اپنی سمجھ پر تکیہ نہ کریں
اپنی سمجھ پر تکیہ نہ کریں
”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔“ —امثا ۳:۵۔
۱، ۲. (الف) ہمیں کنکن صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے؟ (ب) جب ہم پریشان ہوتے ہیں یا ہمیں کوئی اہم فیصلہ کرنا پڑتا ہے یا پھر ہمارے دل میں غلط خواہشیں سر اُٹھاتی ہیں تو ہمیں کس پر تکیہ کرنا چاہئے؟ ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟
ثمرین * جہاں ملازمت کرتی ہیں، وہاں بہت سے لوگوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور ثمرین کو خدشہ ہے کہ جلد ہی اُن کی باری آنے والی ہے۔ وہ بہت پریشان ہیں۔ اگر ثمرین کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا تو اُن کے گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ سونیا کا دل کرتا ہے کہ وہ ایسے علاقے میں جا کر رہیں جہاں بادشاہت کی مُنادی کرنے کے لئے زیادہ مبشروں کی ضرورت ہے۔ وہ کیا کریں گی؟ سموئیل ایک جوان بھائی ہیں۔ اُن کو چھوٹی عمر میں گندی تصویریں دیکھنے کی عادت پڑ گئی۔ اُنہوں نے اِس عادت کو توڑ دیا۔ لیکن اب وہ پھر سے ایسی تصویریں دیکھنے کی شدید خواہش محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ اِس خواہش پر غالب آنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
۲ جب آپ پریشان ہوتے ہیں یا جب آپ کو کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے یا پھر جب آپ کے دل میں غلط خواہشیں سر اُٹھاتی ہیں تو آپ کس پر تکیہ کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی سمجھ پر تکیہ کرتے ہیں یا پھر ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر ڈال“ دیتے ہیں؟ (زبور ۵۵:۲۲) بائبل میں لکھا ہے کہ ”[یہوواہ] کی نگاہ صادقوں پر ہے اور اُس کے کان اُن کی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔“ (زبور ۳۴:۱۵) لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم سارے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسا کریں اور اپنی سمجھ پر تکیہ نہ کریں۔—امثا ۳:۵۔
۳. (الف) جب ہم سارے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں تو ہم کیا کرتے ہیں؟ (ب) کچھ لوگ اپنی سمجھ پر کیوں تکیہ کرتے ہیں؟
۳ جب ہم سارے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں تو ہم ہر کام اُس کی مرضی کے مطابق کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں بہت اہم ہے کہ ہم باقاعدگی سے اُس کی مدد اور رہنمائی کے لئے دُعا کریں۔ لیکن بہت سے لوگوں کو سارے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا مشکل لگتا ہے۔ مثال کے طور پر لدیہ نامی ایک یہوواہ کی گواہ کہتی ہیں کہ ”پورے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا میرے لئے آسان نہیں ہے۔“ وہ اِس کی وجہ یوں بتاتی ہیں: ”میرے والد ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ میری امی نے میری ضروریاتِزندگی پوری نہیں کیں اور مجھ سے کبھی پیار نہیں کِیا۔ اِس لئے مجھے جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑا۔“ لدیہ کو اپنے پسمنظر کی وجہ سے دوسروں پر بھروسا کرنا مشکل لگتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب ایک شخص بڑا قابل یا کامیاب ہوتا ہے تو وہ خود پر بھروسا کرنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کلیسیا کا ایک بزرگ بہت تجربہکار ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذمہداریوں کو نبھانے سے پہلے دُعا نہ کرے۔
