مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپس میں امن سے رہیں اور خدا کے ساتھ صلح رکھیں

آپس میں امن سے رہیں اور خدا کے ساتھ صلح رکھیں

آپس میں امن سے رہیں اور خدا کے ساتھ صلح رکھیں

‏”‏آؤ ہم اِن باتوں کی جستجو میں رہیں جو امن .‏ .‏ .‏ کا باعث ہوتی ہیں۔‏“‏—‏روم ۱۴:‏۱۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ کے گواہوں میں امن‌واتحاد کیوں پایا جاتا ہے؟‏

آج‌کل لوگوں میں حقیقی امن‌واتحاد نہیں ہے یہاں تک کہ جو لوگ ایک ہی ملک میں رہتے ہیں اور ایک ہی زبان بولتے ہیں،‏ وہ بھی آپس میں امن سے نہیں رہتے۔‏ لوگ سیاسی نظریات اور مذہب کی وجہ سے،‏ امیر اور غریب ہونے کی وجہ سے یا پھر پڑھے لکھے یا اَن‌پڑھ ہونے کی وجہ سے بٹے ہوئے ہیں۔‏ اِس کے برعکس یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے کے ساتھ امن‌واتحاد سے رہتے ہیں حالانکہ وہ مختلف ’‏قوموں اور قبیلوں اور اُمتوں اور زبانوں‘‏ سے تعلق رکھتے ہیں۔‏—‏مکا ۷:‏۹‏۔‏

۲ یہوواہ کے گواہوں میں مختلف وجوہات کی بِنا پر امن‌واتحاد پایا جاتا ہے۔‏ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ ’‏خدا کے ساتھ صلح رکھتے ہیں۔‏‘‏ ہمیں اِس لئے خدا کی دوستی حاصل ہے کیونکہ ہم یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں جنہوں نے ہماری خاطر اپنی جان قربان کی۔‏ (‏روم ۵:‏۱؛‏ افس ۱:‏۷‏)‏ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو پاک روح عطا کرتا ہے۔‏ روح کے پھل کا ایک پہلو اطمینان ہے۔‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ اطمینان کِیا گیا ہے،‏ اِس کا مطلب امن‌واتحاد بھی ہے۔‏ لہٰذا پاک روح کے اثر کی وجہ سے خدا کے خادموں میں امن‌واتحاد ہے۔‏ (‏گل ۵:‏۲۲‏)‏ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم ”‏دُنیا کے نہیں“‏ ہیں۔‏ (‏یوح ۱۵:‏۱۹‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم نہ تو سیاسی معاملوں میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی جنگوں میں۔‏ جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے،‏ خدا کے خادم ’‏اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں بنا لیتے ہیں۔‏‘‏—‏یسع ۲:‏۴‏۔‏

۳.‏ (‏الف)‏ جب ہم کہتے ہیں کہ کلیسیا میں امن‌واتحاد ہے تو اِس کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کس موضوع پر بات کریں گے؟‏

۳ یہوواہ کے گواہ مختلف علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ’‏ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔‏‘‏ (‏یوح ۱۵:‏۱۷‏)‏ اِس کے نتیجے میں عموماً اُن کی کلیسیاؤں میں امن‌واتحاد ہوتا ہے۔‏ مگر جب ہم کہتے ہیں کہ کلیسیا میں امن‌واتحاد ہے تو اِس کا کیا مطلب ہے؟‏ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کلیسیا کے بہن‌بھائی ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ ’‏سب کے ساتھ نیکی کرتے ہیں خاص کر اہلِ‌ایمان کے ساتھ۔‏‘‏ (‏گل ۶:‏۱۰‏)‏ ہمیں یہوواہ خدا کی دوستی اور کلیسیا کا اتحاد بڑا عزیز ہے اور ہم اِس دوستی اور اتحاد کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم کلیسیا میں امن‌واتحاد برقرار رکھنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ اِس موضوع پر بات کرتے ہیں۔‏

