مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا میرا حصہ ہے

یہوواہ خدا میرا حصہ ہے

یہوواہ خدا میرا حصہ ہے

‏”‏بنی‌اسرائیل میں تیرا حصہ اور تیری میراث مَیں ہوں۔‏“‏—‏گن ۱۸:‏۲۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ کیا لاویوں کو بھی ملک کنعان میں ایک علاقہ میراث کے طور پر دیا گیا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے لاویوں سے کیا وعدہ کِیا؟‏

یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل سے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُن کو کنعان کا ملک دے گا۔‏ جب بنی‌اسرائیل کنعان کے زیادہ‌تر علاقوں پر قبضہ کر چکے تو یشوع،‏ سردار کاہن الیعزر اور قبیلوں کے سرداروں نے اِس ملک کو بنی‌اسرائیل کے قبیلوں میں تقسیم کر دیا۔‏ (‏گن ۳۴:‏۱۳-‏۲۹‏)‏ یوں یہوواہ خدا نے ہر قبیلے کو کنعان کے ملک میں میراث دی۔‏ لیکن لاوی کے قبیلے کو کوئی علاقہ میراث کے طور پر نہیں دیا گیا۔‏ (‏یشو ۱۴:‏۱-‏۵‏)‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ کیا یہوواہ خدا اُنہیں بھول گیا تھا؟‏

۲ جی‌نہیں۔‏ یہوواہ خدا نے لاویوں سے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُن کی ضروریات پوری کرے گا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏بنی‌اسرائیل میں تیرا حصہ اور تیری میراث مَیں ہوں۔‏“‏ (‏گن ۱۸:‏۲۰‏)‏ دراصل یہ بہت ہی شاندار وعدہ تھا۔‏ اگر یہوواہ خدا آپ سے کہے کہ ”‏مَیں تیرا حصہ ہوں“‏ تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟‏ شاید آپ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا یہوواہ خدا مجھ جیسے شخص سے ایسا وعدہ کرے گا؟‏“‏ یا پھر شاید آپ سوچیں کہ ”‏کیا یہوواہ خدا واقعی خطاکار مسیحیوں کا حصہ ہو سکتا ہے؟‏“‏ یہ اہم سوال ہیں۔‏ اِن کے جواب جاننے سے آپ اور آپ کے عزیزوں پر گہرا اثر ہوگا۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جب یہوواہ خدا کسی سے کہتا ہے کہ ”‏مَیں تیرا حصہ ہوں“‏ تو اِس کا کیا مطلب ہے۔‏ یوں ہم جان جائیں گے کہ خدا مسیحیوں کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ چاہے آپ آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر فردوس میں رہنے کی،‏ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ یہوواہ خدا آپ کا حصہ ہو۔‏

یہوواہ خدا نے لاویوں کی ضروریات پوری کیں

۳.‏ یہوواہ خدا نے لاوی کے قبیلے کو اپنی خدمت کے لئے کیوں مخصوص کِیا؟‏

۳ اِس سے پہلے کہ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو شریعت دی،‏ خاندان کے سربراہ اپنےاپنے گھرانوں کے لئے کاہن کے فرائض ادا کِیا کرتے تھے۔‏ لیکن جب خدا نے بنی‌اسرائیل کو شریعت دی تو اُس نے لاوی کے قبیلے سے ہی کاہن اور اُن کے مددگار مقرر کئے۔‏ اُس نے ایسا کیوں کِیا؟‏ جب یہوواہ خدا نے مصریوں کے پہلوٹھے لڑکوں کو مار ڈالا تو اُس نے بنی‌اسرائیل کے پہلوٹھے لڑکوں کو ”‏اپنے لئے مُقدس کِیا“‏ یعنی اُن کو اپنی خدمت کے لئے مخصوص کِیا۔‏ بعد میں خدا نے فیصلہ کِیا کہ وہ ”‏بنی‌اسرائیل کے سب پہلوٹھوں کے عوض لاویوں کو“‏ اپنی خدمت کے لئے مخصوص کرے گا۔‏ یوں لاویوں کو خدا کی خدمت کرنے کا شرف ملا۔‏ چونکہ بنی‌اسرائیل کے پہلوٹھوں کی نسبت لاویوں کی تعداد کم تھی اِس لئے یہوواہ خدا نے یہ حکم دیا کہ ”‏بنی‌اسرائیل کے پہلوٹھوں میں جو .‏ .‏ .‏ لاویوں کے شمار سے زیادہ ہیں اُن کے فدیہ کے لئے“‏ رقم ادا کی جائے۔‏—‏گن ۳:‏۱۱-‏۱۳،‏ ۴۱،‏ ۴۶،‏ ۴۷‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا کس لحاظ سے لاویوں کا حصہ تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے لاویوں کی ضروریات کیسے پوری کیں؟‏