۴. ہم اِس مضمون میں کن باتوں پر غور کریں گے؟
۴ جب ہم یہوواہ خدا سے مدد مانگتے ہیں تو وہ اِس بات کی توقع کرتا ہے کہ ہم اُس کی ہدایت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اِس سلسلے میں ہم اِس مضمون میں اِن سوالوں پر غور کریں گے: ہم کسی مشکل صورتحال کے بارے میں دُعا کرنے کے ساتھساتھ اَور کونسے قدم اُٹھا سکتے ہیں؟ جب ہمیں کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو تو ہمیں کونسی بات ذہن میں رکھنی چاہئے؟ ہمیں اُس وقت دُعا کیوں کرنی چاہئے جب ہم غلط خواہشوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں؟ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں، بائبل میں سے کچھ لوگوں کی مثالوں پر غور کریں۔
مشکل صورتحال کا سامنا کرتے وقت
۵، ۶. جب سنحیرب نے حزقیاہ بادشاہ کو دھمکی دی تو حزقیاہ نے کیا کِیا؟
۵ پاک کلام میں یہوداہ کے بادشاہ حزقیاہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ”وہ [یہوواہ] اؔسرائیل کے خدا پر توکل کرتا تھا . . . وہ [یہوواہ] سے لپٹا رہا اور اُس کی پیروی کرنے سے باز نہ آیا بلکہ اُس کے حکموں کو مانا جن کو [یہوواہ] نے موسیٰؔ کو دیا تھا۔“ (۲-سلا ۱۸:۵، ۶) ایک دفعہ اسور کے بادشاہ سنحیرب نے اپنے ایلچی ربشاقی کو اپنے لشکر سمیت یروشلیم بھیجا۔ دراصل سنحیرب یہوداہ کے بہت سے فصیلدار شہروں پر قبضہ جما چکے تھے اور اب وہ یروشلیم کو اپنی مٹھی میں کرنا چاہتے تھے۔ اِس مشکل صورتحال میں حزقیاہ بادشاہ نے کیا کِیا؟ وہ خدا کے گھر گئے اور یوں دُعا کرنے لگے: ”اَے [یہوواہ] ہمارے خدا مَیں تیری مِنت کرتا ہوں کہ تُو ہم کو [سنحیرب] کے ہاتھ سے بچا لے تاکہ زمین کی سب سلطنتیں جان لیں کہ تُو ہی اکیلا [یہوواہ] خدا ہے۔“—۲-سلا ۱۹:۱۴-۱۹۔
۶ بادشاہ حزقیاہ نے یہوواہ خدا سے مدد کی التجا کی لیکن اِس کے ساتھساتھ اُنہوں نے کچھ قدم بھی اُٹھائے۔ خدا کے گھر جانے سے پہلے ہی حزقیاہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ربشاقی کے طعنوں کا کوئی جواب نہ دیں۔ حزقیاہ بادشاہ نے اپنے چنے ہوئے لوگوں کو یسعیاہ نبی کے پاس مشورہ لینے کے لئے بھی بھیجا۔ (۲-سلا ۱۸:۳۶؛ ۱۹:۱، ۲) البتہ اُنہوں نے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جو خدا کی مرضی کے خلاف تھا، مثلاً اُنہوں نے سنحیرب کے ہاتھ سے بچنے کے لئے مصر یا کسی اَور ملک سے مدد نہیں مانگی۔ اُنہوں نے اپنی سمجھ پر تکیہ کرنے کی بجائے یہوواہ خدا پر بھروسا رکھا۔ کیا یہوواہ خدا نے حزقیاہ بادشاہ کی مدد کی؟ جیہاں۔ ایک فرشتے نے سنحیرب بادشاہ کے ایک لاکھ ۸۵ ہزار فوجی مار ڈالے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اِس واقعے کے بعد ”سنحیرؔب وہاں سے چلا گیا اور لوٹ کر نینوؔہ میں رہنے لگا۔“—۲-سلا ۱۹:۳۵، ۳۶۔
۷. حنّہ اور یوناہ نبی کی دُعاؤں پر غور کرنے سے ہمیں کونسی تسلی ملتی ہے؟