‏’‏ہم سب اکثر خطا کرتے ہیں‘‏

۴.‏ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے کسی کو ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۴ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔‏ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔‏“‏ (‏یعقو ۳:‏۲‏)‏ کبھی‌کبھار کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے یا پھر کسی معاملے کے بارے میں نااتفاقی پیدا ہو جاتی ہے۔‏ (‏فل ۴:‏۲،‏ ۳‏)‏ لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو اُنہیں مسئلے کو فوراً حل کر لینا چاہئے تاکہ کلیسیا میں امن‌واتحاد برقرار رہے۔‏ مثال کے طور پر اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے کسی کو ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں یسوع مسیح کی اُس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے جو متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴ میں لکھی ہے۔‏ برائےمہربانی اِن آیات کو پڑھیں۔‏

۵.‏ اگر کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ کلیسیا میں امن‌واتحاد برقرار رہے؟‏

۵ فرض کریں کہ کسی نے آپ کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‏ کیا ہمیں یہ توقع کرنی چاہئے کہ وہ شخص ہمارے پاس آکر ہم سے معافی مانگے؟‏ پہلا پطرس ۴:‏۸ میں لکھا ہے کہ ”‏محبت بہت سے گُناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔‏“‏ اگر کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہمیں اُس کا قصور معاف کر دینا چاہئے اور اُس کی غلطی کو بھول جانا چاہئے۔‏ اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہم صلح‌پسند ہیں۔‏ ‏(‏کلسیوں ۳:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ یہی چھوٹےموٹے مسئلوں کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔‏ یوں کلیسیا میں امن‌واتحاد برقرار رہے گا اور ہمارے دل کو اطمینان حاصل ہوگا کیونکہ ہم نے وہ کام کِیا ہے جو یہوواہ خدا کی نظر میں اچھا ہے۔‏ امثال ۱۹:‏۱۱ میں لکھا ہے کہ ”‏خطا سے درگذر کرنے میں [‏آدمی]‏ کی شان ہے۔‏“‏

۶.‏ اگر کسی نے آپ کو ٹھیس پہنچائی ہے اور آپ اِس بات کو بُھلا نہیں پا رہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

۶ فرض کریں کہ ایک بھائی نے آپ کو ٹھیس پہنچائی ہے اور آپ اِس بات کو بُھلا نہیں پا رہے۔‏ ایسی صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہئے؟‏ دوسروں کے ساتھ اِس معاملے کے بارے میں بات نہ کریں۔‏ یہ اُس بھائی کے پیٹھ پیچھے بُرائی کرنے کے برابر ہوگا اور اِس سے کلیسیا کا اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‏ تو پھر آپ مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ متی ۱۸:‏۱۵ میں یہ ہدایت دی گئی ہے:‏ ”‏اگر تیرا بھائی تیرا گُناہ کرے تو جا اور خلوت میں بات‌چیت کرکے اُسے سمجھا۔‏ اگر وہ تیری سنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔‏“‏ اگرچہ متی ۱۸:‏۱۵-‏۱۷ میں جو ہدایت دی گئی ہے،‏ وہ سنگین گُناہوں کو حل کرنے کے سلسلے میں ہے تو بھی پندرھویں آیت میں پایا جانے والا اصول دوسرے معاملوں پر بھی لاگو کِیا جا سکتا ہے۔‏ لہٰذا اگر ایک بھائی یا بہن نے ہمیں ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں اِس معاملے کے بارے میں اُس سے تنہائی میں بات کرنی چاہئے۔‏ ہمیں اُس سے نرمی سے بات کرنی چاہئے اور اُس کے ساتھ صلح کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔‏ *

