنے کے خطروں سے بھی آگاہ کِیا۔‏‏—‏۱-‏سموئیل ۱۲:‏۲۱ کو پڑھیں۔‏

۱۵.‏ بنی‌اسرائیل کن ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کرنے لگے؟‏

۱۵ شاید بنی‌اسرائیل نے سوچا کہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا اِتنا فائدہ‌مند نہیں جتنا کہ انسانی بادشاہ پر بھروسا کرنا ہے۔‏ اگر اُنہوں نے یہ سوچا تھا تو وہ شیطان کے دھوکے میں آکر ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کر رہے تھے۔‏ چونکہ بنی‌اسرائیل ایک باطل چیز پر بھروسا کرنے لگے تھے اِس لئے اُن کے لئے دوسری باطل چیزوں پر بھروسا کرنا آسان ہو گیا تھا۔‏ مثال کے طور پر انسانی بادشاہ اُنہیں بُتوں کی پوجا کرنے پر اُکسا سکتا تھا۔‏ لوگ اِس لئے لکڑی اور پتھر کے خدا پر بھروسا کرتے ہیں کیونکہ وہ اُن کو دیکھ اور چُھو سکتے ہیں۔‏ ایسے لوگ کائنات کے خالق،‏ یہوواہ خدا پر بھروسا نہیں کرتے کیونکہ وہ اُسے دیکھ نہیں سکتے۔‏ لیکن پولس رسول نے کہا کہ بُت ”‏کوئی چیز نہیں“‏ ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۸:‏۴‏)‏ بُت نہ تو دیکھ سکتے ہیں،‏ نہ سُن سکتے ہیں،‏ نہ بول سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اَور کام کر سکتے ہیں۔‏ لہٰذا محض اِس لئے اُن پر بھروسا کرنا کیونکہ ہم اُن کو دیکھ اور چُھو سکتے ہیں،‏ بہت بڑی بےوقوفی ہے۔‏ بُت کسی کی مدد نہیں کر سکتے۔‏ وہ باطل ہیں اور جو لوگ اُن پر بھروسا کرتے ہیں وہ ”‏اُن ہی کی مانند ہو جائیں گے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۵:‏۴-‏۸‏۔‏

۱۶.‏ (‏الف)‏ شیطان لوگوں کو ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کرنے پر کیسے اُکساتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پیسوں اور آسائشوں جیسی ”‏باطل چیزوں“‏ پر بھروسا کرنا کیوں بےفائدہ ہے؟‏ (‏ج)‏ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا فائدہ‌مند کیوں ہے؟‏

۱۶ شیطان بڑا چالاک ہے۔‏ وہ آج بھی لوگوں کو ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ اگر اُن کے پاس پیسہ،‏ اچھی ملازمت اور زندگی کی آسائشیں موجود ہیں تو وہ خوش رہیں گے اور اُن کا مستقبل روشن ہوگا۔‏ لوگوں کا خیال ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے اُن کی ہر مشکل حل ہو جائے گی۔‏ لیکن ذرا اِن سوالوں پر غور کریں:‏ جب لوگ بیمار ہوتے ہیں،‏ کوئی قدرتی آفت آتی ہے یا ملک معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے تو کیا یہ چیزیں اُن کی ہر مشکل کو حل کر سکتی ہیں؟‏ جب لوگوں کو لگتا ہے کہ اُن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے تو کیا اِن چیزوں سے اُن کو آرام ملتا ہے؟‏ کیا اِن چیزوں کو حاصل کرنے سے لوگوں کو زندگی کے اہم سوالوں کے جواب ملیں گے؟‏ جب اُن کے سر پر موت کھڑی ہو تو کیا یہ چیزیں اُنہیں بچا سکتی ہیں؟‏ اگر ہم مال‌ودولت پر بھروسا کریں گے تو ہم مایوسی کا شکار ہوں گے۔‏ پیسوں اور آسائشوں سے حقیقی خوشی نہیں ملتی اور یہ بیماری اور موت سے بچا نہیں سکتیں۔‏ یہ ’‏باطل چیزیں‘‏ ہیں۔‏ (‏امثا ۲۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ لیکن یہوواہ،‏ سچا خدا ہے اور وہ ہمیں ہر مصیبت سے بچا سکتا ہے۔‏ جو لوگ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں،‏ وہ مایوس نہیں ہوتے۔‏ یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے سے ہی ہمیں حقیقی خوشی ملتی ہے اور ہمارا مستقبل روشن ہوگا۔‏ یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا کے دوست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔‏ ہم کبھی اُس کو چھوڑ کر ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ نہیں کرنا چاہتے۔‏

۱۷.‏ اِس مضمون میں ہم نے جن تین چیزوں پر بات کی ہے،‏ اِن کے سلسلے میں آپ نے کیا عزم کِیا ہے؟‏

۱۷ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا ہمارا دوست ہے اور وہ اُس سفر پر ہماری رہنمائی کر رہا ہے جس کی منزل ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏ یہوواہ خدا ہمیں خطروں سے آگاہ کرتا ہے۔‏ اگر ہم اُس کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم نے دیکھا کہ بِھیڑ کی پیروی کرنا،‏ دل اور آنکھوں کی پیروی کرنا اور ”‏باطل چیزوں“‏ کی پیروی کرنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ خدا نے ہمیں مزید تین چیزوں سے آگاہ کِیا ہے جن کی وجہ سے ہم سیدھی راہ سے بھٹکنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ اُس کی رہنمائی پر عمل کرنے سے ہم ’‏ہر جھوٹی راہ سے نفرت کریں گے‘‏ اور اِس سے باز رہیں گے۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۲۸‏۔‏

آپ کا کیا خیال ہے؟‏

آپ اِن صحیفوں میں درج اصولوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

‏• خروج ۲۳:‏۲

‏• گنتی ۱۵:‏۳۷-‏۳۹

‏• ۱-‏سموئیل ۱۲:‏۲۱

‏• زبور ۱۱۹:‏۱۲۸

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

کیا کبھی‌کبھار آپ کا دل ”‏بِھیڑ کی پیروی“‏ کرنے کو چاہتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

اپنے دل اور آنکھوں کی پیروی کرنا خطرناک کیوں ہوتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

کیا آپ ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کر رہے ہیں؟‏