مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اصل میں اِس دُنیا کو کون چلا رہا ہے؟‏

اصل میں اِس دُنیا کو کون چلا رہا ہے؟‏

اصل میں اِس دُنیا کو کون چلا رہا ہے؟‏

کیا آپ کبھی کسی جرائم‌پیشہ گروہ کے سردار سے ملے ہیں؟‏ اگر نہیں تو کیا آپ اِس بات سے انکار کریں گے کہ ایسے لوگوں کا وجود ہے؟‏ جرائم‌پیشہ گروہوں کے سردار اپنی شناخت چھپانے میں ماہر ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر بھی اپنا کاروبار چلاتے رہتے ہیں۔‏ ہمیں اِن لوگوں کے وجود کا ثبوت کیسے ملتا ہے؟‏ اخباروں کی شہ‌سُرخیوں سے پتہ چلتا ہے کہ منشیات‌فروش گروہوں کے درمیان لڑائیاں ہوتی ہیں،‏ عورتوں سے دھندا کروایا جاتا ہے اور انسانوں کی سمگلنگ کی جاتی ہے۔‏ ایسی ہولناک خبروں سے اِس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جرائم‌پیشہ گروہوں کے سردار موجود ہیں اور بڑے پیمانے پر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔‏

خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان ایک حقیقی ہستی ہے۔‏ پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ وہ ”‏ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے“‏ سے اپنا مطلب پورا کرتا ہے۔‏ وہ ”‏اپنا حلیہ بدل لیتا ہے تاکہ نور کا فرشتہ دکھائی دے۔‏“‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱۴‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ شیطان کے وجود کا ثبوت اُس کے کاموں سے ملتا ہے۔‏ لیکن بہت سے لوگوں کو ایک اَن‌دیکھی ہستی کے وجود پر یقین رکھنا مشکل لگتا ہے۔‏ آئیں،‏ چند ایسے اعتراضات اور غلط‌فہمیوں پر غور کریں جن کی وجہ سے کئی لوگ شیطان کو ایک حقیقی ہستی تسلیم نہیں کرتے۔‏

‏”‏اگر خدا واقعی بُرائی سے پاک ہے تو وہ شیطان کو کیسے بنا سکتا ہے؟‏“‏ پاک صحیفوں میں بتایا گیا ہے کہ خدا میں کوئی بُرائی نہیں ہے اور وہ ہر لحاظ سے پاک ہے۔‏ تو پھر وہ کسی ایسی ہستی کو کیسے بنا سکتا ہے جو بُری اور دھوکےباز ہو؟‏ پاک صحیفوں میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ خدا نے کسی ایسی بُری ہستی کو بنایا ہے۔‏ اِن میں خدا کے بارے میں لکھا ہے:‏ ”‏وہ وہی چٹان ہے۔‏ اُس کی صنعت کامل ہے۔‏ کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔‏ وہ منصف اور برحق ہے۔‏“‏—‏استثنا ۳۲:‏۴؛‏ زبور ۵:‏۴‏۔‏

سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ایک ایسی ہستی بُرے کام کر سکتی ہے جسے بےعیب خلق کِیا گیا ہے؟‏ خدا نے انسانوں اور فرشتوں کو مشینوں کی طرح نہیں بنایا ہے جو اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتیں۔‏ اُس نے اُنہیں اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت دی ہے۔‏ لہٰذا ایک بےعیب ہستی خود انتخاب کر سکتی ہے کہ وہ اچھی راہ اختیار کرے گی یا بُری۔‏ دراصل ایک شخص کو اُسی صورت میں اپنے کاموں کے لئے ذمہ‌دار ٹھہرایا جا سکتا ہے اگر وہ خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏

اگر ایک طرف تو خدا انسانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی دے اور دوسری طرف اُنہیں بُرائی کی راہ اختیار کرنے سے روکے تو یہ عجیب سی بات ہوگی۔‏ غور کریں کہ یسوع مسیح نے بھی ظاہر کِیا کہ شیطان نے اِس آزادی کا غلط استعمال کِیا۔‏ اُنہوں نے شیطان کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ .‏ .‏ .‏ سچائی پر قائم نہیں رہا۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فرشتہ جو شیطان بن گیا،‏ اُسے بےعیب خلق کِیا گیا تھا اور وہ کچھ عرصے تک ”‏سچائی پر قائم“‏ رہا۔‏ * یہوواہ خدا نے انسانوں اور فرشتوں کو خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت اِس لئے دی ہے کیونکہ وہ اُن سے محبت کرتا ہے اور اُن پر بھروسا کرتا ہے۔‏—‏ صفحہ ۶ پر بکس ”‏کیا ایک بےعیب ہستی بُرے کام کر سکتی ہے؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏

‏”‏شیطان،‏ خدا کا خادم ہے۔‏“‏ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ پاک صحیفوں میں پیش کِیا گیا ہے۔‏ ایوب کی کتاب کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ شیطان ”‏زمین پر اِدھراُدھر گھومتا پھرتا“‏ آیا تھا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۷‏)‏ پاک صحیفوں کی ایک تشریح میں کہا گیا ہے کہ یہ الفاظ قدیم زمانے کے اُن فارسی جاسوسوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو بادشاہ کی خدمت میں مختلف علاقوں کا سفر کرتے تھے۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر شیطان واقعی خدا کا جاسوس ہوتا تو کیا اُسے خدا کو یہ بتانے کی ضرورت ہوتی کہ وہ ”‏زمین پر اِدھراُدھر گھومتا پھرتا“‏ آیا ہے؟‏ ایوب کی کتاب میں کبھی یہ تاثر نہیں دیا گیا کہ شیطان،‏ خدا کے لئے کام کرتا ہے۔‏ لفظ شیطان کا مطلب ہی مخالف ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی حمایت نہیں بلکہ اُس کی مخالفت کرتا ہے۔‏ (‏ایوب ۱:‏۶‏)‏ تو پھر یہ نظریہ کیسے وجود میں آیا کہ شیطان،‏ خدا کا خادم ہے؟‏

دراصل یہ نظریہ پہلی صدی عیسوی کے ایک یہودی فرقے کی کچھ کتابوں میں پایا جاتا ہے۔‏ اِن میں کہا گیا ہے کہ شیطان،‏ خدا کے ساتھ سودا کرتا ہے لیکن پھر بھی اُس کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔‏ تاریخ‌دان جیفری برٹن رسل نے اپنی ایک کتاب میں کہا کہ پروٹسٹنٹ عالم مارٹن لوتھر نے یہ نظریہ پیش کِیا کہ ”‏شیطان،‏ خدا کا اوزار ہے۔‏ وہ ایک درانتی یا کھرپے کی طرح ہے جسے خدا اپنے کام کے لئے استعمال کرتا ہے۔‏ درانتی کو گھاس کاٹنا اچھا لگتا ہے لیکن یہ خدا کے قوی ہاتھ میں ہے اور اُس کی مرضی پوری کرتی ہے۔‏“‏ بعد میں فرانسیسی عالمِ‌دین جان کیلون نے بھی مارٹن لوتھر کا یہ نظریہ اپنا لیا۔‏ لیکن انصاف‌پسند لوگ اِس نظریے سے مطمئن نہیں ہوئے۔‏ وہ یہ سمجھ نہیں پائے کہ اگر خدا بُرائی سے پاک ہے تو بُرائی کے پیچھے اُس کا ہاتھ کیسے ہو سکتا ہے؟‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۳‏)‏ اِس نظریے کے علاوہ بیسویں صدی میں ہونے والے ہولناک واقعات کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں نے خدا اور شیطان دونوں پر یقین رکھنا چھوڑ دیا۔‏