۷.‏ ہمیں آپس کی نااتفاقیوں کو جلدازجلد کیوں حل کر لینا چاہئے؟‏

۷ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏غصہ تو کرو مگر گُناہ نہ کرو۔‏ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اور یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏جب تک تُو اپنے مُدعی کے ساتھ راہ میں ہے اُس سے جلد صلح کر لے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۵‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کسی بہن یا بھائی سے ہماری نااتفاقی ہو جاتی ہے تو ہمیں جلدازجلد اِسے حل کر لینا چاہئے۔‏ اگر ہم مسئلے کو جلد حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو معاملہ مزید بگڑ جائے گا بالکل جیسے زخم کا فوراً علاج نہ کرانے سے یہ ناسور بن جاتا ہے۔‏ ہمیں پیسے کے لالچ،‏ غرور یا حسد کو اپنے بھائی سے صلح کرنے کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔‏—‏یعقو ۴:‏۱-‏۶‏۔‏

اگر کلیسیا کسی معاملے کے سلسلے میں بٹی ہو

۸،‏ ۹.‏ (‏الف)‏ روم کی کلیسیا میں کونسا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول نے روم کے مسیحیوں کی اصلاح کیسے کی؟‏

۸ کبھی‌کبھار کلیسیا میں کوئی ایسا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بہن‌بھائی گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔‏ کچھ ایسی ہی صورتحال روم کی کلیسیا میں پیدا ہو گئی تھی۔‏ اُس کلیسیا میں بعض مسیحی موسیٰ کی شریعت کے کئی حکموں پر عمل کر رہے تھے۔‏ اِس کے برعکس دوسرے مسیحیوں کا خیال تھا کہ اب اُنہیں موسیٰ کی شریعت کی پابندی کرنے کی ضرورت نہیں۔‏ جو مسیحی شریعت کی پابندی نہیں کر رہے تھے،‏ وہ اُن بہن‌بھائیوں کو حقیر خیال کرتے تھے جو شریعت کے کچھ حکموں پر عمل کر رہے تھے اور شریعت پر عمل کرنے والے مسیحی اُن بہن‌بھائیوں کی تنقید کر رہے تھے جو شریعت کی پابندی نہیں کر رہے تھے۔‏ دراصل یہ تمام مسیحی ایسے معاملوں پر بحث کر رہے تھے جن کے بارے میں ہر ایک کو اپنے ضمیر کے مطابق خود فیصلہ کرنے کا حق تھا۔‏ پولس رسول نے اِن مسیحیوں کو کونسی ہدایت دی؟‏—‏روم ۱۴:‏۱-‏۶‏۔‏

۹ پولس رسول نے دونوں گروہوں کے مسیحیوں کی اصلاح کی۔‏ جن مسیحیوں کا خیال تھا کہ اُنہیں موسیٰ کی شریعت کی پابندی کرنے کی ضرورت نہیں،‏ پولس رسول نے اُن سے کہا کہ وہ اپنے بہن‌بھائیوں کو حقیر نہ جانیں۔‏ (‏روم ۱۴:‏۲،‏ ۱۰‏)‏ شریعت پر عمل کرنے والے بہن‌بھائیوں کو ایسی چیزیں کھانے سے گھن آتی تھی جن سے شریعت میں منع کِیا گیا تھا۔‏ لہٰذا جو مسیحی شریعت کی پابندی نہیں کر رہے تھے،‏ پولس رسول نے اُن کو سمجھایا کہ اگر وہ اپنے بہن‌بھائیوں کو حقیر جانیں گے تو وہ اُن کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے اِن مسیحیوں کو تاکید کی کہ ”‏کھانے کی خاطر خدا کے کام کو نہ بگاڑ“‏ اور پھر اُنہوں نے کہا کہ ”‏یہی اچھا ہے کہ تُو نہ گوشت کھائے۔‏ نہ مے پئے۔‏ نہ اَور کچھ ایسا کرے جس کے سبب سے تیرا بھائی ٹھوکر کھائے۔‏“‏ (‏روم ۱۴:‏۱۴،‏ ۱۵،‏ ۲۰،‏ ۲۱‏)‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ پولس رسول نے شریعت پر عمل کرنے والے بہن‌بھائیوں سے کہا کہ وہ اُن مسیحیوں کی تنقید نہ کریں جن کی سوچ اُن سے فرق ہے۔‏ (‏روم ۱۴:‏۱۳‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے۔‏“‏ (‏روم ۱۲:‏۳‏)‏ دونوں گروہوں کی اصلاح کرنے کے بعد اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏آؤ ہم اِن باتوں کی جستجو میں رہیں جو امن اور باہمی ترقی کا باعث ہوتی ہیں۔‏“‏—‏روم ۱۴:‏۱۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۱۰.‏ اگر کلیسیا میں بہن‌بھائی کسی مسئلے کی وجہ سے گروہوں میں بٹے ہوں تو روم کے مسیحیوں کی طرح اُن کو کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۰ یقیناً روم کے مسیحیوں نے پولس رسول کی ہدایت پر عمل کِیا ہوگا اور اپنی سوچ بدل لی ہوگی۔‏ اِسی طرح اگر کسی بہن یا بھائی سے ہمارا اختلاف ہو جائے تو ہم بھی اُن سے صلح کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم بائبل میں دی گئی ہدایتوں پر عمل کریں۔‏ اگر کلیسیا میں بہن‌بھائی کسی مسئلے کی وجہ سے گروہوں میں بٹے ہوں تو اُن کو اپنی سوچ بدلنی چاہئے اور ’‏ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ سے رہنا‘‏ چاہئے یعنی دوستی اور محبت سے رہنا چاہئے۔‏—‏مر ۹:‏۵۰‏۔‏