۴ یہوواہ خدا کس لحاظ سے لاویوں کا حصہ تھا؟‏ اُس نے لاویوں کو ایک علاقہ میراث میں دینے کی بجائے اُن کو ایک خاص کام دیا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی کہانت اُن کی میراث ہے۔‏“‏ (‏یشو ۱۸:‏۷‏)‏ کیا یہوواہ خدا نے لاویوں کی ضروریات پوری کیں؟‏ جی‌ہاں۔‏ یہ گنتی ۱۸ باب سے ظاہر ہوتا ہے۔‏ ‏(‏گنتی ۱۸:‏۱۹،‏ ۲۱،‏ ۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ لاویوں کو اپنی خدمت کے لئے ’‏بنی‌اسرائیل کی ساری دہ‌یکی موروثی حصے کے طور پر دی گئی۔‏‘‏ اِس کا مطلب ہے کہ لاویوں کو فصل کا دسواں حصہ اور ایک سال میں پیدا ہونے والے مویشیوں کا دسواں حصہ ملتا تھا۔‏ لاویوں کو جو کچھ ملتا تھا،‏ اِس میں سے وہ بھی دسواں حصہ کاہنوں کے لئے دیتے تھے۔‏ خدا نے اُن کو تاکید کی کہ وہ ”‏اچھے سے اچھا حصہ“‏ دیں۔‏ (‏گن ۱۸:‏۲۵-‏۲۹‏)‏ کاہنوں کو وہ ”‏مُقدس چیزیں“‏ بھی ملتی تھیں جو بنی‌اسرائیل قربانی کے طور پر چڑھاتے تھے۔‏ کاہن واقعی اِس بات پر بھروسا کر سکتے تھے کہ یہوواہ خدا اُن کی ضروریات پوری کرے گا۔‏

۵ خیال کِیا جاتا ہے کہ شریعت میں ایک اَور دہ‌یکی دینے کا انتظام کِیا گیا تھا۔‏ بنی‌اسرائیل کا ہر خاندان اِسے جمع کرتا تھا اور پھر مُقدس مجمعوں پر خوشی منانے کے لئے استعمال کرتا تھا۔‏ (‏است ۱۴:‏۲۲-‏۲۷‏)‏ البتہ وہ اِس دہ‌یکی کو صرف اپنے لئے استعمال نہیں کرتے تھے۔‏ ہر ساتواں سال سبت کا سال ہوتا تھا۔‏ سات سال کے عرصے کے دوران بنی‌اسرائیل ہر تیسرے اور چھٹے سال میں اِس دہ‌یکی کو غریبوں اور لاویوں کے لئے دیتے تھے۔‏ یہ دہ‌یکی لاویوں کو کیوں دی جاتی تھی؟‏ کیونکہ اُنہیں اسرائیل میں ”‏کوئی حصہ یا میراث نہیں“‏ دی گئی تھی۔‏—‏است ۱۴:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۶.‏ حالانکہ خدا نے لاویوں کو کوئی علاقہ نہیں دیا،‏ اُس نے اُن کے رہنے کے لئے کونسا بندوبست کِیا؟‏

۶ جیسا ہم دیکھ چکے ہیں،‏ لاویوں کو کوئی علاقہ میراث میں نہیں ملا تھا۔‏ تو پھر وہ کہاں رہتے تھے؟‏ خدا نے اُن کی اِس ضرورت کو بھی پورا کِیا۔‏ اُس نے اُن کو ۴۸ شہر اور اُن کے اِردگِرد کی چراگاہیں دیں۔‏ اِن شہروں میں چھ پناہ کے شہر بھی شامل تھے۔‏ (‏گن ۳۵:‏۶-‏۸‏)‏ لہٰذا جب لاوی خدا کے مقدِس میں خدمت نہیں کر رہے تھے تو اُن کے پاس رہنے کے لئے جگہ تھی۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے اُن لوگوں کا بڑا خیال رکھا جو اُس کی خدمت کرتے تھے۔‏ لیکن لاوی کیسے ظاہر کر سکتے تھے کہ وہ یہوواہ خدا کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں؟‏ اُنہیں اِس بات پر پورا بھروسا کرنا تھا کہ یہوواہ خدا اپنے وعدے کے مطابق اُن کی ہر ضرورت کو پورا کرے گا۔‏