۷ القانہ کی بیوی حنّہ بہت دلگیر تھیں کیونکہ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ لیکن پریشانی کے اِس عالم میں بھی اُنہوں نے یہوواہ خدا پر تکیہ کِیا۔ (۱-سمو ۱:۹-۱۱، ۱۸) جب یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میں تھے تو اُنہوں نے یہ دُعا کی: ”مَیں نے اپنی مصیبت میں [یہوواہ] سے دُعا کی اور اُس نے میری سنی۔ مَیں نے [شیول] کی تہ سے دُہائی دی۔ تُو نے میری فریاد سنی۔“ (یوناہ ۲:۱، ۲، ۱۰) ہمیں یہ جان کر بڑی تسلی ملتی ہے کہ چاہے ہماری صورتحال کتنی ہی پریشانکُن کیوں نہ ہو، ہم یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں اور وہ ’ہماری مِنت سے مُنہ نہیں پھیرے گا۔‘—زبور ۵۵:۱، ۱۶ کو پڑھیں۔
۸، ۹. (الف) حزقیاہ بادشاہ، حنّہ اور یوناہ نبی کی دُعاؤں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ (ب) اِس سے ہم کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۸ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو ہمیں کن باتوں کے بارے میں دُعا کرنی چاہئے؟ غور کریں کہ حزقیاہ بادشاہ، حنّہ اور یوناہ نبی نے اپنی دُعاؤں میں کن باتوں پر زور دیا۔ وہ بہت ہی پریشان تھے لیکن اُنہوں نے صرف اپنے ہی مسئلے کے بارے میں دُعا نہیں کی۔ حزقیاہ بادشاہ اِس وجہ سے پریشان تھے کہ یہوواہ خدا کی توہین ہو رہی ہے اور اُنہوں نے دُعا کی کہ خدا کی بڑائی ہو۔ حنّہ کو اولاد کی بڑی آرزو تھی لیکن اُنہوں نے خدا سے وعدہ کِیا کہ اگر اُن کا بیٹا ہوگا تو وہ اُسے خیمۂاجتماع کے مسکن میں خدمت کرنے کے لئے وقف کر دیں گی۔ اور یوناہ نبی نے یہوواہ خدا سے کہا: ”مَیں اپنی نذریں ادا کروں گا۔“ (یوناہ ۲:۹) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن تینوں کے نزدیک سب سے اہم یہ تھا کہ خدا کی بڑائی ہو اور اُس کی عبادت کی جائے۔
۹ جب ہم پریشانی کے عالم میں خدا سے فریاد کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم کس نیت سے دُعا مانگ رہے ہیں۔ کیا ہم بس یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں پریشانی سے جلدازجلد چھٹکارا ملے یا پھر کیا ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی مرضی ہو؟ کبھیکبھی ہم اپنے مسئلوں میں اِتنے اُلجھ جاتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ خدا کی مرضی اور اُس کی عبادت کا خیال ہی نہیں رہتا۔ ہمیں اپنی دُعاؤں میں کن باتوں کو اہمیت دینی چاہئے؟ یہ کہ خدا کے نام کی بڑائی ہو اور اُس کی حکمرانی سب سے اچھی ثابت ہو۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم تب بھی مطمئن رہیں گے جب ہماری مشکل دُور نہیں ہوتی کیونکہ کبھیکبھار یہوواہ خدا ہماری دُعا کا جواب یوں دیتا ہے کہ وہ ہماری مشکل دُور کرنے کی بجائے ہمیں اِسے برداشت کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔—یسعیاہ ۴۰:۲۹؛ فلپیوں ۴:۱۳ کو پڑھیں۔
اہم معاملوں کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت
۱۰، ۱۱. جب بادشاہ یہوسفط کو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا تو اُنہوں نے کیا کِیا؟