کلیسیا کے بزرگوں کو کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۱.‏ اگر ایک بھائی کی کسی مسیحی سے اَن‌بن ہو گئی ہے اور وہ کلیسیا کے کسی بزرگ کے پاس جاتا ہے تو اُس بزرگ کو کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۱ فرض کریں کہ ایک بھائی کی اپنے کسی رشتہ‌دار یا کلیسیا کے کسی فرد سے اَن‌بن ہو گئی ہے اور وہ مشورہ لینے کے لئے کلیسیا کے کسی بزرگ کے پاس جاتا ہے۔‏ اِس صورتحال میں بزرگ کو کیا کرنا چاہئے؟‏ امثال ۲۱:‏۱۳ میں لکھا ہے:‏ ”‏جو مسکین کا نالہ سُن کر اپنے کان بند کر لیتا ہے وہ آپ بھی نالہ کرے گا اور کوئی نہ سنے گا۔‏“‏ اگر بزرگ اُس بھائی کی بات کو نہیں سنے گا تو وہ ’‏مسکین کا نالہ سننے سے اپنے کان بند کر رہا ہوگا۔‏‘‏ لیکن اُس بزرگ کو بائبل کی یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ”‏جو پہلے اپنا دعویٰ بیان کرتا ہے راست معلوم ہوتا ہے پر دوسرا آکر اُس کی حقیقت ظاہر کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۸:‏۱۷‏)‏ لہٰذا وہ بزرگ بڑے آرام سے اُس بھائی کی بات کو سنے گا۔‏ لیکن کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے وہ معاملے کی تفصیل کو جاننے کی کوشش کرے گا۔‏ اُس بھائی کی بات سننے کے بعد بزرگ اُس سے پوچھ سکتا ہے کہ ”‏کیا آپ نے اُس شخص سے بات کر لی ہے جس سے آپ کو اختلاف ہے؟‏“‏ بزرگ اُس بھائی کے ساتھ بائبل کے اُن صحیفوں پر بھی بات کر سکتا ہے جن میں صلح کرنے کے سلسلے میں ہدایت دی گئی ہے۔‏

۱۲.‏ بائبل میں کن تین واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملے کی تفصیل جاننے سے پہلے کارروائی کرنا نقصان‌دہ ہوتا ہے؟‏