۷.‏ لاوی کیسے ظاہر کر سکتے تھے کہ وہ یہوواہ خدا کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں؟‏

۷ شریعت میں ایسے اسرائیلیوں کے لئے کوئی سزا نہیں ٹھہرائی گئی تھی جو دہ‌یکی نہیں دیتے تھے۔‏ لیکن جب بنی‌اسرائیل دہ‌یکی نہیں دیتے تھے تو کاہنوں اور لاویوں کو مشکل جھیلنی پڑتی تھی۔‏ نحمیاہ کے زمانے میں ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے لاویوں کو کھیتوں میں کام کرنا پڑا اور وہ مقدِس میں خدمت نہیں کر سکے۔‏ ‏(‏نحمیاہ ۱۳:‏۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاویوں کی ضروریات پوری کرنے کا بندوبست صرف اُس صورت میں کامیاب ہو سکتا تھا جب پوری قوم خدا کی قربت میں رہتی اور اُس کا کہنا مانتی۔‏ کاہنوں اور لاویوں کو یہوواہ خدا پر بھروسا رکھنا تھا کہ وہ اُن کی ضروریات پوری کرے گا۔‏

آسف اور یرمیاہ،‏ یہوواہ خدا کو اپنا حصہ سمجھتے تھے

۸.‏ آسف کیوں پریشان تھے؟‏

۸ یوں تو یہوواہ خدا لاوی کے قبیلے کا حصہ تھا۔‏ لیکن اِس قبیلے میں کچھ ایسے افراد تھے جنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ یہوواہ خدا اُن کا حصہ ہے۔‏ وہ یہوواہ خدا کے دوست تھے اور دل سے اُس پر بھروسا رکھتے تھے اِس لئے اُنہوں نے کہا:‏ ’‏میرا بخرہ [‏یعنی حصہ]‏ یہوواہ ہے۔‏‘‏ (‏نوحہ ۳:‏۲۴‏)‏ اِس سلسلے میں ایک ایسے لاوی کی مثال پر غور کریں جو خدا کے مقدِس میں گیت گانے کے لئے مقرر تھے اور خود بھی گیت لکھا کرتے تھے۔‏ ہم اِس شخص کو آسف کہیں گے کیونکہ وہ یا تو خود آسف تھے یا پھر آسف کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔‏ * آسف بڑے پریشان تھے۔‏ زبور ۷۳ میں لکھا ہے کہ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر بُرے لوگ اِتنی چین کی زندگی کیوں گزارتے ہیں۔‏ اِس لئے وہ شریروں پر رشک کرنے لگے۔‏ آسف نے کہا:‏ ”‏یقیناً مَیں نے عبث اپنے دل کو صاف اور اپنے ہاتھوں کو پاک کِیا۔‏“‏ شاید آسف تھوڑی دیر کے لئے یہ بھول گئے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں خاص کام سونپا ہے۔‏ وہ یہ بھول گئے تھے کہ یہوواہ خدا اُن کا حصہ ہے۔‏ وہ اُس وقت تک اُلجھےاُلجھے سے رہے ’‏جب تک کہ وہ خدا کے مقدِس میں نہیں گئے۔‏‘‏—‏زبور ۷۳:‏۲،‏ ۳،‏ ۱۲،‏ ۱۳،‏ ۱۷‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ آسف یہ کیوں کہہ سکتے تھے کہ ”‏خدا ہمیشہ .‏ .‏ .‏ میرا بخرہ ہے“‏؟‏