۱۰ جب آپ کو کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ کیا آپ پہلے تو یہ طے کر لیتے ہیں کہ آپ کیا کریں گے اور پھر بعد میں یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کے منصوبے کو کامیاب بنائے؟ اِس سلسلے میں یہوداہ کے بادشاہ یہوسفط کی مثال پر غور کریں۔ ایک دفعہ بنیعمون اور بنیموآب کی فوجیں بادشاہ یہوسفط سے جنگ کرنے کے لئے آئیں پر بادشاہ یہوسفط کی فوج میں اپنے دُشمنوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ سو اُنہوں نے کیا کِیا؟
۱۱ بائبل میں لکھا ہے کہ ”یہوؔسفط ڈر کر دل سے [یہوواہ] کا طالب ہوا۔“ اُنہوں نے سارے یہوداہ میں روزے کی مُنادی کرائی اور لوگوں کو جمع کِیا تاکہ وہ مل کر ’یہوواہ خدا سے مدد مانگیں۔‘ پھر بادشاہ یہوسفط نے یہوداہ اور یروشلیم کی جماعت کے آگے کھڑے ہو کر یہ دُعا کی: ”اَے ہمارے خدا کیا تُو [ہمارے دُشمنوں] کی عدالت نہیں کرے گا؟ کیونکہ اِس بڑے انبوہ کے مقابل جو ہم پر چڑھا آتا ہے ہم کچھ طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ کیا کریں بلکہ ہماری آنکھیں تجھ پر لگی ہیں۔“ یہوواہ خدا نے بادشاہ یہوسفط کی دُعا سُن لی اور اُنہیں دُشمنوں کے ہاتھ سے بچا لیا۔ (۲-توا ۲۰:۳-۱۲، ۱۷) جب بھی ہمیں کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو تو ہمیں اپنی سمجھ پر تکیہ کرنے کی بجائے یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا چاہئے۔
۱۲، ۱۳. جب ہم کسی ایسی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں جسے حل کرنا ہمیں آسان لگتا ہے تو ہم بادشاہ داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۲ کبھیکبھار ہم کسی ایسی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں جسے حل کرنا ہمیں آسان لگتا ہے۔ شاید ہم سوچیں کہ ”مجھے پہلے بھی تو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا تھا اِس لئے مجھے پتہ ہے کہ اِس سے کیسے نمٹوں۔“ کیا ایسی سوچ درست ہے؟ آئیں، دیکھیں کہ جب بادشاہ داؤد کو باربار ایک ہی جیسی مشکل کا سامنا ہوا تو اُنہوں نے کیا کِیا۔ ایک دفعہ عمالیقیوں نے صقلاج کے شہر پر چڑھائی کی اور بادشاہ داؤد اور اُن کے ساتھیوں کے بیویبچوں کو اسیر کر لیا۔ اِس صورتحال میں بادشاہ داؤد نے یہوواہ خدا سے پوچھا: ”اگر مَیں اُس فوج کا پیچھا کروں تو کیا مَیں اُن کو جا لوں گا؟“ یہوواہ خدا نے اُن سے کہا کہ ”پیچھا کر کیونکہ تُو یقیناً اُن کو جا لے گا اور ضرور سب کچھ چھڑا لائے گا۔“ بادشاہ داؤد نے یہوواہ خدا کی ہدایت پر عمل کِیا اور ”سب کچھ جو عمالیقی لے گئے تھے چھڑا لیا۔“—۱-سمو ۳۰:۷-۹، ۱۸-۲۰۔
۱۳ اِس واقعے کے کچھ عرصے بعد فلستیوں نے اسرائیل کی سرزمین پر چڑھائی کی۔ اِس مرتبہ بھی بادشاہ داؤد نے یہوواہ خدا سے ہدایت مانگی۔ اور یہوواہ خدا نے اُن کو یہ جواب دیا: ”جا کیونکہ مَیں ضرور فلستیوں کو تیرے ہاتھ میں کر دوں گا۔“ (۲-سمو ۵:۱۸، ۱۹) ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ فلستی پھر سے داؤد کے خلاف جنگ کرنے آ گئے۔ اِس بار بادشاہ داؤد نے کیا کِیا؟ وہ یہ سوچ سکتے تھے کہ ”مجھے پتہ ہے کہ اِس مسئلے کو کیسے حل کروں کیونکہ دو بار پہلے بھی ایسا ہو چُکا ہے۔“ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں سوچا بلکہ اِس مرتبہ بھی یہوواہ خدا سے دُعا کی۔ اور ایسا کرنے سے اُن کو بڑا فائدہ ہوا کیونکہ اِس بار یہوواہ خدا نے اُن کو جو جواب دیا، وہ اُس جواب سے فرق تھا جو اُس نے پہلے دیا تھا۔ (۲-سمو ۵:۲۲، ۲۳) اِسی طرح جب ہمیں باربار ایک جیسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں بھی ماضی کے تجربات کے بلبوتے پر فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ خدا سے ہدایت مانگنی چاہئے۔—یرمیاہ ۱۰:۲۳ کو پڑھیں۔