۱۲ کسی بھی مسئلے کے بارے میں صرف ایک ہی فریق کی بات سننا اور پھر فوراً کارروائی کرنا،‏ نقصان‌دہ ہو سکتا ہے۔‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں بائبل میں درج تین واقعات پر غور کریں۔‏ پہلا واقعہ فوطیفار کا ہے۔‏ اُن کی بیوی نے اُن سے جھوٹ بولا کہ ”‏یوسف نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے۔‏“‏ فوطیفار نے اپنی بیوی کی بات کا یقین کر لیا اور یوسف کو قیدخانے میں ڈلوا دیا۔‏ (‏پید ۳۹:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ دوسرا واقعہ بادشاہ داؤد کا ہے۔‏ مفیبوست کے خادم ضیبا نے بادشاہ داؤد کو بتایا کہ ”‏مفیبوست آپ کے دُشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔‏“‏ بادشاہ داؤد نے ضیبا کی بات کا یقین کر لیا اور فوراً یہ فیصلہ سنایا کہ ”‏دیکھ!‏ جو کچھ مفیبوؔست کا ہے وہ سب تیرا ہو گیا۔‏“‏ (‏۲-‏سمو ۱۶:‏۴؛‏ ۱۹:‏۲۵-‏۲۷‏)‏ تیسرا واقعہ بادشاہ ارتخششتا کا ہے۔‏ یہودیوں کے دُشمنوں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ ”‏یہودی اِس لئے یروشلیم کو دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں تاکہ وہ آپ کے خلاف بغاوت کر سکیں۔‏“‏ بادشاہ اُن کی باتوں میں آ گئے اور اُنہوں نے حکم دیا کہ ”‏یروشلیم میں ہر طرح کا تعمیری کام روک دیا جائے۔‏“‏ یوں ہیکل کی تعمیر کا کام بھی رُک گیا۔‏ (‏عز ۴:‏۱۱-‏۱۳،‏ ۲۳،‏ ۲۴‏)‏ پولس رسول نے تیمتھیس سے کہا کہ کسی معاملے کے سلسلے میں کارروائی کرنے سے پہلے تمام حقائق کو جان لیں۔‏ آج بھی کلیسیا کے بزرگوں کو پولس رسول کی اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔‏‏—‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۲۱ کو پڑھیں۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏الف)‏ جب دو مسیحیوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ جب مسیحیوں میں اختلافات ہوتے ہیں تو کلیسیا کے بزرگوں کو صحیح فیصلہ کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۳ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏اگر کوئی گمان کرے کہ مَیں کچھ جانتا ہوں تو جیسا جاننا چاہئے ویسا اب تک نہیں جانتا۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۸:‏۲‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب دو مسیحیوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ اصل بات کیا تھی؟‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم تمام حقائق سے واقف نہیں ہیں۔‏ اور ہم اُن مسیحیوں کے پس‌منظر کے بارے میں بھی تمام باتیں نہیں جانتے جن میں جھگڑا ہوا ہے۔‏ کلیسیا کے بزرگوں کو محتاط رہنا چاہئے کہ وہ جھوٹی باتوں اور افواہوں کی بِنا پر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں۔‏ اُن کو کسی شخص کی بات پر صرف اِس لئے یقین نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ امیر ہے۔‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو انسانوں کا منصف مقرر کِیا ہے۔‏ یسوع مسیح ’‏نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق اِنصاف کرتے ہیں اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے موافق فیصلہ کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏یسع ۱۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ اِس کی بجائے وہ خدا کی پاک روح سے رہنمائی پا کر فیصلہ کرتے ہیں۔‏ کلیسیا کے بزرگوں کو بھی خدا کی پاک روح سے رہنمائی پا کر فیصلہ کرنا چاہئے۔‏ وہ یہ رہنمائی کیسے پا سکتے ہیں؟‏

۱۴ کسی مسئلے کے سلسلے میں کارروائی کرنے سے پہلے بزرگوں کو خدا سے پاک روح کی درخواست کرنی چاہئے۔‏ پھر اُنہیں بائبل اور ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی فراہم‌کردہ کتابوں اور رسالوں میں دی گئی ہدایات کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