۹ جب آسف خدا کے مقدِس میں گئے تو اُن کی سوچ میں تبدیلی آنے لگی۔‏ شاید آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔‏ شاید آپ کے دل میں بھی پُرآسائش زندگی کی آرزو اُبھری اور آپ تھوڑی دیر کے لئے بھول گئے کہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا کتنا بڑا شرف ہے۔‏ لیکن پھر آپ نے بائبل کی کچھ آیات پر غوروفکر کی اور آپ اجلاس پر گئے۔‏ یوں آپ نے دوبارہ سے یہوواہ خدا کی سوچ اپنا لی۔‏ آسف سمجھ گئے کہ بُرے لوگوں کا انجام کیا ہوگا۔‏ اُنہوں نے اُن تمام برکتوں پر غور کِیا جو اُنہیں خدا کی خدمت کرنے سے مل رہی تھیں۔‏ آسف جان گئے کہ خدا اُن کا دہنا ہاتھ پکڑ کر اُن کی رہنمائی کر رہا ہے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏تیرے سوا مَیں کسی کا مشتاق نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۷۳:‏۲۳،‏ ۲۵‏)‏ پھر اُنہوں نے کہا کہ ’‏خدا میرا بخرہ ہے۔‏‘‏ ‏(‏زبور ۷۳:‏۲۶ کو پڑھیں۔‏)‏ آسف نے لکھا کہ چاہے اُن کا جسم اور دل جواب دے جائیں،‏ یہوواہ خدا ہمیشہ اُن کا حصہ رہے گا۔‏ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا ہمیشہ تک اُن کو اپنے دوست کے طور پر یاد رکھے گا اور اُس خدمت کو نہیں بھولے گا جو آسف نے کی تھی۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱‏)‏ اِس خیال سے آسف کو بڑی تسلی ملی ہو گی۔‏ اُنہوں نے گایا:‏ ”‏میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں۔‏ مَیں نے یہوواہ خدا کو اپنی پناہ‌گاہ بنا لیا ہے۔‏“‏—‏زبور ۷۳:‏۲۸‏۔‏

۱۰ جب آسف نے کہا کہ یہوواہ خدا میرا حصہ ہے تو وہ بس اُن چیزوں کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے جو اُنہیں لاوی ہونے کی وجہ سے ملتی تھیں۔‏ دراصل وہ اُس خاص کام کے بارے میں سوچ رہے تھے جو خدا نے اُنہیں سونپا تھا اور وہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کا بھی سوچ رہے تھے۔‏ (‏یعقو ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو قائم رکھنے کے لئے آسف کو آئندہ بھی خدا پر بھروسا کرنا اور اُس پر ایمان رکھنا تھا۔‏ اُنہیں اِس بات پر پکا یقین رکھنا تھا کہ اگر وہ خدا کے فرمانبردار رہیں گے تو خدا اُن کو بہت سی خوشیاں دے گا۔‏ آپ بھی اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں۔‏

۱۱.‏ (‏الف)‏ یرمیاہ نے یہوواہ خدا سے کونسا سوال پوچھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے یرمیاہ کو کیا جواب دیا؟‏

۱۱ خدا کے نبی یرمیاہ بھی ایک ایسے لاوی تھے جنہوں نے کہا کہ ’‏میرا بخرہ یہوواہ ہے۔‏‘‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اُنہوں نے یہ کیوں کہا۔‏ یرمیاہ لاویوں کے شہر عنتوت میں رہتے تھے جو یروشلیم کے نزدیک واقع تھا۔‏ (‏یرم ۱:‏۱‏)‏ ایک وقت تھا جب یرمیاہ نے بھی خدا سے پوچھا کہ بُرے لوگ کیوں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ اچھے لوگ مشکلات کی چکی میں پستے رہتے ہیں؟‏ (‏یرم ۱۲:‏۱‏)‏ جب یرمیاہ نے یروشلیم اور یہوداہ کی حالت کو دیکھا تو اُنہوں نے یہوواہ خدا سے شکایت کی۔‏ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا انصاف‌پسند ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے یرمیاہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہیں یہ پیغام سنانے کا حکم دیا کہ یروشلیم اور یہوداہ برباد ہو جائیں گے۔‏ اور پھر خدا نے اِس پیشینگوئی کو پورا بھی کِیا۔‏ جن لوگوں نے یہوواہ خدا کا کہنا مانا،‏ وہ بچ گئے۔‏ لیکن بُرے لوگوں نے یرمیاہ کی بات پر دھیان نہیں دیا اور مر گئے۔‏—‏یرم ۲۱:‏۹‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏الف)‏ جب یرمیاہ نے کہا کہ ”‏میرا بخرہ [‏یہوواہ]‏ ہے“‏ تو وہ کس صورتحال کا سامنا کر رہے تھے؟‏ اور اِن الفاظ سے اُن کی سوچ کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اسرائیل کے تمام قبیلوں کو یہوواہ خدا سے کیوں اُمید رکھنے کی ضرورت تھی؟‏