۱۴. (الف) جب جبعونی یشوع کے پاس آئے تو یشوع نے کیا کِیا؟ (ب) ہم اِس واقعے سے کیا سیکھتے ہیں؟
۱۴ ہم سب سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اِس لئے ہم سب کو یہاں تک کہ کلیسیا کے تجربہکار بزرگوں کو بھی اہم معاملوں کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے۔ اِس سلسلے میں اُس واقعے پر غور کریں جو یشوع کے زمانے میں پیش آیا۔ اُس وقت جبعونیوں نے ایک چال چلی۔ اُنہوں نے یشوع کو یہ تاثر دیا کہ وہ بڑے دُوردراز ملک سے آئے ہیں۔ یشوع اور جماعت کے باقی بزرگوں نے اِس سلسلے میں یہوواہ خدا سے دُعا نہیں کی بلکہ فوراً جبعونیوں کے ساتھ عہد باندھ لیا۔ حالانکہ یہوواہ خدا نے اِس معاہدے کو قائم رکھا لیکن اُس نے اِس واقعے کو بائبل میں لکھوایا تاکہ ہم اِس سے سبق سیکھ سکیں۔—یشو ۹:۳-۶، ۱۴، ۱۵۔
غلط خواہشوں کا مقابلہ کرتے وقت
۱۵. غلط خواہشوں کو قابو میں لانے کے لئے دُعا کرنا اہم کیوں ہے؟
۱۵ بائبل میں لکھا ہے کہ ہمارے اعضا میں ”گُناہ کی شریعت“ ہے۔ اِس لئے ہمارے دل میں غلط خیال اُبھرتے ہیں اور ہمیں اِن کا مقابلہ کرنا مشکل لگتا ہے۔ (روم ۷:۲۱-۲۵) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ اِس لڑائی میں جیت ہماری ہو؟ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ غلط خواہشوں کو قابو میں لانے کے لئے دُعا کرنا بہت اہم ہے۔ (لوقا ۲۲:۴۰ کو پڑھیں۔) ہو سکتا ہے کہ دُعا کرنے کے بعد بھی ہمارے دل سے غلط خواہشیں نہ مٹیں۔ ہم اِس مشکل سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ ہمیں باربار یہوواہ خدا سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں حکمت دے کیونکہ وہ ”بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔“ (یعقو ۱:۵) اگر ہمیں غلط خواہشوں کا مقابلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے تو ہم یعقوب کی اِس ہدایت پر بھی عمل کر سکتے ہیں: ”اگر تُم میں کوئی بیمار ہو تو کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ [یہوواہ] کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کے لئے دُعا کریں۔ جو دُعا ایمان کے ساتھ ہوگی اُس کے باعث بیمار بچ جائے گا۔“—یعقو ۵:۱۴، ۱۵۔
۱۶، ۱۷. اگر ہم ایک بُری خواہش پر غالب آنا چاہتے ہیں تو ہمیں کب دُعا کرنی چاہئے؟
۱۶ غلط خواہشوں پر غالب آنے کے لئے دُعا کرنا لازمی ہے۔ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ہمیں کب دُعا کرنی چاہئے؟ اِس سلسلے میں غور کریں کہ اُس جوان آدمی کے ساتھ کیا ہوا جس کا ذکر امثال ۷:۶-۲۳ میں کِیا گیا ہے۔ یہ جوان شام کے وقت جب اندھیرا ہونے والا تھا، ایک بدچلن عورت کی گلی میں گیا۔ وہ اُس عورت کی میٹھیمیٹھی باتیں سُن کر اُس کے پیچھے ہو لیا بالکل جیسے بیل ذبح ہونے کو جاتا ہے۔ پر یہ جوان آدمی اُس عورت کی گلی میں کیوں گیا؟ بائبل میں لکھا ہے کہ وہ ’بےعقل اور نادان‘ تھا اور اُس کی غلط خواہشیں اُسے وہاں کھینچ کر لے گئی تھیں۔ (امثا ۷:۷) آپ کے خیال میں اُس جوان آدمی کو کب دُعا کرنی چاہئے تھی؟ اگر وہ اِس صورتحال میں کسی بھی وقت دُعا کرتا تو اچھا ہوتا۔ لیکن سب سے اچھا ہوتا کہ وہ اُس وقت دُعا کرتا جب اُس کے دل میں اِس عورت کی گلی میں جانے کا خیال آیا تھا۔