‏”‏شیطان محض بُرائی کی علامت ہے۔‏“‏ اگر اِس نظریے پر یقین کِیا جائے تو پاک صحیفوں کی بہت سی آیتوں کو سمجھنا مشکل ہوگا۔‏ مثال کے طور پر ایوب ۲:‏۳-‏۶ میں خدا کس سے بات کر رہا تھا؟‏ کیا وہ ایوب کے دل میں پائی جانے والی بُرائی سے بات کر رہا تھا؟‏ یا کیا وہ اپنے آپ سے بات کر رہا تھا؟‏ اِس کے علاوہ کیا خدا پہلے تو ایوب کی خوبیوں کو سراہتا اور پھر ایوب کو آزمانے کے لئے بُرائی کا سہارا لیتا؟‏ اگر ایسا ہوتا تو خدا ظالم ہوتا اور اُس کے بارے میں یہ نہ کہا جا سکتا کہ ”‏اُس میں ناراستی نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۹۲:‏۱۵‏)‏ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا نے ”‏اپنا ہاتھ بڑھا کر“‏ ایوب کو تکلیف پہنچانے سے انکار کر دیا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان نہ تو بُرائی کی علامت ہے اور نہ ہی خدا کی ذات کا کوئی تاریک پہلو ہے بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو خدا کی مخالفت کرنے پر اُتر آئی۔‏

اصل میں اِس دُنیا کو کون چلا رہا ہے؟‏

آج‌کل بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ شیطان کے وجود پر یقین کرنا دقیانوسی ہے۔‏ لیکن اگر شیطان کا وجود نہیں ہے تو دُنیا میں اِتنی بُرائی کیوں ہے؟‏ اِس سلسلے میں جو بھی وضاحتیں پیش کی گئی ہیں،‏ وہ لوگوں کو مطمئن نہیں کر پائیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ شیطان کے وجود سے انکار کرنے کی وجہ سے آج‌کل بہت سے لوگ خدا کو بھی نہیں مانتے۔‏ اور اِس وجہ سے وہ اکثر بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے۔‏

انیسویں صدی کے ایک فرانسیسی شاعر نے لکھا:‏ ”‏شیطان کی سب سے کامیاب چال یہ ہے کہ وہ انسانوں کو اِس بات پر قائل کرے کہ اُس کا وجود نہیں ہے۔‏“‏ شیطان نے اپنی شناخت چھپا کر دراصل خدا کے وجود پر شک ڈالا ہے۔‏ اگر شیطان کا وجود نہیں تو ظاہری بات ہے کہ خدا کو بُرائی کا ذمہ‌دار ٹھہرایا جائے گا۔‏ اور یہی تو شیطان چاہتا ہے۔‏

ایک جرائم‌پیشہ گروہ کے سردار کی طرح شیطان بھی اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے اپنی شناخت چھپاتا ہے۔‏ اُس کا مقصد کیا ہے؟‏ پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ شیطان نے لوگوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے ”‏تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏۔‏

سوال یہ ہے کہ خدا بُرائی کی جڑ یعنی شیطان کو کیسے اُکھاڑے گا؟‏ اِس کے جواب کے لئے اگلے مضمون کو پڑھیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 یہ سمجھنے کے لئے کہ خدا نے شیطان کی بغاوت کے خلاف فوری طور پر قدم کیوں نہیں اُٹھایا،‏ کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے گیارھویں باب کو دیکھیں۔‏ اِس کتاب کو یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

کیا شیطان،‏ خدا کا خادم ہے یا خدا کا مخالف؟‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

 کیا ایک بےعیب ہستی بُرے کام کر سکتی ہے؟‏

خدا نے انسان اور فرشتوں کو بےعیب بنایا تھا لیکن اِس کا مطلب نہیں کہ اُن میں کوئی عیب یا نقص نہیں آ سکتا تھا۔‏ اگر آدم اپنے خالق کے بنائے ہوئے قدرتی قوانین کو توڑتے تو اُنہیں نقصان ہوتا۔‏ مثال کے طور اگر وہ مٹی،‏ پتھر یا لکڑی کھاتے تو وہ بیمار ہو جاتے۔‏ اگر وہ کسی اُونچی جگہ سے چھلانگ لگاتے تو وہ شدید زخمی ہو جاتے یا پھر مر جاتے۔‏

اِسی طرح اگر ایک بےعیب انسان یا فرشتہ خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی کرتا ہے تو اُسے اِس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔‏ لہٰذا جب ایک شخص خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا غلط استعمال کرتا ہے تو وہ آسانی سے بُرے کاموں اور گُناہ میں پڑ سکتا ہے۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۹؛‏ متی ۴:‏۴‏۔‏