۱۲ جب یرمیاہ نے دیکھا کہ اُن کا وطن اُجڑا ہوا اور ویران ہے تو اُنہیں لگا جیسے خدا نے اُن کو ”‏مُردوں کی مانند تاریک مکانوں میں رکھا“‏ ہو۔‏ (‏نوحہ ۱:‏۱،‏ ۱۶؛‏ ۳:‏۶‏)‏ یرمیاہ نے اسرائیلیوں کو باربار تاکید کی تھی کہ وہ یہوواہ خدا کا کہنا مانیں۔‏ لیکن اُنہوں نے یرمیاہ کی بات پر ذرا بھی دھیان نہیں دیا۔‏ وہ اِتنے بگڑ گئے تھے کہ یہوواہ خدا یروشلیم اور یہوداہ کو تباہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔‏ اِس پر یرمیاہ کو بڑا دُکھ ہوا۔‏ لیکن اِس کٹھن وقت میں بھی اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہ [‏یہوواہ]‏ کی شفقت ہے کہ ہم فنا نہیں ہوئے۔‏“‏ اُنہوں نے خدا کی رحمت کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ ہر صبح تازہ ہے۔‏“‏ اِس کے بعد اُنہوں نے کہا:‏ ”‏میرا بخرہ [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏ یرمیاہ یہ نہیں بھولے تھے کہ اُنہیں ایک خاص کام سونپا گیا تھا یعنی اُنہیں خدا کے نبی ہونے کا شرف حاصل تھا۔‏‏—‏نوحہ ۳:‏۲۲-‏۲۴ کو پڑھیں۔‏

۱۳ بنی‌اسرائیل کی سرزمین ۷۰ سال تک ویران اور سنسان رہی۔‏ (‏یرم ۲۵:‏۱۱‏)‏ لیکن یرمیاہ،‏ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے تھے اور اِس لئے اُنہوں نے کہا کہ ”‏میرا بخرہ [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏ یرمیاہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا ہی اُن کی صورتحال میں تبدیلی لا سکتا ہے اِس لئے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏میری اُمید اُسی سے ہے۔‏“‏ اسرائیل کے تمام قبیلوں نے اپنی میراث گنوا دی تھی۔‏ اِس لئے اُن کو بھی یہوواہ خدا سے اُمید رکھنے کی ضرورت تھی۔‏ بنی‌اسرائیل ۷۰ سال بعد اپنے وطن لوٹ آئے اور وہاں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے لگے۔‏—‏۲-‏توا ۳۶:‏۲۰-‏۲۳‏۔‏

کیا صرف لاوی یہوواہ خدا کو اپنا حصہ سمجھتے تھے؟‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏الف)‏ لاویوں کے علاوہ اَور کس نے یہوواہ خدا کو اپنا حصہ سمجھا؟‏ (‏ب)‏ داؤد نے یہوواہ خدا سے کیوں کہا کہ ’‏تُو میرا بخرہ ہے‘‏؟‏

۱۴ آسف اور یرمیاہ دونوں لاوی تھے۔‏ لیکن لاویوں کے علاوہ اَور لوگوں کو بھی یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا شرف ملا۔‏ مثال کے طور پر داؤد نے بھی کہا کہ ’‏تُو زندوں کی زمین میں میرا بخرہ ہے۔‏‘‏ ‏(‏زبور ۱۴۲:‏۱،‏ ۵ کو پڑھیں۔‏)‏ جب داؤد نے یہ الفاظ کہے تو وہ بادشاہ نہیں تھے۔‏ وہ کسی محل یا گھر میں نہیں بلکہ ایک غار میں رہ رہے تھے۔‏ اُنہیں کم‌ازکم دو مرتبہ اپنے دُشمنوں سے بچنے کے لئے غاروں میں پناہ لینی پڑی۔‏ ایک بار اُنہیں عدلام کے غار میں اور ایک بار عین‌جدی کے بیابان میں چھپنا پڑا۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اِنہی غاروں میں زبور ۱۴۲ لکھا ہو۔‏

۱۵ دراصل داؤد اِس لئے غار میں چھپے تھے کیونکہ بادشاہ ساؤل اُن کے خون کے پیاسے تھے۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۲:‏۱،‏ ۴‏)‏ داؤد کو اِس ویران جگہ میں لگا ہوگا کہ وہ بےیارومددگار ہیں۔‏ (‏زبور ۱۴۲:‏۴‏)‏ اِس لئے اُنہوں نے یہوواہ خدا سے مدد مانگی۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏الف)‏ داؤد پریشان کیوں تھے؟‏ (‏ب)‏ داؤد نے کس کو اپنے دل کا حال بتایا؟‏