۱۷ شاید ایک شخص کے دل میں گندی تصویریں دیکھنے کی خواہش ہو اور وہ اِس خواہش کا مقابلہ کرنے کی بڑی کوشش کر رہا ہو۔ لیکن اگر وہ جانبُوجھ کر انٹرنیٹ پر ایسی سائٹس کھولے گا جن پر گندی تصویریں اور ویڈیوز ہوتی ہیں تو کیا وہ اُس جوان آدمی کی طرح نہیں ہوگا جس کا ذکر امثال ۷ باب میں کِیا گیا ہے؟ ایسا شخص بہت ہی خطرناک راستے پر چل نکلا ہے۔ اگر وہ واقعی گندی تصویریں دیکھنے کی خواہش پر قابو پانا چاہتا ہے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟ جونہی اُس کے دل میں ایسی خواہش اُبھرے، اُسے یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے۔
۱۸، ۱۹. (الف) غلط خواہشوں پر غالب آنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ (ب) ہم غلط خواہشوں پر غالب کیسے آ سکتے ہیں؟ (ج) آپ نے کس بات کا عزم کِیا ہے؟
۱۸ بُری عادتوں کو توڑنا اور غلط خواہشوں پر غالب آنا آسان نہیں ہوتا۔ پولس رسول نے اِس کی وجہ یوں بتائی: ’جسم روح کے خلاف خواہش گل ۵:۱۷) لہٰذا جونہی ہمارے دل میں غلط خواہش اُبھرتی ہے، ہمیں دل سے یہوواہ خدا سے التجا کرنی چاہئے اور پھر ہر ایسے کام اور چیز سے دُور رہنا چاہئے جو اِس خواہش کو ہوا دیتی ہے۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہمیں ’کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑنے دے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہے۔‘ اُس کی مدد سے ہم ہر طرح کی آزمائش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔—۱-کر ۱۰:۱۳۔
کرتا ہے اور روح جسم کے خلاف اِس لئے ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں کر پاتے۔‘ (۱۹ یہوواہ خدا نے ہمیں ایک بیشقیمت نعمت دی ہے۔ چاہے ہم پریشان ہوں یا ہمیں کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو یا پھر ہمارے دل میں غلط خواہشیں سر اُٹھائیں، ہم یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ظاہر ہوگا کہ ہم سارے دل سے اُس پر بھروسا کرتے ہیں۔ ہمیں دُعا میں خدا سے پاک روح بھی مانگتے رہنا چاہئے کیونکہ اِس روح کے ذریعے خدا ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں طاقت بخشتا ہے۔ (لو ۱۱:۹-۱۳) آئیں، اپنی سمجھ پر تکیہ کرنے کی بجائے یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کا عزم کریں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 1 نام بدل دئے گئے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• ہم حزقیاہ بادشاہ، حنّہ اور یوناہ نبی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• جب ہمیں کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو تو ہم داؤد اور یشوع سے کیا سیکھتے ہیں؟
• ہمیں غلط خواہشوں پر قابو پانے کے لئے کب دُعا کرنی چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
جونہی دل میں غلط خواہش اُبھرے، یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