خدا کے ساتھ صلح قائم رکھیں

۱۵.‏ اگر ایک مسیحی جانتا ہے کہ کلیسیا کے کسی فرد نے ایک سنگین گُناہ کِیا ہے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۵ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ امن سے رہنا چاہئے۔‏ لیکن اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”‏جو حکمت آسمان سے آتی ہے،‏ اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے،‏ پھر صلح‌پسند۔‏“‏ (‏یعقو ۳:‏۱۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ لہٰذا بائبل کے مطابق امن‌واتحاد کو برقرار رکھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم پاک رہیں۔‏ پاک رہنے کا مطلب ہے کہ ہم خدا کے معیاروں پر پورا اُتریں اور اپنے چال‌چلن سے اُس کو خوش کریں۔‏ اگر ایک مسیحی جانتا ہے کہ کلیسیا کے کسی فرد نے ایک سنگین گُناہ کِیا ہے تو اُسے اُس شخص کو مشورہ دینا چاہئے کہ وہ بزرگوں کے پاس جا کر اپنے گُناہوں کا اقرار کرے۔‏ (‏۱-‏کر ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ یعقو ۵:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اگر وہ شخص بزرگوں کے پاس نہیں جاتا تو پھر اُس مسیحی کو خود بزرگوں کے پاس جا کر اِس شخص کے گُناہ کے بارے میں بتانا چاہئے۔‏ اگر وہ یہ سوچ کر ایسا نہیں کرتا کہ کہیں اُس شخص سے میری دوستی ختم نہ ہو جائے تو وہ بھی اُس شخص کے گُناہ میں شریک ہو جائے گا۔‏ لہٰذا امن کی خاطر کلیسیا کی پاکیزگی کو داؤ پر نہیں لگانا چاہئے۔‏‏—‏احبار ۵:‏۱ کو پڑھیں۔‏

۱۶.‏ یاہو نے بادشاہ یورام کے سلسلے میں جو کارروائی کی،‏ اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ آئیں،‏ ایک واقعے پر غور کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ اہم ہے۔‏ خدا نے اپنے خادم یاہو کو حکم دیا کہ وہ جا کر بادشاہ اخی‌اب کے گھر والوں کو مار ڈالیں۔‏ بادشاہ اخی‌اب اور ملکہ ایزبل کے بیٹے کا نام یورام تھا۔‏ وہ بھی اپنے ماں‌باپ کی طرح بُرے تھے۔‏ جب بادشاہ یورام رتھ پر سوار ہو کر یاہو سے ملنے گئے تو اُنہوں نے یاہو سے پوچھا:‏ ”‏اَے یاؔہو خیر ہے؟‏“‏ اِس پر یاہو نے جواب دیا کہ ”‏جب تک تیری ماں اؔیزبل کی زِناکاریاں اور اُس کی جادوگریاں اِس قدر ہیں تب تک کیسی خیر؟‏“‏ * (‏۲-‏سلا ۹:‏۲۲‏)‏ پھر یاہو نے بادشاہ یورام کو تیر مار کر ہلاک کر دیا۔‏ یاہو نے بُرائی کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کی اور بزرگوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏ اگر ایک شخص نے گُناہ کِیا ہے اور وہ توبہ کرنے سے انکار کرتا ہے تو بزرگوں کو اُسے کلیسیا سے نکال دینا چاہئے۔‏ اُنہیں اُس شخص کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر اُس کے گُناہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔‏ جب بزرگ بُرائی کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرتے ہیں تو کلیسیا پاک‌صاف رہتی ہے اور خدا کے ساتھ صلح رکھتی ہے۔‏—‏۱-‏کر ۵:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۱-‏۱۳‏۔‏