۱۶ ہو سکتا ہے کہ زبور ۱۴۲ لکھنے سے پہلے داؤد کو اخیملک کاہن کے قتل کی خبر ملی ہو۔‏ اخیملک کاہن یہ نہیں جانتے تھے کہ داؤد،‏ بادشاہ ساؤل سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگے ہوئے ہیں۔‏ اِس لئے اُنہوں نے داؤد کی مدد کی۔‏ لیکن بادشاہ ساؤل کو یہ پتہ چل گیا اور اُنہوں نے حکم دیا کہ اخیملک کاہن اور اُن کے پورے خاندان کو مار ڈالا جائے۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۲:‏۱۱،‏ ۱۸،‏ ۱۹‏)‏ جب داؤد کو اِس قتل‌وغارت کی خبر ملی تو وہ خود کو اخیملک کاہن کی موت کا ذمہ‌دار سمجھنے لگے۔‏ داؤد کو لگا جیسے یہ سب لوگ اُنہی کے ہاتھ سے مرے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اخیملک کاہن سے مدد مانگی تھی۔‏ اگر آپ داؤد کی جگہ ہوتے تو آپ کیسا محسوس کرتے؟‏ داؤد اِس لئے بھی پریشان تھے کیونکہ بادشاہ ساؤل اُن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے تھے۔‏

۱۷ اخیملک کاہن کی موت کے تھوڑے عرصے بعد سموئیل نبی بھی فوت ہو گئے۔‏ سموئیل نبی نے داؤد کو اسرائیل کا اگلا بادشاہ ہونے کے لئے مسح کِیا تھا۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۵:‏۱‏)‏ اِن کی موت کا سُن کر داؤد کو لگا ہوگا کہ وہ اکیلے پڑ گئے ہیں۔‏ لیکن وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔‏ سچ ہے کہ داؤد کو وہ خاص کام تو نہیں دیا گیا تھا جو لاوی کرتے تھے لیکن اُن کو ایک اَور خاص کام سونپا گیا تھا۔‏ اُن کو خدا کی قوم کا بادشاہ مقرر کِیا گیا تھا۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۶:‏۱،‏ ۱۳‏)‏ لہٰذا داؤد نے یہوواہ خدا کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا اور یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے رہے۔‏ اگر آپ بھی یہوواہ خدا پر بھروسا کریں گے اور دل لگا کر اُس کی خدمت کریں گے تو آپ بھی یہ کہہ سکیں گے کہ ”‏یہوواہ خدا میرا حصہ ہے۔‏“‏

۱۸.‏ اِس مضمون میں ہم نے جن اشخاص کے بارے میں بات کی،‏ اُنہوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا اُن کا حصہ ہے؟‏

۱۸ اِس مضمون میں ہم نے خدا کے جن خادموں کے بارے میں بات کی ہے،‏ یہوواہ خدا اِن سب کا حصہ تھا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا نے اِن سب کو کوئی نہ کوئی کام سونپا تھا اور وہ سب اِس بات پر بھروسا کرتے تھے کہ خدا اُن کی ضروریات پوری کرے گا۔‏ لاوی اور بنی‌اسرائیل کے دیگر قبیلے یہوواہ خدا کو اپنا حصہ سمجھ سکتے تھے۔‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ یہوواہ خدا ہمارا بھی حصہ ہو؟‏ اِس بارے میں ہم اگلے مضمون میں بات کریں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 آسف ایک لاوی تھے جو بادشاہ داؤد کے زمانے میں خدا کی حمد کے گیت گانے والوں کی سربراہی کرتے تھے۔‏ —‏۱-‏توا ۶:‏۳۱-‏۴۳‏۔‏

آپ کیسا جواب دیں گے؟‏

‏• یہوواہ خدا کس لحاظ سے لاویوں کا حصہ تھا؟‏

‏• آسف،‏ یرمیاہ اور داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا اُن کا حصہ ہے؟‏

‏• اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا آپ کا حصہ ہو تو آپ کو کونسا جذبہ پیدا کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر عبارت]‏

لاویوں کو کوئی علاقہ میراث میں نہیں ملا تھا۔‏ اُن کا حصہ یہوواہ خدا تھا کیونکہ اُن کو اُس کی خدمت کرنے کا شرف ملا تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

اِس کا کیا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا لاویوں کا حصہ تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

آسف نے کیا کِیا جس کی وجہ سے اُن کو یہ احساس ہوا کہ یہوواہ خدا اُن کا حصہ ہے؟‏