۱۷.‏ ہر مسیحی کو کیا کرنا چاہئے تاکہ کلیسیا میں امن‌واتحاد قائم رہے؟‏

۱۷ عام طور پر جب ہماری کسی سے اَن‌بن ہو جاتی ہے تو یہ ایسا معاملہ نہیں ہوتا جس کے لئے بزرگوں کو کارروائی کرنی پڑے۔‏ ایسی صورتحال میں بہتر ہوگا کہ ہم اپنے بہن‌بھائیوں کے لئے محبت ظاہر کریں اور اُن کی خطاؤں کو بھول جائیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏جو خطاپوشی کرتا ہے دوستی کا جویان ہے [‏یعنی دوستی کو تلاش کرتا ہے]‏ پر جو ایسی بات کو باربار چھیڑتا ہے دوستوں میں جُدائی ڈالتا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۷:‏۹‏)‏ اگر ہم بائبل کی اِس ہدایت پر عمل کریں گے تو یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی قائم رہے گی اور کلیسیا میں امن‌واتحاد برقرار رہے گا۔‏—‏متی ۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

خدا صلح‌پسند لوگوں کو برکت دیتا ہے

۱۸،‏ ۱۹.‏ جب ہم صلح‌پسند ہوتے ہیں تو یہوواہ خدا ہمیں کن برکتوں سے نوازتا ہے؟‏

۱۸ جب ہم صلح‌پسند ہوتے ہیں تو یہوواہ خدا ہمیں برکتوں سے نوازتا ہے۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور بھی مضبوط ہو جاتی ہے اور ہم کلیسیا میں امن‌واتحاد کو فروغ دیتے ہیں۔‏ اگر ہم کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کے ساتھ امن سے رہیں گے تو ہم اُن لوگوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم رکھ سکیں گے جن کو ہم ”‏صلح کی خوشخبری“‏ سناتے ہیں۔‏ (‏افس ۶:‏۱۵‏)‏ ہم ’‏سب کے ساتھ نرمی کریں گے اور بُردبار ہوں گے‘‏ یعنی لوگوں کے ساتھ صبر سے پیش آئیں گے۔‏—‏۲-‏تیم ۲:‏۲۴‏۔‏

۱۹ جب ہم دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تو ہمیں مستقبل میں بھی بڑا فائدہ ہوگا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ یہوواہ خدا راست‌بازوں اور ناراستوں دونوں کو زندہ کرے گا۔‏ (‏اعما ۲۴:‏۱۵‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا لاکھوں لوگوں کو زندہ کرے گا۔‏ یہ لوگ مزاج اور شخصیت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔‏ اُن کا تعلق تاریخ کے مختلف دَور یہاں تک کہ انسانی تاریخ کے آغاز سے بھی ہوگا۔‏ (‏لو ۱۱:‏۵۰،‏ ۵۱‏)‏ ہم اِن لوگوں کو صلح‌پسند ہونے کا درس دیں گے جو کہ ایک بہت بڑا شرف ہوگا۔‏ بِلاشُبہ اگر ہم ابھی سے ہی صلح‌پسند ہونا سیکھیں گے تو یہ نئی دُنیا میں ہمارے بہت کام آئے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جب کلیسیا میں کوئی ہماری بدنامی کرتا ہے یا ہمیں کاروباری معاملوں میں دھوکا دیتا ہے تو ہم اَور کیا کر سکتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۹ء،‏ صفحہ ۱۷-‏۲۲ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 16 اِس آیت میں جس لفظ کا ترجمہ خیر کِیا گیا ہے،‏ عبرانی زبان میں اِس کا مطلب امن یا سلامتی بھی ہے۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے کسی کو ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

‏• اگر کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ کلیسیا میں امن‌واتحاد برقرار رہے؟‏

‏• جب دو مسیحیوں میں جھگڑا ہو جاتا ہے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

‏• انسانوں سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ اہم کیوں ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویریں]‏

یہوواہ خدا کو اُن لوگوں سے بڑی محبت ہے جو دوسروں کو دل سے معاف کر دیتے ہیں۔‏